برصغیر ہند کی سر زمین میں، جس کو ایک بالغ نظر مؤرخ نے ”اکالة الامم“ کہا ہے(مکتوب علامہ سید سلیمان ندوی بنام راقم سطور) اورجہاں باہر سے آئی ہوئی کوئی قوم اپنے اصلی خط وخال کے ساتھ اور کوئی دین اپنی اصلی روح ، صحیح تعلیم او رامتیازات کے ساتھ عرصہ تک باقی نہیں رہا، الله تعالیٰ نے مسلمانوں کے داخلہ کے بعد سے ہر دور میں ایسے راسخ العلم، غیور طبع اور صاحب ِ عزیمت علمائے ربانی پیدا کیے ، جنہوں نے اسلام کو کتاب وسنت کی تعلیم اور شریعت ِ اسلامی کے تحفظ اورملت ِاسلامیہ کو اپنے مخصوص عقائد اور دعوت او راپنے ملّی وتہذیبی تشخص کے ساتھ باقی رکھنے کے لیے جدّوجہد کی اور اس میں وہ بڑیحد تک کام یاب ہوئے۔
محافظین شریعت او رمصلحین ِ اُمّت کا یہ سلسلہ دسویں صدی ہجری سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے، جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اوراس عظیم سلطنت کی باگ ڈور ایک ناخواندہ، لیکن صاحب ِ عزم اور مالک نظم فرماں روائے مملکت کے ہاتھ میں آگئی تھی ، جس کو باور کرایا گیا تھاکہ ہر دین سماوی کی عمر ایک ہزار برس ہوئی اور اب وقت آگیا ہے کہ نبی اُمّی کی جگہ شہنشاہ اُمّی ایک نئے دین، نئی شریعت اور نئے نظام زندگی کاآغاز کرے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ” تاریخ دعوت وعزیمت“ کا حصہ چہارم مختص بہ سیرت حضرت مجدد الف ثانی از راقم ومقدمہ سیرت سید احمد شہید،“ بقلم حضرت علامہ سید سلیمان ندوی)
اس قدسی گروہ کے سرخیل وپیشوا حضرت شیخ احمد بن شیخ عبدالاحد سرہندی ( م1030ھ) تھے، جن کو اہل ِ نظر نے بجا طور پر مجدد الف ثانی کا خطاب دیا او رجس کو ایسی قبولیت عامہ حاصل ہوئی کہ یہ لقب ان کے نام نامی کا قائم مقام بن گیا، اُن کی اور اُن کے فرزند ان گرامی مرتبت بالخصوص حضرت خواجہ محمد معصوم کی مساعی جمیلہ سے سلطنت مغلیہ کے تخت پر ( جو سلطنت عثمانیہ کے بعد سب سے بڑی مسلم مملکت تھی) جو فرماں روا آیا وہ پہلے فرماں روا سے کہیں بہتراو راحترام دین و شریعت میں کہیں اعلیٰ اوربرتر تھا اور جو سلسلہ ایک ” ماحی دین“ (اکبر) سے شروع ہوا تھا، وہ چوتھے نمبر ہی پر ایک اعلیٰ درجہ کے ”حامی دین“ ( شہنشاہ محی الدین اورنگزیب) پر جا کر منتہی ہوا، جس کو ایک عرب فاضل او رمبصر مؤرخ نے:” سادس الخلفاء الراشدین“ (چھٹا خلیفہٴ راشد) کا جا بجا خطاب دیا ہے۔ (علامہ علی طنطاوی شامی، مقیم حجاز، صاحب تصانیف کثیرة)
اس مثبت اور تعمیری انقلاب میں ( جس کے لیے خون کا ایک قطرہ بہانے کی ضرورت پیش نہیں آئی ) مخفی طور پر جس کا ہاتھ کام کرر ہا تھا، وہ حضرت مجدد کی ذات اور مجدّدی خاندان تھا۔ ( ملاحظہ ہو مولانا سید مناظر احسن صاحب گیلانی کا مقالہ” الفرقان“ کے مجدد نمبر میں)
پھر اسی عَلَم تجدید واصلاح کو اسی سلسلہ کے حامل ومنتسب اورجانشین حکیم الاسلام حضرت شاہ ولی الله دہلوی او ران کے فرزندان گرامی قدر او رخلفائے کبار اور تلامذہٴ نامدار نے بلند کیا، جن کی مساعی جمیلہ ہی کا نتیجہ ہے کہ ملت اسلامیہ ہندیہ اس وقت تک اپنے دین وشریعت او راپنے ملّی تشخص کے ساتھ باقی ہے، اُن کے چاروں صاحب زاد گان حضرت شاہ عبدالعزیز، حضرت شاہ رفیع الدین، حضرت شاہ عبدالقادر، حضرت شاہ عبدالغنی اوران کے نبیرہٴ گرامی مرتبت حضرت شاہ اسماعیل شہید، نیز حضرت شاہ عبدالعزیز کے دونوں نامدارنواسوں حضرت شاہ محمد اسحاق اورحضرت شاہ محمد یعقوب، اسی کے ساتھ اسی خاندان کے نسب ونسبت اور تلمذ اور تربیت کا تعلق رکھنے والے بزرگ مولانا عبدالحئی صاحب برہانوی (خلیفہٴ اجل حضرت سید احمد شہید) اور خود اسی خاندان کے تربیت یافتہ اورحضرت شاہ عبدالعزیز کے خلیفہٴ نامدار حضرت سید احمد شہید، جن کو بہت سے اہل ِ نظر اور اہلِ انصاف نے تیرہویں صدی ہجری کا مجدد مانا ہے، کے کارناموں کو دیکھ کر بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ #
ایں سلسلہ از طلائے نایاب است
ایں خانہ تمام آفتاب است
زمانہ کے تغیر اور نئے تقاضوں کے مطابق اسی نسبی اور نسبتی سلسلہ نے ” حفاظت شریعت کے ساتھ“ اشاعت شریعت کا کام بھی اپنے ذمہ لیا، قرآن مجید کی باقاعدہ تدریس وتفہیم، اردو تراجم قرآن، حدیث کی نشر واشاعت وتدریس، صحاح ستہ کو نصابِ درس میں داخل کرنے اور حدیث وسنت کے سکے کو ہندوستان کے علمی حلقوں اورعمومی زندگی میں رواں کرنے اور رد شرک وبدعت واصلاح رسوم کے عظیم الشان، لیکن پُر خطر کام کا بیڑا اٹھانے کی وہ عظیم الشان خدمت انجام دی کہ اس خاندان اور اس کے منتسبین کو مجموعی طور پر اس عہد میں دین کا مجدد اور شریعت وسنت کا پہریدار اور ”نقیب ومراقب کا “ خطاب دیا جاسکتا ہے اور بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں دینی حمیت وحمایت، شریعت وسنت پر عمل کی توفیق، توحید وشرک اور سنت وبدعت میں امتیاز کی صلاحیت ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور تبلیغ ودعوت کا جذبہ، مدارس عربیہ کا وجود، علوم دینیہ اورعربی زبان سے شغف ووابستگی، دینی کتب کی وسیع پیمانہ پر اشاعت اسی خاندان فاروقی ولی اللّٰہی نسباً، مجدّدی نسبتاً، وحجازی ویمنی تلمذاً کے افراد اور ان کے خلفاء وتلامذہ کی مساعی وجد وجہد کا نتیجہ ہے۔
ضرورت تھی اور احسان مندی کا تقاضا بھی تھا، نیز ایک تاریخی وعملی فریضہ تھا کہ ان دونوں خاندانوں، پھر ان دونوں چراغوں سے روشن ہونے والے ایک تیسرے چراغ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا رشید احمدگنگوہی او ران دونوں کے تربیت یافتہ علماء، داعیان ومصلحین اور اساتذہٴ کبار کے حالات سے گہری واقفیت حاصل کی جائے، اُن کی تصنیفات پر وسیع وعمیق نظر ہو، پھر محض مؤرخانہ قابلیت اور انشاء پردازانہصلاحیت کے ساتھ ہی نہیں، اندرونی جذبہ ، قلبی تقاضہ اور عشق وعقیدت کی حرارت کے ساتھ اس کام کو نہ صرف انجام دیا جائے، ان شخصیتوں کے کارناموں کا نئی نسل سے تعارف کرایا جائے، بلکہ اس کو زندگی کا مقصد اور سعی وجہد کا موضوع بنا لیا جائے، اس لیے کہ ناخواندہ طبقہ او رمنکرین ومتعصبین کو بھی چھوڑ کر، ہماری نئی تعلیم یافتہ نسل ان دونوں خانوادوں اور ان اصلاحی وتجدیدی سلسلوں کی ممتاز شخصیتوں اور کارناموں سے روز بروز نا آشنا ہوتی جارہی تھی اور نہ صرف ناواقفیت تھی، بلکہ ان کے بارے میں شدید غلط فہمیاں پیدا کی جارہی تھیں۔
الله تعالیٰ نے اس کام کے لیے جن چند شخصیتوں کو خاص طو رپر منتخب فرمایا اُن میں امروہہ کے مردم خیز قصبہ ( جس کو حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کے ایک ممتاز ترین تلمیذ او رمسترشد حضرت مولانا سید احمدحسن صاحب امروہی کے وطن ہونے کا شرف حاصل ہے ) کے مایہ ناز فرد مولانا نسیم احمد صاحب فریدی تھے، ( جن کی وفات 16 ربیع الاول 1409۔18 اکتوبر1998ء کو ہوئی) انہوں نے نے اپنی پوری زندگی اورساری خداداد علمی وتحریری صلاحیتیں اس موضوع کے لیے وقف کر دیں اور اس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا، بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے ( اور مجھے اس کا ذاتی تجربہ ہے ) کہ خاندان مجددی اور خاندان ولی اللّٰہی کے سلسلہ میں اگر کسی تحقیق اور علمی اطمینان او رتاریخی ثبوت کی ضرورت ہوتی تو انہیں سے سب سے زیادہ رہ نمائی حاصل ہوتی، مولانا نے تجلیات ربانی(2-1) مکتوبات خواجہ محمدمعصوم، تذکرہ حضرت خواجہ باقی بالله مع خلفاء وصاحب زاد گان، تذکرہ حضرت شاہ اسماعیل شہید، تذکرہ حضرت شاہ ابو سعید رائے بریلوی۔ (آپ حضرت سید احمد شہید کے حقیقی نانا تھے او رحضرت شاہ ولی الله کے خلفائے کبار میں آپ کے نام شاہ عبدالعزیز او رخاندان ولی اللّٰہی کے ممتاز افراد کے کثیر تعداد میں خطوط آئے جن میں اہم واقعات ووفیات کی اطلاع ملتی ہے اور جن سے اس خاندان والا شان کے ارکان کا شاہ ابو سعید صاحب او ران کے خاندان سے گہرے تعلقات کا اندازہ ہوتا ہے اورآپ کے حالات پر روشنی پڑتی ہے، ان خطوط کا مجموعہ سید صاحب کے خاندان میں موجو دتھا اورمولانا نسیم صاحب نے اس سے فائدہ اٹھایا) وغیرہ شائع کرکے بہت سے ناواقف حلقوں کے لیے واقفیت بہم پہنچائی او ربہت سے ایسے معتقدین اور محبین کے لیے، جن کو ضخیم کتابوں کے پڑھنے کی فرضت یا ہمت نہیں تھی، ان حضرات سے واقف کرایا، آخر میں انہوں نے حضرت شاہ ولی الله صاحب کے ان مکتوبات کے مرتب کرنے اور شائع کرنے کا اہتمام کیا تھا، جو حیدرآباد کے مخطوطات ونوادر کے ذخیرہ میں مدفون تھے، نیز حضرت شاہ ولی الله صاحب کے سیاسی مکتوبات مرتبہ فاضل گرامی مؤرخ ہند پروفیسر خلیق احمد صاحب نظامی کی یافت ودریافت اور ترتیب میں بھی اُ س کی رہ نمائی شامل تھی ۔رسالہ ” الفرقان“ کے ان دو قابل قدر اور بیش قیمت خصوصینمبروں میں بھی جو حضرت مجدد الف ثانی ، حضرت شاہ ولی الله صاحب او رحضرات شہیدین کی یاد میں نکالے گئے او رجنہوں نے ضخیم اورمحققانہ مستقل تصنیفات کی قائم مقامی کی او راُن بھولی ہوئی داستانوں کو یہ کہہ کر یاد دلایا اور تازہ کر دیا #
تازہ خواہی داشتن گر داغہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خوان ایں قصہٴ پارینہ را
اُن کا بنیاودی او رمرکزی حصہ رہا ہے او ران کے مؤثر پراز معلومات مقالات نے ان کی قدر وقیمت میں اضافہ کیا، ان کو ان دونوں سلسلوں اور ہندوستان کے آخر دور کی اصلاحی، تجدیدی تاریخ کا” دائرة المعارف“ ( انسائیکلو پیڈیا) کہنا صحیح ہو گا او راُن کی وفات سے جو خلا پیدا ہوگیا ہے، موجودہ نسل کے ذہنی رحجان او رخاص طرح کے علمی ذوق کے پیش نظر اس کا پُر ہونا مشکل نظر آتا ہے، راقم سطور نے اپنی تقریر میں جو اُن کی وفات کی اطلاع پاکر دارالعلوم ندوة العلماء کے جلسہ میں کی تھی اور جس میں حسن اتفاق سے ان کے نامور او رقابل فخر خواہر زادہ پروفیسر خلیق احمد صاحب نظامی بھی موجود تھے، صحیح کہا تھا کہ:
” ان کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا علمی ذوق او رعلم میں ان کی فنائیت ہے، علم سے ان کو وہی تعلق تھا جو مچھلی کو پانی سے ہوتا ہے ، علمی اشتغال رکھنے والے، تصنیف وتحقیق کا کام کرنے والے بہت مل جائیں گے، مگر ایسے لوگ جو علم میں فنا ہوں، علم جن کا ذوق ہی نہیں، بلکہ ذائقہ بن چکا ہو، علم ہی ان کے لیے غذا دوا، شفا سب کچھ ہو، وہ مولانا نسیم احمد فریدی تھے“۔
مولانا نسیم احمد فریدی مرحوم کی شخصیت کی دو اہم خصوصیت کا تذکرہ کروں گا، مولانا مرحوم سے میرے دیرینہ تعلقات تھے، الحمدلله مجھے انہیں قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا، وہ ندوہ میں تشریف لاتے رہتے تھے، ندوة العلماء کی مجلس انتظامیہ کے رکن بھی تھے، مجھ سے ان کی خط وکتابت رہتی تھی، اس لیے میں قریبی واقفیت کی بنا پر ان کی دو اہم خصوصیات کا تذکرہ کرنے جارہا ہوں، مولانا نسیم احمد فریدی کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا علمی ذوق او رعلم میں ان کی فنائیت ہے، علم سے ان کو وہی تعلق تھا، جو مچھلی کو پانی سے ہوتا ہے، علمی اشتغال رکھنے والے، تصنیف وتحقیق کرنے والے بہت سے مل جائیں گے، لیکن ایسے لوگ جو علم میں فنا ہوں، علم جس کا ذوق ہی نہیں، بلکہ ذائقہ بن چکا ہے، علم ہی ان کے لیے غذا، دوا، شفا سب کچھ ہو، وہ مولانا نسیم احمد فریدی تھے۔ فریدی صاحب مرحوم کی دوسری خصوصیت ان کی سادگی ، تواضع، فروتنی او راخلاق ہے، مولانا مرحوم اتنی سادگی سے رہتے تھے کہ اجنبی آدمی دیکھ کر بالکل نہیں سمجھ سکتا تھا کہ وہ کوئی بڑے عالم ومصنف ہیں، ہر شخص سے بہت تواضع واخلاق سے ملتے تھے، موصوف شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے شاگرد اور مسترشدومرید ومجاز تھے، مولانا مدنی سے انہیں بڑی عقیدت اورشیفتگی تھی۔
مولانا نے قرب وجوار کے علاقوں میں درجنوں مکاتب قائم کیے اور بہت مقبول ومحبوب رہے۔ مولانا کے حقیقی بھتیجے ڈاکٹر نثار احمد صاحب فاروقی، مولانا برہان الدین صاحب سنبھلی استاذ دارالعلوم ندوة العلماء کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
” انہوں نے ( یعنی مولانا فریدی) اپنے 77 سالہ زندگی میں سخت مجاہدے کیے، امید نہیں کہ اب ہم اپنی بچی کچھی زندگی میں ان جیسی کوئی اور شخصیت دیکھ سکیں گے، جوعالم بھی ہو، درویش بھی ، محقق بھی، مؤرخ بھی، ادیب وشاعر بھی ہو، فقیہ مفتی بھی، جس کا علم اس کے اعمال میں رچ گیا ہو، جس نے سنت نبوی علی صاحبھا الصلاة والسلام پر عمر کا کوئی دقیقہ نہ چھوڑا ہو، جس نے اطراف وجوانب کے درجنوں دیہات میں دینی مدرسے قائم کر دیے ہوں، نصف صدی سے زیادہ تبلیغ کا کام پورے اخلاص، جاں فشانی سے کیا ہو، فقر ومسکنت کی زندگی، اپنی طبیعت ثانیہ بنا چکا ہو“۔
اسی خط میں مزید لکھتے ہیں:
” انتقال صبح8 بج کر 45 منٹ پر ہوا، اسی دن رات میں 10 بج کر40منٹ پر اسی مسجد میں مدفون ہوئے ، جس میں ان کے شب وروز گزرتے تھے، اسی جون کے مہینہ میں اپنی سخت علالت کے باوجود اپنے پاس سے گیارہ ہزار روپے صرف کرکے مسجد کی تعمیر کرائی تھی، یہ گویا اس جگہ کی قیمت تھی، جو ان کی قبر کے لیے ملی ہے، اخبار اور ریڈیو وغیرہ میں خبر نہ آنے کے باوجود (جنازہ میں ) مجمع25 ہزار سے کم نہ تھا، ہر طبقہ او رہر علاقہ او رہر مکتب اور ہر مذہب کے افراد موجو دتھے۔
میں نے کسی جنازہ میں اتنے بہت سے حضرات کو روتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا، جتنامولانا فریدی کے لیے اشک بار دیکھا، ایک ڈاکٹر صاحب نے جو شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا قدس سرہ کے وصال کے وقت موجو دتھے، مجھ سے بیان کیا کہ مولانا فریدی کی میت دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ شیخ الحدیث رحمة الله علیہ آرام فرما رہے ہیں، جو بھی ملتا تھا، وہ اپنی نئی اورنرالی داستان سناتا تھا، جس سے مولانا فریدی کے اعلیٰ روحانی مراتب کا کچھ کچھ اندازہ ہوتا ہے“۔
الله تعالیٰ مولانا مرحوم کے درجات بلند فرمائے او ران کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کے پُر کرنے کی سبیل پیدا فرمائے۔اللھم اغفرلہ وارحمہ․