میدانِ تیہ، کوہِ طور، وادیِ مقدس اور صحرائے سینا

idara letterhead universal2c

میدانِ تیہ، کوہِ طور، وادیِ مقدس اور صحرائے سینا

مولانا مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

”میدان تیہ“ مصر اور شام کے درمیان ستائیس میل کا ایک وسیع وعریض میدان ہے۔ اسے ”وادی تیہ“ اور ”صحرائے سینا“ بھی کہتے ہیں۔ یہ جزیرہ نمائے سینا کاایک حصہ ہے، مکمل جزیرہ نمائے سینا تقریباً 67 ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ فی الحال یہ خطہ عربی جمہوریہ مصر کا حصہ ہے۔

اس کے شمال میں بحیرہ روم، مغرب میں خلیج سویز اور نہر سویز، مشرق میں فلسطین( غزہ کی پٹی اور اسرائیل) خلیج عقبہ او رجنوب میں بحیرہ احمر ( لال سمندر، بحر قلزم) واقع ہے۔ اسے براعظم افریقہ اور ایشیا کے درمیان لنک سمجھا جاتا ہے، اس وادی سے الله کے برگزیدہ نبی حضرت موسی کلیم الله علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کے بہت سے آثار وابستہ ہیں، اسی میدان میں بنوا سرائیل اپنے نبی حضرت موسیٰ کے ساتھ گستاخانہ اور عدم تعاون کا رویہ اختیا رکرنے کی وجہ سے چالیس سال تک مارے مارے پھرتے رہے ”تیہ“ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں سرگرداں رہنا، گھومتے رہنا۔ تیہ لق ودق بیابان یا ایسے بیابان کو بھی کہتے ہیں جس میں مسافر گم ہو جائے۔

چوں کہ بنی اسرائیل اس میدان میں دن رات چلتے رہتے تھے؛ لیکن اس میدان کو قطع نہیں کر پاتے تھے وہ صبح کوجہاں سے چلنا شروع کرتے شام کو پھر وہیں پہنچ جاتے تھے اور شام کو جہاں سے چلتے تھے صبح وہیں پہنچ جاتے تھے، اس لیے وادی سینا کے اس حصہ کا نام وادی تیہ یا میدان تیہ پڑ گیا۔ الله تعالیٰ نے بنو اسرائیل کی اس کیفیت کی عکاسی کرنے کے لیے ﴿یَتِیہُون﴾ کا جملہ استعمال فرمایا۔

﴿قَالَ فَإِنَّہَا مُحَرَّمَةٌ عَلَیْہِمْ أَرْبَعِینَ سَنَةً یَتِیہُونَ فِی الْأَرْضِ فَلَا تَأْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِینَ﴾․(26)

ترجمہ:(الله تعالیٰ نے) فرمایا: پس چالیس سال تک وہ زمین ان پر حرام ہے، یہ زمین میں بھٹکتے پھریں گے، تو (اے موسیٰ!) آپ ( اس) نافرمان قوم پر افسردہ نہ ہوں۔

اُس وقت یہ وادی ایک چٹیل میدان کی طرح تھی، اس وادی میں نہ کوئی سایہ دار درخت تھا اور نہ ہی کوئی عمارت تھی، ان کے پینے کے لیے نہ تو پانی میسر تھا، نہ کھانے کے لیے کوئی چیز، نہ ضروریات زندگی کے دیگر لوازمات؛ اس بے سروسامانی کے عالم میں حضرت موسی ( علیہ السلام) کو اپنی قوم کی حالت پر بڑا ترس آیا اور بد حالی کو دور کرنے کے لیے رب العالمین سے دعا کی ، ان کی دعا سے ان کے لیے راحت کے سب سامان مہیا ہوگئے۔ الله تعالیٰ نے ان کے دھوپ سے بچاؤ اور سایہ کے حصول کے لیے بادل بطور سائبان نازل فرما دیا، کھانے کے لیے من وسلوی بھیج دیا۔

اسی خطہ میں واقع پہاڑ کو قرآن کریم میں ”طور سینا“ بھی کہا گیا ہے اور ”طورسینین“ بھی۔ اسے ”جبل موسی اور جبل طور“ بھی کہتے ہیں۔ ”سینین“ دراصل جزیرہ نمائے سینا ہی کا دوسرا نام ہے، اب یہ سارا ہی علاقہ ،جس میں کوہ طور واقع ہے، مصر کے قبضہ میں ہے، ”صحرائے سینا“ کے نام سے مشہورو معروف ہے۔ سینین بنیادی طور پر اس خطہ کا نام ہے ؛ البتہ اس کے کئی او رمعانی بھی آتے ہیں، جن میں ” خوب صورت، اچھا، وہ پہاڑ جس پر گھنے یا پھل دار درخت ہوں“ شامل ہیں۔ طور سینین کو سورة المومنون کی، آیت نمبر20 میں طور سینا کہا گیا ہے اور آج کل بھی سیناء کا نام سیناء ہی ہے۔

صحرائے سینا اور کوہ طور یہ دونوں مصر کے ایشیائی حصے میں ہیں، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ آپ اگر زمین کا نقشہ دیکھیں تو آپ کو لال سمندر (بحیرہٴ احمر) غلیل کی وی (V) کی طرح دو حصوں میں بہتا نظر آئے گا، غلیل کی یہ وی درمیان میں مثلث بناتی ہے اور یہ مثلث سینا کہلاتا ہے، مثلث کی نوک پر مصر کا سیاحتی شہر ”شرم الشیخ“ آباد ہے؛ جب کہ اوپری حصہ چار ملکوں اور بحیرہ روم سے جاٹکراتا ہے، وہ چار ملک سعودی عرب اردن فلسطین، اسرائیل او رمصر ہیں۔ حضرت موسی علیہ السلام دو مرتبہ اس مثلث یعنی جزیرہ نمائے سینا میں داخل ہوئے۔ آپ پہلی بار اس وقت سینا میں آئے جب آپ فرعون کے لے پالک صاحب زادے تھے، آپ کی پرورش محل میں ہوئی تھی، آپ فرعون کے وارث بن رہے تھے؛ لیکن پھر ان سے نادانستہ طور پر ایک قبطی قتل ہو گیا اور آپ سزا اور فرعون کے ظلم سے بچنے کے لیے سینا میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ سینا اس وقت فرعون کی سلطنت میں شامل نہیں تھا، حضرت موسی صحرا میں چلتے چلتے مدین پہنچ گئے، دوسری بار جب الله تعالیٰ نے آپ کے ذریعے بنو اسرائیل کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات عطا کی۔

آپ نے بنی اسرائیل کو ساتھ لیا، اپنے عصا سے ”ریڈسی“ کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور بنی اسرائیل کے ساتھ دوبارہ صحرائے سینا میں داخل ہو گئے، جب کہ فرعون اپنی فوج سمیت ریڈسی میں غرق ہو گیا۔ فرعون سے نجات پا کر آپ اپنی امت کے ساتھ کوہ طور کے گرد پناہ گزین ہو گئے۔

سورہٴ تین میں الله تعالیٰ نے طور سینین کی قسم بھی کھائی ہے، ”سینا/سینین“ ایک بلند پہاڑ ہے، جو مصر سے مدین یا مدین سے مصر جاتے ہوئے راستہ میں پڑتا ہے۔ اسی پہاڑ کی ایک چوٹی کا نام ” طور“ ہے۔ اسی پہاڑی پر الله تعالیٰ نے حضرت موسی علیہ السلام کو اپنی وہ تجلی دکھائی تھی جس کے اثر سے حضرت موسی علیہ السلام بے ہوش ہو گئے تھے۔

اس واقعہ کی طرف سورہ اعراف آیت143 میں اشارہ کیا گیا ہے ﴿وَلَمَّا جَاء َ مُوسَیٰ لِمِیقَاتِنَا وَکَلَّمَہُ رَبُّہُ﴾․(143)

ترجمہ:” او رجب موسی ہمارے وعدے کے وقت پر حاضر ہوا اور اس کے رب نے اس سے کلام فرمایا، تو اس نے عرض کی: اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا؛ تاکہ میں تیرا دیدار کر لوں۔ ( الله تعالیٰ نے ) فرمایا: تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا؛ البتہ اس پہاڑ کی طرف دیکھ، یہ اگر اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا، پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنا نور چمکایا تو اسے پاش پاش کر دیا اور موسی بے ہوش ہو کر گر پڑے، پھر جب ہوش آیا تو عرض کی: یا رب! تو پاک ہے، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں او رمیں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔

صورت حال یہ بنی تھی کہ جب حضرت موسی علیہ السلام نے الله تعالیٰ کا کلام سنا؛ تو کلام ربانی کی لذت نے انہیں الله عزوجل کے دیدار کا مشتاق بنا دیا، چناں چہ شدت شوق میں بارگاہ الہٰی میں عرض کی: اے میرے رب! مجھے اپنا جلوہ دکھا دیجیے؛ میں آپ کا دیدار کر لوں۔

الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ’ طور“ کی قسم بھی کھائی او راس نام سے ایک مکمل سورہ بھی اتاری ہے۔ کوہ طور ان مقامات میں سے ہے جنہیں الله تعالیٰ نے خصوصی تقدس عطا فرمایا ہے۔

متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ طور سینا میں مختلف واقعات رونما ہوئے ہیں؛ جن میں حضرت موسی علیہ السلام کا الله تعالیٰ سے ہم کلام ہونا، چالیس دن کا میقات، بنی اسرائیل کے 70 لوگوں کے ساتھ میقات پر جانا اورحضرت موسی علیہ السلام کی وفات شامل ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت موسی علیہ السلام کی وفات اردن میں ”کوہِ نبو“ کے دامن میں ہوئی۔ اسی پہاڑ کے دامن میں ایک وادی ہے، جس کا نام ”طویٰ“ ہے، جسے قرآن میں وادی مقدس اور البقعة المبارکہ بھی کہا گیا ہے۔ اسی مقام پر موسیٰ علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی اور دو دفعہ الله تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔

قرآن میں اس کا ذکر دو جگہ ہے۔ سورہ 20 آیت 12 میں فرمایا: بے شک میں ہی تمہارا رب ہوں، سو تم اپنے جوتے اتار دو، بے شک تم طویٰ کی مقدس وادی میں ہو۔

اسی طرح سورہ79 آیت16 میں فرمایا: جب ان کے رب نے طویٰ کی مقدس وادی میں انہیں پکارا تھا۔ کوہِ طور پر حضرت موسی علیہ السلام دومرتبہ گئے تھے۔ پہلا واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب موسی علیہ السلام وادی مقدس میں آگ کی تلاش میں تھے اور وادی میں چمکنے والا شعلہ دراصل خدا کے وجود کا نشان تھا۔ اس وقت موسی علیہ السلام کو خدا سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا او رانہیں خدا کی طرف سے معجزات عطا کیے گئے۔ اس واقعے کا تلمیحی استعمال ان مرکبات سے ہوا ہے۔ وادی ایمن ، شجر ایمن، آگ، وادیِ مقدس، شعلہ سینا وغیرہ۔ دوسرا واقعہ اس وقت پیش آیا جب موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو فرعون کے قہر سے نجات دلا کر وادی سینا میں قیام کیا۔ اس وقت موسی علیہ السلام کو بنوا سرائیل کی ہدایت وراہ نمائی کے لیے شریعت عطا کرنے کے لیے کوہ طور پر بلایا گیا۔ شروع میں انہیں تیس راتوں کے لیے بلایا گیا تھا ،بعد میں دس راتوں کااور اضافہ کر دیا گیا۔ جب موسی علیہ السلام کے چالیس دن پورے ہوئے تو انہیں شریعت عطا کی گئی او رالله تعالیٰ سے باتیں کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ موسی علیہ السلام کو الله تعالیٰ کے دیدار کا شوق ہوا، انہوں نے درخواست کی، موسی علیہ السلام کے جواب میں الله تعالیٰ نے کہا: ﴿لن ترانی﴾تم مجھ کو ہر گز نہیں دیکھ سکتے۔ ہم اپنی تجلی کا ظہور اس پہاڑ پر کریں گے، اگر یہ اپنی جگہ برقرار رہا تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے، چناں چہ الله تعالیٰ نے کوہ ِ طور پر اپنی تجلی کا ظہور کیا، وہ پہاڑ تجلی کو برداشت نہ کرسکا اورپارہ پارہ ہو گیا۔ موسی بھی بے ہوش ہو کر گر پڑے او راپنی عاجزی کا اعتراف کیا۔ اس واقعہ کا تلمیحی استعمال شعر وادب میں اس کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے کثرت سے ہوا ہے۔

بنی اسرائیل کے حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ گستاخانہ رویہ کی تفصیل یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے اپنی قوم کو لے کر نکلے تو فرعون او راس کی فوج نے آپ کا تعاقب کیا، الله تعالیٰ نے فرعونیوں کو سمندر میں غرق کر دیا اور موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو نجات عطا فرمائی۔ حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم بنو اسرائیل کے ساتھ سمندر عبور کرکے بحکم الہٰی صحرائے سینا میں ٹھہرے، وہیں آپ علیہ السلام کو الله رب العالمین کی طرف سے کوہِ طور پر بلایا گیا اور کتاب ہدایت ”تورات“ عطا کی گئی۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ آپ اپنی قوم بنی اسرائیل کے ساتھ فلسطین میں آباد مشرک او رکافر قوم ( جو فلسطی کہلاتے تھے) کے ساتھ جہاد کرکے انہیں وہاں سے نکال دیں او راپنی قوم کے ساتھ اس مقدس شہر میں داخل ہو جائیں اور وہیں مستقل بودوباش اختیار کریں، کیوں کہ یہ ارض مقدس آپ کے لیے الله کی طرف سے موعود ہے۔

ان کے جدا مجد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسحاق اورحضرت یعقوب علیہما السلام کا تعلق اس خطہ سے تھا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے زمانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کی وساطت سے بنی اسرائیل مصر میں منتقل ہوئے۔ پھر جب حضرت موسی علیہ السلام انہیں مصر سے لے کر نکلے توانہیں حکم ہوا کہ اب جاؤ اپنے اصل گھر ( ارضِ فلسطین) کو دوبارہ حاصل کرو؛ لیکن جب جنگ کا موقع آیا تو پوری قوم نے کوراجواب دے دیا کہ ہم جنگ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس کم ہمتی کی وجہ سے سے انہیں وادی تیہ میں بھٹکنا پڑا۔

چالیس سال تک صحرائے سینا میں بھٹکتے رہے، یہاں تک کہ ان کے وجود سے چار سو سال کی غلامی کے اثرات ختم ہو گئے اور وہ ایک نارمل اور آزاد انسان اور آزاد قوم بن گئے، الله تعالیٰ نے ان کی سن لی، انہیں صحرا سے نکلنے کا راستہ مل گیا، اس کے بعد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے عہدِ خلافت میں بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلسطین فتح سکیں۔

متعدد آیات کی تفسیر میں میدان تیہ، کوہ طور، وادی مقدس اور جزیرہ نمائے سینا کی تفصیلات متعدد مورخین و مفسرین واہل جغرافیہ نے لکھی ہے۔ ان سب کا خلاصہ پیش کیا گیا، وبالله التوفیق!

مقالات و مضامین سے متعلق