قدرت کی فیاضیاں کبھی کبھی کہیں کہیں اس قدر نظر آتی ہیں کہ بے اختیار اس سرزمین اور اُس علاقہ کی تقدیر پر رشک ہونے لگتا ہے، کیا آپ حجاز مقدس کے تقدس سے نظریں چر اسکتے ہیں؟ کیا مصر و شام کے تقدس کی قسمیں کھانے والا حانث ہو سکتا ہے؟ کیا کوفہ اور بصرہ والوں کی تقدیر اس لائق نہیں ہے کہ انھیں جھولیاں بھر بھر کر مبارک باد پیش کی جائے؟ کیا ماوراء النہر کے علاقے ، اصفہان اور بخارا کے خطے، بغداد اور رے کے سبزہ زار اس لائق نہیں ہیں کہ آپ وہیں کے ہور ہیں؟ دور کیوں جائیں اسی بھارت میں دیکھ ،لیجیے شیر از ہند کی زرخیزی، اعظم گڑھ کی شادابی ، دوآبہ کے سبزہ زار، دہلی ودیوبند کی علمی کھیتیاں کیا اس لائق نہیں ہیں کہ آپ یہاں پر لنگر انداز ہو جائیں؟ یہاں کی نور ونکہت اور یہاں کی علمی کہکشاؤں میں رہ کر اپنے دل کی دنیا روشن اور فکر کی کھیتی سیراب کریں؟ جی ہاں! دیو بند شہر اب بھی کوئی خاص ترقی پر نہیں ہے، نہ اس کا نام اچھا ہے ،نہ ہی یہاں کوئی قابل ذکر صنعت ہے، یہاں کا کوئی مخصوص کاروبار بھی نہیں ہے ، یہاں کا پورا نظام بس اُم المدارس دار العلوم کے گرد گھومتا ہے ، طلبہ کی چہل پہل سے یہاں ہلچل ہے، علماء کی آمد ورفت سے یہاں کے کاروبار میں رونق ہے، جوں جوں طلبہ بڑھتے جاتے ہیں دیو بند کی آب و تاب میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ، بازاران کی وجہ سے زندہ ہیں، مارکیٹیں انھوں نے ہی بسائی اور جمائی ہوئی ہیں، دیو بند کا تمام تر روزگاران ہی خانہ بدوش مہمانان رسول(صلی الله علیہ وسلم) کا مرہون منت ہے، چناں چہ یہ آب و تاب اور یہ رونق شعبان کے جاتے جاتے ختم ہی ہو جاتی ہے، بہتوں کا کاروبار منجمد ہو جاتا ہے، کتب خانے اپنا نظام الاوقات تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، ہوٹل والے ہوٹلوں کو مقفل کرنا شروع کر دیتے ہیں، رکشہ والے بور یہ بستر سمیٹ لیتے ہیں ، جود کا ن دار کل تک کسی کے سلام کا جواب دینے کی فرصت اور پوزیشن میں نہیں تھے، آج وہ ہر جگہ فرشی سلام کرتے نظر آتے ہیں ۔ سچ کہوں تو دیو بند کو دار العلوم سے شناخت اور پہچان ہے اور دارالعلوم کو دیو بند سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہے۔
اب آتے ہیں مقصد اصلی کی طرف، یہ دیو بند ا تنا خوش بخت وخوش نصیب ہے کہ یہاں ہر دور میں جبال علم اور ماہرین علوم پیدا ہوتے رہے ہیں، یہاں دین کی وہ کھیتی ہوتی ہے جس کی رونق سے عالم منور ہے، یہاں دین کا ہر شعبہ زندہ و تابندہ ہے، یہاں اسلام کی کہکشائیں روشن و منور ہیں، یہاں شریعت کی آبشار یں بہتی ہیں، یہاں طریقت کے دجلہ و فرات کبھی خشک نہیں ہوئے ، یہاں کتابوں کی بڑی منڈی ہے، یہاں طباعت اوراشاعت کا کام نصف النہار پر ہے، یہاں دنیا بھر کا عالی دماغ مل جائے گا، اس نے یورپ کو پورب سے ملانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ، یہاں آپ کو ہر میدان میں سیری اور آسودگی مل سکتی ہے، یہاں پہنچ کر ہروارد وصادر واپسی کا نظام بھول جاتا ہے ، یہاں کی مٹی میں بڑی کشش ہے ،اسی کشش کا نتیجہ ہے کہ آج دیو بند میں دیو بندی چراغ لے کر تلاش کرنے پڑتے ہیں، یہاں گل ہائے رنگا رنگ سے چمن کو زینت ہے، اسی چمنستان کا ایک پھول اور اسی سیارے اور کہکشاں کا ایک ستارہ محترم مولانا ندیم الواجدی بھی تھے، جو خالص دیو بندی ہیں، دیو بندی ان کا مسلک بھی تھا اور دیو بند ان کا وطن بھی، دیو بندی ان کی شناخت اور پہچان بن گئی تھی ، دیو بند نے انھیں بہت کچھ دیا اور نتیجہ کے طور پر انھوں نے بھی دیو بند کو بہت کچھ دیا ، انھوں نے شان دار درسی وغیر درسی تصنیفات دیں، انہوں نے عربی علوم وادب کا ایک نظام دیا ، انھوں نے نادر ونایاب کتابوں کے سلیس اور معیاری ترجمے دیے، انہوں نے دنیا کو معیاری کتابیں دیں، معیاری رسالہ دیا، بچیوں کا معیاری ادارہ دیا ، کتابوں کا تجارتی مرکز دیا ، دارالعلوم دیو بند کی شان دار تر جمانی کی، دیوبندیت کی ترویج واشاعت میں اپنا خون جگر بہا یا، فقہی سیمیناروں میں انھوں نے در کفے جام شریعت کا مظاہرہ کیا تو طریقت میں سندان عشق اٹھائے نظر آئے ، وہ بڑوں کے شاگر در شید تھے تو بڑوں کے خلف الرشید بھی ، وہ بڑوں کے منظور نظر تھے تو بڑوں کے خلیفہ و مجاز بھی ، وہ ہر میدان اور ہر معرکے کو سرکیے ہوئے ہونہار عالم دین تھے جن پر ان کے معاصرین ہی کو نہیں، ان کے بڑوں کو بھی نہ صرف کامل یقین واعتماد تھا، بلکہ کبھی کبھی اپنے بڑوں کی نمائندگی کرتے اور ان کی دعاؤں سے مالا مال ہوتے دنیا نے دیکھا۔
وہ حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی کے جرعہ نوش تھے، وہ مولانا کیرانوی کی درس گاہ علم و ادب کے خوشہ چین تھے ،وہ ان خوش نصیبوں میں شامل تھے جنھوں نے مولانا وحید الزماں سے شرف تلمذ حاصل نہیں کیا، بلکہ استاذ محترم کو گو یا جذب کر لیا ، یہ خوبی اور یہ صفت بڑی مشکل سے حاصل ہو پاتی ہے ، یہ درک اور یہ کمال تب حاصل ہو پاتا ہے جب انسان مٹی میں ملنے اور مل کر پرورش پانے والے تخم اور بیچ کے مانند ہو جاتا ہے، تبھی تو نئے بال و پر نکلتے ہیں، تبھی تو نئے لالہ وگل کھلتے ہیں۔ سچ کہوں تو اساتذہ تو ہر کسی کے بے شمار ہوتے ہیں، لیکن فائدہ سب سے یکساں حاصل نہیں ہوتا ، اساتذہ کی مثال شجر سایہ دار کی سی ہوتی ہے ، بعض درختوں کا سایہ بہت گھنا ہوتا ہے تو بہت سے درختوں کا سایہ دور دور ہونے کی وجہ سے دھوپ چھن چھن کر پہنچ جاتی ہے۔
حضرت مولانا ندیم الواجدی کا کمال یہ ہے کہ وہ دارالکتاب جیسے تجارتی اور اشاعتی ادارہ میں اکثر و بیش تر رہنے کے باوجود اپنے وجود باجود سے علمی دنیا کو قائل رکھا ، ان کی بہت سی کتابیں درس نظامی میں شامل ہو کر زندہ و جاوید بن گئیں ، ان کی تقریریں بڑی پر مغز ہوا کرتی تھیں، ان کی تحریریں اس لائق ہوتی تھیں کہ صدق اور صداقت کی مہر لگا دی جائے ۔ ان کے اخباری بیانات اور ان کے اداریے بھی بڑے خاصے کی چیز ہوا کرتے تھے ، وہ تیز قلم، تیز فہم اور تیزسخن تھے ، ان کی نرم وشیریں زبان ، ان کا فیاضی اور ضیافی کا مزاج ، ان کا اخلاقی پہلو اور ان کی شرافت نسبی و حسی یہ ساری دولتیں انھیں اللہ تعالیٰ نے اس قدر نوازی تھیں کہ آج جب سوچتا ہوں کہ مولانا کیا تھے؟ تو جواب ملتا ہے مولانا کیا نہیں تھے؟!
آہ!آپ نے پوری زندگی قاسم وانور کے چکرلگائے، ہمیشہ فاتحہ خوانی کی سعادت حاصل کی ، دیار قاسم میں دفن ہونے کی تمنائیں کیں، لیکن قدرت نے دیو بند سے بارہ ہزار کلومیٹر دور شکاگو (امریکا ) میں آپ کے لیے دوگز زمین طے فرمادی تھی، چناں چہ اسباب کے درجہ میں آپ علاج کے عنوان اور نیت سے امریکا پہنچے، طبی امداد بھی بہم پہنچی ، ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں قلب کا آپریشن بھی ہوا ،لیکن یہ علاج و معالجے الہٰی فیصلوں کے آگے کوئی وقعت اور اہمیت نہیں رکھتے ، ہوتا وہی ہے جو اس کو منظور ہے۔
اللہ تعالیٰ کا بلاوا آ گیا اور اس طرح آپ کی جان نے قفس عنصری کو خیر باد کہہ دیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون․