خطبہ مسنونہ اور سلام کے بعد عرض کرنا یہ ہے کہ طلبہ کرام جو آج علمائے کرام بن رہے ہیں اور آج ان کے سروں پر دستار فضیلت ان شا ء الله رکھی جائے گی، ان سے پانچ باتیں میں نے انگلیوں پر شمار کرکے کرنی ہیں۔
پہلی بات… میرے استاد محترم مولانا ریاست علی بجنوری صاحب رحمة الله علیہ ( جن سے اس فقیر نے ابن ماجہ شریف کا سبق پڑھا) نے بالکل آخری الوداعی ملاقات میں فقیر سے فرمایا کہ مولوی صاحب! ایک بات ذہن میں رکھنا! آپ جس معاشرے میں چلے جاؤ، اپنے آپ کو اس معاشرے اور ماحول کے لیینافع اور مفید بنانے کی کوشش کرو، آپ کی نافعیت وافادیت معاشرہ کے لیے جس قدر بڑھتی جائے گی اس قدر آپ کی عزت، عظمت، مقبولیت او رمحبوبیت بڑھتی چلی جائے گی، آپ کی نافعیت جس قدر کم ہوتی جائے گی لوگوں کے دلوں میں آپ کی عزت، قدرواحترام اتناہی کم ہوتا چلا جائے گا۔ آپ کو اپنی عزت اور بے عزتی کا اصول ہم نے بتا دیا۔ ایک بات کا خیال تو آپ نے یہ رکھنا ہے۔
دوسری چار باتیں جو میں حضرات صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین کی سیرت سے استفادہ کرکے پیش کرتا ہوں، آپ نے اپنی ذمہ دارانہ زندگی میں ان چارباتوں کا خیال رکھنا ہے۔
پہلی بات: محنت، دوسری بات: دیانت داری، تیسری بات: صبر، چوتھی بات: حسن اخلاق۔
آپ نے کبھی بھی محنت سے جی نہیں چرانا ہے۔ ہم نے اپنے اساتذہ کو دیکھا، بارش ہو یا طوفان، کبھی بھی انہوں نے سبق کا ناغہ نہیں کیا۔ ماضی قریب میں میرے استاد محترم شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا سعید احمد صاحب پالن پوری کو میں نے اپنی آنکھوں سے اسی طریقہ سے دیکھا، حضرت صبح بھی ترمذی شریف کا سبق پڑھاتے تھے او رمغرب کے بعد بھی، کبھی ناغہ نہیں کیا، تو محنت سے جی نہیں چرانا ہے۔
دیانت داری سے کام کرنا ہے۔ تیسری چیز: صبر وتحمل سے کام لینا ہے، صبر وتحمل کرنے والا شخص براہ راست الله رب العزت کی مدد حاصل کرتا ہے، او رالله نے خود فرمایا ہے کہ میں صبر کرنے والے کے ساتھ ہوں:﴿اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾․( البقرة:153)
چوتھی بات: حسن اخلاق سے آپ نے ہر اس شخص کے سامنے آنا ہے جو آپ سے کوئی بھی برتاؤ کرنے کے لیے آرہا ہو۔
حضرت مفکر اسلام ابو الحسن علی الندوی رحمة الله علیہ نے اپنی کتاب ” دریائے کابل سے دریائے یرموک تک“ میں لکھا ہے کہ ” جب کہ میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، اس وقت چائنا کے اندر سات کروڑ مسلمان ہیں“ میرا اندازہ ہے کہ اس کتاب کو لکھے ہوئے حضرت کے قلم سے کم وبیش ساٹھ سے ستر سال کا عرصہ گزر چکا ہو گا، حضرت نے لکھا ہے کہ ” سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ میں سے سات عدد صحابہ کرام تاجروں کی شکل میں چائنا آئے تھے، انہوں نے اپنی زندگی میں ان چار اصولوں کو عملاً اپنایا، خوب محنت اور دیانت داری سے کام کرتے تھے، صبر وتحمل سے کام لے کر گاہک کی کسی بات پر ناگواری کا اظہار نہیں فرماتے تھے، بلکہ حسن اخلاق سے پیش آتے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے سے عرصہ میں ان کا کاروبار خوب بڑھا، چائنا کے تاجروں نے جاکر بادشاہ سے شکایت کی کہ ان عرب تاجروں کو نکال دیں، ورنہ پوری معیشت پر مسلمان عرب قابض ہو جائیں گے، چناں چہ بادشاہ نے کھلی کچہری بلائی، عوام کا بہت بڑا ہجوم جمع کیا، عرب تاجروں یعنی صحابہ کرام کو بلایا او راپنے تاجروں کو بھی بلایا، جو شکوہ کرنے والے تھے، بادشاہ نے عوام سے پوچھاکہ آپ کن لوگوں کے ساتھ کاروبار کرنے کو پسند کرتے ہو؟ تمام لوگوں نے کہا کہ ہم عربوں سے کاروبار کرنا پسند کرتے ہیں، بادشاہ نے سبب پوچھا، تو انہوں نے یہی چا رباتیں بتائیں کہ صاحب! عرب لوگ محنتی ہیں، ہمیں صبح بھی کسی چیز کی ضرورت پڑ جاتی ہے، تو ہمیں اپنی چیز مل جاتی ہے، جب کہ ہمارے تاجر دیر سے دکانیں کھولتے ہیں، دیانت داری ان میں پائی جاتی ہے، صبر وتحمل عربوں کے اندر ہے، ہمارے تاجروں کے اندر صبر وتحمل نہیں ہے، دو اور دو چار، ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں، چوتھی بات یہ کہ ان میں حسن اخلاق ہیں، بڑی میٹھی، شیریں زبان سے بات کرتے ہیں، اس لیے ہمارے دل ان کی طرف مائل ہیں او رہم ان سے کاروبار کرنا پسند کرتے ہیں۔
میرے محترم بزرگو اور دوستو! یہ چار باتیں صحابہ کرام نے تجارت کے اند ر اپنائی، لیکن ان اصولوں کے ذریعے وہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کی محبت اس طریقے سے پھیلاگئے کہ حضرت لکھتے ہیں کہ ” جس وقت میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں، اس وقت چائنا کے اندر سات کروڑ مسلمان ہیں، کل قیامت کے دن صحابہ کرام جب میدان حشر میں آئیں گے، تو ایک صحابی کے کھاتہ میں ایک کروڑ مسلمان ہوں گے، یہ ہے محبت فاتح عالم!“
میرے محترم دوستو اور ہونہار طلبہ ساتھیو! میں نے بہت غور کیا، یہ چار باتیں صرف کسی عالم کے لیے نہیں، بلکہ ہر اس شخص کے لیے کار آمد ہیں جو کسی بھی طرح کی ذمہ داری نبھاتا ہو او رکسی بھی طرح کے منصب پر فائز ہو۔
تو میں اپنے طلبہ سے عرض کروں گا کہ ان چار باتوں کو اپنی عملی زندگی میں اپنائیں، الله تبارک وتعالیٰ آپ کو ترقیات سے نوازیں گے، میں تو کہتا ہوں کہ اگر آج ابو الحسن علی ندوی رحمة الله علیہ زندہ ہوتے توان کو پتہ چلتا کہ آج چائنا کے اندر مسلمانوں کی آبادی پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ ہے، ان کی تعداد تقریباً35 کروڑ ہے۔
میرے محترم دوستو اور حاضرین وسامعین! عرض یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کے اندر ان زریں نصیحتوں کو اپنائیں او راپنی زندگی کو معاشرے کے لیے نافع اور مفید بنائیں۔
میں آپ سے کہوں گا کہ آپ اپنا عملی سفر مکمل کرنے کے بعد غافل نہ رہیں، بلکہ ضرور کسی نہ کسی صاحب نسبت بزرگ سے، الله والے سے ضرور اپنا تعلق قائم کریں، اپنی آنکھوں سے میں دیکھ آیا ہوں، ماضی قریب میں رات کا وقت ہے، دارالعلوم دیوبند کے گیٹ پر جو پہرہ دار، پہرہ داری کر رہا ہے، اس کا مصلیٰ بچھا ہوا ہے، اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، دارالعلوم دیوبند کا وہ فیض تھا وہ حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کے ذریعے او ران کے سلسلے سے چلتے چلتے یہاں تک او رپوری دنیا کے اندر شرق وغرب اور شمالی وجنوب پھیلا ہے اور پھیل رہا ہے، اسی دارالعلوم دیوبند کی نسبتوں کے آپ بھی امین ہیں، آپ سے یہی عرض کروں گا کہ آپ اپنی عملی زندگی میں کسی نہ کسی الله والے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں، ضرور بضرور کسی الله والے کے ہاتھ میں ہاتھ دیں #
مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد