نوجوان نسل کی ذمہ داری … اسوہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی روشنی میں

idara letterhead universal2c

نوجوان نسل کی ذمہ داری … اسوہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی روشنی میں

مولانا محمد عظیم فیض آبادی

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

تقدیرِملت کے ان ستاروں کی روشنی اور اس کی کرنیں اس وقت تک آب و تاب اور پوری چمک دمک کے ساتھ برقرار رہتی ہیں، جب تک یہ عہد شباب کی منزلوں کے رہ گذر میں واقع کہکشاؤں کے مسافر ہوں۔ جس طرح آسمان کی بلندیوں پر تابندہ روشن ستاروں کی تابندگی ان کی ذاتی نہیں، بلکہ سورج کی روشنی سے مستفاد ہوتی ہے، بعینہ اسی طرح تقدیر ملت کے ان ستاروں کی روشنی بھی اس کی ذاتی نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے استفادہ نور کا کوئی منبع و مرکز اگر ممکن ہے تو وہ نور نبوت اور مشکوٰة نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہو سکتا ہے۔ یہی وہ چراغ اور سراج منیر ہے جس سے نور ہدایت پھوٹتا ہے اور جس سے نور ہدایت اور جس کی دمکتی ہوئی روشنی میں صراط مستقیم کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

یہی وہ بحرِ ذخار ہے جس سے زندگی کی خشک و بنجر زمین کو سیراب کر کے قابل ِکاشت بنایا جاسکتا ہے۔ یہی مقام انسانیت کے خزاں رسیدہ چمن کے لیے غازہ بہار ہے اور مایوس انسانیت کے لیے آس و امید کی کرن ہے۔ اور فقط نبوت ہی ہے جس کے خورشید منور کی ضیا پاش کرنوں سے بزمِ انسانیت کی تاریکیوں اور ظلمتوں کا دور ختم ہو کر صبح سعادت کا آغاز ہوتا ہے۔

نبوت کا یہ چراغ اپنی تمام تر روشنیوں کے ساتھ حیات انسانی کے ہر شعبوں میں اور ہر شعبوں کی ہر جہت اور ہر ہر پہلو میں مینارہ نور بن کر اسوہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی شکل و صورت میں انسانوں کی صحیح راہ نمائی کے لیے اپنے تمام تر برکات کے ساتھ موجود ہے۔ جو چاہے اور جب چاہے اس سے اپنی ہدایت و راہ نمائی کا سامان فراہم کر سکتا ہے:﴿لَّقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللَّہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ﴾کہہ کر اللہ رب العزت نے کام یابی و کام رانی کے متلاشی ،ساری دنیا کے، انسانوں کو خبر دے دی کہ تمہارے لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی منبع البرکات ذات بہترین نمونہ ہے۔ اس لیے ہدایت کے خواست گار کو چاہیے کہ ہر معاملہ، ہر ایک حرکت و سکون، نشست وبرخاست، سیادت و قیادت، امارت و حکومت، اخلاق و کردار، معاشرت، معیشت و تجارت، صبر و قناعت، زہد و عبادت، مروت و شجاعت، بلکہ ہر ہر عمل کے اندر کام یابی و کام رانی کے لیے نبی اکرم صلی الله صلی الله وسلم کے طور طریق کو بطور نمونہ اپنے پیش نظر رکھیں۔

کائنات کی تاریخ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مقدس جماعت نے نبی کریم صلی اللہعلیہ وسلم کے طور طریق کو بطور اسوہ اپنا کر، ہر میدان میں فتح مندی کا وہ پرچم لہرایا کہ دنیا جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اسی لیے سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کے طرز حیات کے مقابلے میں دنیا کی کوئی تہذیب و تمدن، کوئی ثقافت و معاشرت ان کی آنکھوں کو خیرہ اوردلوں کو فریفتہ نہ کر سکی۔

تقدیر ملت کے ستاروں کی روشنی اس وقت تک ماند نہیں پڑ سکتی جب تک اس ملت کے ہاتھوں میں اسوہ حسنہ کی مشعل اپنے پورے استحکام کے ساتھ باقی رہے گی۔ ملت کے افراد کو اسوہ نبوی سے کیا ضابطے اور حیات انسانی کے کیا کیا اصول ملتے ہیں، وہ کون سی ذمہ داریاں ہیں جو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی حیات طیبہ کی روشنی میں ملت کی ریڑھ کی ہڈی کہے جانے والے افراد، یعنی نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے، جس پر چل کر چین وسکون کا غلبہ ہو اورپورا مسلم معاشرہ، بلکہ پوری دنیا امن و امان کا گہوارہ بن جائے۔

یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے اور اس کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ ملت کے نوجوانوں کی حیثیت کیا ہے؟ دراصل نوجوانان ملت کی مختلف حیثیتیں ہیں اور مختلف حیثیت سے مختلف حالات میں اس کی مختلف ذمہ داریاں ہیں۔ ہم اس وقت حالات و واقعات کے پیش نظر چند حیثیتوں کی تعیین کر کے، تعلیمات نبوی اور سیرت طیبہ کی روشنی میں ”نوجوان خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے “تحریر کرتے ہیں کہ کس حیثیت سے نوجوان کے اوپر کیاذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

نوجوان خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے

اگر نوجوانان ملت اپنی حیثیت کو شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوة و السلام کی روشنی میں سمجھیں اور اس پر عمل کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو یقیناً ہمارا بگڑا ہوا معاشرہ اصلاح کی راہ پر گام زن ہوجائے اور گھر، خاندان اور معاشرہ چین وسکون اور امن و امان کا گہوارہ بن جائے۔

نوجوان اپنے والدین کا لاڈلا، ان کی امیدوں و آرزوؤں کا مرکز، ان کی تمناؤں کا مظہر اور ان کی ضعیفی کا سہارا اور بڑھاپے کی لاٹھی ہوتا ہے۔ مذہب اسلام نے والدین کے حقوق کی رعایت اور ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید بیان کی ہے۔ والدین کی اہمیت اور ان کی عظمت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم نے توحید جیسے بنیادی عقیدے کا تذکرہ کیا، اس کے ساتھ ساتھ فوراً والدین کے ساتھ حسن سلوک، ان سے مخاطب ہوتے وقت لہجے کی نرمی اور ان کے سامنے عاجزی و نیازمندی اور ان کے لیے دعا وغیرہ کے اہتمام کا حکم دیا۔ سورہ بنی اسرائیل کے اندر باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:اور تمہارے پروردگار نے حکم دیا کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی اُف بھی نہ کہو، اور نہ ان کو جھڑکنااور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہنا اور ان کے لیے یوں دعا کرتے رہنا:اے میرے پروردگار!ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ رب العزت نے والدین کے ادب و احترام اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو اپنی عبادت کے ساتھ ملا کر واجب فرمایا، جیسا کہ سورہ لقمان کے اندر اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملا کر لازم فرمایا” میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی“۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم اور اللہ تعالی کے شکر کی طرح والدین کا شکر گذار ہونا واجب ہے۔ بخاری شریف کی یہ حدیث بھی اسی پر شاہد ہے، جس میں ہے کہ:

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے؟ آپ صلی الله نے ارشاد فرمایا: نماز کو اپنے (مستحب) وقت میں (پڑھنا)۔اس نے پھرسوال کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:والدین کے ساتھ اچھا سلوک۔

حضرت ابو امامہ رضی الله عنہ کی روایت ہے: ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اولاد پر ماں باپ کا کیا حق ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ دونوں ہی تیری جنت اور دوزخ ہیں ۔ مطلب یہ ہے ان کی اطاعت و خدمت جنت میں لے جاتی ہے اور ان کی بے ادبی وناراضگی اور نافرمانی و ایذارسانی دوزخ میں لے جاتی ہے۔

جامع ترمذی وغیرہ کے اندر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہعنہما کی روایت ہے،رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ:اللہ کی رضا مندی والد کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی رضا حاصل ہونے کے لیے والد کی رضا جوئی شرط ہے۔ والد کی ناراضگی کا لازمی نتیجہ اللہ کی ناراضی ہے، لہٰذا جو کوئی والد کو ناراض کرے گا وہ رضائے الہی کی دولت سے محروم رہے گا۔
اس حدیث کے اندر اگرچہ والد کا لفظ آیا ہے، لیکن ماں کا حکم بھی وہی ہے بلکہ اس سلسلے میں ماں کا درجہ باپ سے بھی زیادہ بڑھا ہوا ہے، جیسا کہ دوسری احادیث میں موجود ہے۔ اس لیے ماں کی خوشی و ناراضگی کا بھی وہی حکم ہے۔

بیہقی نے بروایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو خدمت گزار بیٹا اپنے والدین پر رحمت و شفقت سے نظر ڈالتا ہے، تو ہر نظر کے بدلے میں ایک حج مقبول کا ثواب ملتا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اگر وہ دن میں سو مرتبہ ان پر نظر کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:ہاں سو مرتبہ بھی (ہر نظر پر ثواب ملتا رہے گا)۔

والدین کی وفات کے بعد ان کے خاص حقوق

والدین کے حقوق کا سلسلہ ان کی حیات میں ہی ختم نہیں ہوتا، بلکہ ان کے مرنے کے بعد ان کے اوپر کچھ اور حقوق عائد ہوتے ہیں، جن کی ادائیگی نیک بخت اولاد کی ذمہ داری اور اللہ کی خاص رضا و رحمت کا وسیلہ ہے۔

حضرت ابو اُسید ساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک وقت جب ہم رسول اللہ صلی اللہعلیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! میرے والدین کا مجھ پر کچھ ایسا بھی حق ہے جو ان کی وفات کے بعد مجھے ادا کرنا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں!ان کے لیے خیر و رحمت کی دعا کرنا، ان کے لیے اللہ سے مغفرت اور بخشش مانگنا اور اگر کسی سے ان کا کوئی عہد و معاہدہ ہو تو اس کو پورا کرنا، ان کے تعلق سے جو رشتے ہوں ان کا لحاظ رکھنا اور ان کا حق ادا کرنا اور ان کے دوستوں کا احترام کرنا۔

جس طرح زندگی میں والدین کی اطاعت و خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک اعلیٰ درجہ کے اعمال صالحہ میں سے ہیں، جو بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح ان کی وفات کے بعد ان کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا ایسا عمل ہے جو ایک طرف والدین کے لیے قبر میں راحت وسکون کا وسیلہ بنتا ہے، تو دوسری طرف اولاد کے ان قصور و کمی کی تلافی کا ذریعہ ہے جو والدین کی خدمت میں ان سے ہوئی اور وہ خود رحمت باری کی مستحق ہو جاتی ہے۔

قرآن کریم نے اولاد کو بڑے اہتمام اور بڑی تاکید کے ساتھ یہ ہدایت فرمائی کہ وہ اللہ سے والدین کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا مانگا کریں:﴿ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیرًا﴾ (اور اللہ سے یوں عرض کر کہ اے میرے پروردگار! میرے والدین پر رحم فرما، جس طرح انھوں نے مجھے بچپنے میں (شفقت کے ساتھ ) پالا تھا)۔

غرض والدین کی خدمت و اطاعت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک نوجوانوں کی وہ ذمہ داریاں ہیں جن کی سرکار دو عالم صلی اللہ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ نے بڑی تاکید کے ساتھ بیان کی ہیں۔

مذہب اسلام نوجوانوں کو والدین کا خدمت گار ، مطیع و فرماں بردار، ان کی ضروریات کا خیال اور راحت رسانی کی فکر کرنے والا ، ان کی کسی طرح کی ناگواری سے اجتناب کرنے والا، ان کے سامنے عاجزی وانکساری کے ساتھ پیش آنے والا اور ان کے ساتھ ادب و نرمی کا معاملہ کرنے والا، نیک صالح و سعادت مند بیٹے کی حیثیت سے دیکھنا پسند کرتا ہے، جو معاشرے کا سب سے اہم عنصر ہونے کے ساتھ ساتھ افراد، گھر، خاندان، محلہ اور معاشرے کے امن و امان اور چین وسکون کا باعث بھی ہے۔

تعمیر حیات سے متعلق