دین اسلام نے بڑوں، سرپرستوں، ذمہ داروں اور والدین پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ اپنے چھوٹوں، ماتحتوں اور اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت کا انتظام کریں، گناہ کے کاموں اور ایسے لا یعنی، بے فائدہ اور نقصان دہ کاموں سے ان کو باز رکھیں جو ان کے دین ودنیا کے لیے مضر اورنقصان کا باعث ہوں۔ قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیکُمْ نَارًا وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ﴾”
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔“
حضرت یعقوب علیہ السلام نے بوقت وفات اپنے بیٹوں کو وصیت فرمائی او ر ان کی اعتقادی تربیت فرمائی۔ قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ﴿أَمْ کُنتُمْ شُہَدَاء َ إِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِیہِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰہَکَ وَإِلَٰہَ آبَائِکَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰہًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ﴾
یعنی” کیا اس وقت تم خود موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ ان سب نے کہا تھا کہ ہم اسی ایک خدا کی عبادت کریں گے جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے۔ اور ہم صرف اسی کے فرماں بردار ہیں۔“
ایک حدیث شریف میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”کلم راعٍ وکلّکم مسئول عن رعیتہ، الإمام راعٍ ومسئول عن رعیتہ، والرجل راعٍ في أھلہ وھو مسئول عن رعیتہ“․
یعنی” تم میں سے ہر آدمی محافظ ونگہبان ہے اور ہر ایک اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہو گا، حاکم نگہبان ہے اور وہ اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہو گا اورمرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پرس ہوگی۔“
ایک حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا، جس آدمی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اسے اس کا اچھا نام رکھنا چاہیے او راسے نیک ادب سکھانا چاہیے، پھر جب وہ بالغ ہو تو اس کا نکاح کرانا چاہیے، چناں چہ اگر وہ لڑکا بالغ ہو اور اس نے اس کا نکاح نہ کرایا اور وہ کسی گناہ میں مبتلا ہو گیا تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہوگا۔“
قرآن وحدیث کی مذکورہ بالا نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین، سرپرستوں اور بڑوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد، ماتحتوں اورچھوٹوں کی درست اور اسلامی نہج کے مطابق تعلیم وتربیت کا انتظام فرمائیں، انہیں برائیوں کے کاموں اور بُرے کاموں کے اسباب وذرائع سے حتی الوسع روکنے اور دور رکھنے کی کوشش کریں۔ دور حاضر میں بے حیائی، فحاشی اور عریانی کے اسباب وذرائع عام ہیں، سمارٹ فون جو کہ فحاشی وعریانی اور بے حیائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے وہ ہر نوجوان اور چھوٹے بڑے کے ہاتھ میں موجود ہے، چھوٹوں، بڑوں اور خصوصاً نوجوانوں کی خلوت وجلوت محفوظ نہیں ہے، ایسے حالات میں ، سرپرستوں اور ذمہ داروں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کی تعلیم وتربیت کا درست انتظام کریں اور انہیں فحاشی وعریانی کے ذرائع واسباب اختیا رکرنے سے روکیں، سمجھائیں بجھائیں او ران کے نقصانات سے آگاہ فرمائیں۔
نیز اس وقت معاشرے میں کرپشن، بددیانتی، جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی اور ناپ تول میں کمی وغیرہ کی وباعام ہے، پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں ہے، حکومت کے مال کو مال غنیمت سمجھ کر ہڑپ کر لیا جاتا ہے، ایسے میں ملک وقوم کے نوجوانوں اور نونہالوں کی فکری تربیت انتہائی ضروری ہے، تاکہ وہ تباہی کے گھڑے سے بچ جائیں اور ان کی دنیا وآخرت نقصان سے محفوظ ہو جائے۔