راقم سطور کو اپنی بے بضاعتی اور تہی دامنی کا پورا احساس ہے، لیکن یہ ایک تقدیری بات ہے کہ اس کو ممالک اسلامی کی سیاحت اور عالم ِ اسلامی سے واقفیت کے ایسے ذرائع اور مواقع میسر کیے جو ( بلاکسی تحقیر وتنقیص کے) اس کے ہم وطنوں اور ہم عمروں میں سے بہت کم اشخاص کو میسر آئے ہوں گے، دنیائے اسلام اور بالخصوص ممالک عربیہ کے دینی ، علمی اور روحانی حلقوں کو بہت قریب سے دیکھنے اور برتنے کا اتفاق ہوا، دور حاضر کی مشکل سے کوئی تحریک اور کوئی عظیم شخصیت ہو گی جس سے ملنے اور سعادت حاصل کرنے کی سعادت حاصل نہ ہوئی ہو۔
اس وسیع واقفیت کی بنا پر ( جو کسی کا ذاتی کمال اور سرمایہٴ فخر نہیں) یہ کہنے کی جرأت کی جاتی ہے کہ ایمان بالغیب کی دعوت، دعوت کے شغف اور!ا نہماک اور تاثیر کی وسعت وقوت میں اس ناکارہ نے، اس دور میں مولانا محمدیوسف صاحب کا کوئی ہمسر اور مقابل نہیں دیکھا، یوں اُن کی نادرہٴ روز گار شخصیت میں بہت سے ایسے کمالات پائے جاتے تھے، جن میں اُن کا پایہ بہت بلند تھا، اُن کی ایمانی قوت، ان کا اعتمادوتوکل، ان کی ہمت وجرأت ،اُن کی نماز اوردعا ،صحابہٴ کرام کی زندگی سے اُن کی گہری واقفیت اور اُن کے حالات کا استحضار، اتباعِ سنّت کا اہتمام، فہم قرآن اور واقعات انبیاء علیہم السلام سے عظیم نتائج کا استخراج، دعوت وتصنیف کے متضاد مشاغل کو جمع کرنے کی قوّت اور آخر میں ان کی غیر معمولی محبوبیت اور مقبولیت، یہ سب ان کی زندگی کے وہ پہلو اور نمایاں صفات ہیں، جن کے متعلق بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے او رجس کے لفظ لفظ کی تصدیق وہ سب لوگ کریں گے جن کو ان کی خدمت میں کچھ دن رہنے کی سعادت یا کسی سفر میں رفاقت کا شرف حاصل ہوا ہے اور اُن کی تعداد ہزاروں کی ہے، لیکن درحقیقت یہ سب اور ان کے ماسوا اور بہت سے پہلو اُن کی سوانح اور سیرت کا موضوع ہیں اور ان میں سے بعض کمالات وامتیازات وہ ہیں، جن میں اُن کی سہیم وشریک مل سکتے ہیں اور بعض شخصیتیں ان میں ان سے فائق بھی ہو سکتی ہیں ، لیکن راقم نے ان کے جن امتیازات کا یہاں انتخاب کیا ہے، اُن میں (اپنے محدود واقفیت وعلم میں) اُن کا کوئی سہیم وشریک اوراُن کا کوئی مد مقابل نظر نہیں آتا۔ والغیب عندالله․
جہاں تک پہلے عنوان کا تعلق ہے، ہم نے غیبی حقائق الله کے وعدوں اور انبیاء علیہم السلام کی دی ہوئی اطلاعات پر ایمان لانے اور اُن کے اعتما دویقین پر اپنی زندگی کی کشتی کو چھوڑ دینے کی ایسی واشگاف، طاقت ور اور بے لاگ دعوت کسی دوسری جگہ نہیں دیکھی ، جس وقت وہ الله تعالیٰ کی ذات وصفات اُس کی قدرت کن فیکون، اس کے بلاشرکت ِ غیرے پورے نظام عالم کو چلانے، اسباب کی بے حقیقتی، خواص اشیاء اور انسانی تجربات کی بے اعتباری ، محسوسات ومشاہدات کی تحقیر ونفی، احکام ِ الہی اور نظامِ تشریعی کے سامنے نظام تکوینی کی سَپر اندازی ومغلوبیت، ایمانی صفات واخلاق اور اطاعت وعبودیت کے سامنے وسائل وذخائر کی بے حقیقتی، حاملین نبوت اور اہلِ ایمان ودعوت کا ارباب اقتدار، اہلِ حکومت اور سرمایہ داروں کے مقابلہ میں فتح وغلبہ، خدا کے وعدوں کی ابدی صداقت اور سنة الله کی ہمہ گیری کا مضمون اپنی پوری ایمانی قوت او راپنے والہانہ انداز بیان میں بیان فرماتے تو سننے والے اتنی دیر کے لیے اس حواس ومادّہ پرستی کی دنیا سے منتقل ہوکر ایمان بالغیب کی دنیا میں پہنچ جاتے او راسباب ومسببات کا سلسلہ اورمقدمات ونتائج کا ربط وتعلق اتنابے کاروبے حقیقت نظر آنے لگتا تھا کہ ہم جیسے مدرسی لوگوں کو بعض اوقات اس کی فکر پیدا ہو جاتی تھی کہ کہیں یہ دعوت سننے والوں میں ترک اسباب اور تجردورہبانیت کا رحجان نہ پیدا کردے ،لیکن اس دورِ مادّیت میں جہاں ”اسباب“ نے” ارباب“ کی شکل اختیار کر لی ہے اور ایک عالم کا عالم اپنی قسمت کو مادی اسباب اور اپنی ذاتی کوشش وقابلیت کے ساتھ وابستہ کرچکا ہے اور کسی دینی دعوت تحریک کو وہ قلندر صفت افراد نہیں مل رہے ہیں، جن کا عشق”آتش نمرود“ میں بے خطر کود کر عقل کو ” محوِ تماشائے لب ِ بام“ کر دے، بلکہ اس تھوڑے سے ایثار اور قربانی کی جنس بھی نایاب ہو گئی ہے، جس کے ایندھن کے بغیر کسی تحریک کی گاڑی دو قدم بھی نہیں چل سکتی، مادی ترقی اورمادی اقدار کی اہمیت وتقدیس کی مسلسل اور پُر جوش تبلیغ وتلقین نے خود اس اُمت کو متاثر کر لیا ہے جس کی ساری طاقت اور جس کی فتح کاراز ایمان بالغیب کی قوت، رضائے الہٰی کی طلب او رجنت کی شوق میں مضمر تھا، مسلمان نے ذرائع معاش کو اپنا رزّاق سمجھ لیا ہے۔
مادّیت کی اس وبائے عام کے دور میں مولانا محمد یوسف صاحب کی ایمان بالغیب کی اس دعوت سے بعض اوقات سیکڑوں سامعین کے دل ایمان کے جذبہ سے معمور اور قربانی کی لذت سے مخمور ہو جاتے تھے اور وہ اس کے اثر سے ایثار وقربانی کے ایسے نمونے پیش کرنے لگے تھے، جن کو عقل ودلائل، حکمت ومصلحت اور علم وخطابت کی کسی بڑی سے بڑی طاقت سے حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا او رجن کی بنیاد پر یہ تحریک دنیا کے دُوردراز گوشوں میں پہنچ گئی، ہزاروں آدمیوں نے جن میں ہر طبقہ کے لوگ تھے، مہینوں کے لیے گھر بار چھوڑ کر، دوسرے براعظموں کا سفر کیا اور دعوت وتبلیغ کے راستہ میں بڑی بڑی مشقتیں برداشت کیں، انہوں نے بڑی دریا دلی اور عالی ہمتی کے ساتھ اپنا وقت او راپنا مال راہ ِ خدا میں خرچ کیا، اگر خدا کو منظور ہوتا اور مولانا کی زندگی وفا کرتی تو وہ ایمان بالغیب کی اس طاقت سے ( جو اس دور میں مشکل سے کسی اور جماعت کو میسر آئی ہوگی) معاشرہ کی اصلاح وانقلاب اور دُنیا کے حالت میں تبدیلی کا او رزیادہ وسیع وعمیق کام لیتے اورافراد کی یہ قوت ایمانی اجتماعی زندگی پر بھی اثر انداز ہوتی، ان کی ان مجالس میں کبھی کبھی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے مجالس وعظ کی جھلک نظر آنے لگتی تھی، جن کی ( غیر الله کی نفی سے لبریز) تقریروں نے ہزاروں دلوں اور دماغوں پر گہری چوٹ لگائی، جس وقت آدمی اُن کے ان مواعظ کو ( جو فتوح الغیب اور دوسرے مجموعوں میں محفوظ ہیں) پڑھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص پوری بے باکی اور قوت کے ساتھ گرز چلا رہا ہے او راس کی ضرب سے مادیت کے ہزاوں بُت پاش پاش ہو رہے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم جیسے لوگ، جن کا دماغ اسباب ومَسبَّبات کے باہمی تعلق سے کبھی آزاد نہیں ہونے پاتا اور جو مادی سعی وجہد کو بھی دین وشریعت میں ایک مقام دیتے ہیں او رانسان کو اپنی سعی کا مکلف مامور سمجھتے ہیں او رجو اس عالم اسباب میں مسلمانوں کی پست ہمتی اور بے عملی کو ان کے زوال کا ایک سبب قرار دیتے ہیں، وہ کبھی مولانا کے اس طرز کی کام یابی کے ساتھ نقل نہیں اُتار سکے او راُن کے ذہن نے عین ان مجالس وعظ میں بھی اپنا کام کرنا نہیں چھوڑا، لیکن ہم کو اس کا صاف اعتراف ہے کہ اُن کی اس دعوت ایمانی نے وہ نتائج پیدا کیے جن سے ہماری ” متوازن ومعتدل“ دعوتیں ( جن کی عصر حاضر کی حقائق پر نظر ہے) قاصر رہیں اور صاف اندازہ ہوا کہ :
لاکھ حکیم سر بجیب
ایک کلیم سربکف
ان کا دوسرا امتیاز اپنی دعوت کے ساتھ ان کا ایسا شغف وانہماک تھا، جس کی مثال نہ صرف یہ کہ دینی دعوتوں اور تحریکوں کے میدان میں نظر نہیں آتی، بلکہ جہاں تک اس کو تاہ نظر کی نظر وواقفیت کا تعلق ہے کہ کسی مادّی وسیاسی تحریک کے داعیوں میں بھی وہ استغراق ، خود فراموشی، والہیت اورجذب کی کیفیت نظر نہیں آئی، ان کا یہ پہلو اتنا نمایاں او راتنا حیرت انگیز تھا کہ جب تک کسی شخص کو کچھ عرصے ان کی خدمت میں رہنے اور کسی سفر میں ان کی معیت کا موقع نہ ملا ہو وہ بہتر سے بہتر تصویر کشی اور واقعہ نگاری کے بعد بھی اس کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتا، چند دن رہ کر آدمی ان کی مشغولیت وانہماک اور اُن کے جذب واستغراق کو دیکھ کر مبہوت رہ جاتا تھا اور اُس کی یہ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اتنی قوت وتازگی کہاں سے آتی ہے اور اس کا سرچشمہ کیا ہے ؟ عام حالات میں ” عشق“ اور خاص حالات میں تائید الہٰی اور نصرت غیبی کے سوا اس کی توجیہ نہیں ہو سکتی۔
معمولی بات یہ ہے کہ وہ فجر کی نماز کے بعد سا ل کے بارہ مہینے اورمہینے کی تیس دن تقریر فرماتے، یہ تقریر ڈھائی تین گھنٹے سے کم نہ ہوتی، اس میں موسم کی سختی، دھوپ کی گرمی، صحت کی خرابی، مجمع کی کمی وزیادتی قطعاً اثر انداز نہ ہوتی، یہ مجاہدہ رمضان المبارک میں بہت بڑھ جاتا، جب کہ فجر کے بعد لوگوں کے سونے کا عام معمول ہے، رمضان میں ان کی رات شب بیداری اور دعوت کے کام میں صرف ہوتی، اس کے باوجود وہ فجر کی نماز کے بعد پوری قوت، تازگی اور نشاط کے ساتھ تقریر فرماتے اور اسی قوت کے ساتھ آخر میں دعوت دیتے، عام دنوں میں چائے کے دوران او رچائے کے بعد پھر گفت گو او رتقریر کا سلسلہ شروع ہو جاتا، عام طور پر وہ جماعتوں کو رخصت کرنے کا وقت ہوتا، وہاں تشریف لے جاکر پھر اسی طرح تقریر فرماتے اورہدایات دیتے کہ معلوم ہوتاکہ ابھی تک خاموشی کی مُہر لگی ہوئی تھی اور وہ اب ٹوٹی ہے، پھر اسی جذبہ اور طاقت کے ساتھ دعا کرتے کہ معلوم ہوتا کہ نہ اس سے پہلے دعا کی ہے، نہ اس کے بعد کریں گے، سب کچھ اسی دعا میں مانگ لینا ہے اور سب کچھ اسی دعا میں کہہ دینا ہے اس کے بعد بھی مختلف تقریبوں سے گفت گو اور خطاب کرنے کا سلسلہ جاری رہتا، پھر کچھ دیر تصنیف وتالیف کا کام کرتے، پھر کھانے کا وقت ہو جاتا ، ظہر کے بعد پھر کوئی سبق پڑھاتے یا تصنیف وتالیف کا کام کرتے، ملنے جلنے اور ڈاک دیکھنے کا بھی سلسلہ جاری رہتا، کبھی بعد عصر او ربعد مغرب بھی کوئی تقریر ہو جاتی اور اس میں بھی تازگی اور جوش کا وہی عالم ہوتا، عشاء کے بعد ( جو اکثر بڑی تاخیر سے ہوتی ) سیرت کی کوئی کتاب یا صحابہ کرام رضی الله عنہم کے حالات کا کوئی مجموعہ سنانے کا معمول تھا، کتنا ہی تھکے او رجگے ہوئے ہوں اور کیسی خستہ اور شکستہ حالت ہو، اس معمول میں حتی الامکان فرق نہ ہوتا، دیر رات تک یہ سلسلہ جاری رہتا، سننے والے کو محسوس ہوتا کہ اس شخص نے دن بھر آرام کیا ہے۔
ہم جیسے پست ہمتوں کے لیے نظام الدین کا دوروز کا قیام بھی سخت آزمائش اور مجاہدہ تھا، میرا خود حال یہ تھا کہ اکثر اپنے دل سے خطاب کرکے کہتا” بے ہمت! مولانا کے لیے ساری زندگی کا معاملہ ہے، تیرے لیے صرف دو دن کا معاملہ ہے“ لیکن بہانہ جو اورسہولت پسند طبیعت اپنی صحت کی کم زوری او رمولانا کی عالی ظرفی کا سہارا لے کر کوئی گوشہٴ عافیت تلاش کر لیتی، اس وقت اگر کوئی تلاش کرنے والا تلاش کرتا تو خود زبانِ حال سے اس کو اپنا پتہ نشان اس طرح دیتا کہ #
ہو گا کسی دیوار کے سایہ کے تلے میر
کیا کام محبت سے اُس آرام طلب کو؟!
سفر میں تو یہ انہماک اوراستغراق بہت بڑھ جاتا ، پھر تقریروں کی تعداد، ان کی مقدار اور اُ ن کے اوقات کی کوئی تحدید نہیں تھی، بعض دوستوں نے اندازہ لگایا ہے کہ آخر میں مجموعی طور پر آٹھ آٹھ گھنٹے بولنے کی نوبت آتی (یہ اندازہ صرف تقریروں کا ہے، مجلسی گفتگوؤں کے اوقات اس کے علاوہ ہیں)، اس میں بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہر بعد کی تقریر میں نئے سننے والوں کو یہ اندازہ ہوتا کہ بولنے والا اسی وقت بولنے کھڑا ہوا ہے او راس سے پہلے اس کو اپنے خیالات وجذبات کے اظہار کا موقع نہیں ملا تھا، اب اسی موقع پر اپنا دل کھول کر رکھ دینا چاہتاہے، یہی ہر وقت کی دعا کی کیفیت ہوتی۔
مجھے حجاز کے آخری سفر میں حاضری کا موقع نہیں ملا ،لیکن میں نے بالتواتر سنا ہے کہ وہاں یہ جوش وخروش او ریہ جذبہ و انہماک اپنے نقطہٴ عروج کو پہنچ چکا تھا، مسجد نبوی میں صحن مسجد میں فجر کی نماز کے بعد تقریر شروع ہو جاتی اور دن چڑھ آتا او رجن خوش قسمت آنکھوں نے تقریر کے آغاز میں گنبدخضرا پر چاندنی دیکھی ہوتی وہ دھوپ چڑھی ہوئی دیکھتے ۔مجھے یاد ہے کہ بھوپال کے ایک اجتماع میں مولانا نے مغرب کے بعد پوری قوت اور اپنی تقریر کے عام پیمانے کے مطابق بسیط تقریر کی، تقریر کے بعد تشکیل ہوئی، پھر دعا ہوئی ، مجھے اطمینان تھا کہ اب اس تقریر کے بعد آرام فرمائیں گے کہ خدا جانے کہ نکاح کی تقریب سے یا کسی اور تقریب سے پھر کچھ بولنا شروع کیا، طبیعت مطمئن تھی کہ چند منٹ میں اس کا سلسلہ ختم ہو جائے گا، لیکن تھوڑی دیر کے بعد محسوس ہوا کہ مولانا میں نئی تازگی اور جوش آگیا، پھر اس طرح تقریر فرمائی کہ معلوم ہوتا تھا کہ دن بھرخاموش رہے ہیں اور طبیعت جوش پر ہے۔
یہی حال دعا کا تھا، مولانا کی دعا کی کیفیت، اس کے مضامین، اُس کی آمداور جوش و خروش، اس کی رقّت انگیزی اور اس کی تاثیر مولانا کے ان خصائص میں سے تھی جن کی مثال دور دور دیکھنے میں نہیں آئی، جب دعا کرتے، حاضرین کا عجب حال ہوتا، خاص طور پر جب اردو میں دعا کے الفاظ ادا فرماتے تو آنسوؤں کا سیلاب امنڈ آتا، دور دور سے رونے والوں کی ہچکیاں سننے میں آتیں، اس کی مثال ماضی قریب میں حضرت سید احمد شہید اور ان کے ایک جانشین مولانا سید نصیر الدین کے حالات میں نظر آئی کہ بیان کرنے والوں نے بیان کیا کہ دعا کے وقت رحمت ِ الہی جوش میں آتی نظر آتی، لوگوں پر ایک وارفتگی اور بے خودی کی کیفیت ہوتی او ربعض لوگ دیوانہ وار جنگل کو نکل جاتے، واقعہ یہ ہے کہ دعا کے وقت جو کیفیت لوگوں پر طاری ہوتی اور جو اثرات اُس کے دلوں پر ہوتے، اگر کچھ دیر بھی باقی رہ جاتے تو لوگ دنیا کے کام کے نہ رہتے او رمعلوم نہیں حالت میں کیا تبدیلی ہوتی، لیکن نظام عالم اسی طرح چل رہا ہے اور ہم ضعیف البنیان ہر چیز کا اثر وقتی طور پر لیتے ہیں۔
ان کی تیسری امتیازی خصوصیت جس میں ان کی نظیر ملنی مشکل ہے، ان کی تقریروں اور صحبت کا وہ اثر ہے، جو سامعین وحاضرین پر پڑتا خاص طور پر ان سلیم طبیعتوں پر، جن کا دل ودماغ دوسرے اثرات سے آزاذ، اور ان کی طبیعتوں میں تسلیم وانقیاد کا مادہ غالب ہوتا، ان کی کیمیااثر صحبت او ران کی انقلاب انگیز تقریروں نے اتنی زندگیوں میں تبدیلیاں پیدا کیں اور اتنے دلوں اور دماغوں کو متاثر کیا کہ جن کا شمار کرنا ممکن نہیں اور ان صحبتوں اور تقریروں کے اثرات اتنے گہرے ہوتے کہ صورت ، سیرت زندگی، معاشرت اور یہاں تک کہ سوچنے او ربولنے کا طریقہ بھی بدل جاتا، سیکڑوں آدمی ہیں جو اُن کی زبان بولنے لگے اوران کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ او رجملے ان کو حفظ ہو گئے، کتنے اشخاص ہیں کہ جن کی دعاؤں میں ان کی دعاؤ کا رنگ آگیا، کتنے اعلی تعلیم یافتہ اور امیرانہ زندگی رکھنے والے لوگ ہیں جن کی زندگی اور معاشرت سرتاپا مغربی اور رئیسانہ تھی اور وہ اب ایک درویش صفت مبلغ اور ایک فقیرمنش اور جفاکش مجاہد نظر آتے ہیں اورجن کی گراں قدر تنخواہوں اور آمدنیوں کا بڑا حصہ تبلیغ ودعوت ،رفقاء کی امداد واعانت او رجماعت کی نصرت پر خرچ ہوتا ہے اور ان میں ان کے گھرو الوں کا او ران کا اپنا وہی حصہ ہے جو ایک متوسط ملازم یا ایک اوسط درجے کے تاجر کا ہے، کتنی بڑی تعداد اُن رفقا اور نیاز مندوں کی ہے جن کی زندگی، جن کا ذوق عبادت، جن کا جذبہٴ خدمت او رجن کی خشیت وانابت او رجن کی بے نفسی اور تواضع دیکھ کر اپنے وجود سے شرم آنے لگتی ہے، حقیقی علم تو علام الغیوب کو ہے، لیکن ان کے اخلاص واخلاق کو دیکھ کر ان کی دینی ترقی اور بلندی کا اندازہ ہوتا ہے، جو زندہ ہیں ( خدا اُن کی زندگی میں برکت دے) ان کے متعلق کچھ کہنا خلاف احتیاط ہے:”فان الحی لا یؤمن علیہ الفتنة“ (یہ حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ کے الفاظ ہیں۔ فرمایا کہ دنیا سے چلے جانے والوں کی اقتدا کر و اس لیے کہ جو زندہ ہے اس کے بارے میں فتنہ سے اطمینان نہیں) لیکن جانے والوں میں سے متعدد اصحاب کے نام لیے جاسکتے ہیں ، جو ہمارے دیکھتے دیکھتے کہیں سے کہیں پہنچ گئے اوراُن کے حالات اتنے رفیع ہو گئے جن کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔
ان میں سے میں صرف اپنے محبوب اور عزیز دوست حاجی ارشد صاحب مرحوم کا ذکر کروں گا، جن کا ( اپنے اعلیٰ عہدے اور ذمہ داریوں کے ساتھ ) اخلاص وللہیت، تعلق مع الله، دعوت کے کاموں میں انہماک واستغراق، ایثار وقربانی کی کیفیت، تواضع وانکسار، خدمت کا جذبہ اور پھر اسی راہ کی قابل رشک موت اور شہادت برسوں دل کو تڑپاتی اور ان کی یاد تازہ کرتی رہے گی، جاپان میں اشاعت اسلام کے کام کا افتتاح الله تعالیٰ نے ان کے لیے مقدر فرمایا اور اہل حجاز بھی ان کو عرصہ تک یاد رکھیں گے۔ دنیا کے دور دراز ملکوں میں ایسے لوگ مل جائیں گے، جو مولانا کی چند روزہ صحبت اور دو ایک تقریروں کے سننے سے اتنا متاثر ہوئے کہ ان کی زندگی بد ل گئی او ران کے اندر ایک خاص طرح کے ایمان ویقین کی کیفیت، دعوت کی سرگرمی ، دعا کا سلیقہ، نمازوں میں کیفیت اور ایثار کی دعوت پیدا ہو گئی، ایسے لوگ ہندوستان او رپاکستان کے باہر امریکا یورپ او رافریقا کے براعظموں میں بھی ملیں گے #
جہانے را دگرگوں کرد یک مردِ خود آگاہے
مولانا کی دعوت اور شخصیت اپنی پورے شباب اور عروج پر تھی، ان کی ہمت کا طائر بلند پرواز کسی بلند سے بلند شاخ پر بھی آشیانہ بنانے کے لیے تیار نہ تھا، کوئی دور سے دو رجگہ ان کو دور اور کوئی مشکل سے مشکل کام اُن کو مشکل نہیں معلوم ہوتا تھا، انہوں نے اپنی تیز رفتاری بلکہ برق رفتاری اوراپنی طبیعت کی بے چینی اور بے تابی سے برسوں کا کاممہینوں میں اور مہینوں کا کام ہفتوں اور دنوں میں کر لیا، اپنے والد نامدار کے بعد نئے ملکوں میں جماعتوں کے جانے کا افتتاح کیا اور ساری دنیا کو گھر آنگن بنا لیا، حج کا مسئلہ اٹھایا اور اس میں ایک نئی روح پھونک دی اور دیکھتے دیکھتے حجاج کی تعداد اور ان کی کیفیات میں عظیم فرق پیدا ہو گیا، اجتماعات، میوات کے محدودپیمانے سے نکل کر، اتنے عظیم اور وسیع بن گئے کہبڑی بڑی سیاسی کانفرنسیں اور بڑے بڑے پبلک جلسے، ( مجمع کی کثرت میں بھی ) ان کے سامنے ماند پڑ گئے او ران کی وہ کثرت ہوئی کہ مولانا کے لیے نظام الدین کا قیام مشکل ہوگیا، تبلیغی تقریروں میں غیر مسلموں سے خطاب، حالات حاضرہ پر تبصرہ ، موجودہ مادی زندگی پر تنقید اور فساد کے سرچشمے کی نشان دہی کے باب کا افتتاح کیا او ران میں ایسی کشش پیدا کر دی کہ سیکڑوں کی تعداد میں غیر مسلم شریک ہونے لگے او رمتاثر ہوئے، یہ سب کام بڑی طویل عمر چاہتے تھے، لیکن مولانا نے پچاس برس سے کم عمر او راپنی ذمہ داری اوردعوت کے صرف بیس سال کے اندر انجام دیے اور یہ سب منزلیں طے کرکے اپنے خالق سے جاملے #
کام تھے عشق میں بہت، پر میر
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے