نعمتوں کی ناقدری

idara letterhead universal2c

نعمتوں کی ناقدری

مولانا عبدالمتین

رب العالمین کا فرمان ہے کہ ﴿قُتِلَ الْإِنسَانُ مَا أَکْفَرَہُ﴾ ترجمہ:ستیاناس ہو! کتنا ہی نا شکرا ہے یہ انسان حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں بے شمار نعمتوں کے مالک ہیں اور اکثر نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سوں کے تو ہم لائق ہی نہیں ہیں، لیکن انسان میں بہت بڑی کم زوری پائی جاتی ہے جسے ”ناشکری“کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے انسان بہت سی حاصل شدہ نعمتوں کی طرف بھی توجہ نہیں کرتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان حاصل شدہ نعمتوں میں بہت سی ایسی ہیں جن کے لیے انسان اپنے زندگی کے ایک دور تک ہمیشہ آرزو مند رہتا، گڑ گڑا کر دعائیں کرتا، خیالات، سوچ، فکر ،امنگ ،چاہت اور احساس سب اس نعمت کے حصول کے گرد گھومتے تھے۔ جان بوجھ کر ایسا سوچتا تھا کہ اس نعمت کے حاصل ہونے کے بعد کا منظر کیسا ہوگا، وہ کیسا وقت ہوگا اور لوگ نجانے کیا کچھ کہیں گے، کیسی داد ملے گی اور بس زندگی کا نقشہ ہی بدل جائے گا، پھر بس کچھ چاہنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی ، کاش یہ ہوجائے، کاش یہ مل جائے، کاش یہ اب مل ہی جائے۔

لیکن پھر وہ وقت زندگی میں آہی جاتا ہے اور دیر سویر وہ نعمت مل ہی جاتی ہے اور اس ناشکرے کم زور انسان کی خواہش تمنا آرزو پوری ہوجاتی ہے۔ قدرت بھی یہ منظر دیکھنے کو آجاتی ہے کہ دیکھیں اب اس کا رد عمل کیا آتا ہے، اب یقینا یہ چین سکون اطمینان سے رہ رہا ہوگا، اب تو یہ شکر کے گیت گاتا ہوگا، لیکن انسان قرآنی گواہی کو سچا ثابت کرتے ہوئے اس موقع پر پھر سے افسردہ ،حیران پریشان یادوں میں غرق ہوتا نظر آتا ہے اور اسے جھنجھوڑ کر جب پوچھا جاتا ہے تو وہ کسی اور نعمت کے حاصل کرنے کی تمنا میں مگن ہو کر اپنی اصلیت دکھا دیتا ہے۔

سورة عادیات میں رب کا فرمان ہے:﴿إِنَّ الْإِنسَانَ لِرَبِّہِ لَکَنُودٌ﴾ ترجمہ:”انسان اپنے رب کا بڑ اہی ناشکرا ہے“ اس آیت کی تفسیر میں لفظ ”کنود“سے مراد یہی انسان ہے جو حاصل نعمتوں کو بھول جاتا ہے اور لاحاصل نعمتوں کی یاد میں زندگی گزارتا ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ کسی ناقدرے کو کتنا ہی قیمتی تحفہ کیوں نہ دیا جائے وہ اس کی نظر میں بے قیمت ہی رہتا ہے۔ ٹھیک یہی رویہ انسان کا ہے، یہ رب کی بہت سی نعمتوں کے لائق ہی نہیں ہے، لیکن رب العالمین اپنے فضل کی بارش کرتا رہتا ہے۔اگر یہ قدرداں ہوتا تو فضل الٰہی کے ایک ایک لمحے کے بدلے اپنا سب کچھ واردیتا، یہ اس کی ناشکری طبیعت ہی ہے جو اسے فضل عظیم کرنے والی ذات کی قدر سے دور کیے ہوئے ہے ۔

حاصل کی ناقدری اور لاحاصل کی تمنا انسان کو بہت بڑے دھوکے میں ڈال دیتی ہے، وہ غوروفکر کرنا گوارا نہیں کرتا کہ اس کے پاس اس وقت کیا کچھ نعمتیں موجود ہیں، وہ اپنی پرستش میں ایسا گم ہے کہ اسے کوئی اور نظر نہیں آتا۔
ذرا شکر کی آنکھ کھلے تو یہ دیکھے کتنے بے اولاد ہیں، لیکن یہ صاحب اولاد ہے، کتنے بے روزگار ہیں، لیکن یہ برسر روزگار ہے، کتنے بے گھر ہیں، لیکن یہ ایک چھت تلے زندگی گزاررہا ہے، کتنے معذور ہیں اور یہ دنیا کے پیچھے دوڑ دوڑ کر تھکتا نہیں، کتنے ایسے ہیں جو آنکھ، بال ،دل، گردہ، گلا، مثانہ، معدہ کے کینسر اور کئی خطرناک اور لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہیں، لیکن یہ صحت کی دولت لیے گھوم پھر رہا ہے، کتنے ایسے ہیں کہ مرچکے، لیکن یہ اب تک قیمتی سانسوں کا مالک ہے اور اب بھی شکر کرکے اپنے لیے کیا سے کیا نہیں کرسکتا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی صحبت اپنی سوچ اور اپنے رویہ کا ازسرنو جائزہ لیں اور ذرا سوچیں کہ کیا کچھ ہے میرے پاس جو بہت سوں کے پاس نہیں ہے، اگر انسان اس تجربے سے کام یاب گزرا تو زندگی کا مزہ ہی دوبالا ہوجائے اور بہت سے مسائل اس تحریر کو مکمل پڑھنے سے پہلے ہی دم توڑ لیں۔

تعمیر حیات سے متعلق