ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہل سنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے ۔ آمین۔ (ادارہ)
متی کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق پطرس مقدمہ دیکھتا رہا، یسوع مسیح پر الزام لگے، صلیب کا فیصلہ ہوا، ان کے چہرے پر تھوکا گیا، مکّے اور طمانچے مارے گئے، مگر پطرس اطمینان کے ساتھ یہ گستاخانہ مناظر دیکھتا رہا،اچانک لوگوں نے پطرس کو پہچان لیا ،چناں چہ متی لکھتا ہے۔
” اور پطرس صحن میں بیٹھا تھا کہ ایک لونڈی نے اس کے پاس آکر کہا تو بھی یسوع گلیلی کے ساتھ تھاoاس نے ( پطرس نے) سب کے سامنے یہ کہہ کر انکار کیا میں نہیں جانتا تو کیا کہتی ہےo اور جب وہ ڈیوڑھی میں چلا گیا تو دوسروں نے اسے دیکھا اور جو وہاں تھے ان سے کہا یہ بھی یسوع ناصری کے ساتھ تھاo اس نے قسم کھا کر پھر انکار کیا کہ میں اس آدمی کو نہیں جانتا، تھوڑی دیر کے بعد جو وہاں کھڑے تھے انہوں نے پطرس کے پاس آکر کہا بے شک تو بھی ان میں سے ہے، کیوں کہ تیری بولی سے بھی ظاہر ہوتا ہے o اس پر وہ لعنت کرنے اور قسم کھانے لگا کہ میں اس آدمی کو نہیں جانتا اور فی الفور مرغ نے بانگ دیo پطرس کی یسوع کو وہ بات یاد آئی جو اس نے کہی تھی کہ مرغ کے بانگ دینے سے پہلے تو تین بار میرا انکار کرے گا اور وہ باہر جاکر زار زار رویا۔( متی:26/75-69)
متی کی بیان کردہ تفصیل پر ہمارا موقف یہ ہے کہ گرفتار شدہ شخص یہوداہ اسکریوتی تھا، جس نے یسوع مسیح کی مخبری کی تھی، پطرس اسے جان چکا تھا، اس لیے اس کا برا انجام دیکھنے کے لیے اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا تھا، یہی وجہ ہے کہ جب ملزم کے منھ پر تھوکا گیا، لعنت کی گئی پطرس نے اس پر کوئی ہم دردی نہیں دکھائی اور نہ اس کا دل پسیجا، بلکہ جب لوگوں نے پطرس کو اس کا ساتھی قرار دیا تو پطرس نے اس پر لعنت کی اور قسم کھا کے اسے پہچاننے سے انکار کر دیا۔ اگر گرفتار شدہ شخص حقیقت میں یسوع مسیح ہوتا تو عظیم حواری پطرس اس کے دفاع اور عزت میں اپنی جان تک گنوا دیتا، کیوں کہ پطرس کہہ چکا تھا ” اگر تیرے ساتھ مجھے مرنا بھی پڑے تو بھی انکار ہر گز نہ کروں گا۔“ (متی:26/35)
اور اگر مسیحی علما کا موقف درست تسلیم کر لیا جائے تو اہل اسلام کا دعوی او ربھی نکھرکر سامنے آتا ہے کہ پطرس جیسا عظیم حواری یہودیوں کے ڈر سے، یسوع مسیح کو ظلم کی چکی میں پستا ہوا دیکھ کر، ان کے حق میں ہم دردی کے دو لفظ بھی نہ بو ل سکا، بلکہ اپنی جان بچانے کے لیے اس پر لعنت کی قسم کھا کر پہنچاننے سے انکار کر دیا، کیا ایسے حواری سے اس جرأت کی امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ یہود کے دعوی مصلوبیت کو رد کرتا یا اسے جھٹلاتا، ہر گز نہیں، پھر یہی ماننا پڑے گا کہ حواریوں نے یہودیوں کے خوف سے ان کے دعوی مصلوبیت کو علی الاعلان تسلیم کرکے، اسے قبول کیا اور یہود کے جھوٹ پر اپنے عقیدے کی بنیاد رکھی۔
اناجیل کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یسوع مسیح علیہ السلام معجزہ سے اپنا روئے انور تبدیل کر لیا کرتے تھے، جس کی وجہ سے دیکھنے والوں پر حقیقت مشتبہ ہو جاتی، چناں چہ انجیل لوقا کے باب نمبر 9 میں ایک عنوان ”یسوع کی صورت بدل جانا“ کے نام سے ہے اور یہی عنوان متی کے باب نمبر 17 کی ابتدا میں اور انجیل مرقس کے باب نمبر 9 اور آیت نمبر دو اور تیرہ میں ہے۔ محاصرے کے وقت آپ علیہ السلام نے صورت بدل کر خود کو محفوظ کر لیا ،جب کہ یہوداہ اسکریوتی مخبر پر آپ کی صورت کی شباہت ڈال دی گئی، جس کی وجہ سے حواری اسے مسیح سمجھ بیٹھے۔ اور یسوع مسیح علیہ السلام کی یہ پیشن گوئی سچی ثابت ہوئی جس میں آپ نے کہا تھا تم سب اسی رات میری بات پر ٹھوکر کھاؤ گے۔“ متی:26/31)
شکل وصورت کی تبدیلی کا ایک دلچسپ منظر اس وقت بھی سامنے آتا ہے جب یہوداہ اسکریوتی کو مصلوب کیے جانے کے وقت حضرت مریم دور کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھیں آپ کے ساتھ آپ کا بیٹا یسوع مسیح علیہ السلام بھی صورت تبدیل کرکے اس شریر کا انجام دیکھ رہے تھے تو یہوداہ اسکریوتی کی نظران دونوں پر پڑی، اس نے حضرت مریم کو کہا ”اے عورت! دیکھ تیرا بیٹا یہ ہے۔“ کیوں کہ اس پر یسوع کی صورت منکشف ہو چکی تھی، لیکن لوگ اسے یسوع کی شکل میں دیکھ کر، اسی کو یسوع جان کر، مصلوب کرنے پر تلے ہوئے تھے، اس کی چیخ وپکار او رانکار کو مکروفریب پر محمول کر رہے تھے، اس نے مریم کو دیکھ کر انہیں بتانا چاہا کہ تیرا بیٹا یہ ہے جو تیرے ساتھ کھڑا ہے، میں نہیں ہوں۔
اگرچہ مسیحی حضرات کہتے ہیں یہ بات یسوع مسیح نے کہی تھی، چناں چہ یوحنا میں ہے ” یسوع نے اپنی ماں اور اس شاگرد کو جس سے محبت رکھتا تھا پاس کھڑے دیکھ کر ماں سے کہا اے عورت! دیکھ تیرا بیٹا یہ ہے۔ پھر شاگرد سے کہا دیکھ تیری ماں یہ ہے اور اسی وقت سے وہ شاگرد اسے اپنے گھر لیے گیا۔ (یوحنا:19/27-26)
اگر مصلوب ہونے والا یسوع مسیح ہو تو وہ اپنی ماں کو جو غم سے نڈھال تھی ”اے عورت“ کہہ کر اس کی تحقیر نہ کرتا اور اپنی ماں کو اپنے نامحرم شاگرد کے ساتھ نہ بھیجتا ،جب کہ مریم کے رشتہ دار موجو دتھے۔ مسیحی موقف کے مطابق یسوع تین دن کے بعد جی اٹھے تھے، اگر تین دن کے بعد جی اٹھنا تھا تو اس وقت ماں کی کفالت کا انتظام کر دیتے، اجنبی شاگرد کے ساتھ کیوں بھیجا؟ مسیحی موقف کے مطابق تو یسوع صلیب پر جان دینے کے لیے آئے تھے، انہیں معلوم تھا میرے ساتھ کیا ہونا ہے تو پہلے سے والدہ کی کفالت کا انتظام کر دیتے، یہ سارے سوال اسی وقت پیدا ہوئے ہیں جب مسیحی یہوداہ اسکریوتی کی بجائے حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو مصلوب قرار دیتے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مصلوبیت ایسا دعوی ہے جسے سچا جاننے کے لیے خبر متواتر کی ضرورت ہے اور مسیحیوں کے پاس یہ خبر متواتر نہیں ہے، بلکہ جب اناجیل کی روایت کے مطابق ایک حواری نے دھوکہ دیا اور باقی حواری خوف جان سے آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے ، چناں چہ متی میں ہے۔ ”اس پر سب شاگرد اسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔“( متی:26/56)
مسیحی علماء وعوام نے یہود کے دعوی پر اعتماد کرکے اس پر اپنے عقیدہ کفارہ کی بنیاد رکھی۔
اگر صلیب پر جان دینے کا حکم الله کا تھا اور حضرت عیسی مسیح علیہ السلام پوری انسانیت کے کفارے کی اس غرض سے دنیا میں تشریف لائے تھے تو انہیں رضا ورغبت کے ساتھ بخوشی صلیب پر جان دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے تھا، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب حکم دیا گیا کہ اپنے صاحب زادے حضرت اسماعیل کو ذبح کریں تو وہ بخوشی اس پر راضی ہو گئے، حضرت اسماعیل نے بخوشی اپنی گردن پیش کر دی تھی، پھر یسوع مسیح کیوں چیختے چلاتے رہے، دل سوزی سے دعائیں کیوں مانگتے رہے، کیوں موت کا پیالہ ٹالنے کی التجا کرتے رہے؟ چناں چہ متی میں ہے ”اور دوپہر سے لے کر تیسرے پہر تک تمام ملک میں اندھیرا چھایا رہا اور تیسرے پہر کے قریب یسوع نے بڑی آواز سے چلا کر کہا إیلی۔ إیلی کما شبقتنی یعنی اے میرے خدا! اے میرے خدا تونے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ (متی:27/26-25)
یہ سارا منظر نامہ واضح کرتا ہے کہ صلیب پر یسوع مسیح کو نہیں، بلکہ اس کی شبیہ کو لٹکایا گیا تھا۔
مسیحی علماء عجیب مخمصے کا شکار ہیں، پہلے یہودیوں کے بہکاوے میں آکر مسیح علیہ السلام کے متعلق مصلوبیت کا عقیدہ اختیارکر لیا، چوں کہ اسرائیلیوں میں صلیبی موت کو لعنتی موت کہا جاتا ہے، اس داغ کو دھونے کے لیے اور اس موت کو قابل احترام بنا کر پیش کرنے کے لیے عقیدہ کفارہ گھڑا، کفارہ پر سوال ہوا کہ جب کفارے کے طور پر جان دینی ہی تھی تو پھر رونا دھونا ،چیخ وپکار کرنا، زندگی کی التجا کرنا، چہ معنی دارد؟ اس کے جواب میں ایک نیا فلسفہ گھڑا گیا کہ صلیب ”اقنوم ابن “کو نہیں دی گئی تھی، بلکہ اقنوم ابن کے انسانی مظہر کو دی گئی تھی، جو یسوع کی صورت میں تھا، جو اپنی انسانی حیثیت میں خدا نہیں تھا، بلکہ ایک مخلوق ہے، اسی وجہ سے اس پر مخلوق کی کیفیات ظاہر ہوئیں ،وہ رویا دھویا، چیخا پکارا، لیکن اس فلسفہ نے مزید کئی سوال کھڑے کر دیے۔
اگر واقعی اقنوم ابن کو صلیب پر نہیں لٹکایا گیا،بلکہ ظاہری جسم کو صلیب دی گئی تو حضرت یسوع ( عیسیٰ) مسیح کے جسم کو بغیر موت کے فنا ہو جانا چاہیے تھا، حالاں کہ آپ کو موت صلیب کی وجہ سے آئی اور اگر آپ کا جسم صرف کفارہ بننے کے لیے تیار کیا گیا تھا تو حضرت یسوع مسیح علیہ السلام کو دفن ہونے کے بعد بغیر جسم کے آسمان پر چلے جانا چاہیے تھا او رجسم قبر میں پڑا رہتا، تاکہ لوگوں پر واضح ہو جاتا کہ” اقنوم ابن“ کا جسم صرف کفارے کے لیے بنایا گیا تھا، ہمیشہ کے لیے نہیں، مگر بائبل کی تعلیمات کے مطابق آپ دوبارہ اسی جسم میں تشریف لائے، شاگردوں سے ملاقات کی اور اسی جسم کے ساتھ آسمانوں پر تشریف لے گئے، ایسا کیوں؟
(اہل کتاب سکرات میں مسیح پر ایمان لاتے ہیں)
﴿وَإِن مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ قَبْلَ مَوْتِہِ﴾․
اس آیت کی تفسیر میں دو طرح کے اقوال منقول ہیں:
لَیُؤْمِنَنَّ ِ کی ضمیر اہل کتاب یہود ونصاری کی طرف لوٹ رہی ہے اور”بہ“ کی ضمیر حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی طرف لوٹ رہی ہے اور ”موتہ“ کی ضمیر اہل کتاب یہود نصار ی کی طرف راجع ہے، اس صورت میں آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہو گا، ہر کتابی خواہ وہ یہودی ہو یا نصرانی اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام پردرست ایمان لے آتا ہے۔ یہ ایمان سکرات کے عالم میں روح کے نکلنے سے پہلے لانا ہے، کیوں کہ موت کا فرشتہ دیکھ لینے کے بعد آخرت کے حجابات اٹھنے لگتے ہیں اور ایسے حقائق کی جھلکیاں مشاہدے میں آتی ہیں، جنہیں انسان پوری زندگی جھٹلاتا رہتا ہے، مگر سکرات میں حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی حقیقت جان کر ان کی رسالت پر ایمان لانا ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا۔ یہ تفسیر حضرت ابن عباس اور حسن، مجاہد اورعکرمہ سے منقول ہے ۔ (احکام القرآن للقرطبی، النساء، ذیل آیت:159)
دوسری تفسیر کے مطابق”موتہ“ میں ضمیر حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف لوٹ رہی ہے او رمفہوم یہ ہے کہ ” ہر کتابی خواہ یہودی ہو یا نصرانی ،وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اُن کی موت سے پہلے پہلے صحیح اعتقاد کے ساتھ ایمان لے آئے گا اور یہ نزول سماوی اور دجال کے قتل کے بعد ہو گا، یہود ونصاری پر آپ کی حقیقت منکشف ہو جائے گی، اس وقت جو کتابی موجود ہو گا وہ آپ پر ایمان لا کر مسلمان ہو جائے گا اور جو ایمان نہیں لائے گا قتل ہو جائے گا“۔ یہ تفسیر قتادہ، ابن زید سے منقول ہے اور طبری نے اسی کو پسند کیا ہے۔
نزول عیسیٰ علیہ السلام پر قرآنی دلالت
مذکورہ بالا دوسرا قول نزول عیسیٰ مسیح پر دلالت کرتا ہے، کیوں کہ آیت کریمہ میں عیسیٰ مسیح کی موت سے پہلے کتاب کے ایمان لانے کی پیش گوئی کی گئی ہے اور اہل اسلام کے نزدیک آپ کو تاحال موت نہیں آئی، زندہ آسمانوں پر اٹھائے گئے اور قرب قیامت میں نزول فرما کر دنیا میں حاکمیت الہٰی کو عملاً نافذ کریں گے، شادی کریں گے اور فوت ہو کر روضہ رسول میں دفن کیے جائیں گے۔
صحیح حدیث سے بھی اس تفسیر کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ایک روایت منقول ہے۔آں حضرت انے فرمایا:” عیسیٰ بن مریم ایک عادل حکم ران بن کر نازل ہو ں گے اور دجال وخنزیر کو قتل کریں گے، صلیب کو توڑ ڈالیں گے او راس وقت عبادت صرف پروردگار عالم کی ہوگی“۔
اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو قرآن کریم کی یہ آیت بھی پڑھ لو:﴿وَإِن مِّنْ أَہْلِ الْکِتَابِ إِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہِ﴾ کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا، مگر یہ کہ وہ ان پر ان کی موت سے پہلے درست اعتقاد کے ساتھ ایمان لے آئے گا۔“ پھر تین بار یہ الفاظ دہرائے” عیسیٰ کی موت سے پہلے۔“
آیت مذکورہ کی تفسیر صحیح روایت سے ثابت ہے، جس میں ”قبل موتہ“ سے مراد ”قبل موت عیسی“ (علیہ السلام) قرار دیا گیا ہے، اس حدیث نے آیت کا مفہوم واضح طور پر متعین کر دیا ہے کہ یہ آیت قرب قیامت میں حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق نازل ہونے کے بارے میں ہے۔
اس کی تائید صورت زخرف کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے:﴿وَإِنَّہُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِہَا وَاتَّبِعُونِ﴾․(زخرف،آیت:61)
” یعنی عیسٰی علیہ السلام قیامت کی ایک نشانی ہیں، پس تم قیامت کے آنے میں شک مت کرو اور میرا کہا مانو“۔مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے یہاں پر لکھا ہے کہ ”إنہ“ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے اور معنی یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام قیامت کی ایک علامت ہیں، پس اس سے معلوم ہوا آپ کا نزول قرب قیامت میں ہو گا۔ حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:”خروج عیسی قبل یوم القیامة“۔(تفسیر ابن کثیر، الزخرف، ذیل آیت:61)
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ نے جو تفسیر سورت نساء کی آیت کی ہے اور عبدالله بن عباس رضی الله عنہ جو تفسیر سورت زخرف کی آیت کی ہے دونوں کو ملا لیا جائے تو یہ دونوں آیات نزول عیسیٰ علیہ السلام پر یقینی دلالت کرتی ہیں، علاوہ ازیں احادیث متواترہ آپ کے نزول پر موجود ہیں، جنہیں مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ الله نے جمع فرمایا ہے جن کی تعداد سو سے زیادہ ہے۔ یہ مجموعہ ”التصریح بما تواتر فی نزول المسیح“ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔(جاری)