نئی نسل کدھر جا رہی ہے؟

idara letterhead universal2c

نئی نسل کدھر جا رہی ہے؟

مولانا سید احمد ومیض ندوی

کسی بھی قوم کی سرخ روئی اور سر بلندی کا سہرا اس کی نئی نسل اور نوجوانوں کے سر جاتا ہے، جس قوم کے نوجوان اعلیٰ کردار اور بلند اخلاق کے حامل اور مذہبی اقدار کے محافظ و پاسبان ہوتے ہیں، کام یابی اس کے قدم چومتی ہے، وہ قوم دنیا میں سرخ رو اور آخرت میں فلاح یاب ہوتی ہے، اس کے برخلاف جس قوم کے نوجوان حیا باختہ، بے لگام خواہشات نفسانی کے اسیر اور اعلیٰ مذہبی روایات سے تہی دامن ہوتے ہیں وہ قوم قعر مذلت میں جا گرتی ہے، نہ صرف وہ آخرت میں رحمت الٰہی سے دور ہوتی ہے ،بلکہ دنیا میں بھی ذلت واد بار اس کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ امت مسلمہ کی موجودہ زبوں حالی اوراس کی ہمہ گیر ذلت و خواری کا ایک بنیادی سبب اس کی نئی نسل کی بے راہ روی اور مسلم نوجوانوں کی دین بیزاری ہے، اس وقت جس تیزی کے ساتھ ہماری نئی نسل بے راہ روی کا شکار ہورہی ہے اسے دیکھ کر بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی تباہی کے سارے سامان اکٹھے کر لیے ہیں، بے حیائی اورفحاشی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ، سیل فون کا آزادانہ استعمال ، شرم وحیا کی ساری حدوں کو توڑ رہا ہے، جو ان لڑکوں سے لے کر کمسن بچوں تک فحاشی کے سیلاب میں بہتے چلے جا رہے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے سیل فون کے عادی ہو چکے ہیں، جو ان رات رات بھر اپنے موبائل پر دنیا بھر کی غلاظتوں میں غوطہ زن رہتے ہیں ،سیل فون کا فتنہ کالجوں میں زیر تعلیم مسلمان بچیوں کی نہ صرف چادر عصمت کو تار تار کر رہا ہے، بلکہ انھیں دین و ایمان کی متاع عزیز سے بھی محروم کر رہا ہے، تعلیم یافتہ مسلم لڑکیوں کے غیر مسلم نوجوانوں کے ساتھ شادی رچانے کے واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں، شاید ہی کوئی مہینہ ایسا گزرتا ہو جس میں کسی نہ کسی مسلم لڑکی کے اپنے غیر مسلم دوست کے ساتھ فرار ہونے کا سانحہ نہ پیش آتا ہو، علاوہ ازیں موبائل پر ویڈیو گیمز کی مشغولی ایک لت کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، مار دھاڑ اور تشدد پر ابھارنے والے ویڈیو گیمز کی نئی نسل اس قدر عادی ہوتی جارہی ہے کہ کسی لمحہ خود کو اس سے دور رکھنا نہیں چاہتی، حتی کہ گھر کے بڑوں کے منع کرنے پر ان کے ساتھ تشدد پر اتر آرہی ہے، ابھی گزشتہ دنوں پیش آئے ایک تازہ واقعہ نے سب کے ہوش اُڑا دیے، کرناٹک کے بیلگام ضلع میں ایک بیٹے نے پب جی گیم کھیلنے سے منع کرنے پر بوڑھے باپ کے تین ٹکڑے کر ڈالے، پب جی اب تک دسیوں جوانوں کی جان لے چکا ہے، بیل گام ضلع کے ککاتی گاؤں میں پب جی گیم کھیلنے سے منع کرنے پر ایک بد نصیب بیٹے نے اپنے ساٹھ سالہ باپ کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، بیشتر ویڈیو گیمز پر تشدد اور قتل و خوں ریزی کے مظہر ہوتے ہیں ، اس قسم کے گیمز نئی نسل میں تیزی کے ساتھ مقبول ہوتے جا رہے ہیں، ایسے گیموں کے عادی نوجوان اپنے روشن مستقبل سے بے خبر ہو کر زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع کرتے نہیں تھکتے ۔

جہاں تک وضع قطع اور لباس وپوشاک کی بات ہے تو اس حوالہ سے ہمارے نوجوان ساری حدوں کو پار کرتے جا رہے ہیں، اسلامی وضع قطع سے بیزاری اور دشمنان اسلام کی نقالی فیشن کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، جب کہ اسلام ایک مستقل دین اور مکمل تہذیب ہے، اس کا اپنا طرز معاشرت اور لباس و وضع قطع کا اپنا نظام ہے، جو سب سے پاکیزہ اور فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہے، اسلام کسی مسلمان کو اس کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ وضع قطع میں دیگر شیطانی تہذیبوں کی نقالی کرے، ہمارے نوجوان سر کے بالوں کی تراش خراش سے لے کر لباس و پوشاک تک ہر معاملہ میں اسلامی وضع قطع چھوڑ کر حیا باختہ تہذیب کو گلے لگا رہے ہیں ، ڈاڑھی خالص مذہبی شے ہے، لیکن ہمارے نوجوان ڈاڑھی کو بھی بطور فیشن اختیار کر رہے ہیں، کوئی فرنچ کٹ ڈاڑھی رکھ رہا ہے تو کوئی مسائد لاکس ڈاڑھی ، جب کبھی کوئی نئی فلم ریلیز ہوتی ہے اور اس میں ادا کار جس انداز کی ڈاڑھی یا بال رکھے ہوتے ہیں بس وہی فیشن بن جاتا ہے، اس وقت نو جوانوں میں عجیب ہیئر اسٹائلس دیکھنے کو مل رہے ہیں، مشروم کٹ (Mashroom Cut)سولجر کٹ(Soldir Cut) اسٹیپ کٹ (Step Cut) ہپی کٹ( Hippy Cut) بے بی کٹ ((Baby Cutراؤنڈ کٹ(Round Cut) اسی طرح کٹورہ کٹنگ کا رواج بھی بہت عام ہے، نو جوان کٹنگ کے نام پر عجیب عجیب تماشے کر رہے ہیں ، سر کے نچلے حصہ کے بال بالکل باریک اور اوپری حصہ کو بالکل چھوڑ دیا جا رہا ہے، بعض نوجوان سروں پر ڈیزائن بھی بنوار ہے ہیں، جدھر دیکھیے نوجوان اپنے سروں کو تماشہ بنائے ہوئے ہیں، جب کہ یہ ساری شکلیں شرعاً درست نہیں ہیں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے سر کے کچھ بال کاٹنے اور کچھ چھوڑے رکھنے سے منع فرمایا ہے، چناں چہ حضرت عبداللہ بن عمررضی الله عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا ہے ۔ ( سنن ابی داؤد) اور قزع اس کو کہتے ہیں کہ سر کے بعض حصہ کے بال کاٹے جائیں اور کچھ حصے کے چھوڑ دیے جائیں۔

اسی طرح نو جوانوں میں اپنے بالوں کو مختلف رنگوں سے رنگنے کا رواج بھی بڑھ رہا ہے، نیز خواتین اور لڑکیاں بھی بطور فیشن اپنے بال کٹوا یا چھوٹے کروار ہی ہیں، خواہ سامنے سے ہو یا دائیں بائیں یا پیچھے کی جانب سے، اسی طرح بعض نوجوان لڑکے لڑکیوں سے مشابہت پیدا کرنے کے لیے سر پر چوٹی کی طرح بال رکھ رہے ہیں، جب کہ کچھ لڑکیاں اپنے بالوں کو کم کر کے لڑکوں سے مشابہت کی کوشش کر رہی ہیں، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے لباس اور وضع قطع میں مردوں کو عورتوں سے اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، ارشاد نبوی ہے:اللہ کی لعنت ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں ۔ ( بخاری شریف ) حضرت علی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے عورتوں کو سر منڈانے سے منع فرمایا ہے۔ (نسائی شریف )عورتوں کو سر منڈانے کی ممانعت کا سبب یہ ہے کہ عورتوں کی زلفیں مردوں کی ڈاڑھی کی طرح ہیں ، صورت وزینت میں جس طرح مردوں کے لیے ڈاڑھی منڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا ممنوع ہے، اسی طرح عورتوں کے سر کے بال کٹوانا شرعا ممنوع ہے۔

کالج میں زیر تعلیم مسلمان بچیاں بری طرح سے تہذیبی ارتداد کا شکار ہو رہی ہیں اور اسلامی تہذیب سے کنارہ کش ہو کر مغربی طور و طریقوں کو گلے لگا رہی ہیں، گھروں سے برقعہ پہن کر نکلا جاتا ہے، جب کہ برقعہ کے اندر جینز پینٹ اور ٹی شرٹ ہوتا ہے، کالج پہنچ کر برقعہ لپیٹ دیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ لباس آدمی پر اپنا اثر چھوڑتا ہے، کالج کے مخلوط ماحول میں مسلم لڑکیوں کا یہ طرز عمل انھیں تباہی کے دہانے پر پہنچارہا ہے، بہت سی بچیاں اپنی بھوؤں کو خوب صورت بنانے کے لیے آئی برو کے ذریعہ آس پاس کے بال تراش کر بھوؤں کو کمان کی طرح باریک کرتی ہیں، ابرو نوچ یا تراش کر باریک سی لکیر بنا لینا یا دونوں بھوؤں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنا خلقت خداوندی میں تبدیلی پیدا کرنا ہے، جو شرعا ًدرست نہیں ، بہت سی لڑکیوں میں وِگ یعنی مصنوعی بالوں کی ٹوپی لگانے کا بھی رواج بڑھ رہا ہے، اس طرح کی ٹوپیاں بعض عارضی ہوتی ہیں اور بعض دائمی ، حدیث شریف کی رو سے دونوں ممنوع ہیں، حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے بال جوڑنے اور جڑوانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (بخاری شریف )جسم پر ٹیٹو بنوانے کا رواج بھی مسلم لڑکوں اور لڑکیوں میں خوب عام ہورہا ہے، کوئی جسم پر پھول وغیرہ کا ڈیزائن بنواتا ہے تو کوئی جان دار کی تصویر بناتا ہے، گال اور ہونٹ پر مصنوعی تل بنانے کا رواج بھی ہمارے نوجوانوں میں خوب عام ہورہا ہے، آرٹیفیشل میل داغ دے کر تل بنائے جاتے ہیں یا سوئی سے سوراخ کر کے سرمہ یا نیل وغیرہ بھر دیا جاتا ہے، یہ سب تغیر خلق اللہ ہے اور ممنوع ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ گودنے والیوں اور گدوانے والیوں ، بالوں کو نوچنے والیوں اور نچوانے والیوں اور خوب صورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں اور اللہ کی خلقت میں تبدیلی کرنے والیوں پر اللہ کی لعنت ہے ۔ (فتح الباری )

بہت سے جوانوں کو دیکھا جا رہا ہے کہ وہ شوقیہ اپنے ہاتھوں میں لوہے یا دوسری دھاتوں کا کڑا ، کالا دھاگا یا زنجیز کے بند پہنے لگے ہیں، ہاتھوں میں کڑایا گلے میں لاکٹ پہنا از قبیل زیورات ہے اور اس کا استعمال مردوں کے لیے درست نہیں۔

ملت اسلامیہ کو در پیش ایک اہم مسئلہ نسل نو میں منشیات کا بڑھتا رجحان ہے، کسی بھی ملت کو ترقی کی منزلوں پر لے جانے کے لیے اصل اثاثہ نوجوان ہوتے ہیں، لیکن یہ ملت کا عظیم سرمایہ منشیات کی بھینٹ چڑھ رہا ہے، اس وقت ہائیڈ روجن بم سے بھی زیادہ اگر کسی چیز کا خطرہ نو جوانوں پر منڈلا رہا ہے تو وہ منشیات اور نشیلی اشیاء ہیں، تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال اب ایک فیشن بنتا جارہا ہے، منشیات کے عادی صرف نوجوان لڑکے ہی نہیں ہیں، بلکہ عصری اداروں میں زیر تعلیم بچیوں کی بڑی تعداد بھی اس لت کا شکار ہے، چند ماہ قبل اخبارات نے حیدر آباد کے ان اسکولوں کی نشان دہی کی تھی جہاں طلبہ کثرت سے منشیات کا استعمال کرتے ہیں، نو جوانوں میں تمباکو، چرس، گانجہ، افیون ، شراب اور جدید قسم کی منشیات عام ہیں، افسوس ہے کہ جن اداروں میں مستقبل کے معمار تیار ہوتے ہیں اور جہاں ملک کا روشن مستقبل پروان چڑھتا ہے، اب وہاں منشیات نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، نوجوان جس تیزی کے ساتھ نشیلی اشیاء کی طرف مائل ہو رہے ہیں اس رجحان سے جہاں ہمارے نوجوانوں کی صحت پر انتہائی مہلک اثرات مرتب ہو رہے ہیں، وہیں ان کی پڑھنے لکھنے اور کام کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہورہی ہے، اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 37کروڑ سے زائد افراد مختلف اقسام کی منشیات استعمال کر رہے ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، عالمی ادارے صحت کے مطابق ہر سال 40 لاکھ افراد منشیات کے استعمال کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اس صورت حال کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ وبا تعلیمی اداروں کو تیزی کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی ہے، دہلی کے اسکولوں کے سروے کے مطابق دس سال سے لے کر14سال کے تقریباً 16فیصد سے زائد بچے کسی نہ کسی نشے کا با ضابطہ طور پر استعمال کرتے ہیں، تازہ ترین خبروں کے مطابق راجیہ سبھا میں سماجی انصاف کے وزیر نے یہ قبول کیا کہ نئی نسل میں نشہ کے استعمال کی بڑھتی ہوئی چلن سے سر کار فکر مند ہے اور اس نے ملک کے 195 اضلاع میں دس سال کی عمر سے لے کر 65 سال کی عمر کے لوگوں میں نشیلی اشیاء کے استعمال کے سلسلے میں سروے کروانے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ اسے روکنے کے لیے سرکار کوئی معقول لائحہ عمل بنا سکے، ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق پنجاب میں22 فیصد، ہریانہ میں 16 فیصد اور دہلی میں 24 فیصد نوجوان نشے کا شکار ہیں، نشے کی لت سے بچوں کی صحت اور تعلیم دونوں متاثر ہو رہے ہیں، حیدر آباد اور اس جیسے بڑے شہروں میں حقہ پارلر کا سلسلہ بھی خوب پنپ رہا ہے، جس میں لڑکے اور لڑکیاں مخلوط ماحول میں بے حیائی کا خوب مظاہرہ کرتے ہیں۔ 

عصر حاضر سے متعلق