خالقِ ارض وسمانے اس عالم ناپائیدار کو عدم سے وجود بخشا، ہزار باہزار مخلوقات ِ عالم کی تخلیق فرمائی، حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کی دستار اور عزت وفضیلت کا تاجِ گہر بار پہنایا، ان گنت عدیم الوجود خوبیوں اور بے حد وحساب کمالات فاضلہ سے مالا مال فرمایا اور ھدینہ النجدین کا اعلان فرما کر ” عقل ودانائی اور فہم وفراست“ کی عظیم دولت سے نوازا کہ اس کے ذریعہ خیر وشرکی تمیز کرسکے، بھلائی وبرائی، نیکی وگناہ اور طاعت و معصیت میں فرق کرسکے، حق وباطل اور صحیح وغلط میں امتیاز کرکے، نیکی او ربھلائی کو اختیار کرے؛ گویا انسان میں خیر او ربھلائی کو قبول کرنے اور شروفتنہ بھڑکانے کی صلاحیت موجود ہے، نہ وہ مجبورِ محض ہے اور نہ مختارِ کل۔
معمولاتِ زندگی اور روزمرہ کے احوال میں انسان کو نیکی وگناہ اور طاعت ومعصیت دونوں مواقع میسر آتے ہیں؛ تاہم انسان اعمال صالحہ میں اقدام وپیش قدمی کے بجائے نفس کے بھٹکانے، شیطان کے بہکانے اور لوگوں کے پھسلانے کے سبب گناہ ومعصیت کی جانب زیادہ راغب ہوتا ہے؛ لیکن اعمال صالحہ اور امورِ خیر کے بابت غفلت وکوتاہی کے باعث ٹال مٹول اور التوا سے کام لیتا ہے، جو کہ عقل مندی کے خلاف اور شان ِ مؤمن کے مغائر ہے، اسی لیے بروزِ قیامت بندہ سے سوال ہوگا کہ ” اے انسان! تم کو کس چیز نے اپنے محسن رب سے غفلت میں مبتلا کر دیا“؟
کل کا خواب دھوکہ اور سراب کے سوا کچھ نہیں!
زندگی انمول تحفہ اور بے بدل خزانہ ہے، جس کاایک ایک لمحہ ہیرے جواہرات سے زیادہ قیمتی ہے؛ لہٰذا آج کا کام آج ہی کرنا چاہیے، کل پر نہیں ٹالنا چاہیے، کل کا سورج کس نے دیکھا ہے؟ پل کا بھروسہ نہیں اور کل کی بات کی جاتی ہے، اسی وجہ سے مثل مشہور ہے کہ ”آج کا کام کل پر نہ ٹال“نیکی کی انجام دہی میں پل بھر کی تاخیر نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ زندگی حباب ہے، جس کی انتہا سے کوئی بشر آگاہ نہیں، سو جائے تو آنکھ کھلنے کا بھروسہ نہیں، بیٹھ جائے تو اٹھنے کا اندازہ نہیں، آنکھ کھلی ہے پلک جھپکنے کا یقین نہیں؛ حتیٰ کہ سانس چھوڑنے کے بعد سانس لینے کی گارنٹی نہیں، پھر وقت گزر جانے پر افسوس کرنا اور زندگی کا دفینہ خالی پا کر اشک ندامت بہانا بے سودوبے فائدہ ہے؛ اسی لیے سرور کائنات ا نے فرمایا:” اغتنم خمسا قبل خمس: شبابک قبل ھرمک، وصحتک قبل سقمک، وغناء ک قبل فقرک، وفراغک قبل شغلک، وحیاتک قبل موتک“․
” پانچ چیزوں کو پانچ سے قبل غنیمت سمجھو، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو بیماری سے پہلے، مال داری کو فقر سے پہلے، فراغت کومشغولیت سے پہلے اورزندگی کومرنے سے پہلے“۔ (مستدرک حاکم:4/306)
ایک اور روایت میں ہے جو حضرت علامہ جلال الدین سیوطی نے جمع الجوامع میں نقل فرمائی ہے کہ نبی آخر الزماں ا نے فرمایا:” من استطاع ان یعمل خیرا فلیعملہ؛ فانی غیر مکرر علیکم ابداً“ ․․(بحوالہ شعب الایمان)”
ہر صبح آفتاب طلوع ہوتے ہی دن یہ اعلان کرتا ہے کہ آج اگر کوئی بھلائی کرسکتا ہے تو کر لے، آج کے بعد میں پھر کبھی واپس نہ آؤں گا“۔
مگر افسوس کہ یہ احساس ہمارے خیالوں سے اوجھل اور یہ حقیقت ہماری ذہنوں سے نسیاً منسیاً ہو چکی ہے، ابھی بھی موقع ہے اپنے اوپر سے غفلت کی چادراتار پھینکنے کا، خواب ِ غفلت سے بیدار ہونے کا؛ ورنہ کل بروز قیامت سوائے افسوس اور رسوائی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا کہ:﴿یَوْمَ لَا یَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ، إِلَّا مَنْ أَتَی اللَّہَ بِقَلْبٍ سَلِیمٍ﴾(سورة الشعراء:89-88) ”
جس دن نہ کوئی مال کام آئے گا، نہ اولاد، ہاں جو شخص الله کے پاس سلامتی والا دل لے کر آئے گا۔“ (اس کو نجات ملے گی)
ایک جائزہ خود سے
ایک کام یاب شخص او رعقل مند آدمی کی شناخت او رپہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی گزرتی زندگی اور روز مرہ کے احوال ومعمولات کا جائزہ لے کر احتساب کرتا ہے کہ کیا کھویا او رکیا پایا؟ اور جو انسان احتساب اورجائزہ کا پابند ہوتا ہے وہ کبھی غفلت نہیں برتتا او راپنے مقصد میں ناکام ونامراد نہیں ہوتا او راپنے پروردگار کی یاد سے روگردانی نہیں کرتا، پس ہر مسلمان اپنے ایمان واعمال او راخلاق ومعمولات کا جائزہ لے کہ بڑھتی آمدنی اور گذرتے ایام کے ساتھ میرے ایمان میں اضافہ او راعمال وعقائد کی اصلاح ہو رہی ہے؟ اور غور کرے کہ میری وجہ سے آس پڑوس کے کتنے لوگ نمازی بنے ہیں؟ اورکتنوں کو توبہ کی توفیق ہوئی؟
∗ اہل ِ علم او رخدام ِ دین اپنی خدماتِ عالیہ اور دینی سرگرمیوں میں ہونے والی جدوجہد کا جائزہ لیں اور غور کریں کہ اتنی سب دوڑ دھوپ سے مقصود ومطلوب خدا تعالیٰ کی رضا ہے یا دنیاوی غرض وذاتی مفاد؟ نیز کیا ہمارے ملفوظات معمولات کے عکاس وترجمان ہیں؟ؤ تاجراو ربزنس مین حضرات ذرا دھیان دیں کہ بازارِ دنیا میں مشغول رہتے ہوئے بازارِ آخرت سے غفلت تو نہیں او رغور کریں کہ کسب ِ معاش اور فکر ِ روزی میں جھوٹ ، دھوکہ وہی اور سود وبیاج جیسے ناجائز معاملات میں ملوث تو نہیں ہیں؟ ؤ ائمہ مساجد اور مقتدیٰ حضرات اپنے امور ِ مفوضہ اور ذمہ داریوں پر نظر کریں کہ کہیں فرضِ منصبی میں کوتاہی اور لاپرواہی تو نہیں ہوئی ہے؟ ؤاساتذہ کرام واتالیق عظام توجہ دیں کہ قوم کی امانت او رملت کا سرمایہ ہمارے ہاتھوں ضائع تو نہیں ہو رہا ہے؟ ان کی حقوق تلفی تو نہیں ہوئی ہے؟ ؤ طلبائے کرام تو مہمان رسول ہیں، ذرااپنے اعمال واحوال کا جائزہ لیں کہ کہیں ہم سے کوئی ایسا عمل وحرکت تو سرزد نہیں ہوئے جس سے ہمارے میزبان ( معلم انسانیت صلی الله علیہ و سلم) کو تکلیف ہو؟ نیر ہمیشہ یہ بات کوچہٴ خیال میں تازہ دم رہنی چاہیے کہ ہماری کسی ادا سے اسلام او رپیغمبر اسلام صلی الله علیہ و سلم کی حرمت پر آنچ آئے۔ؤ والدین اور سرپرست حضرات سوچیں کہ کیا ہم نے اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت اور اسلامی ذہن سازی کرکے اس کو پکا مسلمان سچا دین دار بنانے کی کوشش کی ہے ؟ یا اعلیٰ ڈگری اور وافر تنخواہ کی لالچ میں انہیں مبادیات ِ دین اور عقائد اسلام سے آگاہ تک نہ کیا؟ ؤ لڑکے اور لڑکیاں خود سوچیں کہ تعلیم اور ایجوکیشن کے نام پر ہم نے اپنے والدین کو دھوکہ تو نہیں دیا ہے ؟ خیال رہے کہ کوئی ایسا کام نہ ہو جس کی وجہ سے والدین کا سرشرم سے جھک جائے او رانہیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔ ؤ سالکن ومسترشدین احتساب کریں کہ مجلس ِ شیخ میں حاضری سے واقعتا استفادہ اور اصلاحِ باطن اور تزکیہٴ نفس ہو رہا ہے یا صرف وقت گزاری اور تبرکانہ شرکت وحاضری ہو رہی ؟ؤ ہر صاحب ِ ایمان اپنا جائزہ لے کہ کیا دن کے کسی حصہ میں موت کی فکر ، قبر کا گڑھا اور آخرت کی یاد آتی ہے؟
مختصر یہ کہ #
آسی یہ غنیمت ہیں تری عمر کے لمحے
وہ کام کر اب، تجھ کو جو کرنا ہے یہاں آج
خلاصہ تحریر
یہ دنیا دارِ قرار نہیں، بلکہ بے قرار ہے، ہر شخص فانی ہے کہ کوئی امر نہیں، انسانی زندگی بہت ہی مختصر او رانتہائی محدود ہے؛ اس میں اتنی گنجائش نہیں کہ اسے فضول ولا یعنی کاموں میں گنوایا جائے، عقل ودانش کا بھی یہی تقاضا ہے کہ وقت کو امورِ مہمہ اور ضروری کاموں میں لایا جائے اور حتی الوسع کسب ِ حسنات اوراعمال ِ صالحہ کی انجام دہی میں مصروف رہیں، گناہ اوراسباب گناہ سے بچنے کا بھی اہتمام کریں ،ارتکاب گناہ کے بعد توبہ واستغفار میں جلدی کریں، کہیں یہ نہ ہو کہ فرصت کے انتظار میں مہلت ختم ہو جائے، لمحاتِ زندگی مثل ِ برف ختم ہوتے چلے جاتے ہیں او رانسان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ سال کے سال نکل جاتے ہیں، پھر بالآخر اپنے ماضی پر افسوس اور ماتم کے سوا کوئی چارہ کارنہ رہتا، یاد رکھیں کہ جب تک ہمارے سامنے زندگی کا کوئی آدرش اور نصب العین نہیں ہوگا، اس وقت تک صحیح اقدام اوروقت کا بجا استعمال ممکن ہی نہیں اور وقت کا ضیاع انجام کار ہمار ے ہاتھوں میں کشکول گدائی تھما دے گا، فی الوقت ہمارے نوجوانوں میں حالات زندگی کی قدردانی آٹے میں نمک سے بھی کم ہے؛ اس لیے کہ روز محشر الله کے حضور اس سے متعلق بھی سوال کیا جائے گا” عن عمرہ فیما افناہ“ تو اس وقت کیا جواب ہو گا؟ ایک شاعر نے اسی حقیقت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ #
کہہ رہا ہے بہتا دریا وقت کا
قیمتی ہے لمحہ لمحہ وقت کا
وقت کے ساتھ جو چلتے رہے
کام یاب وکام ران وہ ہو گئے
وقت دیتا ہے ہم کو سبق یہی
دوستو غفلت میں مت رہنا کبھی