نکاح کی ایک مجلس تھی، جس میں مسلمان اور غیر مسلموں کا تعلیم یافتہ طبقہ زیادہ جمع تھا۔ اس مجلس میں اس ناچیز نے قدیم دستور کے مطابق ایجاب و قبول کراتے ہوئے کہا فلاں کی بیٹی کو بعوض مہر مبلغ دس ہزار سکہ رائج الوقت میں نے آپ کے نکاح میں دیا، آپ نے قبول کیا؟ شہر کے ایک مشہور ہندو وکیل صاحب نے مجھ سے پوچھا : کیا آپ نے اس لڑکی کو اس لڑکے کے ہاتھ فروخت کیا ہے؟ میں نے ان کو سمجھا دیا کہ ایسا نہیں ، یہ روایتی الفاظ ہیں، جو چلے آرہے ہیں، نکاح محبت و اخلاق کا ایک رشتہ ہے ،جو عورت اور مرد کے درمیان فطری ضرورت کے مطابق قائم ہوتا ہے۔
اس کے بعد سے میں نے قدیم روایتی فقرے کہنے کے بجائے یہ کہنا شروع کر دیا۔ ”میں نے فلاں کی لڑکی کو مہر مقرر کے مطابق آپ کے نکاح میں دیا“۔ رہا معاملہ بین نامہ اور نکاح نامہ کا تو وہ ایک قانونی دستاویز ہے، اس میں فقہی اصطلاح کے مطابق ”بعوض مہر مبلغ“ کے الفاظ تحریر ہوتے ہیں، ان میں رد و بدل نہیں ہو سکتی، یہی بات میں نکاح خواں حضرات سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ عام مجلسوں اور عام اجتماعات میں مہر مقرر کے الفاظ استعمال کیا کریں، تا کہ اگر غیر مسلم سن رہا ہوتو وہ کسی اُلجھن میں نہ پڑے۔ وہ نکاح کو خرید و فروخت کا معاملہ نہ سمجھے۔ یہ آج کے حالات کا تقاضا ہے کہ ہم نکاح کے اخلاقی پہلو کو زیادہ نمایاں کریں اور قرآن کریم میں اور احادیث رسول میں نکاح کے جو اخلاقی ثمرات وفوائد بیان کیے گئے ہیں وہ نمایاں کیے جائیں۔
اب ہم ذیل میں نکاح کے دونوں (قانونی اور اخلاقی) پہلو واضح کرتے ہیں اور اس وضاحت سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نکاح اسلامی کی قانونی حیثیت انعقاد نکاح کی مجلس تک رہتی ہے، ورنہ عملی طور پر مسلم معاشرہ میں نکاح ایک اخلاقی تعلق کے طور پر زندگی کے آخری سانس تک قائم رہتا ہے اور تعلق نکاح پر اس کی اخلاقی حیثیت غالب رہتی ہے۔
نکاح ملت ابراہیمی میں
اسلام سے پہلے اولاد اسماعیل اور ملت ابراہیمی میں نکاح کی یہ صورت تھی کہ مرد و عورت دونوں کے بڑے جمع ہو کر اپنے اپنے خاندانی فضائل پر روشنی ڈالتے تھے اور اس کے بعد مرد اور عورت کے درمیان ایک ساتھ زندگی گزارنے کا معاملہ طے پا جاتا تھا اور مہر کی ایک رقم یا کچھ سامان مرد کے ذمہ واجب کر دیا جاتا تھا،جو وہ ادا کر دیا کرتا تھا۔
رسول پاک صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کی اس قدیم رسم اور قدیم طریقہ کو قائم رکھا، کیوں کہ وہ طریقہ فطری طور پر معاملات کے طے ہونے کا مناسب طریقہ تھا، البتہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے خاندانی فضائل بیان کرنے کے بجائے خدا تعالیٰ کی تعریف و ثناء کے ساتھ خطبہ دینے کا سلسلہ شروع کیا، موجودہ خطبہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے، اس تاریخی نکاح میں حضور علیہ السلام کی طرف سے بطور وکیل آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچا ابوطالب تھے اور حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کے وکیل ان کے چچا عمر و ابن اسد تھے اور بیس اونٹ بطور مہر مقرر ہوئے تھے۔
اولاد اسماعیل پر جب شرک کا تین سو سالہ عہد مسلط ہوا تو اس دور میں معاشرہ کے اندر کچھ خرابیاں پیدا ہوگئیں اور حضور صلی الله علیہ وسلم نے ان خرابیوں کی اصلاح کر دی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک طرف نکاح کی اہمیت و فرضیت قائم کی اور دوسری طرف نکاح کو آسان سے آسان تر کر دیاتا کہ غریب سے غریب آدمی بھی بے نکاح نہ رہے، نکاح کے ذریعہ مرد اور عورت کو جو کردار کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور نسل انسانی کے سلسلہ میں جو پاکیزگی اور اعتماد پیدا ہوتا ہے وہ پیدا ہو جائے۔
نکاح کی قانونی اور فقہی حیثیت
قرآن کریم اور احادیث نبوی میں نکاح (مرد و عورت کے خاص رشتہ )کو اخلاقی تعلق کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے، اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ لیکن قرآن وحدیث کے اہل قانون (اہل فقہ، فقہاء ) نے اس خاص تعلق کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی ہے، چناں چہ فقہاء نے نکاح کی یہ تعریف کی ہے النکاح عقد یرد علی ملک المتعة (کنز:97 )
یعنی اہل فقہ کی اصلطلاح میں نکاح ایک خاص معاملہ ہے، جو عورت سے خاص استفادہ کرنے کے جائز ہونے اور اس استفادہ پر مالکانہ حقوق حاصل کرنے پر منعقد ہوتا ہے۔ استفادہ حلال ہونے کے لیے یہ قید اس لیے لگائی گئی کہ بیع و شراء اور خرید و فروخت کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ بیع (خرید وفروخت ) تو واقع ہو جاتی ہے، مگر مبیع (جس چیز کی فروختگی ہوئی) سے استفادہ جائز نہیں ہوتا۔ جیسے کسی شخص نے اپنی بہن کو اس کے مالک سے خریدا تو یہ بیع و شراء درست تو ہوگئی، مگر اس بہن سے استفادہ خاص حلال نہیں ہوا، کیوں کہ وہ ذورحم محرم ہے۔
اب یہ تعلق نکاح جب ایک معاملہ ٹھہر اتو اس میں دو گواہ بھی لازم ہو گئے اور مال (استفادہ ) کا عوض بھی ضروری ہوا اور وہ عوض مہر ہے۔ دو گواہوں کی مجلس میں موجودگی عام معاملات کی طرح اس معاملہ میں بھی لازم ہوتی ہے، فقہ کی بعض کتابوں میں استفادہ خاص اور خصوصی فائدہ کی تشریح میں (عوض البضع ) کے الفاظ تحریر کر دیے گئے ہیں۔ ان کی حیثیت صرف قانونی ہے، یہ قطعی طور پر مناسب نہیں کہ انعقاد نکاح کے موقع پر اس قسم کے الفاظ (عوض و معاوضہ ) کا اظہار کیا جائے ،متعلقین جانتے ہیں کہ مہر کی حیثیت معاوضہ تعلق خاص کی ہے۔ پھر عام اجتماعات میں اس تصور (عوضیت) کا اظہار کیوں ضروری ہو؟
حدیث میں احتیاط
رسول پاک صلی الله علیہ وسلمنے ایک معاملہ نکاح میں مہر اور عوض مہر کی بابت بڑی احتیاط سے کام لیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ ایک صحابی عامر ابن ربیعہ نے حضور سے کہا:یا رسول اللہ!میں فلان خاتون سے جوتی کے جوڑے پر نکاح کر رہا ہوں، کیا مجھے اس کی اجازت ہے؟ حضور نے اس خاتون سے پوچھا:”ارضیت بنفسک ومالک بنعلین؟ قالت نعم“ (مشکوة:277)
اے خاتون!کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ اپنی جان اور اپنے مال دونوں کو جوتیوں کے ایک جوڑے کے بدلہ اسے دے دے؟ اس نے اقرار کیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ یہ تھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی احتیاط، ایک عورت کا احترام، آپ صلی الله علیہ وسلم نے جان و مال کہا، ناموس اور مقام حرمت کا ذکر نہیں کیا، حالاں کہ مہر صرف مصاحبت کا بدلہ ہے، عورت کی تمام جان اور تمام مال کا بدلہ نہیں ہے۔ ہاں! اخلاقی اعتبار سے عورت اپنی جان اور اپنا مال دونوں چیزیں شوہر کے حوالہ کر دیتی ہے۔ یہ نکاح کا اخلاقی پہلو ہے قانونی پہلو صرف فعل زوجیت پر شوہرکے حق کا لزوم ہے۔
فقہی تعریف میں معاوضہ مرد کے ذمہ واجب ہونے پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ یہ استفادہ خاص ایک طرفہ نہیں ہے، جس طرح مرد عورت سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کرتا ہے، اس طرح عورت بھی اپنی فطری خواہش کی تسکین حاصل کرتی ہے اور یہ استفادہ مشترک ضرور ہے، لیکن ان دونوں استفادوں میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ مرد کو عورت سے استفادہ (مصاحبت) پر مالکانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں اور یہ حقوق مالکانہ عورت کو مرد کے ساتھ استفادہ (جماع) پر حاصل نہیں ہوتے، یعنی مرد کو بوقت ضرورت دوسری شادی کرنے کا اختیار حاصل ہے، لیکن عورت کو ایک شوہر کے ہوتے ہوئے ، دوسرا شوہر کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے، مرد کے لیے دوسری شادی کے مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے ہم نے عورت اور مرد کے درمیان اس شرعی فرق کے مصالح پر روشنی ڈالی ہے۔
نکاح کے قانونی فرائض
فقہاء نے عورت کا خاص قانونی فرض مرد کی جنسی خواہشات کی تسکین کو قرار دیا ہے، باقی گھریلو ضروریات، گھر کی صفائی، کھانا پکانا، بچوں کی پرورش ، عورت کی مستحب اور غیر واجب خدمات قرار دی گئی ہیں، لیکن ان میں سے ہر ضرورت مرد اور عورت کے درمیان مشترک ہے، عورت گھر کی صفائی کرتی ہے اور اس گھر میں مرد بھی رہتا ہے، عورت بھی رہتی ہے، وہ بچوں کو پالتی ہے، یہ بچے شوہر کے بھی ہیں، عورت کے بھی ہیں، وہ شوہر کی تن درستی کا خیال رکھتی ہے، کیوں کہ وہ اس کے لیے کماتا ہے، یہ تمام مشترک ضروریات قانونی طور پر واجب نہ سہی، لیکن عملی طور پر ضروری ہیں اور عورت انھیں انجام دیتی ہے۔
اس طرح شوہر کا قانونی فرض نان و نفقہ مہیا کرنا ہے، اس کے علاوہ گھر یلو ضروریات، بال بچوں کی دکھ بیماری کا خیال، کنبہ والوں ساس سسر اور سالے اور سالیوں کی دکھ بیماری کا خیال ۔ یہ باتیں بھی گھر کو خوش گوار بنائے رکھنے کے لیے مرد کے اخلاقی واجبات میں داخل ہیں اور مرد ایسا کرتا ہے اور پہلو نکاح کو ایک اخلاقی رشتہ قرار دیتا ہے۔ قانونی رشتہ تک اسے محدود نہیں رکھتا۔
قانون نے تو کہہ دیا کہ بس عورت کا یہ خاص فریضہ ہے کہ وہ مرد کی تسکین کے لیے تیار رہے، لیکن سماجی اور اخلاقی ضرورتیں عورت کو گھر داری کی تمام ذمہ داریاں پوری کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اسی طرح قانون نے تو کہہ دیا کہ شوہر کا فریضہ صرف عورت کے لیے روٹی کپڑا اور مکان مہیا کرنا ہے ،لیکن سماجی اور اخلاقی طور پر شوہر کو نان و نفقہ کے علاوہ اپنے گھر کو ایک خوش گوار گھر بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ عورت کا نان و نفقہ ہر حال میں مرد کے ذمہ ہے، عورت اگر خود مال دار ہو تب بھی مرد ہی نان و نفقہ کا ذمہ دار ہے، لیکن ایک مال دار عورت اخلاقی طور پر اپنی کمائی اپنے گھر بار پر خرچ کرتی ہے، شوہر کو تعاون دیتی ہے، اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں اور شادی بیاہ کے مصارف میں حصہ لیتی ہے اور کبھی مرد پر احسان نہیں رکھتی، بلکہ اپنی ذاتی دولت کو اپنے شوہر کی دولت قرار دیتی ہے۔
نکاح شرعی کی قانونی حیثیت مرد اور عورت کے باہمی قول وا قرار اور ایجاب وقبول کے بعد مکمل ہو جاتی ہے، بین نامہ پر مرد عورت اور گواہوں کے دستخط ہو جاتے ہیں، اگر لڑکی کا ولی موجود ہے تو وہ، ور نہ لڑکی کا وکیل دستخط کر کے فارغ ہو جاتا ہے۔ اب اس کے بعد نکاح و شادی کی گاڑی اخلاقی بنیادوں پر چلنی شروع ہو جاتی ہے۔ اب پہلے قرآن کریم کی ان آیات پر غور کیجیے جن میں نکاح کے اخلاقی فضائل بیان کیے گئے ہیں۔
(سورہ اعراف)198 میں فرمایا گیا:” وہ خدا وند عالم ہے جس نے اے انسانو!تم سب کو ایک جان (آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کے جوڑے (حوا)کی تخلیق فرمائی تا کہ وہ آدم اپنے اس جوڑے سے سکون حاصل کرے“۔ سورہ روم (2) میں عام انسانوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ”خداوند عالم کی عظیم قدرتی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اے لوگو! اس نے تمہاری جنس سے تمہارے جوڑے (عورتیں) پیدا کیے لہٰذا تم عملی طور پر بھی جوڑے جوڑے بن کر رہو،تا کہ تم اپنے جوڑوں سے تسکین حاصل کرو اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر محبت اور گہری رفاقت پیدا کر دی ہے“۔
قرآن کریم کا اسلوب بیان یہ ہے کہ اس نے محبت پیدا کرنے کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے ،کیوں کہ ہر چیز کی تخلیق اس کی طرف سے ہے، لیکن یہ اشارہ ہے کہ تسکین جذبات کا فطری تقاضا یہ ہے کہ دونوں (مرد و عورت) کے درمیان محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لیے قرآن نے انسان اول حضرت آدم علیہ السلام اور عام انسانوں دونوں کو مخاطب کر کے تسکین جذبات کے فطری اثر کا تذکرہ کیا۔ قرآنی اسلوب میں تسکین حاصل کرنے کی نسبت مردوں کی طرف کی گئی، حالاں کہ تسکین جذبات دونوں طرف سے حاصل ہوتی ہے۔ یعنی تسکین و سکون کا عمل شوہر اور بیوی دونوں کے درمیان مشترک ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ تسکین کے عمل کی ابتدا مرد کی طرف سے ہوتی ہے ،عورت بعد میں شامل ہوتی ہے۔
تسکین جذبات کے عمل کا یہ اثر کہ دونوں فریقوں کے درمیان محبت پیدا ہو جاتی ہے حیوانات کے اندر بھی دیکھا جا سکتا ہے، پھر قرآن کریم نے اس محبت و مودت کے گہرے اثرات کو کسی جگہ لباس (پوشش، پردہ پوشی) سے تعبیر کیا (بقرہ:187) اور کسی جگہ قلعہ بندی اور حصار بندی (نساء:24) سے تعبیر کیا ہے، یعنی اس جذباتی اور شہوانی تسکین کا اثر ہے کہ شوہر اور بیوی ایک جان دو قالب ہو جاتے ہیں۔
ایک دوسرے کی فطری کمزوریوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اور اس تعلق نکاح کی بدولت دونوں گھر یا قلعہ بند ہو جاتے ہیں۔
عورت نسل انسانی کی کھیتی ہے ،سیرگاہ اور تفریح گاہ نہیں
کچھ لوگ عورت کو تفریح گاہ اور سیر گاہ سمجھتے تھے اور اس کے ساتھ خواہش نفس کی تسکین کے لیے وضع فطرت اور طریقہ انسانیت کے خلاف سلوک کرتے تھے، قرآن کریم نے نہایت آسان اور عام فہم پیرایہ میں عورت کو کاشت کی زمین کہہ کر لوگوں کو فطرت کے خلاف مصاحبت کرنے سے روکا، اس استعارہ میں عورت کی توہین نہیں ہے، بلکہ تو الدو تناسل کی بنیادی غرض وغایت کا ایک عام فہم پیرا یہ میں اظہار ہے۔
پڑھے لکھے لوگوں کے لیے اسباب لباس اور پوشش کا استعارہ اختیار کیا﴿ ہن لباس لکم﴾کہا گیا، لیکن ایک دیہاتی سمجھ رکھنے والے انسان کے لیے لباس کا استعارہ ایک مشکل استعارہ ہے، اس لیے قرآن نے کھیتی کا استعارہ اختیار کر کے ہر سمجھ کے انسان کو عورت کی عظمت کا احساس دلایا۔ حیوانات کو دیکھیے! فطرت نے ہر حیوانی جوڑے کے اندر اس کی پیدائشی ساخت کے مطابق شہوت رانی کا جو طریقہ سمجھا دیا ہے وہ اسی طریقہ کا پابند ہے، لیکن انسان کے اندر اس فطری معاملہ میں بھی آزادی کا جو اختیار پیدا کیا ہے وہ اس اختیار سے کام لے کر اس میدان میں بھی گم راہی کی راہ پر پڑ جاتا ہے اور تسکین جذبات کے ساتھ نسل کی افزائش سے قطع نظر کر لیتا ہے، چناں چہ فرمایا:﴿نِسَاؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُوا حَرْثَکُمْ أَنَّیٰ شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لِأَنفُسِکُمْ﴾
مولانا آزاد نے اس اہم آیت کا نہایت واضح مطلب بیان کرتے ہوئے اس کا ترجمہ یا ترجمانی تحریر کی۔ لکھتے ہیں: جہاں تک وظیفہ زوجیت کا تعلق ہے، تمہاری عورتیں تمہارے لیے ایسی ہیں جیسے کاشت کی زمینیں، پس جس طرح بھی چاہو اپنی زمین میں (فطری طریقہ سے) کاشت کرو اور اپنے مستقبل کا سرو سامان کرو (یعنی اولاد کی پیدائش کا سروسامان کرو ۔)( البقرہ:251)
عورتوں کو کھیتی سے تشبیہ دے کر بھی افزائشِ نسل کی طرف توجہ دلائی اور اس کے بعد اگلے فقرہ﴿قدموا لانفسکم﴾
میں اسی مطلب و مفہوم کی تاکید کی۔ مولانا آزاد نے دونوں فقرے کا واضح ترجمہ کیا: قدموا کے فقرہ کا ترجمہ شاہ ولی اللہ نے تفسیر جلالین کے مطابق کیا ،صاحب جلالین نے لکھا ہے کہ :مصاحبت کے وقت بسم اللہ پڑھو، یہی ہے اپنے آگے بھیجنے کا مطلب۔ جلالین کی تفسیر آخرت کی طرف گئی، شاہ ولی اللہ رحمة الله علیہ نے آخرت ہی کی طرف اشارہ کیا، البتہ مفہوم وسیع کر دیا ”پیش فرستید یعنی اعمال صالحہ را برائے خویش“ یعنی اپنے اعمال صالحہ آگے بھیجو۔ بسم اللہ پڑھنے سے زیادہ وسیع مفہوم بیان کیا۔ شاہ عبد القادر صاحب رحمہ الله نے آیت کی اصلی روح کو سمجھا اور یہ ترجمہ کیا ”اور آگے کی تدبیر کرو اپنے واسطے“ یہ ترجمہ جامع ہے۔
اس ترجمہ سے آخرت کے لیے نیکیاں اور دنیا کے لیے اولا د دونوں مفہوم نکلتے ہیں، آگے کی تدبیر کے مفہوم میں دونوں پہلو شامل ہیں، مولانا آزاد نے شاہ عبدالقادر کے ترجمہ کی پیروی کی ہے اور آگے کے لیے بھیجو کا مطلب اولاد کی پیدائش کا خیال و انتظام بیان کیا ہے۔
مرد عورتوں کے نگراں ہیں
مرد و عورت کے درمیان حقوق و فرائض کا جو متوازن نظام قائم ہے اس کے پیش نظر مردوں کو عورتوں پر حاکم قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ قرآن کریم نے اعلان کیا ہے:﴿الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء ِ بِمَا فَضَّلَ اللَّہُ بَعْضَہُمْ عَلَیٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا﴾
شوہر اپنی عورتوں کے نگراں ہیں، ایک اس وجہ سے کہ مرد اپنا مال عورتوں پر خرچ کرتے ہیں اور بیویوں کا نان و نفقہ ادا کرتے ہیں قرآن کریم نے مردوں کی عورتوں پر بڑائی کے لیے بالکل نیا لفظ استعمال کیا ہے، یعنی قوام، قائم رکھنے والا ۔ شاہ رفیع الدین صاحب نے آیت مذکورہ میں قوام کا یہی ترجمہ کیا ہے، جلالین کے محشی نے لکھا :”یقومون علیہن آمرین ناہین کما یقوم الامیر علی الرعایا، وسموا قواما لذلک“
وہ شوہر ان کے سروں پر کھڑے رہتے ہیں، حکم دینے کے لیے اور ممانعت کرنے کے لیے ،جیسے امیر قوم اپنی رعایا کے لیے کھڑا رہتا ہے، چوکس رہتا ہے (75)۔
اسی تشریح کے مطابق شاہ عبد القادر صاحب اور مولانا تھانوی صاحب نے ”قوام“ کا ترجمہ حاکم کیا ہے، لیکن ”قوام“ کا صحیح مفہوم شاہ ولی اللہ نے تحریر کیا، یعنی تدبیر کار کنندہ مسلط شدہ شاہ صاحب سے پہلے جرجانی صاحب نے لکھا:کارگزارانند، مولانا آزاد نے دو لفظ تحریر کیے یعنی سر براہ اور کار فرما ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد نے تحریر کیا دھرے ہیں عورتوں کے۔
اگر ہم شاہ عبد القادر صاحب کا ترجمہ ”حاکم“ درست مان لیں تو یہ حاکم آنریری اور اعزازی حاکم ہوں گے، جیسے کبھی آنریری مجسٹریٹ ہوتے تھے، ورنہ صحیح مفہوم کارگزار اور کار فرما ہے حقیقت یہ ہے کہ نکاح کے تعلق میں شوہر اور بیوی اپنی اپنی اعزازی خدمات سے گھر چلاتے ہیں، قانونی حکومت مرد کی گھر پر قائم نہیں ہوتی تسکین جذبات کے دائرہ سے باہر عورت اپنے معاملات میں آزاد حیثیت رکھتی ہے۔
میراث میں حصہ کیوں؟
شریعت نے شوہر اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے کی میراث میں سے حصہ مقرر کیا ہے اولاد کے ہوتے شوہر بیوی کے ترکہ میں سے چوتھائی اوراولاد نہ ہو تو آدھا حصہ، بیوی کو اولاد کے ہوتے شوہر کے ترکہ میں سے آٹھواں اور اولاد نہ ہو تو چوتھائی ، سوال یہ ہے کہ جب موت نے باہمی معاہدہ کے رشتہ کو ختم کر دیا تو پھر موت کے بعد یہ حصہ داری کیسی؟ ماں باپ اور اولاداور بھائی بہنوں کا رشتہ تو خون کا اور نسب کا ہے جو موت کے بعد بھی قائم رہتا ہے، لیکن دو اجنبی انسانوں کے درمیان باہمی معاہدہ سے نکاح کا جو رشتہ قائم ہوا تھا وہ موت کے بعد کیسے قائم رہا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رشتہ نکاح کے دو پہلو تھے ، ایک باہمی معاہدہ کا پہلو اور ایک محبت اور رفاقت و تعاون کا اخلاقی پہلو، ایک پہلو سے تعلق ختم ہو گیا، لیکن ایک پہلو (اخلاق و محبت )سے یہ ختم نہیں ہوا، یہاں تک کہ قرآن کہتا ہے کہ آخرت کی زندگی میں جنت کے اندر بھی یہ رشتہ قائم رہے گا اور ان کی اولاد کو بھی ان کے ساتھ ہی رکھا جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر اولاد کا درجہ ماں باپ سے کم ہوگا تو خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ماں باپ کی خوشنودی کے سبب اولاد کے درجہ میں ترقی دے کر ان کے ساتھ شامل کر دے گا۔
شریعت نے اخلاقی حق داری کو قانون کا درجہ دے دیا۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ شریعت کہتی کہ اخلاقی طور پر نہ کہ فرض کے طور پر )میاں بیوی میں سے ہر ایک کو کچھ دے دیا جائے مگر شریعت نے میراث کے فرض قانون کا اسے حصہ بنا دیا۔
سورہ طور آیت:21 میں کہا گیا:﴿أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَا أَلَتْنَاہُم مِّنْ عَمَلِہِم مِّن شَیْءٍ ﴾․
احادیث میں عورت کے اخلاقی فضائل
ایک حدیث میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے جوانوں کو خطاب کرتے ہوئے نکاح کے جنسی فائدہ کی طرف توجہ دلائی ہے، کیوں کہ خطاب جوانوں کو کیا گیا ہے فرمایا اے نو جوانو! تم میں سے جو شخص قوت رکھتا ہو جنسی قوت مراد ہے )تو اسے چاہئے کہ وہ شادی کرے کیوں کہ شادی اس کی نظروں کو نیچا رکھے گی اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت کرے گی، البتہ جو شخص نکاح کی استطاعت نہیں رکھتا تو اسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھا کرے، حدیث میں ”باء“ کا لفظ خاص قوت (مصاحبت) کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور استطاعت کا لفظ عام ہے، جس میں مالی طاقت بھی داخل ہے، حضور صلی الله علیہ وسلم نے دونوں قسم کی قوتوں کا تذکرہ کر دیا۔ حاصل یہ کہ یہاں بیوی کی گھریلو زندگی قانونی دائرہ تک محدود رہنے سے چل نہیں سکتی۔
اس گھریلو زندگی کی گاڑی کو میاں بیوی دونوں کے اخلاقی فرائض اور اخلاقی حقوق کی ادائیگی ہی چلا سکتی ہے اور عملی طور پر ایسا ہی ہوتا ہے، عورت اور مرد اور دونوں کے رشتہ دار اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور میاں بیوی میں اگر کوئی کوتاہی کرتا ہے تو رشتہ دار اسے سمجھاتے ہیں۔ حضور صلی الله علیہ وسلمنے ایک اچھی بیوی کی تعریف کرتے ہوئے اس کے اخلاقی فرائض کو نمایاں کیا ہے، کسی نے پوچھا:”مَنْ أَفْضَلُ النِّسَاء ِ یَا رَسُولَ اللہِ؟“حضور بہترین عورت کون ہے؟ آپ نے فرمایا:بہترین عورت وہ ہے کہ اس کا شوہر جب گھر سے چلا جائے تو اس کی املاک اور اس کے بال بچوں کی حفاظت کرے اور جب وہ گھر میں داخل ہو تو اسے محبت بھری نظروں سے دیکھ کر خوش کر دے اور جب وہ کسی جائز کام کا حکم دے تواس کی تعمیل کرے۔
اخلاقی طور پر یہ عورت کے فرائض کی مکمل فہرست ہے، ان فرائض میں قانونی اور اخلاقی دونوں قسم کے فرائض شامل ہیں۔ ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”النِّکَاحُ نِصْفُ الْإِیْمَانِ، وَالنِّکَاحُ نِصْفُ الدِّین“
نکاح مرد و عورت کے حق میں آدھا ایمان اور آدھا دین ہے، یعنی دین کے تقاضوں کی تکمیل میں نکاح کا نصف حصہ ہے۔
نیک عورت کی تعریف
رسول پاک انے نیک عورت کو دنیا کا بہترین سرمایہ قرار دیا، فرمایا: دنیا تمام کی تمام صرف متاع ہے، عارضی طور پر برتنے کی چیز ہے اور اس متاع میں بہترین متاع اور بہترین سامان حیات نیک عورت ہے۔ ایک حدیث میں مال دار عورت اور خوب صورت عورت سے مقابلہ کرتے ہوئے حضور انے نیک عورت کو ترجیح دی اور اسے باعث برکت قرار دیا۔