نفس امارہ، نفس لوامہ، نفس مطمئنہ کی حقیقت ومعرفت

idara letterhead universal2c

نفس امارہ، نفس لوامہ، نفس مطمئنہ کی حقیقت ومعرفت

مولانا محمدیوسف خان

بسم الله الرحمن الرحیم
﴿یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِی إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً﴾․

ترجمہ:” اے اطمینان والی جان! اپنے رب کی طرف اس حال میں واپس آکہ تو اس سے راضی ہو وہ تجھ سے راضی ہو“۔

عن عبدالله بن عمرو قال قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:”لا یؤمن أحدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ․“ (رواہ فی شرح السنة)

حضرت عبدالله بن عمر روضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” تم میں سے کوئی کامل مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اس کی خواہش دین کے تابع نہ ہو جائے۔“

ارشاد باری تعالیٰ:﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا،فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا، قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا،وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا﴾․

” قسم ہے نفس کی اور اس کی جس نے اسے درست کیا پھر اسے اس کی نافرمانی اور پرہیز گاری بتائی، تحقیق وہ شخص کام یاب ہوا جس نے اس نفس کو پاکیزہ بنایا او رناکام ورسوا ہوا وہ شخص جس نے اسے خاک آلودہ کیا۔“ (سورہ الشمس)

الله رب العزت نے دین اسلام کے ذریعہ جہاں حقوق الله اور حقو ق العباد کی تعلیم دی وہاں نفس کے حقوق سے بھی آگاہ کیا۔

نفس انسان کے اند رایک ایسی قوت کا نام ہے، جس سے انسان اپنے لیے خیر یا شر چاہتا ہے۔ کبھی انسان اس کو ذات سے تعبیر کر لیتا ہے کبھی اپنے دل سے تعبیر کر لیتا ہے۔ جیسے یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں کام کروں اور میرا دل یہ نہیں چاہتا، دراصل یہ انسان کا نفس ہے جس سے انسان کسی چیز کی خواہش کرتا ہے، چاہے وہ خواہش اچھی ہو یا بری۔ جس طرح بندوں میں سے مختلف افراد کے حقوق مختلف ہوتے ہیں اسی طرح نفس کی حالت کے اعتبار سے اس کے حقوق بھی مختلف ہوتے ہیں۔

چناں چہ الله رب العزت نے قرآن حکیم میں نفس کی تین حالتیں بتائی ہیں، اگر وہ ذہن میں ہوں تو نفس کی حقیقت اور پھر اس کے حقوق بخوبی ذہن میں آجاتے ہیں۔

قرآن مجید میں نفس کی ایک حالت نفس مطمئنہ، دوسری حالت نفس امارہ اور تیسری حالت نفس لوامہ بیان کی گئی ہے۔ اگر نفس خیر کی طرف مائل ہو، الله تعالیٰ کی عبادت اور فرماں برداری میں انسان کو خوشی حاصل ہو، دین اسلام کے احکام پر عمل کرکے سکون واطمینان محسوس ہو تو نفس مطمئنہ ہے۔ اس حالت کا ذکر الله تعالیٰ نے سورة الفجر کی ستائیسویں آیت میں فرمایا ہے:﴿یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ،ارْجِعِیْ إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً، فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ، وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾․

” اے مطمئن نفس! اپنے رب کی طرف چل اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ پس میرے بندوں میں شامل ہو جا اورمیری جنت میں داخل ہو جا۔“

یہ ” نفس مطمئنہ“ کی حالت تھی۔ دوسری حالت ” نفس امارہ“ کی ہے، اس کا ذکر الله تعالیٰ نے سورہ یوسف کی آیت نمبر 53 میں فرمایا:﴿ وَمَا أُبَرِّءُ نَفْسِیْ إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَةٌ بِالسُّوء ِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیَ﴾ او رمیں اپنے نفس کو بری نہیں کرتا، کیوں کہ نفس برائی پر ابھارتا ہے، مگر جس پر میرا پروردگار رحم کرے۔

یہاں سے نفس کی دوسری حالت معلوم ہوئی ،یعنی نفس اگر برائی ہی کی طرف لگا رہے، دنیا کی خواہشات او راس کی چیزوں میں نفس کو مزا آئے اور دین اسلام کے احکام سے نفس بچنا چاہتا ہو تو یہ ” نفس امارہ“ ہے۔ اسے ” نفس امارہ“ اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ برائی کا حکم دیتا ہے۔

اب نفس کی ایک تیسری حالت بھی ہے کہ وہ نفس کبھی برائی کی طرف جھکتا ہے، من مانی کرتا ہے، الله کی نافرمانی کرتا ہے ،لیکن پھر گناہ ہونے پر شرمندہ ہوتا ہے، الله تعالیٰ سے معافی مانگتا ہے، یہ ” نفس لوامہ“ ہے۔ یعنی ملامت کرنے والا نفس نفس کی اس حالت کا ذکر الله تعالیٰ نے سورة القیامہ کی دوسری آیت میں فرمایا:﴿وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ﴾

اور قسم ہے اس نفس کی جو ملامت کرے۔

نفس کی ان تینوں حالت کو سامنے رکھ کر معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح کے نفس کے کیسے حقوق ہیں؟ ظاہر ہے کہ صرف نفس کی خواہشات کو پورا کرتے رہنا، اُسے خوش کرنا؛ یہ حقوق ادا کرنا شمار نہیں ہو گا، جیسے ایک بچہ شریف النفس ہو، محنتی ہو،اسے شاباش دی جائے تو اس کے حق کو ادا کرنا ہے۔ ایک بچہ انتہائی شرارتی ہو،نا فرمان ہو تو اس کی اصلاح کرنا او راسے ہر طرح سمجھانا یہ اس کا حق ہے۔ چناں چہ جب رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کو ان تین افراد کے بارے میں معلوم ہوا جن میں سے ایک نے اپنے لیے یہ طے کیا کہ میں کبھی شادی نہیں کروں گا، بس عبادت کرتا رہوں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے رکھوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں کبھی رات کو نہیں سویا کروں گا او رخوب عبادت کروں گا۔ اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ تم مجھ سے نیکی اور تقویٰ میں ہرگز آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اور اپنے نفس کے حقوق سے آگاہ کرتے ہوئے یہ تعلیم دی:” ان لنفسک علیک حقا“ ”بے شک تم پر اپنے نفس کا بھی حق ہے۔“

نفس کو پاکیزہ بنانا او ربرائیوں کی آلودگیوں سے بچانا یہ اُس کا حق ہے۔ لہٰذا صرف کھانا پینا، آرام وآسائش مہیا کرنے سے نفس کے حقوق ادا نہیں ہوتے، بلکہ نفس کو الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی بتائی ہوئی خوبیوں سے سجانا اس کا حق ہے، اس کو سچائی اور صبر کا خوگربنانا، وعدہ پورا کرنا امانت، عدل وانصاف وسخاوت ،قناعت ، دیانت داری، توکل وتواضع،حلم، وبردباری، حیا، خود داری جیسی اعلیٰ صفات سے اپنے نفس کو آراستہ کرنا یہ نفس کا حق ہے، اس لیے کہ الله رب العزت نے ہم پر یہ واضح فرمایا:﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا﴾․ ”یقینا وہ شخص کام یاب ہوا جس نے اپنے نفس کو پاکیزہ بنایا۔“

اس طرح نفس پر اس کی طاقت او رگنجائش کے مطابق بوجھ ڈالنا یہ بھی اس کا حق ہے، جس ذات نے ہمارے نفس کو پیدا فرمایا اس نے ارشاد فرمایا:﴿لاَ یُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَا﴾․

یعنی الله تعالیٰ انسان کو اس کی طاقت او رگنجائش کے مطابق ہی اپنے احکام کا مکلف اور پابند فرماتا ہے۔ لہٰذا الله تعالیٰ نے نفس کو ان تمام برائیوں سے بچنے کی تعلیم دی جو اس نفس کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، مال کی حرص، جھوٹ، غیبت، چغل خوری، بہتان تراشی، غصہ، حسد، بغض، بخل، فضول خرچی، تکبر، نفرت اور دشمنی جیسی باتوں سے نفس کو بچانا اس کا حق ہے۔

الله رب العزت ہمارے نفس کو نفس مطمئنہ بنا دے۔ گناہوں اور برائیوں سے نفرت ہو۔ آپس میں محبت والفت ہو، عبادات اور نیکی کا شوق ہو۔ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت ہی میں مزا آئے، اسی میں سکون نصیب ہو۔ آمین!

تعمیر حیات سے متعلق