موسم گرما اور اسکولوں کی سالانہ تعطیلات…

idara letterhead universal2c

موسم گرما اور اسکولوں کی سالانہ تعطیلات…

 امداد الحق بختیار

موسم گرما (Summer)میں عصری تعلیمی اداروں کے سالانہ امتحان کے بعد طویل تعطیلات (Holidays)ہوتی ہیں، جس کا دورانیہ (Duration)ایک مہینہ سے بھی زیادہ ہوتا ہے، اس وقفہ کو بہت سارے طلبہ، طالبات اور ان کے والدین مختلف قسم کی مفید سرگرمیوں (Useful activities)میں صرف کرتے ہیں، جب کہ بعض ایسے بھی ہیں، جو غیر مفید کاموں، سستی اور لا پرواہی میں یہ قیمتی اوقات ضائع (Spoil) کردیتے ہیں، راتوں کو جاگتے ہیں، پھر دن بھر سوتے ہیں، بعض موبائل فون اور ٹی وی کے سامنے اپنے شب و روز گزار دیتے ہیں، بعض سارا وقت کرکٹ اور دیگر کھیلوں میں لگے رہتے ہیں، بچیاں شاپنگ وغیرہ میں مشغول ہو جاتی ہیں، بعض والدین بچوں کو کسی پکنک اسپاٹ کی سیر کرانے لے جاتے ہیں، ایک بڑی تعداد ایسے والدین کی ہے، جن کے پاس اپنے بچوں کی سالانہ تعطیلات کو مفید بنانے کے لیے کوئی لائحہ عمل (Planning)نہیں ہوتا۔

وقت کی اہمیت

یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری زندگی کی ایک ایک گھڑی (Second)بہت قیمتی ہے، جو وقت نکل گیا، وہ موت تک کبھی واپس نہیں آسکتا، وقت دنیا کی سب سے قیمتی؛ بلکہ انمول (Priceless)چیز ہے، اس دنیا میں انسان کی زندگی محدود (Limited) ہے، انسانیت کی رہ نمائی اور فلاح و بہبود کے لیے نازل کی گئی کتاب، یعنی قرآن کریم میں وقت کی اہمیت کو بتانے کے لیے اللہ تبارک و تعالی نے کئی مقامات پر اس کی قسم کھائی ہے، کبھی عصر کی قسم کھائی ہے، کبھی رات کی، کبھی دن کی، کبھی صبح کی، کبھی شام کی، تاکہ انسانوں کو وقت کی قدر وقیمت معلوم ہو اور وہ اپنی زندگی کے قیمتی اوقات کو ضائع کرنے سے بچیں۔ اسی طرح اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

﴿فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ، وَإِلَی رَبِّکَ فَارْغَبْ﴾ ترجمہ: پھر جب آپ کام سے فارغ ہوجائیں، تو دوسرے کام میں اپنے آپ کو لگا کر تھکائیں اور اپنے رب کی طرف ہی دل چسپی لیں۔ (سورة الشرح).

اس آیت کا پیغام یہ ہے کہ انسان کو جب دنیاوی کاموں سے فراغت ملے، تو پھر اخلاص کے ساتھ اور اللہ تعالی کی رضا کے لیے اسے آخرت کے کاموں کی طرف متوجہ ہونا چاہیے، وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے، سستی اور لاپرواہی سے کام نہیں لینا چاہیے؛ بلکہ اپنی دنیا اور آخرت کی مفید چیزوں کے حصول کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے، چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال: قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس: الصحة والفراغ․ترجمہ: دو نعمتیں ایسی ہیں، جن میں اکثر لوگ لاپرواہی کرتے ہیں: (1) صحت (2) خالی اوقات۔ (صحیح البخاری، باب لا عیش إلا عیش الآخرة، 6412)

لہذا سالانہ تعطیلات کے ان ایام کو سستی، کاہلی، غفلت اور بے کار کے کاموں میں ضائع کرنے سے ہمیں بچنا چاہیے، چھٹی کے یہ ایام اللہ تعالی کی طرف سے نعمت ہیں، ان کا صحیح استعمال کرنا چاہیے۔

بچے والدین کے پاس امانت ہیں

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ بچے ہمارے پاس امانت ہیں، اور امانت کی حفاظت واجب ہے، والدین کو بچوں کا ذمہ دار بنایا گیا ہے، ہماری نگرانی اور ذمہ داری میں ان بچوں کو دیا گیا ہے، لہذا ان کی صحیح تربیت کرنا، ان کو اچھا انسان بنانے کی کوشش کرنا، غلط راستوں سے ان کو بچانا، غلط کاموں سے ان کو دور رکھنا، ان کے اخلاق و کردار کو سنوارنا، ان کی عادات واطوار کو بہتر بنانا، یہ سب ہماری ذمہ داری ہے اور ہم سے اس کے بارے میں کل قیامت کے دن سوال بھی ہو گا، جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

کلکم راع وکل مسؤول عن رعیتہ․ ترجمہ: تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اس سے اس کی نگرانی کے بارے میں سوال ہوگا۔ (صحیح بخاری، باب ﴿قوا أنفسکم وأہیلکم نارا﴾، 4892)

اولاد کی صحیح تربیت – ایک بڑی ذمہ داری

لہذا والدین کو بچوں کی تربیت پر توجہ دینی چاہیے، ان کو مہذب اور ادبی گفتگو سکھانا، ان کی ہر نقل وحرکت پر نگاہ رکھنا، ان کو ادب، تہذیب اور شائستگی سکھانا، یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہماری نئی نسل (New generation) میں اس کی بہت کمی دیکھی جا رہی ہے، بچوں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کی بول چال بالکل بازاری اور اوباش قسم کے لوگوں کی طرح ہوتی جارہی ہے، ان کی عادتیں اور ان کے اخلاق قابل افسوس ہیں، مگر ہم اس پر افسوس تو کرتے ہیں، لیکن اس کو دور کرنے کی صحیح اور عملی کوشش نہیں کرتے؛ جب کہ تربیت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت تاکید فرمائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

وعن أنس بن مالک رضی اللہ عنہما عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم: أکْرِموا أوْلادَکُم، وأحسِنُوا أدَبَہم․ ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی اولاد کی عزت کرو اور انہیں اچھا ادب سکھاؤ۔ (ابن ماجہ، باب بر الوالد والإحسان إلی البنات، 3671.)

ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
وعن أیوب بن موسی عن أبیہ عن جدہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ما نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا من نَحْلٍ أَفْضَلَ من أَدَبٍ حَسَنٍ․ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی والد نے اپنے بچے کو اچھے ادب سے بہتر کوئی ہدیہ نہیں دیا۔ (الترمذی، کتاب البر والصلة، باب ما جاء فی أدب الولد، رقم 1952)

ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی ہے:
عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ما ورَّث والدٌ وَلَداً خَیراً مِنْ أدَبٍ حَسَن․ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: کسی والد نے اپنے بچے کو اچھے ادب سے بہتر کوئی میراث نہیں دی۔ (أخرجہ الطبرانی فی الأوسط، 3658)

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَیْْہَا مَلَائِکَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا یَعْصُونَ اللَّہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ﴾․سورة التحریم: 6․

ترجمہ: اے ایمان والو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو ایسی آگ سے، جس کا ایندھن (Fuel) انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر سخت ترین طاقت ور فرشتے تعینات (Deployed)ہوں گے، جو اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور انہیں جو حکم دیا جاتا ہے، اسے وہ ضرور پورا کرتے ہیں۔

آج کل عمومی صورت حال یہ ہے کہ مسلمان والدین اپنی اولاد کو دنیا کی آگ، اس کی مشقت، دشواری اور پریشانیوں سے حفاظت کی تدبیریں تو کرتے ہیں، لیکن آخرت کی مشکلات، پریشانیاں اور وہاں کی آگ سے بچانے کی کوشش محض رسمی اور برائے نام ہوتی ہے، لہذا قرآن پاک کی اس آیت کے مطابق ہمیں اپنی اولاد کو دنیا کی آگ کے ساتھ ساتھ آخرت کی آگ سے بچانے کی بھی فکر اور عملی کوشش کرنی چاہیے اور یہ جب ہی ہوگا، جب کہ ہم اپنی اولاد کی صحیح اور دینی تربیت کے لیے کمر بستہ ہوں گے؛ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بچے بالکل خالی الذہن ہوتے ہیں، ہم اپنی کوشش سے ان کو اچھا انسان بھی بنا سکتے ہیں اور ہماری لا پرواہی ان کو برا انسان بھی بنا سکتی ہے، ہم نے اگر ان کو اچھا ماحول فراہم کیا، صحیح رہ نمائی کی، اچھی عادتوں کی تاکید کی، مہذب زندگی کا ماحول دیا، سچائی، امانت داری، تعاون اور مدد کی عملی تعلیم دی، تو ان کے خالی ذہن میں ہمیشہ کے لیے یہ چیزیں نقش ہو جائیں گی اور ہمیشہ ان کی رہ نمائی میں وہ اپنی بہترین زندگی کا سفر طے کریں گے۔

بچوں کے لیے رول ماڈل بنیں

اپنی اولاد کی صحیح تربیت کے لیے ہمارے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ بچے اپنے بڑوں کے اخلاق، اعمال، عادت و اطوار اور گفتار و کردار کو دیکھ کر ہی سیکھتے ہیں اور زیادہ تر بچوں کی زندگی اپنے بڑوں اور والدین کی طرح ہی ہوتی ہے؛ لہذا ہم جیسے ہوں گے، ہمارے بچے بھی ویسے ہی ہوں گے؛ کیوں کہ املی کا پیڑ (Tamarind tree)کتنی ہی کوشش کرلے، اس پر آم نہیں آسکتے، کوئلے کی کان (Coal mine)سے کوئلہ اور سونے کی کان سے سونا ہی نکلتا ہے، لہذا جیسے ہمارے اخلاق و عادات ہوں گے، ہمارے بچے بھی وہی سیکھیں گے، جیسی ہماری گفتگو ہو گی، ہمارے بچے بھی اسی کی نقل (Follow)کریں گے؛ اس لیے بچوں کی صحیح تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ پہلے ہماری تربیت ہو، ہم اپنا جائزہ لیں، اپنا محاسبہ کریں، اپنے اخلاق وکردار کو سنواریں، اپنی شخصیت کی اصلاح کی کوشش کریں، اس کے لیے قرآن وحدیث کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ علماء کی مجالس میں بیٹھیں اور صحیح اللہ والوں کی صحبت اختیار کریں۔

ہم نے اگر اپنی اصلاح کی فکر اور کوشش نہیں کی، ہم نے اگر اپنی زبان، عادتیں، اخلاق نہیں بدلے، ہم اگر عبادت کے پابند نہیں بنے، تو پھر اپنی اولاد کی اصلاح کا ہمارا خواب، صرف خواب ہی رہے گا، حقیقت میں شاید کبھی نہیں بدل سکتا۔

موجودہ ماحول میں بچوں کی تربیت -ایک بڑا چیلنج

موجودہ زمانہ میں مسلمان نسل کے دین وایمان کو کم زور کرنے، اسلامی اخلاقیات اور دینی راستہ سے انہیں ہٹانے، غیروں کے طور طریقہ ان کے ذہن و دماغ پر حاوی کرنے، انہیں غیروں کے رنگ میں رنگنے اور ان سے متاثر ہونے اور کرنے کے بہت سے طریقے رائج ہو گئے ہیں، چناں چہ موبائل فون اور اس میں آنے والے کارٹون ہوں، ڈرامے اور پروگرامز ہوں، ٹی وی اور اس پر دکھائی جانے والی فلمیں ہوں، سیر و تفریح کے بناوٹی مقامات اور وہاں کی اکٹوٹیز (Activities)ہوں یا عصری تعلیمی اداروں کی نصابی کتابیں (Curriculum)اور ان میں پڑھایا جانے والا مضمون ہو، الغرض ہر چہار طرف سے دانستہ اور غیر دانستہ (Intentionally and unintentionally) کوشش ہو رہی ہے کہ ہمارے بچوں کے عقائد کم زور ہوجائیں اور دینی اعمال سے وہ دور ہو جائیں اور وہ بھی غیروں کے راستوں پر چلنے لگیں۔

اسی طرح بڑے ہونے کے ساتھ اولاد کی طرف سے والدین کی نافرمانی کی شکایت ہمارے معاشرہ میں عام ہو تی جا رہی ہے، بچوں میں بڑوں کا ادب واحترام بہت کم نظر آتا ہے، غلط صحبت (Wrong company) کے مواقع ہر طرف مہیا (Available)ہیں، جس کے نتیجہ میں بچوں کے اندر سگریٹ نوشی اور دیگر چیزوں کے نشہ کی عادت پیدا ہوتی ہے، سنیما دیکھنے کا شوق اور موبائل فون پر غلط اور بے حیائی والی ویڈیوز دیکھنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ بچہ بالکل بے کار اور ناکارہ ہو جاتا ہے، والدین کو خون کے آنسو رُلاتا ہے اور معاشرہ کے لیے تکلیف کا سبب بن جاتا ہے۔

ایسے ماحول میں اولاد کی صحیح تربیت کرنا، ان کو درست راستے پر قائم رکھنا، غلط چیزوں سے ان کو محفوظ رکھنا، والدین کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اور ایسی صورتِ حال میں والدین کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے، ہمیں اسکولوں کی سالانہ تعطیلات کو غنیمت جانتے ہوئے، ان کی دینی تربیت کے لیے کوئی نظام بنانا چاہیے، جس کی درج ذیل بعض صورتیں ہوسکتی ہیں:

یومیہ نظام العمل

جس طرح اسکول کی تعلیم کے ایام میں کاموں کا ایک نظام (Schedule) ہوتا ہے، اسی طرح چھٹیوں کے ایام میں بھی نظام العمل ہونا چاہیے، گھر میں ہر کام کا وقت اور نظام بنایا جائے، رات کو جلدی سونے، صبح کو فجر کی نماز سے پہلے اٹھنے کا اہتمام کیا جائے، ناشتہ اور کھانے وغیرہ کا وقت متعین کیا جائے۔ بچوں کے ساتھ مل کر کھانا کھانے کی کوشش کی جائے اور بچوں کے کھانے کے انداز پر نظر رکھی جائے اور انہیں نرمی اور پیار سے صحیح طریقہ بتاتے رہیں، کھانا شروع کرنے سے پہلے اور بعد کی دعائیں سکھائیں۔

عبادت اور تلاوت کی ترتیب

بچوں کی گھر پر موجود گی اور اسکول کے کاموں سے مکمل فراغت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ہمیں ان کے ساتھ نمازوں کی ترتیب بنانی چاہیے؛ پوری کوشش کریں کہ بچوں کو مسجد لے کر جائیں اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں، اس سے ان کو نماز کی مشق (Practice) ہوگی، اسی طرح صبح فجر کے بعد ان کے ساتھ مل کر قرآن کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے، اس سے ان کے اندر کتابِ ہدایت کے ساتھ لگاؤ ہوگا اور دینی جذبات پختہ (Strong) ہوں گے۔

دینی تعلیم کا نظم

ہمارے بچے پورے سال اسکول کی تعلیم میں مصروف رہتے ہیں، دینی تعلیم کی طرف خاطر خواہ(As needed) توجہ نہیں ہوپاتی، بعض مسلم انتظامیہ والے اسکولوں میں اسلامی تعلیم ہوتی ہے، مگر ان میں سے زیادہ تر رسمی اور برائے نام ہیں؛ لہذا سالانہ تعطیلات کو غنیمت جانتے ہوئے ہمیں بچوں کو تجوید کے ساتھ قرآن سکھانے کا انتظام کرنا چاہیے، چند سورتوں کو حفظ یاد کرانا چاہیے اور ان کا ترجمہ اور تفسیر پڑھانی چاہیے۔ بچوں کو کلمے، منتخب (Selected) احادیث اور روز مرہ پڑھی جانے والی دعائیں یاد کرائیں، نماز کا مکمل طریقہ بتائیں، اس کی عملی مشق کرائیں، جنازہ کی نماز کا طریقہ اور اس میں پڑھی جانے والی دعائیں اور درود شریف یاد کرائیں؛ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے انتقال کے بعد ہمارا بچہ ہماری نمازِ جنازہ بھی پڑھنے کی صلاحیت نہ رکھے، جو ہماری آخرت کی زندگی کے لیے بھی بہت افسوس ناک ہوگا۔

اس مقصد کی تکمیل کے لیے مسجد کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، اگر وہاں مکتب کا نظام نہیں ہے، تو قائم کرنا چاہیے اور اگر ہے تو تعطیلات کے پیش نظر اس میں جماعتوں (Batches) کا اضافہ کرنا چاہیے، اضافی کلاسس (Extra Classes) لگانی چاہییں، مسجد ناکافی ہو، تو علاقہ کے کچھ ذمے دار حضرات مل کر آپسی تعاون سے کسی عالم دین اور ماہر تعلیم کی نگرانی میں ہر محلہ میں سمر کیمپ (Summer Camp) لگائیں، اس کے لیے بجٹ کا انتظام کریں۔

سیرت اور تاریخ کی کتاب کا اجتماعی مطالعہ

اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی، اسلامی اور مسلمانوں کی تاریخ سے ہماری نسل نا واقف ہوتی جارہی ہے، پورے سال اسکول اور کالج کے تعلیمی نظام میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی، لہذا تعطیلات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ہمیں ان کو اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرانا چاہیے، اس کام کے لیے گھر میں بھی کوئی وقت مخصوص کیا جا سکتا ہے، جس میں گھر کے تمام افراد ایک ساتھ بیٹھ کر، سیرت کی کسی کتاب کا مطالعہ کریں، تاریخِ اسلام کا مطالعہ کیا جائے اور ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کو پڑھا جائے، اس عمل سے اپنے دین، اپنی تہذیب سے ہماری نسل کا رشتہ مضبوط ہوگا۔

اردو تعلیم کا اہتمام

موجودہ زمانے میں ایک افسوس ناک چیز یہ دیکھنے میں آرہی ہے کہ ہماری نئی نسل کی اردو زبان سے نا واقفیت عام ہوتی جارہی ہے، حتی کہ اب نئی نسل کو دینی کتابیں بھی رومن انگلش میں چاہییں، ہمیں اس پہلو پر توجہ دینی چاہیے، ہماری دینی کتابوں کا بڑا ذخیرہ اردو زبان میں ہے، اس وقت بھی اردو زبان میں جیسی معتبر دینی کتابیں دست یاب ہیں، وہ انگلش یا دیگر علاقائی زبانوں میں نہیں ہیں؛ لہذا چھٹیوں کے دنوں میں بچوں کو اردو زبان کی تعلیم پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

رشتہ داروں سے ملاقات

بچوں کے سماجی روابط بڑھانے اور معاشرتی امور سکھانے کے مقصد سے چھٹیوں کے موقع پر رشتہ داروں سے ان کی ملاقات کروانی چاہیے، آج کل موبائل اور ٹیلی ویژن کی وجہ سے نئی نسل کا سماجی رابطہ بالکل منقطع ہوکر رہ گیا ہے، انہیں رشتوں کی اہمیت اور قدر وقیمت کا اندازہ نہیں، کس رشتہ دار سے کس طرح سے بات کرنی ہے؟ یہ تک انہیں معلوم نہیں، کس کے کیا حقوق ہیں؟ کس کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟ ان سے وہ بے خبر ہیں، ان کو یہ تمام چیزیں سکھانا ہماری ذمہ داری ہے، قرآن وحدیث میں صلہ رحمی کی بڑی تاکید اور قطع تعلق کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے اور جب تک رشتہ داروں کے بارے میں معلومات نہیں ہوگی، ان سے رابطہ نہیں ہوگا، ان سے تعلق نہیں ہوگا، ان کے پاس آنا جانا نہیں ہوگا، اس وقت تک صلہ رحمی پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

عن عائشة رضی اللہ عنہا قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الرَّحِمُ معلَّقةٌ بالعَرْشِ، تقول: مَنْ وَصَلَنی وصَلَہُ اللہ، ومَنْ قَطَعَنی قَطَعَہُ اللہ․ (صحیح البخاری، کتاب الأدب، باب من وصل وصلہ اللہ، 5989، صحیح مسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب صلة الرحم وتحریم قطیعتہا، 2555)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: رشتہ داری رحمن کے عرش کے ساتھ لگی رہتی ہے اور یہ کہتی ہے: جو مجھے جوڑے گا، اسے اللہ جوڑے گا اور جو مجھے توڑے گا، اسے اللہ تعالی توڑے گا۔

عن جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا یدخُل الجنَّةَ قاطِعٌ․ ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: رشتہ داری کو توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب الأدب، باب إثم القاطع، 5984، صحیح مسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب صلة الرحم وتحریم قطیعتہا، رقم 2556)

لہذا آج کل کی مصروف زندگی میں چھٹیوں کے ایام میں اس معاشرتی پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

سیر و تفریح اور کھیل کود

گرمیوں کی چھٹیوں میں بہت سے والدین اپنی استطاعت کے مطابق اپنے بچوں کو سیر و تفریح کرانے کے لیے مختلف تاریخی اور تفریحی مقامات (Historical and recreational places) پر لے جاتے ہیں، بعض اپنے شہر، بعض ملک کے دوسرے صوبے اور دوسرے شہر بچوں کو لے جاتے ہیں، بعض صاحبِ استطاعت بیرون ملک بھی بچوں کو لے کر جاتے ہیں، چھٹیوں کے دنوں میں سیر وتفریح بھی ضروری ہے، ورنہ بچوں کے ذہن ودماغ پر غلط اثر پڑتا ہے اور آج کل سیر وتفریح کے مقامات کی بہت سی شکلیں بھی وجود میں آگئی ہیں، لیکن اس میں ہمیں اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو جس مقام پر تفریح کے لیے لے جا رہے ہیں، اس سے بچوں کا کیا فائدہ ہوگا اور کیا نقصان ہوگا؟ کیوں کہ عام طور پر سیر وتفریح کے بناوٹی اور بعض تاریخی مقامات بے حیائی کے اڈّے بن چکے ہیں، ایسے مقامات پر جانے کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے، ان سے اپنے بچوں کو بہت دور رکھنا چاہیے۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ غیر اقوام کی طرح اسلام میں کسی بھی ایسی تفریح اور انٹر ٹنمنٹ (Entertainment) کا تصور نہیں ہے، جس میں دین سے بالکل آزادی ہو، آنکھ بند کر کے نفس کی غلامی ہو، خواہشات کی آزادانہ تکمیل ہو، کیوں کہ ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالی اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اور احکام کے ہر قدم پر پابندہیں، زندگی کے کسی بھی حصہ میں اس سے آزادی کا تصور ہمارے یہاں نہیں پایا جاتا۔

لہذا تاریخی مقامات اور فطری خوب صورت جگہوں پر بچوں کو ضرور لے جائیں، مگر شرعی حدود اور دینی قیود کا لحاظ رکھیں اور اس میں بھی تعلیم اور تربیت کا پہلو نظر انداز نہ کریں، چناں چہ ان مقامات سے وابستہ تاریخ بچوں کو بتانی چاہیے، اللہ تبارک و تعالی کی خلقت اور قدرت بچوں کے ذہن ودماغ میں پیوست کرنی چاہیے، ہر جگہ نمازوں کی پابندی اور دعاؤں کا اہتمام رہنا چاہیے، اس سے بچوں کی تربیت پر بہت مثبت اثر ہوگا۔

واضح رہے کہ اسلام ہمیں اس کا پابند نہیں بناتا کہ ہم ہر وقت کسی ایک ہی کام میں لگے رہے، ہمارے دین میں ایسا نہیں ہے کہ ذہن و دماغ کے سکون کے لیے اور جسمانی راحت و آرام کے لیے سیر و تفریح اور کھیل کود کی گنجائش نہ ہو، بلکہ قرآن وحدیث میں ہمیں ایسی ہدایات ملتی ہیں، جن میں سیر و تفریح کی اجازت دی گئی ہے؛ چناں چہ اللہ تبارک و تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے تذکرہ میں فر مایا، جب انہوں نے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا:

﴿قَالُوا یَا أَبَانَا مَا لَکَ لا تَأْمَنَّا عَلَی یُوسُفَ وَإِنَّا لَہُ لَنَاصِحُونَ أَرْسِلْہُ مَعَنَا غَداً یَرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ﴾․ (یوسف/11 -12)

ترجمہ: انہوں نے کہا: والد محترم! آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتماد کیوں نہیں کرتے؟ ہم تو اس کے خیر خواہ ہیں۔ آپ یوسف کو کل ہمارے ساتھ (جنگل) بھیجیے؛ تاکہ وہ کھائے پیئے اورہمارے ساتھ کھیلے کودے اور یقیناً ہم اس کی حفاظت کریں۔

اسی طرح اللہ تبارک و تعالی نے قرآن کریم میں متعدد جگہ اس مضمون کی آیت بیان فرمائی ہے:
﴿قُلْ سِیْرُوا فِیْ الْأَرْضِ فَانظُرُوا کَیْْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّہُ یُنشِءُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ﴾ (سورة العنکبوت/20)․

ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ تم زمین (دنیا)میں گھومو، پھر دیکھو کہ اللہ تعالی نے اولاً چیزوں کو کیسے پیدا کیا ہے، پھر اللہ ہی دوبارہ (ان کو)پیدا کرے گا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

﴿قُلْ سِیْرُوا فِیْ الْأَرْضِ فَانظُرُوا کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ﴾ (سورة النمل/ 69)

ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ تم زمین کی سیر کرو، پھر دیکھو کہ مجرموں کا انجام کیسا ہوا۔

ان دونوں آیتوں میں سیر و تفریح کے دو مقاصد بیان کیے گئے ہیں: (1) اللہ تعالی کی تخلیق اور قدرت کو دیکھنا۔ (2) اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے والے مجرموں کے انجام سے عبرت حاصل کرنا؛ لہذا مذکورہ بالا تینوں آیتوں سے جائز حدود میں رہتے ہوئے سیر و تفریح کی اجازت ثابت ہوتی ہے۔

اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے بھی سیر وتفریح کی اجازت معلوم ہوتی ہے؛ چناں چہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

حبشہ کے لوگ مسجد نبوی کے صحن میں اپنا روایتی کھیل کھیل رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر سے پردہ کرتے ہوئے مجھے ان کا کھیل اتنی دیر تک دکھایا کہ میں تھک گئی۔ (صحیح البخاری، باب أصحاب الحراب فی المسجد، 443، صحیح مسلم، باب الرخصة فی اللعب الذی لا معصیة فیہ فی أیام العید،892، سنن النسائی، اللعب فی المسجد یوم العید، ونظر النساء إلی ذلک، 1595)

اسی طرح صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم آپس میں تیر اندازی کر رہے تھے، جب وہاں سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے اس کھیل میں شرکت فرمائی۔ (صحیح البخاری، باب التحریض علی الرمی، 2743)

قرآن وحدیث میں اس مضمون کی اور بھی آیتیں اور حدیثیں ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی حدود کی رعایت کرتے ہوئے، سیر وتفریح اور کھیل کود کی اسلام میں نہ صرف اجازت ہے؛ بلکہ بعض موقع پر اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے؛ لہذا سالانہ تعطیلات میں ہمیں بچوں کے لیے سیر وتفریح کے ساتھ کھیل کود کا بھی کوئی نظام بنانا چاہیے، اپنی اور ماہرین کی نگرانی میں کھیلوں (Sports) کی بھی تربیت (Training) دینی چاہیے، یہ بچوں کی جسمانی (Physical)اور ذہنی(Mental) نشو ونما (Bringing Up)کے لیے بہت ضروری ہے۔
لیکن یاد رکھیں کہ ہمیشہ گلی اور محلہ کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے ان کو نہیں چھوڑنا چاہیے؛ کیوں کہ وہیں سے بچے گندی زبان، گالیاں، بری عادتیں اور نشہ وغیرہ سیکھتے ہیں، لہذا بہت نگرانی کی ضرورت ہے۔

جسمانی ورزش

سالانہ تعطیلات میں جسمانی ورزش کے لیے بھی کوئی وقت خاص کرنا چاہیے، کیوں کہ آج کل ورزش اور صحت پر توجہ کے حوالے سے بہت لاپرواہی چل رہی ہے، ہماری ساری توجہ جسم کے ظاہر کو سنوارنے پر خرچ ہو رہی ہے، جسمانی قوت، اپنے دفاع کی طاقت کسی نازک گھڑی میں اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت، شر پسندوں سے اپنے گھر، خاندان، ملت اور قوم کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے ہمارے پاس کوئی تیاری نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ ایسے مواقع پر سوائے نقصان اور خون کے آنسو رونے کے ہمارے پاس کچھ اور نہیں ہوتا؛ لہذا ہمیں اپنے بچوں کی جسمانی صحت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، اس سے ان کی ذہنی صحت میں بھی اضافہ ہوگا اور وہ ایک بہترین اور ذہین طالب علم بن سکیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

کم زور مومن کے مقابلہ میں طاقت ور مومن اللہ تعالی کو زیادہ پسند ہے۔ (صحیح مسلم، باب فی الأمر بالقوة، وترک العجز، والاستعانة باللہ، وتفویض المقادیر للہ، 2664)

اسی طرح امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:
اپنے بچوں کو تیراکی (Swimming)اور تیر اندازی (Archery) سکھاؤ اور انہیں تاکید کرو کہ وہ گھوڑے پر کود کر بیٹھیں۔ (الدر المنثور للسیوطی (4/ 86) فیض القدیر (4/ 327)، فتح الباری (6/ 70)

تعمیر حیات سے متعلق