تمام مخلوقات میں انسان کی تربیت سب سے زیادہ ضروری ہے، کیوں کہ انسان ہی روئے زمین کا واحد فرد ہے جس پر زمین کی صلاح وفساد کا انحصار ہے۔ اس انسان کو الله نے ارادہ واختیار کا مالک بنا کر، دیگر تمام مخلوقات سے ممتاز بنایا او راُس کو خیر وشر، نیکی وبھلائی کی راہ دکھانے کے لیے کتاب بھی دی او رانبیائے کرام علیہم السلام کا سلسلہ بھی جاری کیا۔ جو آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر ختم ہو گیا۔ انسان کی نسلوں کو اسی اعتبار سے تربیت کے لمبے عرصہ او رمرحلوں سے گزارنے کی تلقین او رتعلیم تمام ادیان اور تہذیبوں میں ملتی ہے۔ کیوں کہ اس انسان کے اعمال پر اس دنیا میں امن یا فساد، نیکی یا برائی، محبت یا نفرت کا دار ومدار ہے۔ انسانوں کے لیے الله کی طرف سے ازلی ابدی سلسلہ ہدایت کی آخری کڑی قرآن پاک ہے اور حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے ذریعہ اس عظیم ذمہ داری کی اہمیت او راس کے طریقہ کار کے لیے راہ نمائی فرمائی کہ انسان کس طرح اپنی آنے والی نسلوں کوخود ان کے لیے اور تمام انسانیت کے لیے مفید اور باعث خیر بنائے۔ اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات پر ایک سرسری نظر بھی ڈالیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ نئی نسل کی پرورش اور تربیت وتعلیم کے لیے ربّ کائنات نے اپنے بندوں کو کتنا آمادہ کیا ہے۔ بعض علماء نے اس لطیف نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ قرآنی تعلیمات کی رو سے تو بچہ کے عالم وجود میں آنے سے پہلے ہی الله نے اس عظیم الشان فریضہ کی ادائیگی کے اہتمام کی تلقین فرمائی ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے جلیل القدر انبیاء علیہم السلام سے اس سلسلہ میں جو دعائیں منقول ہیں، اس میں یہ تلقین کی گئی کہ صرف اولاد کی دعا نہ مانگیں، بلکہ نیک ، قلب سلیم، عظیم حلیم کی دعا مانگیں۔ عام مومنین کو دعا کی تلقین کی گئی کہ یہ دعا مانگیں:
”اے الله ! ہمیں اپنی بیویوں اور اولادوں سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا او رہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا۔“ ( الفرقان:74)
اس سلسلہ میں اگر ہم مزید غور کریں تو ہمیں متعدد ایسی تعلیمات او رترغیبات ملتی ہیں، جن میں ایسے ذرائع اختیار کرنے کو کہا گیا ہے جن کے نتیجہ میں ایک نیک اور خدا شناس وخدا پرست نسل وجود میں آئے۔ نکاح سے قبل ہی اس بات کی ترغیب دی گئی کہ مال وجمال کے بجائے کمال کی بنا پر شریک حیات کا انتخاب کیا جائے۔ پھر نکاح کے موقع پر مبارک باد کے طور پر دی جانے والی دعا میں بھی یہی روح کار فرما ہے، فرمایا گیا کہ دعا کے طور پر ان الفاظ کو ادا کرو:
ترجمہ:” الله تعالیٰ تم دونوں میں برکت عطا فرمائے او رتمہیں خیر پر جمع کرے۔“ اور آگے بڑھیں تو بتایا گیا کہ ہم بستری سے قبل دعا پڑھیں:
ترجمہ:” اے الله! ہم دونوں کو شیطان کی شرارتوں سے محفوظ فرما اوراسے بھی جو اس عمل کے نتیجہ میں وجود میں آئے۔“ ( حدیث بخاری ومسلم)
پھر لقمہ حلال کی تلقین فرمائی گئی اور حرام خون سے پرورش پانے والی اولاد سے کسی خیر وبھلائی کی توقع نہ رکھنے کی بھی وعیدسنائی گئی ہے۔
اس سلسلہ میں مرحلہ وار نئی نسل کی تعلیم وتربیت سے متعلق فرمایا گیا کہ :
∗… اے ایمان والو! اپنے آپ کو او راپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ ( القرآن)
∗… بچوں سے جدا نہ رہو، انہیں اچھے آداب سکھاؤ۔ (حدیث نبوی)
∗…کسی بھی بیٹے کو اپنے والدسے حسن ادب سے بہتر کوئی وراثت نہیں ملتی۔ ( حدیث نبوی)
∗… اپنے بچوں کو ادب سکھاؤ ، پھر انہیں تعلیم دو۔ ( حضرت عمر)
∗…ادب آباؤ اجداد کی طرف سے حاصل ہوتا ہے اور نیکی الله تعالیٰ کی طرف سے۔
∗…اپنے بچوں کو معزز بناؤ او رانہیں عمدہ آداب کی تعلیم دو۔ (امام محمد بن سیرین)
∗… جو شخص بچپن میں اپنے بچوں کو ادب سکھاتا ہے وہ بچہ بڑا ہو کر اس کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے۔
∗… بچپن میں ادب سکھانے کا فائدہ ہے۔ بڑی عمر میں ادب سکھانا ایسا ہے جیسے سوکھی لکڑی کو سیدھا کرنا، وہ ٹوٹ جائے گی، مگر سیدھی نہیں ہوگی۔
∗…جسے والدین ادب نہ سکھائیں اسے زمانہ ادب سکھا دیتا ہے۔
∗… اپنے بچوں کی تین باتوں پر تربیت کرو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی محبت پر اہل بیت کی محبت پر قرآن کریم کی تلاوت پر۔
∗… اپنے بچوں کو تیرا کی او رگھوڑ سواری سکھاؤ۔ ( حدیث نبوی)
∗… علامہ ابن خلدون اس بابت فرماتے ہیں کہ : ” بچوں کو قرآن کی تعلیم دنیا شعائر اسلام میں سے ہے، پھر امت نے ہر دو رمیں اس پر عمل کیا ہے۔“ ( اولا دکی تربیت: قرآن وحدیث کی روشنی میں از احمد خلیل جمعہ)
تربیت اور تعلیم کا سلسلہ جو ماں کی گود سے شروع ہوتا ہے اگلا مرحلہ گھر،مکتب اور پھر معاشرہ کا ماحول ہوتا ہے۔ اگر ہم اس تعلق سے شریعت کی راہ نمائی پر غور کریں کہ کس طرح وہ آداب اور اخلاق سے پر اور بداخلاقی، فحش ومنکرات سے پاک معاشرہ کی تعمیر پر زور دیتا ہے، بلکہ ایسے معاشرہ کی تعمیر کا قیام امت مسلمہ کے اجتماعی مقاصد میں سے ایک اہم مقصد اور فریضہ قرار دیا گیا۔ پھر یہ کام محض ایک ثواب کا کام نہیں، بلکہ ضروری امر قرار دیا گیا۔ یہ اہمیت بالکل فطری ہے، کیوں کہ تمام مخلوقات میں انسان ہی ایسی مخلوق ہے جن کی پیدائش، ذہنی جسمانی نشوونما کا اتنا لمبا عرصہ ہوتا ہے اور اس عرصہ کے ہر مرحلہ میں الگ الگ عوامل نئی نسل کی تربیت وتعلیم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بچپن میں ماں، پھر گھر کا ماحول، پھر اسکول، مکتب اورمعاشرہ اور ذرائع ابلاغ۔ اگر ہم اپنی نئی نسل کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کو اس آیت کی روشنی میں سمجھتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ : ” بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو جہنم کی آگ سے۔“ ( التحریم) تو ہمیں اپنے رویہ کا بے لاگ، منصفانہ جائزہ لینا ہو گا۔ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم او راسماعیل علیہما السلام کی دعا کا ذکر ہے کہ :
ترجمہ:” اے ہمارے رب ! ان لوگوں میں خو دانہیں کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو، جو انہیں تیری آیات سنائے، ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دے او ران کی زندگیاں سنوارے۔“ (البقرہ:34)
اس دعا کی قبولیت پر الله تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
ترجمہ:” درحقیقت اہل ایمان پر الله تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک ایسا پیغمبر اٹھایا ہے جو اس کی آیات انہیں سناتا ہے، ان کی زندگیوں کو سنوارتا ہے او ران کو کتاب ودانائی کی تعلیم دیتا ہے۔“ ( آل عمران:164)
یہی مضمون سورة الجمعہ آیت 2 میں بھی وارد ہوا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آج ہم نے اپنی نئی نسل کی تربیت وتعلیم کا کام کسے سونپ رکھا ہے؟ ماؤں کے معمولات ومشغولیات کیا ہیں؟ خود انہیں دین او راپنی ذمہ داری کا کتنا شعور ہے؟ گھروں میںT.V اور Cable کی بدولت کیا ماحول ہے؟ اسکولوں میں استانیوں کے حالات او رنصاب کیسے ہیں اور سب سے بڑھ کر معاشرہ میں شیطانی طاقتوں، بے حیائی، بد تمیزی، بے ادبی (آزادی) اور بے انصافی کا کیا ماحول ہے؟ اب ایسے میں بویاپیٹر ببول کا تو آم کہاں سے پائے؟ کے علاوہ ہم کس نتیجہ کے مستحق ہیں؟ کل ملا کر مادّہ پرستی اور آخرت فراموشی وخدا بے زاری کا جو ماحول ہے وہ ہم پہلے دن سے ہی بچہ کے شعور ولاشعور میں بٹھاتے ہیں اور صرف بڑا آدمی ”ڈاکٹر، انجینئر“(کام یاب) آدمی بننے کی منزل اور مراد اس کے سامنے رکھتے ہیں، حالاں کہ اس میں تھوڑی سی تبدیلی ہم اگر اپنی فکر میں کرکے اسے قرآنی بنالیں اور ” نیک بڑا آدمی، نیک ڈاکٹر، نیک کام یاب آدمی“ کی خواہش خود بھی کریں اور نئی نسل کے سامنے بھی اسی کو حاصل کرنے کی منزل بنائیں تو ہمارا رویہ بھی بدلے گا اور اولاد کا بھی اور پورے معاشرہ میں تبدیلی بھی آئے گی اور آج Generation gap نسلوں کے درمیان فاصلہ کا جو مسئلہ ہے وہ بھی بخوبی حل ہو سکے گا۔ یہ مسئلہ جتنا اہم ہے اس کے تقاضے بھی اتنے ہی سنگین ہیں او رہماری اوّلین ترجیح میں شامل ہونے ضروری ہیں۔ دنیا بھر میں آج کل جو فکری، اخلاقی، اعمالی گم راہی عام ہے اُس کے باعث کام دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے اور طرہ یہ کہ آج کی غالب تہذیب آزادی اور ”کام یابی“ کے نام پر جو بے لگامی اور بد تمیزی او راخلاق واصول کی پامالی کا سبق دن رات پڑھا رہی ہے اس کے خطرناک،تکلیف دہ نتائج بھی ہم کو ہی بھگتنے ہوتے ہیں۔
نئی نسل کی ذہن سازی اور کردار سازی پیدائش کے وقت سے ہی نومولود کے ایک کان میں تکبیر اور دوسرے میں اقامت کے ذریعہ شروع ہو جاتی ہے۔ اُس کے لیے کوئی بھی لمحہ سیکھنے کے عمل سے، چاہے وہ شعوری ہو یا لاشعوری، خالی نہیں رہتا۔ اس لیے ہر وقت اور ہر لمحہ میں چوکنا رہنا ضروری ہے۔ توجہ طلب یہ ہے کہ موسم گرما کی تعطیلات قریب ہیں، کچھ مہینوں بعد موسم سرما کی تعطیلات کا زمانہ آئے گا۔ سکول وکالج کے طلبہ کے لیے اس فرصت کا بہترین استعمال دینی دنیاوی کام یابی کے لیے کیسے ہو سکتا ہے، اس پر غو رکرنا او رعمل کرنا بہت مفید رہے گا یوں تو ملک کے طول وعرض میں اس طرح کا تجربہ عرصہ سے جاری ہے اورمغربی ممالک میں تو نئی نسل میں دین کی منتقلی کا کام اسی نظام کامرہون منت ہے۔ جس کے تحت وہ شبینہ کلاسیز یا ” تعطیلاتی کورسز“ کا اہتمام کرتے ہیں۔ درج ذیل میں اس کا ایک بنیادی خاکہ پیش خدمت ہے، اپنے تجربات اور ضروریات کی روشنی میں اس میں حذف واضافہ کیا جاسکتا ہے:
1… دینیات: قرآن ناظرہ کی ابتدا یا اس کی تصحیح، کم سے کم عم پارہ کی آخری 20 سورتوں کا ترجمہ وتفسیر۔
2… ایمانیات: ایمان مجمل ومفصل، مسائل طہارت ووضو، روز مرہ کے حرام وحلال کے مسائل۔
3… نماز: مسائل واذکار نماز۔
4… تاریخ اسلام: اشاعت اسلام اور اسلامی تہذیب وعلوم فنون کی مختصر تاریخ ، نیر اسلام پر اعتراضات کے جوابات۔
5… اردو۔
6… اسلامی آداب۔
7… معلومات عامہ، اسلامی معلومات عامہ۔
کبھی کبھار( مہینہ میں ایک یا دو لیکچر) شخصیت کے ارتقا Personality Devlopment اور تعلیمی وپیشہ وارنہ راہ نمائی Educational Career Guidance کے لیے مختص کرنا بھی بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ مختلف موضوعات پر شرکا کی فی البدیہہ تقاریر سے بہت دل چسپی پیدا ہوتی ہے۔ ان تمام موضوعات پر مفید او رمختصر کتابیں موجود ہیں، جن سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی اس تاکیدی حدیث پر بات ختم کرتا ہوں کہ:”تم میں ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔“ اس سوال کے جواب کی تیاری کا زمانہ ابھی ہی ہے۔