کیا امام نسائی رحمہ الله تشیع سے متأثر تھے؟

idara letterhead universal2c

کیا امام نسائی رحمہ الله تشیع سے متأثر تھے؟

مولانا محمد اسماعیل ریحان

امام احمد بن شعیب نسائی رحمہ الله 215ھ میں خراسان کے شہر ”نَساء“ میں پیدا ہوئے۔ وہ عجمی النسل تھے۔ انہوں نے اس زمانے کے دیگرمحدثین کی طرح ملکوں ملکوں گھوم پھر کر علم ِ حدیث حاصل کیا۔ اس دور میں خراسان علوم کا مرکز بن چکا تھا۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں بڑے بڑے محدثینموجود تھے۔ امام نسائی رحمہ الله نے بغلان ( افغانستان) میں نامور محدث قتیبہ بن سعید رحمہ الله کے ہاں چودہ ماہ گزار کر احادیث یاد کیں۔ نیز عراق، حجاز، شام اور سرحدی شہروں تک جاکر محدثین سے استفادہ کیا۔ آخر میں مصر کو وطن بنا لیا، جہاں ان کا حلقہٴ درس لگا او ران گنت طلبہ مستفیدہوئے۔

آپ رحمہ الله جتنے بڑے عالم تھے، اتنے بڑے عبادت گزار بھی تھے۔ رات کا خاصا وقت تلاوت اور نوافل میں گزارتے۔ مصر کے حُکام ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ امام نسائی رحمہ الله عام طور پر حُکام سے میل جول سے احتراز کرتے تھے، مگر جب بھی مسلمان قیدیوں کو رومیوں سے چھڑانے کا مسئلہ آتا، وہ اس میں پیش پیش ہوتے۔ حُکام کے ساتھ سرحد پر جاتے اور قیدیوں کی آزادی کے مراحل ان کی ہدایات کے مطابق طے ہوتے۔ ( سیر اعلام النبلاء:125/14 تا134، ط الرسالة)

شان دار شخصیت

امام نسائی رحمہ الله ایک شان دار او ربارعب شخصیت کے مالک تھے۔ صحت بہت عمدہ تھی ؛ کیوں کہ آپ رحمہ الله حفظانِ صحت کا پورا خیال رکھتے تھے۔ مرغ کا گوشت آپ رحمہ الله کی مرغوب غذا تھی۔ آپ رحمہ الله کی چار بیویاں تھیں او رمالی ثروت میسر تھی۔ سبز لباس پہنتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ سبزے کا متبادل ہے، جو نگاہ کو قوت بخشتا ہے۔ ( تہذیب الکمال:1/336)

نبیذ نوشی کا غلط الزام

امام نسائی کے حالات لکھنے والے بعض حضرات نے بلا تحقیق لکھ دیا ہے کہ آپ نبید نوشی کے عادی تھے۔ اسے کسی نے الزام کے طور پر نقل کیا ہو یا اظہارِ واقعہ کے طور پر، بہرحال یہ بات تحقیق سے ثابت نہیں ہوتی۔ اس کے غلط ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ایک روایت میں امام نسائی رحمہ الله نے خود اس کی تردید فرمائی تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ بعض طلبہ نے یہ دیکھ کر کہ بڑھاپے کے باوجود آپ  کے چہرے پر خون کی لالی جھلکتی ہے، گمان کیا کہ آپ نبیذ پیتے ہوں گے۔ مگر جب آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا:”مذہبی أنہ حرام لحدیث ابی سلمة عن عائشة: کل شراب مسکر فھو حرام، فلا یحل لأحد أن یشرب منہ قلیلا ولا کثیرا“․

”میرا مذہب یہ ہے کہ نبیذ حرام ہے، کیوں کہ سیدہ عائشہ رضی الله عنہا سے فرمان ِ نبوی مروی ہے کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ پس کسی کے لیے نبیذ پینا جائز نہیں، تھوڑی ہو یا زیادہ۔“ (تہذیب الکمال:1/337)

سنن نسائی

آپ رحمہ الله نے ”السنن الکبریٰ“ کے نام سے بارہ ہزار احادیث کا مجموعہ مرتب کیا ،جس میں ایسی تمام روایات کو لے لیا گیا جن کے ترک پر محدثین کا اجماع نہ ہو۔ بعد میں ا س میں سے صحیح احادیث کا ایک الگ انتخاب ” المجتبیٰ“ کے نام سے پیش کیا، جو ”5754“ احادیث پر مشتمل تھا۔ اسی کو ” سنن نسائی“ کہا جاتا ہے ،امام نسائی رحمہ الله فرماتے تھے کہ میری سنن صحیح احادیث پر مشتمل ہے۔

امام ابن رُشید رحمہ الله کہتے تھے: ” امام نسائی کی یہ تصنیف تمام کتب حدیث سے انوکھی اورترتیبکے لحاظ سے بہترین ہے۔ بخاری ومسلم کے طرق اس میں جمع ہیں او رعلم حدیث کی بہت سی الجھنوں کو اس میں دور کر دیا گیا ہے۔“ (مقدمة زھر الربی علی المجتبی( ھذہ المقدمة فی سنن النسائی بشرح السیوطی:6،5/1 ط دار المعرفة بیروت)

سند میں انتہائی احتیاط

سند کے معاملے میں امام نسائی رحمہ الله، بعض اوقات امام بخاری اور امام مسلم رحمہم الله سے بھی زیادہ سخت معلوم ہوتے ہیں۔ انہوں نے بعض ایسے مشہور راویوں کو بھی ترک کر دیا جن سے امام بخاری یا امام مسلم رحمہم الله نے روایات لی ہیں۔

اسی لیے امام معافری رحمہ الله فرماتے تھے:
”جس روایت کی تخریج امام نسائی نے کی ہو وہ دیگر محدثین کی روایات کے مقابلے میں زیادہ صحیح ہو گی۔“ (مقدمة زھر الربی علی المجتبی( سنن النسائی بشرح السیوطی:1/5)

یہی وجہ تھی کہ بعض افریقی علماء سنن نسائی کو صحیح بخاری وصحیح مسلم پر ترجیح دیتے تھے۔ حافظ ذہبی رحمہ الله کہتے ہیں کہ امام نسائی رحمہ الله حدیث ، عللِ حدیث اور رِ جال حدیث کے بارے میں امام مسلم، امام ترمذی اور امام ابوادؤد رحمہم الله سے بڑھ کر ہیں۔ وہ امام بخاری اور امام ابوزُرعہ رحمہم الله کے ہم پلہ ہیں۔ ( سیر اعلام النبلاء:14/133، توضیح الافکار لمعانی تنقیح الفکار؟؟؟؟ للامیر الصنعانی،ص:198)

عہدہٴ قضا

اگرچہ امام نسائی رحمہ الله زیادہ مدت مصر میں رہے، مگر درمیان میں آپ نے کچھ زمانہ شام میں بھی گزارا اور حمص کے قاضی رہے۔ اس دور میں ایک خلقت نے آپ رحمہ الله سے استفادہ کیا ،جن میں ابو عوانہ نیشاپوری رحمہ الله ( م316ھ) قابلِ ذکر ہیں۔ ابوعوانہ نیشاپوری رحمہ الله نے ”مستخرج“ میں دو مقامات پر آپ کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ہم کو یہ حدیث حمص کے قاضی احمد بن شعیب نسائی نے سنائی۔ ( مستخرج ابی عوانة،ح:4407-3957)

یہ بیان ثابت کرتا ہے کہ آپ ایک زمانے میں حمص میں قاضی بھی رہے تھے۔

امام نسائی رحمہ الله پر تشیع کا الزام او راس کی تردید

امام نسائی رحمہ الله اپنے بلند مقام کے باوجود حاسدین سے محفوظنہ رہے۔ آپ پر تشیع کا الزام بھی لگایا گیا، جب کہ آپ  اس سے بری ہیں۔ آپ کی ساری زندگی اہل ِ سنت کے اعتقادی وفقہی ورثے کی حفاظت واشاعت میں گزری۔ اس کے باوجود تشیع کا الزام آپ کے بارے میں اتنا مشہو رہو گیا کہ فن ِ رجال کے ماہر حافظ ذہبی رحمہ الله اپنی جلالت ِ شان کے باوجود یہ تحریر فرماگئے:”الا أن فیہ قلیل تشیع وانحراف عن خصوم الامام علی، معاویة وعمرو، والله یسامحہ․“

”مگر ان میں تھوڑا سا تشیع او رحضرت علی ( رضی الله عنہ ) کے مخالفین، معاویہ ( رضی ا لله عنہ) اور عمرو ( بن العاص رضی الله عنہ) سے اعراض پایا جاتا تھا۔ الله ان سے در گزر فرمائے۔“ ( سیر اعلام النبلاء:14/133)

اس بیان کا حاصل یہ ہوا کہ امام نسائی رحمہ الله مشاجرات میں حضرت علی رضی الله عنہ کے بالمقابل آنے والے حضرات، خصوصاً حضرت معاویہ رضی الله عنہ او رحضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے نالاں تھے اوران سے ویسی محبت وعقیدت نہیں رکھتے تھے جیسے ہونی چاہیے۔ چوں کہ یہ بات اہل ِ سنت کے مسلک ومشرب کے خلاف ہے، اس لیے حافظ ذہبی رحمہ الله نے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ ”الله ان سے در گزر فرمائے۔“

مگر راقم نے جہاں تک دیکھا بھالا ہے، اس الزام کے ثبوت میں کوئی مضبوط دلیل نہیں مل سکی، جب کہ امام نسائی رحمہ الله کا اپنا قول وفعل اس کے برخلاف ہے۔ پس ساقط راویوں کی سند سے ایسے امام کے بارے میں اس قسم کی کوئی بات مروی ہو تو وہ لائق اعتنانہیں ہونی چاہیے۔

امام نسائی پر تشیع کا الزام سب سے پہلے کس نے لگایا؟

راقم کی چھان بین کے مطابق صفِ اوّل کے ماہرین ِ جرح وتعدیل میں سے کسی نے امام نسائی رحمہ الله کی تشیع کی طرف نسبت نہیں کی۔ البتہ امام مغلطائی رحمہ الله ( م762ھ) نے ایک راویت نقل کی ہے، جس کے مطابق امام مسلمہ بن قاسم قرطبی رحمہ الله ( م358ھ) نے امام نسائی رحمہ الله کے بارے میں کہا تھا کہ” ان پر تشیع کا الزام لگایا جاتا تھا۔“(وقال مسلمة: کان ثقة عالما بالحدیث، وکان یرمی بالتشیع․“ (اکمال تہذیب الکمال:1/57)

مسلمہ بن قاسم رحمہ الله کی جرح وتعدیل پر ” التاریخ الکبیر“ نامی کتاب مشہو رتھی، جو ایک جلد میں تھی اور اب نایاب ہے لہٰذا راقم کی اس تک رسائی نہیں ہو سکی، مگر امام مسلمہ بن قاسم رحمہ الله کی طرف اس قول کی نسبت درست ہو تب بھی یہ واضح ہے کہ جرح اُن کی طرف سے نہیں، بلکہ جارح نامعلوم ہے اور”کان یرمی“ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ کچھ نامعلوم لوگ ان پر یہ الزام لگاتے تھے۔ چناں چہ یہ اس وقت تک محض الزام شمار ہوگا جب تک اس کا کوئی بین ثبوت نہ مل جائے۔

یہاں یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ امام مسلمہ بن قاسم قرطبی رحمہ الله کی ثقاہت خود مختلف فیہ رہی ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ الله فرماتے ہیں:” لم یکن بثقة“ (وہ ثقہ نہیں تھے) پھر آگے ان کے بارے میں نقل کرتے ہیں:”قال ابن الفرضی: سمعت من ینسبہ الی الکذب، وقال لی محمد بن أحمد بن یحییٰ بن مفرج: لم یکن کذابا، بل کان ضعیف العقل․“

”ابن فرضی کا بیان ہے کہ میں نے بعض حضرات کو ان کی طرف کذب کی نسبت کرتے ہوئے سنا تھا، مگر مجھے محمد بن احمد بن مفرج نے بتایا کہ وہ کذاب نہ تھے، مگر عقل کے لحاظ سے کم زو رتھے۔“ ( سیر اعلام النبلاء:16/10)

ایک شخص کی عقل کامل نہ ہو تو وہ جرح وتعدیل میں اعتدال کیسے برت سکتا ہے؟ ایسی شخصیت اگر کسی افواہ کو کتاب جرح وتعدیل کا حصہ بنا دے تو یہ قرینِ قیاس ہے، مگرامام نسائی رحمہ الله جیسے عظیم الشان محدث کے بارے میں ایسی افواہ اس تالیف کی کم زوری کہلائے گی ،نہ کہ امام نسائی رحمہ الله کی۔

میزان الاعتدال میں حافظ ذہبی رحمہ الله نے انہی مسلمہ بن قاسم رحمہ الله کو ” ضعیف“ قرار دیا ہے اور لکھا ہے : ” کہا گیا ہے کہ وہ مشِّبہہ فرقے سے تھے۔“ (میزان الاعتدال:4/112)

حافظ ابن حجر حرمہ الله نے ” لسان المیزان“ میں مسلمہ بن قاسم رحمہ الله سے بد عقیدگی کی نفی کرتے ہوئے انہیں ” کبیر القدر“ قرار دیا ہے، مگر ان کے ضعیف عقل کی نفی نہیں کی۔ نیز ان کے بار ے میں ابو جعفر مالینی رحمہ الله کا قول نقل کیا ہے : ” فیہ نظر“ نیزابن الفرضی رحمہ الله کا یہ قول بھی نقل کیا ہے:” کان مسلمة صاحب رقیة ونیرنجانات وحفظ علیہ کلام سوء فی التشبیھات․“

”یعنی وہ جھاڑ پھونک او رعجائبات کے ماہر تھے اور ( صفات ِ باری کی ) تشبیہ کے بارے میں ان سے بُرا کلام بھی نقل کیا گیا ہے ۔“ ( لسان المیزان:8/61)

اس گفت گو سے امام مسلمہ بن قاسم رحمہ الله کی تنقیص مقصود نہیں، بلکہ ہم فقط یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اُن کی شخصیت ایسی بلند وبالا بھی نہ تھی کہ امام نسائی رحمہ الله جیسے عظیم محدث پر وہ کوئی افواہ نقل کریں تو اسے ” جرح مؤثر“ کی حیثیت دے دی جائے۔

محمد بن اسحق بن یحییٰ ابن مندہ رحمہ الله کی جرح

واحد شخصیت جس نے خود امام نسائی رحمہ الله پر تشیع کی جرح کی ہے محمد بن اسحاق بن یحییٰ ابن مندہ رحمہ الله ہیں۔ ( وہ محدثین کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جس میں ابن مندہ نام کی کنیت سے مشہور کئی شخصیات گزری ہیں، اس لییملحوظ رہے کہ یہ وہ ابن مندہ ہیں جو 395ھ میں فوت ہوئے تھے۔) یہ ثقہ او رمشہور محدث تھے، مگر جرح وتعدیل میں ان کا مقام ایسا نہ تھا کہ ان کی جرح امام نسائی رحمہ الله جیسی شخصیت پر مؤثر ہوسکے۔ بعض واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ابن مندہ رحمہ الله جرح میں متشدد تھے، چناں چہ امام ابونعیم اصفہانی رحمہ الله نے ان پر جرح کی تھی اور جواب میں انہوں نے بھی ان پر حد سے متجاوز جرح کی۔ حافظ ذہبی رحمہ الله تحریر فرماتے ہیں:”أقدع الحافظ أبو نُعیم فی جرحہ لما بینھما من الوحشة، ونال منہ، واتھمہ، فلم یلتفت الیہ لما بینھما من العظائم، نسأل الله العفو، فلقد نال ابن مندة من أبی نعیم، وأسرف أیضاً“․ (میزان الاعتدال:3/479)

یہاں یہ بھی یاد رکھا جائے کہ بڑی شخصیات کے بارے میں افواہیں عموماً اڑائی جاتی ہیں او ربعض اوقات کوئی عالم بھی ان پر یقین کرکے اس شخصیت کے بارے میں کوئی سخت لفظ استعمال کر سکتا ہے، مگر ایسی جرح مؤثر نہیں ہوسکتی، جب تک کہ اس کا کوئی حقیقی ثبوت موجو دنہ ہو۔

اس پہلو کو سامنے رکھ کر آپ محمد بن اسحاق ابن مندہ رحمہ الله کی جرح والی پوری روایت کو ( جو ابن جوزی کی المنتظم کے حوالے سے آگے آرہی ہے ۔) پڑھیں گے تو معلوم ہو گا کہ وہ بعض مجہول راویوں سے امام نسائی رحمہ الله کی وفات کا واقعہ نقل کر رہے تھے او راس واقعے میں امام نسائی رحمہ الله کی طرف حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں انہی مجاہیل کی وساطت سے سخت الفاظ نقل کیے گئے ہیں ( جو درحقیقت ثابت نہیں)۔ وہ الفاظ نقل کرنے کے فوراً بعد ابن مندہ رحمہ الله اپنا تاثر نقل کرتے ہوئے فوراً جرح کرتے ہیں:” وکان یتشیع“․

ظاہر ہے امام نسائی رحمہ الله کے بارے میں اگر کوئی عالم یقین کر لے کہ انہوں نے وہی الفاظ کہے تھے تو وہ ان کے بارے میں تشیع کی افواہ کو درست تصو رکر سکتا ہے او رایسے میں اس کا ” کان یتشیع“ کہہ دینا عجیب نہ ہو گا ،بالخصوص اگر وہ شخص جرح میں محتاط نہ ہو۔

ابن مندہ رحمہ الله نے ایسا ہی کیا اور یہ ان کے تسامحات میں سے ہے۔ آگے ہم اس واقعے کی پوری روایت نقل کریں گے، جس سے ثابت ہو گا کہ امام نسائی رحمہ الله کی طرف ان الفاظ کی نسبت ایسے راویوں نے کی تھی، جن کا اپنا خود کچھ اتاپتا نہیں ملتا۔

حضرت علی رضی الله عنہ سے اختلاف رکھنے والے صحابہ کے حوالے سے امام نسائی رحمہ الله کا طرز عمل

حضرت علی رضی ا لله عنہ سے اختلاف رکھنے والے صحابہ کرام کے حوالے سے امام نسائی رحمہ الله کا طرزِ عمل بالکل واضح اوراہل ِ سنت والجماعت کے عین مطابق ہے ،یعنی اس اختلاف کے باعث مرتبہ صحابیت اور صفت عدالت ساقط نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ امام نسائی رحمہ الله نے اپنی سنن میں جہاں خلفائے راشدین او ردیگر صحابہ کی روایات کو پورے اہتمام سے نقل کیا ہے وہاں اس میں حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی چھ صحیح احادیث بھی لی ہیں۔ ( سنن النسائی المجتبی،ح:5426, 5093, 2557 ,676, 675, 294)

جب کہ کچھ ایسی روایات بھی لی ہیں جن سے حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی سیرت کے مختلف پہلو سامنے آتے ہیں۔ اسی طرح فضائل الصحابہ میں بھی حضرت معاویہ رضی الله عنہ سے ایک حدیث لی گئی ہے۔ ( فضائل الصحابة للنسائی،ح:227)

اسی طرح آپ رحمہ الله نے سنن نسائی مجتبیٰ اور سنن نسائی کبریٰ دونوں میں حضرت عمروبن العاص رضی الله عنہ سے بھی روایات لی ہیں، مثلاً:”عن عمرو بن العاص ، قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : ان فضل ما بین صیامنا وصیام أھلِ الکتاب اکلة السحور․“ ( سنن النسائی المجتبیٰ،ح:2166)

ان عمرو بن العاص، حدث عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: التکبیر فی الفطر سبعا فی الاولیٰ وخمسا فی الآخرة․“ ( سنن النسائی الکبریٰ،ح:1817)

قال: ان النبي صلیی الله علیہ وسلم قال: انھا أیام اکل وشرب یعنی أیام التشریق․“ ( سنن النسائی الکبری،ح:2912)

عن قیس، عن عمرو بن العاص قال: قلت: یا رسول الله، أی الناس أحب الیک؟ قال: عائشة․ قلت: لیس من النساء، قال: أبوھا․“ (سنن النسائی الکبریٰ، ح:8052)

عن ابی عثمان قال: حدثنی عمروبن العاص قال: استعملنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عل جیش ذات السلاسل․( سنن النسائی الکبریٰ،ح:8063)

سنن نسائی کبریٰ میں آپ رحمہ الله نے مناقب ِ صحابہ میں حضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہ کے فضائل ومناقب پر ایک مستقل باب قائم کیا ہے او راس میں ایک حدیث نقل کی ہے، جس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضرت عمروبن العاص رضی الله عنہ کے ایمان کی شہادت دیتے ہیں۔ (سنن النسائی الکبریٰ،ح:8243)

الغرض امام نسائی رحمہ الله کے اپنے عمل سے ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ او رحضرت عمرو بن العاص رضی الله عنہ کو مؤمن، عادل اور ثقہ مانتے تھے، یعنی وہ حضرت علی رضی الله عنہ سے اختلاف کرنے والے صحابہ کرام کو وہی مقام دیتے تھے جس کے اہل سنت قائل ہیں۔

امام نسائی رحمہ الله اور دفاع حضرت معاویہ رضی الله عنہ

امام نسائی رحمہ الله کا دامن اس الزام سے پاک کرنے کے لیے مذکورہ حوالے بہت کافی ہیں، کیوں کہ وہ خود ان کی اپنی سنن سے لیے گئے ہیں۔ بھلا بدعت تشیع میں مبتلا کوئی شخص حضرت معاویہ یا حضرت عمرو بن العاص کی روایات سے استشہاد کیوں کرے گا؟

تاہم امام نسائی رحمہ الله کے مزید دفاع کے لیے ایسا حوالہ بھی موجود ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ پر طعن وتشنیع کو نہ صرف بہت بُرا سمجھتے تھے بلکہ اس قسم کی حرکات کو ایمان کے لیے خطرناک تصورکرتے تھے۔ حافظ ابن عساکر رحمہ الله اپنی سند سے نقل کرتے ہیں:

سئل النسائی عن معاویہ بن ابی سفیان صاحب رسول الله صلی الله علیہ وسلم، فقال: إنما الإسلام کدار لھا باب، فباب الإسلام الصحابة، فمن آذی الصحابة إنما أراد الإسلام، کمن نقر الباب إنما یرید دخول الدار ، قال: فمن أراد معاویة فإنما أراد الصحابة․

”امام نسائی رحمہ الله سے ایک بار رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابی حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہما کے مقام کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اسلام کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گھر ہو، جس کا ایک دروازہ ہو۔ اسلام کا دروازہ صحابہ کرام ہیں۔ جو صحابہ کرام کو اذیت دیتا ہے، اُس کا مقصد اسلام کو نشانہ بنانا ہے کیوں کہ جو دروازے کوٹھوکر مارتا ہے ، وہ گھر میں گھسنا چاہتا ہے۔“ پھر فرمایا:” جو حضرت معاویہ رضی الله عنہ ( پر طعن) کا ارادہ کرتا ہے، وہ ( درحقیقت) صحابہ( پر طعن) کا ارادہ کرتا ہے۔“ (تاریخ دمشق:71/176-175، تہذیب الکمال:1/340-339)

یعنی امام نسائی رحمہ الله کے نزدیک ایسا شخص اصل میں اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔

انتہائی بعید ہے کہ تشیع میں تھوڑا بہت مبتلا کوئی شخص صحابہ کرام کے دفاع کے حوالے سے ایسی دو ٹوک رائے رکھ سکے۔ پس یہ واقعہ پڑھنے کے بعد کسی کو بھی مذہب اہل سنت پر امام نسائی رحمہ الله کی کامل صلابت میں کوئی شک نہیں رہ جانا چاہیے۔ بحمد الله اس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ ان پر تشیع قلیل کا الزام بھی محض الزام ہے، جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ جو حضرات بلا تحقیق ایسا لکھ گئے ہیں، الله ان سے درگزر فرمائے۔

واقعہ شہادت اور اس سے ان کے تشیع پر استدلال

یہ بات ثابت ہے کہ امام نسائی رحمہ الله ایک ہنگامے میں بعض مفسدین کے ہاتھوں زد وکوب اور تشدد کے نتیجے میں شہید ہوئے، مگر عام طور پر یہ واقعہ اس طرح نقل کیا جاتا ہے کہ پڑھنے والے کو خواہ مخواہ خیال ہوتا ہے کہ امام نسائی رحمہ الله کا کچھ نہ کچھ میلان تشیع کی طرف ضرو رتھا۔ اب جو لوگ تشیع کی طرف مائل ہیں ، وہ اسے امام نسائی رحمہ الله کی حق گوئی قرار دے کر حضرت معاویہ رضی الله عنہ پر طعن کی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کہ دوسری طرف کچھ حضرات امام نسائی رحمہ الله سے بدگمان ہو کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کا جواب ایسا نامناسب تھا کہ اس پر لوگوں کا مشتعل ہونا فطری بات تھی۔ حالاں کہ تحقیق سے یہ واقعہ اس طرح ثابت نہیں ہوتا۔

اس واقعے کی مشکوک منظر کشی کرنے والی روایات کا جائزہ

اس واقعے کے مطابق امام نسائی رحمہ الله سے حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے فضائل کے بارے میں سوال کیا گیا تھا تو انہوں نے اس کا بڑا سخت جواب دیا، جس سے لوگ مشتعل ہو گئے۔ امام نسائی رحمہ الله کی طرف منسوب اس سخت جواب کا ذکر دو روایات میں ہے او ردونوں کے اصل رُواة مجہول ہیں۔

پہلی روایت

”عن محمد بن إسحاق الأصبھانی، قال:سمعت مشیخنا بمصر یذکرون أن أبا عبدالرحمن فارق مصر فی آخر عمر، وخرج إلی دمشق، فسئل عن معاویة ماروی فی فضائلہ، فقال: لا یرضی معاویہ رأسا برأس حتی یفضل، قال: وکان یتشیع، فما زالوا یدفعون فی خصیتہ حتی أخرج من المسجد، ثم حمل إلی الرملة، فمات فدفن بھا سنة ثلاث وثلاثمائة․“

” محمد بن اسحق اصفہانی نقل کرتے ہیں، میں نے مصر میں اپنے مشائخ سے سنا کہ ابو عبدالرحمن ( امام نسائی رحمہ الله) نے آخری عمر میں مصر چھوڑ دیا اور دمشق کی طرف نکل گئے۔ وہاں اُن سے حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے فضائل کی احادیث پوچھی گئیں۔ انہوں نے کہا:” کیا معاویہ برابر سرابر پر راضی نہیں( یعنی نہ ان کے لیے فضیلت ہو، نہ مذمت) چہ جائیکہ ان کے فضائل سنائے جائیں؟“ راوی( محمد بن اسحاق ابن مندہ) نے کہا: ( انہوں نے ایسا اس لیے کہا کہ ) وہ تشیع میں مبتلا تھے۔ پس لوگ مسلسل انہیں خصتین پر مارتے رہے ،یہاں تک کہ انہیں مسجد سے نکال دیا گیا۔ انہیں اٹھا کر رملہ لے جایا گیا، جہاں وہ ( زخموں کے باعث ) فوت ہو کر وہیں دفن ہوئے۔ یہ 303ھ کی بات ہے۔“ (المنتظم:6/113، وفیات سن303ھ ط دار صادر)

چوں کہ یہ مجہول مشائخ کی روایت ہے اور یہ بھی واضح نہیں کہ ان مشائخ نے یہ واقعہ خود دیکھا تھا یا دوسرے لوگوں سے سنا تھا اور وہ دوسرے لوگ کون اور کیسے تھے؟ لہٰذا اس روایت میں سہو ونسیان بلکہ بعض وضع کا خدشہ بھی ہے۔ نیز راوی محمد بن اسحق بن یحییٰ ابن مندہ رحمہ الله کا امام نسائی رحمہ الله کے متعلق بلا ثبوت کہنا کہ وہ تشیع میں مبتلا تھے، محض ایک الزام ہے جس کا مدار مجاہیل کی روایت پر ہے۔ نیز پیچھے یہ بھی بتایا جاچکا ہے کہ یہ محمد بن اسحق ابن مندہ رحمہ الله جرح میں متشدد ہیں۔ پس امام نسائی رحمہ الله پر ان کی یہ جرح ،جس کا دار ومدار مجاہیل کی روایت پر ہے، قابل قبول نہیں ہو سکتی۔

دوسری روایت

دوسری روایت کو ابن عدیم رحمہ الله نے یوں ذکر کیا ہے:
”قال علی بن محمد المادرائی: وحدثنی أھل بیت المقدس قالوا: قرأ علینا أبو عبدالرحمن النسائی کتاب الخصائص، فقلنا لہ: أین فضائل معاویة؟ فقال: وما یرضی معاویة أن یسکت عنہ، قال: فرجمناہ وضغطناہ، وجعلنا نضرب جنبہ، فمات بعد ثلاث“․

”علی بن محمد مادرائی کا بیان ہے: مجھے بیت المقدس کے لوگوں نے بتایا: امام نسائی نے ہمیں اپنی کتاب خصائص ِ علی رضی الله عنہ سنائی تو ہم نے پوچھا: حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے فضائل کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا: کیا معاویہ رضی الله عنہ اس پر راضی نہیں کہ ان کے متعلق سکوت کیا جائے؟ اس پر ہم نے انہیں پتھر مارے، انہیں کچلا او ران کے پہلو پر ضربیں لگائیں، جس سے وہ تین دن بعد فوت ہو گئے۔“ ( بغیة الطلب فی تاریخ حلب لابن العدیم:2/786، ط دارالفکر)

اس روایت کے روای المادرائی ہیں، جو ہماری تلاش کے مطابق غالباً علی بن احمد بن محمد بن علی ابو محمد ہیں۔ یہ صاحب سند ِ توثیق سے بالکل محروم ہیں، بلکہ خود ان پر تشیع کی جرح ہے۔ ( تاریخ بغداد:18/91، ط العلمیة)

اور اگر یہ کوئی اور شخصیت ہیں تو بالکل مجہول ہیں۔ پھر انہوں نے جن لوگوں سے یہ واقعہ سنا، وہ بھی نامعلوم ہیں۔

پھر یہ مجاہیل اس واقعے کو صیغہٴ جمع متکلم سے بیان کر رہے ہیں، یعنی وہ بیان کر رہے ہیں کہ امام نسائی رحمہ الله نے ایسا ایسا کہا تو ہم نے انہیں مارا۔ سوال یہ ہے کہ اتنے بڑے عالم ِ دین پر ایسے بہیمانہ تشدد میں شریک مجرموں کا بیان کیا قابل ِ اعتبار ہو سکتا ہے ؟ ایسا بکثرت ہوتا ہے کہ شرپسند لوگ کسی نیک شخص کو اپنے بغض وعناد کے باعث اذیتوں کا نشانہ بناتے ہیں او رپھر اپنے بدترین افعال کے لیے بھی کوئی وجہ ِ جواز تراش لیتے ہیں او راس شخصیت کی جانب کوئی خلافِ واقعہ بات مسنوب کر دیتے ہیں، مگر سمجھ دار ایسی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے، بلکہ جان لیتے ہیں کہ یہ محض معاملے کو چھپانے کی کوشش ہے۔

الغرض یہ کسی بھی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ امام نسائی رحمہ الله کا جواب ایسے الفاظ میں تھا۔ لہٰذا ان روایات سے یہ استدلال کرنا کہ امام نسائی رحمہ الله حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی تنقیص کرتے تھے، بالکل غلط ہے۔

واقعے کی حقیقی شکل

ہم اس واقعے کی صحیح شکل کی طرف آتے ہیں، جو مستند مصادر اورمعتمد اسناد سے ثابت ہے۔

امام نسائی رحمہ الله کے اپنے بیان کے مطابق ان کے زمانے میں شام کے بعض شہروں میں خارجیت وناصبیت کا کچھ اثر باقی تھا او ربعض لوگ حضرت علی رضی الله عنہ سے محبت وعقیدت نہیں رکھتے تھے، اس لیے آپ  نے شام میں سکونت کے زمانے میں ان لوگوں کی اصلاح کے لیے ”خصائص علی رضی الله عنہ“ تحریر فرمائی، جس میں حضرت علی رضی الله عنہ کے فضائل ومناقب کی احادیث جمع تھیں۔

قال النسائی: دخلنا إلی دمشق والمنحرف عن علی بھاکثیر، فصنف کتاب الخصائص رجاء أن یھدیھم الله․ (تاریخ دمشق:71/173)

اس پر کچھ لوگوں نے شکوہ کیا کہ آپ نے حضرات خلفائے ثلاثہ کے مناقب کیوں نہ لکھے؟

ینکرون علیہ کتاب الخصائص لعلی ترکہ لتصنیف فضائل أبی بکر، وعمر، وعثمان․(تاریخ دمشق:71/173)

چناں چہ آپ رحمہ الله نے ”فضائل الصحابہ“ تحریر فرمائی، جس میں خلفائے راشدین، عشرہ مبشرہ، اہل ِ بیت اور دیگر صحابہ کے فضائل ومناقب جمع تھے۔ آپ نے یہ کتاب لوگوں کو پڑھ کر بھی سنائی۔

ثم صنف بعد لک فضائل أصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم وقرأھا علی الناس․(تاریخ دمشق:71/173)

ایک دن کچھلوگوں نے آپ سے حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے فضائل کی ( صحیح) احادیث نقل کرانے کی فرمائش کی۔ چوں کہ آپ رحمہ الله کو اپنے شیوخ سے جو احادیث پہنچی تھی، ان میں ایسی کوئی حدیث آپ رحمہ الله کے نزدیک درجہٴ صحت پر نہ تھی، اس لیے آپ  نے ان کی فرمائش پوری کرنے سے معذوری ظاہر کی او ربتایا کہ اس ضمن میں ”اللھم لا تشبع بطنہ“ والی روایت درج نہیں کی جاسکتی۔ کیوں کہ یہ روایت آپ کے نزدیک کسی ایسی واضح فضیلت ومنقبت پر مشتمل نہ تھی جس سے محکم استدلال ہو سکے۔

وقیل لہ: ألا تخرج فضائل معاویة؟ فقال: أی شیء أخرج؟ اللھم لا تشبع بطنہ؟ وسکت، وسکت السائل․( تاریخ دمشق:71/174)

یاد رہے کہ اس روایت کو امام مسلم رحمہ الله نے اپنی صحیح میں ان احادیث کے ساتھ ذکر کیا ہے جن سے اخلاق اور آداب کی تعلیم ملتی ہے۔ امام نووی رحمہ الله نے اس پر درج ِ ذیل عنوان قائم کیا ہے :

” باب من لعنہ النبي صلی الله علیہ وسلم، وسبہ، ودعا علیہ، ولیس ھو أھلا لذلک، کان لہ زکاة وأجراً ورحمةً․“

بہرکیف یہ روایت حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی منقبت میں صریح نہیں۔ ہاں! اس سے منقبت کا اشارہ مل سکتا ہے جیسا کہ حافظ ذہبی رحمہ الله نے لکھا ہے :

” لعل أن یقال ھذہ منقبة لمعاویة لقولہ صلی الله علیہ وسلم: اللھم من لعنتہ أو سببتہ فاجعل ذلک لہ زکاة ورحمة․ (سیرا علام النبلاء:14/130)

اور ابن عساکر رحمہ الله لکھتے ہیں:
قال بعض أھل العلم: وھذہ أفضل فضیلة لمعاویة لأن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: اللّٰھم إنما أنا بشر، أغضب کما یغضب البشر، فمن لعنتہ أو سببتہ فاجعل ذلک لہ زکاة ورحمة․(تاریخ دمشق:71/174)

بہرحال چوں کہ اس حدیث میں حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی منقبت صرحیح نہ تھی او ران کی فضیلت میں ( امام نسائی رحمہ الله کے مطابق ) کوئی اور صحیح السند روایت موجود نہ تھی، لہٰذا وہ اس حوالے سے معذرت کرنے میں اپنے طو رپر حق بجانب تھے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ کی منقبت میں فی الواقع بھی کوئی صحیح حدیث نہ ہو۔ ان ائمہ کے ہاں صحت ِ حدیث کی اپنی اپنی شرائط تھیں اور اس لحاظ سے ایک حدیث ایک امام کے نزدیک صحیح ہوتی تھی اور دوسرے کے نزدیک اُسے یہ درجہ نہیں مل سکتا تھا۔ یہ ایک خالص علمی اختلا ف تھا۔

ابتلا کا آغاز

علمی اختلافات جب تک علمائے حق کے درمیان رہیں، وہ شائستہ، باوقار او رمفید ہوتے ہیں، مگر جب عامی لوگ انہیں کسی ایک فریق کی کردار کشی کا ذریعہ بنالیں تو صورت حال بگڑ جاتی ہے اور یہ بگاڑ اس صورت میں انتہا کو پہنچ جاتا ہے جب سیاسی شخصیات اس میں دخیل ہو جائیں۔ افسوس کہ امام نسائی رحمہ الله کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ آپ رحمہ الله مصر واپس تشریف لائے تو کچھ مدت بعد خلفائے بنو عباس کی جانب سے مصر میں ابو منصور تگین نامی افسر کو نائب مقرر کر دیا گیا۔ وہ397 سے ذوالقعدہ302ھ تک ( یعنی امام نسائی رحمہ الله کے مصر سے نقل مکانی تک ) مصر کا امیر رہا تھا۔ ( کتاب الولاة والقضاة للکندی:ص197, 199, 202,194)

ایسا لگتا ہے کہ اسے کسی نے پٹی پڑھائی تھی کہ امام نسائی رحمہ الله بد عقیدہ ہیں او رحضرت معاویہ رضی الله عنہ کے فضائل کے منکر ہیں۔ (ممکن ہے کہ وہ حاکم خود بھی ناصبیت سے متاثر ہو) بہر حال حاکم نے انہیں تنگ کرنے یا آزمانے کے لیے اُن سے مطالبہ کیا کہ وہ حضرت معاویہ رضی الله عنہ کے فضائل پر کچھ صحیح احادیث لکھ کر دیں۔ آپ رحمہ الله نے اگلے ہفتے فضائل معاویہ رضی الله عنہ پر دو احادیث تحریرفرما کر اسے پیش کر دیں، مگر ساتھ ہی واضح فرما دیا کہ یہ روایات صحیح کے درجے کی نہیں ہیں۔

حدیث کا درجہ صحت پر ہونا یا نہ ہونا ایک خالص علمی مسئلہ تھا، جو آپ رحمہ الله نے اپنی تحقیق کے مطابق پوری دیانت کے ساتھ حاکم کے سامنے رکھ دیا، مگر حاکم نے اسے ان کے حضرت معاویہ رضی الله عنہ سے بُغض پر محمول کیا اور اُن سے ناراض ہو گیا۔
(بغیة الطلب فی تاریخ حلب لابن العدیم:2/785، ط دارالفکر)

اس واقعے کو حاسدین نے خوب بگاڑ کر اس قدر مشہو رکیا کہ امام صاحب رحمہ الله کے لیے مصر میں حالات سخت ناساز گار ہو گئے۔ امام دارقطنی رحمہ الله کے مطابق ان لوگوں کو آپ کا مقام ومرتبہ برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ آپ نے ان کے سلوک سے نالاں ہو کر مصر چھوڑ دیا اور فلسطین روانہ ہو گئے۔

قال الدارقطنی: فلما بلغ ھذا المبلغ حسد وہ فخرج إلی الرملة․ (تہذیب الکمال:1/340، البدایة والنھایة:14/795، ط، ھجر)

آپ رحمہ الله کی نیت کچھ دن شام میں رہ کر سفرِ حج کی تھی، مگر وہاں آپ کا ابتلا مزید بڑھ گیا۔

قال الدارقطنی: خرج حاجا فامتحن بدمشق․(سیر اعلام النبلاء:14/132)

آپ رحمہ الله دمشق پہنچ کر کچھ دن رُکے۔ یہاں جامع مسجد میں ایک بار پھر کچھ لوگوں نے آپ رحمہ الله سے حضرت معاویہ رضی ا لله عنہ کے فضائل پر احادیث نقل کرانے کی فرمائش کی ،یعنی وہی سوال کیا جس کی آڑ لے کر مصر میں آپ رحمہ الله کے خلاف فتنہ پھیلا یا گیا تھا او راسی گروہ کے کچھ لوگ محض فتنہ انگیزی کے لیے اب دمشق میں بھی آپ رحمہ الله سے یہی سوال کر رہے تھے۔ آپ رحمہ الله سمجھ گئے کہ یہ بدنیت لوگ ہیں اور انہیں کیسابھی تحقیقی جواب دیا جائے، یہ اُسے غلط طور پر مشہور کرکے مزید کردار کشی کریں گے۔ لہٰذا آپ نے سکوت اختیار کیا۔
قال الدار قطنی: فسئل عن فضائل معاویہ، فأمسک عنہ․( تہدیب الکمال:1/339)

اہل خرد سے مخفی نہیں کہ یہ سکوت آپ رحمہ الله کے تشیع یا حضرت معاویہ رضی الله عنہ سے اعراض کی دلیل نہیں بن سکتا تھا۔ مگر چوں کہ یہ لوگ پہلے سے کچھ ٹھان کر آئے تھے، لہٰذا اس سکوت کو بھی انہوں نے غلط معنی دیتے ہوئے جامع مسجد ہی میں آپ پر حملہ کر دیا۔

قال الدارقطنی: فضربوہ فی الجامع․( تہذیب الکمال:1/339)

امام نسائی رحمہ الله ان کے ظلم کا نشانہ بن کر شدید رخمی ہو گئے اورانہی زخموں کے باعث چند دن بعد وفات پاگئے۔ چوں کہ مظلوم قتل ہونے والا حکماً شہید ہوتا ہے، لہٰذا اس قتل کو بعض علماء نے شہادت شمار کیا:
وتوفی بھا مقتولا شہیدا․( تہذیب الکمال:1/339)

امام مزی رحمہ الله نے نقل کیا ہے کہ آپ پر حملہ کرنے والے خوارج تھے۔

استُشھِدَ رضی الله عنہ بدمشق من جھة الخوارج․ (تہذیب الکمال:1334)

راقم عرض کرتا ہے کہ یہاں خوارج سے مراد ” نواصب“ ہیں، جن پر مجازاً” خوارج“ کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔ یہاں اصلی خوارج مرادنہیں ہوسکتے، کیوں کہ وہ حضرت علی رضی الله عنہ او رحضرت معاویہ رضی الله عنہ دونوں سے اظہار برأت کرتے ہیں او ران میں سے کسی کی فضیلت کے قائل نہیں۔

مذکورہ واقعے کے بارے میں دو وضاحتیں

ایک غلطی فہمی اس حوالے سے بھی پائی جاتی ہے کہ امام نسائی رحمہ الله کو یہ ضرب جسم کے کس حصے پر لگائی گئی تھی؟ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں”خصیتین“ پر ضربیں لگائی گئیں۔ راقم کی تلاش کے مطابق فقط ابن جوزی کی ”المنتظم“ میں ”خصیتیہ“ کا لفظ آیا ہے۔ ہاں بعد کے متعدد مصنفین نے نقل در نقل کے تحت اسی کو اختیا رکر لیا۔ (وفیات الاعیان:1/77)

مگر راقم کے نزدیک غالباً یہ سہو کتابت ہے اور صحیح لفظ ”حضنیہ“ ہے یعنی ” دونوں پہلو“۔ اکثر مآخذ میں یہی مذکور ہے۔

تاریخ دمشق:71/175، تہذیب الکمال:1/339، بغیة الطلب:2/785، وفیات الاعیان:1/77، تاریخ الاسلام للذھبی:23/109، تدمری، البدایة والنھایة:14/795، ط دار ھجر)

نیز بعض نے اسے ” حضنہ“ (مفرد) لکھا ہے۔ نیز ایک روایت میں ”جنبہ“ ہے۔ اسی کا معنی بھی ”پہلو“ ہے۔(بغیة الطلب:2/786، ط دارالفکر)

ایک مشہور اختلاف اس حوالے سے ہے کہ اس زدوکوب کے بعد امام نسائی رحمہ الله کی وفات کہاں ہوئی۔ امام دارقطنی رحمہ الله نے نقل کیا ہے کہ آپ رحمہ الله کے حکم کے مطابق آپ کو رخمی حالت میں مکہ لے جایا گیا، جہاں پہنچ کر آپ  نے دم توڑ دیا اور صفا مروہ کے درمیان آپ کی تدفین ہوئی۔

قال الدارقطنی: فقال: أخرجونی إلی مکة فأخرجوہ وھو علیل فتوفی بمکة مقتولا شھیداً․ ( تہذیب الکمال:1/339)

جب کہ امام نسائی رحمہ الله کے تلمیذ ابن یونس المصری رحمہ الله نے لکھا ہے کہ امام نسائی رحمہ الله ذوالقعدہ302ھ میں مصر سے روانہ ہوئے تھے اور 13 صفر303 کو فلسطین میں فوت ہوئے۔
تاریخ ابن یونس المصری:2/24)

ابن جوزی رحمہ ا لله کی نقل کردہ روایت کے مطابق رملہ میں تدفین ہوئی۔

ثم حمل إلی الرملة، فمات فدفن بھا سنة ثالث وثلاثمائة․( المنتظم:6/113، وفیات سنة303 ھ ط دار صادر)

حافظ ذہبی رحمہ الله نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔

قلت: ہذا أصح، فإن ابن یونس حافظ یقظ وقد أخذ عن النسائی، وھو بہ عارف․ ( سیر اعلام النبلاء:14/133)

ہمارے لیے سبق

امام نسائی رحمہ الله کا شرپسندوں کے پروپیگنڈے کی زد میں رہنا، یہاں تک کہ نقل مکانی پر مجبو رہونا او رپھر ایسے شریروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بن کر شہادت پانا ایک نہایت الم ناک واقعہ ہے، جسے پڑھ کر انسان ایک عجیب صدمے کی کیفیت سے دو چار ہوتا ہے۔

مگر اس واقعے میں علمائے حق کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ انسانوں کی آزمائش ان کے مراتب کے بقدر ہوتی ہے۔ جو شخص اسلام کی آبیاری اور باطل کے قلعوں کی شکست وریخت میں جتنا زیادہ فعال ہو گا، اسے اسی قدر منفی پروپیگنڈے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسی صورت حال بسا اوقات اہل علم کے لیے دلی رنج وغم کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ ایسے میں امام نسائی رحمہ الله جیسی عظیم علمی شخصیات کا ایسی سخت آزمائشوں میں مبتلا ہونا اوران پر صبر کرنا ہمیں بڑی تسلی اور دنیا حوصلہ دیتا ہے۔ اگر وہ ان آزمائشوں میں گھر کر بھی کام یاب رہے بلکہ مزید چمک گئے تو ہم ایسے حالات میں مایوس کیوں ہوں؟

یقینا امام نسائی رحمہ الله اُس وقت سخت ناقدری کا نشانہ بنے، مگر چوں کہ ان کا کام اخلاص سے بھرپور، منہج اہلِ حق کے مطابق او رعلمی تحقیق میں اعلیٰ درجے کا تھا، اس لیے کسی کی شرانگیزی او رکسی کا منفی پروپیگنڈا اُن کی باقیات صالحات کو محو نہ کرسکا۔ معترضین کا نام ونشان مٹ گیا، جب کہ امام نسائی رحمہ الله کا کام آج بھی زندہ وتابندہ ہے۔ آج بھی بے شمار علماء وطلبہ ان کی کتب سے استفادہ کر رہے ہیں، خصوصاً برصغیر پاک وہند کے مدارس میں سنن نسائی دورہٴ حدیث کے نصاب کا حصہ ہے۔ اسے پڑھے او راس کا امتحان دیے بغیر کوئی طالب علم فاضل مدرسہ نہیں ہو سکتا۔صدیاں گزر گئیں، امام نسائی رحمہ الله اپنی مرقد میں آرام فرما ہیں او ران کے صدقہ جاریہ کا اجر وثواب دن بدن بڑھتا ہی جارہاہے #
          بنا کردند خوش رسمے بخاک وخون غلطیدن
          خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

روشن مینار سے متعلق