موجودہ حالات اور مسلمانوں کی نازک ذمہ داری!

idara letterhead universal2c

موجودہ حالات اور مسلمانوں کی نازک ذمہ داری!

مولانا سید محمد الحسنی

مسلمانوں کی ذمہ داری اس ملک میں نعروں، تمناؤں اور خواہشوں سے کہیں زیادہ بلند اور نازک ہے، اگر وہ اپنی زندگی سے اسلام کی اسی طرح غلط تصویر پیش کرتے رہے اور اسلام کا نام صرف اپنی مطلب براری کے لیے استعمال کرتے رہے، تو ان کو بڑی سے بڑی طاقت اور بڑی سے بڑی حکومت بھی نہیں بچا سکتی، اگر کوئی اسلامی ملک اس معاملہ میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کو بھی تباہی سے دوچار ہونا پڑے گا، اللہ تعالیٰ کا کسی خاص ملک اور قوم سے رشتہ نہیں ، اس نے کسی قوم سے محض وطنی اور قومی بنیاد پر کام یابی اور سرفرازی کا کوئی وعدہ نہیں کیا، اس کا صاف اعلان ہے:﴿لَّیْسَ بِأَمَانِیِّکُمْ وَلَا أَمَانِیِّ أَہْلِ الْکِتَابِ مَن یَعْمَلْ سُوء ًا یُجْزَ بِہِ﴾․(سورة النساء، آیت:123)

نہ تمہاری (خالی) امیدوں سے کچھ ہونے والا ہے نہ اہل کتاب کی ، جو برائی کرے گا اس کا بدلہ پائے گا ۔

اس کی نصرت کا اگر وعدہ ہے تو صرف ایمان اور عمل صالح اور اپنی جدو جہد پر، اس کے لیے اگر ہم حالات میں تبدیلی کے آرزو مند اور عزت و سلامتی کے خواہش مند ہیں تو ہمیں اسی سیدھے راستہ پر چلنا ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تجویز فرمایا ہے۔

وہ راستہ یہ ہے کہ ہم ذمہ دار اور شریف انسانوں اور سچے اور پکے مسلمانوں کی طرح اپنے ملک میں زندگی گزاریں اور شریعت وسنت کی راہ نمائی میں اپنی زندگی کی ان تمام خامیوں کو دور کریں، جو ایک مسلمان کی زندگی سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں، خاص طور پر ان خامیوں اور کم زوریوں کو جن کی وجہ سے غیر مسلم، اسلام کی صاف ، روشن اور پاکیزہ تعلیمات سے بدظن اور متنفر ہو رہے ہیں۔

یہ خامیاں اور کم زوریاں وہ غلط اور غیر اسلامی رسم و رواج اور عادات ہیں جو ہمارے معاشرہ میں گھر کر چکی ہیں، بد خلقی و بد معاملگی ، وعدہ خلافی و بد عہدی ، اسراف و فضول خرچی، ظلم و بے انصافی اور رسوم و بدعات اس طرح کی چیزیں ہیں، جن سے نہ صرف ہمارے متعلق، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر حضور صلی الله علیہ وسلم اور اسلام کے متعلق غیر مسلموں کے ذہنوں میں بہت غلط تصویر قائم ہوتی ہے۔

ہم میں سے ہر فرد کو (خواہ مرد ہو یا عورت ) اپنی زندگی میں ایسی نمایاں اور کھلی ہوئی تبدیلی کرنی چاہیے ، جس کو دیکھ کر ہر شخص یہ سمجھے کہ وہ ملت ابراہیمی کا صحیح معنوں میں فرزند اور حضور صلی الله علیہ وسلم کا سچا امتی ہے اور دوسروں سے کچھ مختلف قسم کا آدمی ہے، اس کے نفع و ضرر کے پیمانے اور کام یابی و نا کامی کے معیار جداہیں، اس کو دیکھنے والے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہیں اور ان کے دل میں بھی اس کا شوق پیدا ہو کہ وہ اس نعمت میں شریک اور حصہ دار ہوں ، ایک بے کار اور معطل قوم کے بجائے جو پیشین گوئیوں اور تمناؤں کی دنیا میں رہتی ہے۔ ہماری ملت کے ہر فرد کو فعال اور متحرک ، کسی نہ کسی کار خیر میں مشغول و منہمک ،خلق خدا کا ہم درد اور اپنے ملک کے لیے مفید و کارآمد ہونا چاہیے ، اس کو اب باہمی نا اتفاقیوں ، اختلافات اور قیادت کی لڑائی سے ہمیشہ کے لیے فرصت پاکر جان و دل کے ساتھ اسلام کی دائمی وابدی ، عالم گیر و آفاقی اور انسانی و اخلاقی بنیاد پر ملت کی تعمیر نو میں لگ جانا چاہیے۔

جن ہاتھوں نے کسی زمانے میں بیت اللہ کی تعمیر کی تھی وہی ہاتھ آج پوری انسانیت کی تعمیرکرسکتیہیں، لیکن یہ کام انھیں مسلمانوں کے ہاتھوں انجام پاسکتا ہے جو اپنی اس ذمہ داری اور اس فرض منصبی کو اچھی طرح پہچانتے ہوں ، جن سے اللہ تعالیٰ نے ان کو سرفراز فرمایا ہے۔

ہم میں سے ہر شخص کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی درستی ساری ملت کی درستی ہے، ملت کی درستی کا انتظار چھوڑ کر، اب ہمیں خود اپنی درستی میں لگ جانا چاہیے ، یہی ملت کی اصلاح اور تعمیر وترقی میں ہمارا صحیح حصہ اور نبوت محمدی کی بارگاہ میں ہمارا ادنیٰ خراج ہے۔

اسلامی سیرت و کردار کی صحیح ترجمانی اور اس کی عملی تفسیر اور زندہ تصویر خود اتنی پرکشش ہے کہ دوآج بھی دلوں کو موم کر سکتی اور دشمنوں کو دوست بنا سکتی ہے اور حالات میں ایسی انقلاب انگیز تبدیلی پیداکر سکتی ہے کہ جس کا پورا تصور کرنا بھی اس وقت ہمارے لیے مشکل ہے۔

اس لیے پاکستان و ہندوستان اور ایران و توران کے قصوں کو چھوڑ کر مسلمانوں میں حرکت اور زندگی کی ایک نئی لہر پیدا کیجیے ، شکوہ و شکایت کا راستہ چھوڑئیے ، اس خدا سے سچا تعلق اور اس کی مکمل اطاعت کاجذبہ پیدا کیجیے ، جس کے قبضہٴ قدرت میں سارے زمین و آسمان ہیں اور جس کا ایک اشارہ پوری دنیا کی قسمت بدل دینے کے لیے کافی ہے، جس کے ہاتھ میں عزت و اقبال کی کنجی ہے اور جس سے فائدہ اٹھانے کی یہی ایک شرط ہے، ایمان عمل صالح اور دین کے لیے بھر پور جد و جہد ۔

انسان کی فطرت وہی ہے جو پہلے تھی، خلوص ، محبت ، خدمت، ہمدردی۔ پاکیزہ کردار اور اچھے اعمالآج بھی اس کی نگاہ میں اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح پہلے تھے، بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے بازار اور نیلام کی اس منڈی میں، جہاں اصول و کردار کوڑیوں کے مول فروخت ہوتے ہیں ، وہاں ان چیزوں کا اب کوئی خریدار نہیں، لیکن حق تو یہ ہے کہ سود اجتنا کم ہوتا ہے اس کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے، بیمار قوموں کی زندگی میں ایسے دور کبھی کبھی آتے رہتے ہیں، جب ان کے منھ کا مزہ بگڑ جاتا ہے اور یہ سارے حقائق ان کے لیے بے معنی اور بے قیمت ہو جاتے ہیں، لیکن خدا کا شکر ہے کہ ہمارا وطن ابھی اس منزل پر نہیں پہنچا ہے، یہاں محبت کی ایک صدا اور خلوص کی ایک ادا اب بھی دلوں کو تسخیر کرنے اور لوگوں کو اپنا اسیر بنانے کی طاقت رکھتی ہے، آج پوری انسانیت اس آب حیات کے ایک ایک گھونٹ کو ترس رہی ہے، اگر مسلمان آگے بڑھ کر اپنے قول و عمل، سیرت و کردار سے اپنے اس مکمل اور دلکش امن کا صحیح مظاہرہ کریں جس میں یہ تمام انسانی اخلاقی خوبیاں جمع ہیں اور جس نے ہر دور میں انسانوں کی راہ نمائی اور بیماروں کی مسیحائی کی ہے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ آج یہ نسخہ شفا ہماری جاں نوازی اور مسیحائی سے انکار کر دے۔

لیکن اس کے لیے مسلمانوں کو سب سے پہلے اپنے کو مخاطب کرنا ہوگا ، اپنے مصائب کا ذمہ دار دوسروں کے بجائے خود اپنے کو قرار دینا ہوگا اوراپنے اندر ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرنی ہوگی :﴿وَجَاہِدُوا فِی اللَّہِ حَقَّ جِہَادِہِ ہُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ﴾․ (سورة الحج، آیت:78)

ترجمہ:”اللہ کے راستہ میں اس طرح بھر پور کوشش کرو جیسا کوشش کرنے کا حق ہے، اس نے تمہارا انتخاب فرمایا اور تمہارے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں کی “۔

یعنی ملت کی صلاح و فلاح اور حالات میں تبدیلی کی بھر پور کوشش میں اپنی طرف سے کوئی کوتا ہی یا کمی نہ ہو، ہر مسلمان بلا استثنا …اس کو اپنا اولین فریضہ سمجھے اور اپنے تمام تعلقات ، مفادات اور تمام دل چسپیوں یا رواجوں کو اس کا تابع بنائے ۔

آیت کے دوسرے جز﴿وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ﴾ میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ ہم دین کے اس کام کو پہاڑ نہ سمجھیں ، ہم سے کسی ایسی بات کا مطالبہ نہیں کیا جا رہا ہے جو ہماری طاقت سے باہر ہے، اللہ تعالیٰ نے دین میں کسی قسم کی تنگی، دشواری اور پیچیدگی نہیں رکھی ہے، آج خدا کے احکام کی بجا آوری اور شریعت و سنت پر عمل کرنے کو جتنا نا قابل عمل اور دشوار سمجھا جا رہا ہے وہ دراصل خود ساختہ اور ہمارے ذہن ودماغ کی پیداوار ہیں ، اگر مردانہ وار ایک قدم بھی اٹھایا جائے گا تو راہ حق کی یہ ساری مشکلات ان شاء اللہ خود بہ خوددور ہوتی جائیں گی اور جن باتوں کو ہم بہت دشوار سمجھ رہے ہیں، وہ نہایت آسان نظر آئیں گی، لیکن یہ اسی وقت ہوگا جب﴿وَجَاہِدُوا فِی اللَّہِ حَقَّ جِہَادِہِ﴾کی پہلی شرط ہم پوری کر دیں گے۔

یعنی ہر مسلمان خواہ وہ کسی سطح و معیار پر ہو، اپنی زندگی کا ایسا نمونہ پیش کرے جس کو دیکھ کر لوگ اسلام کی خوبیوں اور اس کی امتیازی خصوصیتوں سے آگاہ ہو سکیں ، اس کے ماحول میں اگر کوئی گندگی یا فساد ہے تو اسے دور کرنے کا ذمہ دار سب سے پہلے اپنے کو قرار دے، وہ بغیر کسی فخر و تکبر کے یہ سمجھے کہ ہر مسلمان اپنی جگہ پر روشنی کا ایک مینار ہے، اس کو خدا نے سب سے پہلے خود اپنے احتساب اور اس کے بعد دوسروں کے احتساب کے لیے پیدا کیا ہے۔
            ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات

اس پر ہمہ وقت یہ ذمہ داری ہے کہ شادی غمی میں ، ملاقاتوں اور مجلسوں میں، دفتروں اور دکانوں میں، کسی جگہ یہ فراموش نہ کرے کہ اس کا اپنا بھی ایک فرض ہے، جو ملت کے اجتماعی فرض کی اساس اور بنیاد ہے، اس لیے کہ اگر وہ اس میں کوتاہی کرے گا تو اس کا نقصان خود اس کو اور اس کے ساتھ ساری ملت کواٹھانا پڑے گا۔

اگر تاجر ہے، تو اس کو امانت دار اور ہمدرد تاجر ہونا چاہیے کہ یہ امانت اور سچائی اس کے دوسرے ہم پیشہ افراد میں عام ہو، ملازم ہے تو اس کو فرض شناس ایمان دار اور محنتی ہونا چاہیے ،اگر مال دار ہے تو اس کو اپنے مال میں حلال و حرام کا اور حق و ناحق کا پورا خیال رکھنا چاہیے اور خدا اور بندوں کے جو حقوق اس پر عائد کیے گئے ہیں ان کو پورا کرنا چاہیے ، غرض ہم میں سے ہر فرد کو اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ وہ اپنے دائرہ عمل اور ماحول میں دین کی خدمت کس طرح کر سکتا ہے اور اس عظیم ذمہ داری سے کس طرح عہدہ برآ ہو سکتا ہے ،جو امت محمدیہ کے ہر فرد پر عائد کی گئی ہے؟

ان آیات میں تین چیزوں کا خصوصیت سے ذکر ہے ، نماز ، زکوٰة اور اعتصام باللہ، یعنی اللہ کے ساتھ گہرا اور سچا تعلق ، یہ تین باتیں گویا اس کے سفر کے لیے سنگ میل اور نشانِ راہ ہیں، جن کے بعد گم راہی یاناکامی کا انشاء اللہ کوئی سوال نہیں۔

یہ پروگرام ہے جس کے نتیجہ سے بھی اللہ تعالیٰ نے ہم کو آگاہ کر دیا ہے، یعنی:﴿ہُوَ مَوْلَاکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَیٰ وَنِعْمَ النَّصِیرُ﴾․

اگر ہم نے یہ کر لیا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی کارسازی اور بندہ نوازی، غیب سے ہماری نصرت،حفاظت اور عزت کا سامان کرے گی اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ مشکل کشا اور کارساز اور حامی و مددگا راور کون ہو سکتا ہے!!

عصر حاضر سے متعلق