اسلامی تہذیب وتمدن کے مزاج کے اظہار کے لیے اگر کوئی جامع لفظ ہوسکتا ہے تو علم ہے، قرآن حکیم جو ایک مکمل صحیفہ ہدایت ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی علم ہی سے تعبیر فرمایا ہے۔
﴿ولقد جئنھم بکتب فصّلنٰہ علی علم ھدی ورحمة لقوم یومنون﴾ (الاعراف: 52)
ہم ان لوگوں کے پا س ایک ایسی کتاب لے آئے ہیں جس کو ہم نے علم کی بنا پر مفصل بنایا ہے اور جو ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔
یعنی جو حقائق اس میں بیان کیے گئے ان کی اساس علم وعقل پر ہے۔ تعلیم اور مقاصد تعلیم پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ قرآن علم کو تخلیق مفہوم میں استعمال کرتا ہے۔ اسلام ہمیں جس تہذیب وثقافت کے اصول بتاتا ہے وہ جہل کے بجائے علم اور حقائق پر مبنی ہیں۔ اس لیے قرآن پاک، جو ان تمام تعلیمات کا سرچشمہ ہے، بجا طور پر سراپا نور ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس کے نزول کی برکت سے اہل ایمان علوم وفنون کی ان بلندیوں تک پہنچ گئے جہاں تک رسائی کا تصور بھی اس سے پہلے محال تھا۔ چوں کہ علم اسلامی تہذیب کا مزاج ہے، اس لیے یہ سمجھنا غلط نہ ہوگا کہ مسلم معاشرے میں علماء امتیازی اوصاف کے حامل ہوں گے، ان کا مقام اعلیٰ اور ارفع ہوگا۔ ارشاد ہے۔
﴿یرفع اللّٰہ الذین اٰمنوا منکم والذین اوتوا العلم درجات﴾ (المجادلہ: 11)
تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا۔
دوسرے مقام پر فرمایا گیا:
﴿قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون﴾ (الزمر: 9)
ان سے پوچھیے! کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟
یہ اشارہ بھی قرآن پاک میں موجود ہے کہ اشیاء کی حقیقت وماہیت اور ان کے انجام ومآل کے ادراک کی اہلیت بھی علماء میں ہوتی ہے۔
﴿وتلک الامثال نضربھا للناس وما یعقلھا الا العلمون﴾ (العنکبوت: 43)
یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمائش کے لیے دیتے ہیں۔ مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔
علم اور اہل علم کے فضائل تو قرآن پاک میں متعدد مقامات پر بیان کیے گئے ہیں، لیکن ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم قرآن کی رہ نمائی میں مقاصد تعلیم بھی معلوم کرنے کی کوشش کریں اور اس پر بھی غورکریں کہ آخر اسلام علم پر اتنا زور کیوں دیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی سب سے پہلے وحی میں ہی پڑھنے کا حکم صادر فرمایا گیا۔ تھوڑے سے غوروفکر کے بعد آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ تاریخ عالم کے تناظر میں علم کو اسلام اپنا شطر کہتا ہے۔
دوسری اہم حقیقت یہ معلوم ہوگی کہ علم نہ محض جاننے کو کہتے ہیں اور نہ تعلیم صرف سکھانے کو کہتے ہیں اور جب علم وتعلیم کا مفہوم وہ نہیں جو عام طور سے سمجھا جاتا ہے تو پھر مقاصد تعلیم بھی کچھ اور ہوں گے۔ ہمیں قرآن پاک کے بغور مطالعہ سے متعدد ایسی آیات مل جائیں گی جن کی روشنی میں ہم مقاصد تعلیم کا تعین کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم پہلی ہی وحی پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس میں اللہ کے نام سے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی صفتِ ایجاد کا ذکر صراحةً کیا گیا ہے۔ اس کا کھلا ہوا مطلب یہ ہے کہ پڑھنے اور پڑھانے کا اولین مقصد خالق ومالک کا عرفان ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو بھی ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی متعدد صفات میں صفت خلق ہی کی طرف توجہ دلائی، تاکہ پڑھنے والے کو اس معبود کے خالق ہونے کا بھی احساس ہو اور جو یائے علم کو اس سے اپنا یہ رشتہ بھی معلوم ہوسکے۔ وہ یہ کہ پڑھنے والا مخلوق ہے، قرآن کریم کی یہ آیت اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ تعلیم کا اصل مقصد خود شناسی اور خدا شناسی ہے۔ قرآنی اصطلاح میں اسی کو علم کہتے ہیں اور ان میں ودیعت کی ہوئی انہیں دونوں صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش اور عمل کا نام تعلیم ہے۔ مقاصد تعلیم کی طرف یہ آیت بھی اشارہ کر رہی ہے:
﴿انما یخشی اللّٰہ من عبادہ العلموٴا﴾ (الفاطر: 28)
ہمیں کبھی نہ بھولنا چاہیے کہ خود شناسی اور خدا شناسی ہی ہے جو ہمارے کردار کو خوف وخشیت سے آشنا کرتی ہے، ہمارے اندر ذمے داریوں کا احساس پیدا کرتی ہے، ہمارے عمل وکردار میں پاکیزگی پیدا کرتی ہے۔ اشیاء کی حقیقت اور ماہیت کا علم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسے اخلاق وکردار کو سنوارنے کا ذریعہ بنایا جائے، یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن پاک نے معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم حکمت کی صفت اور تزکیہ سے تعبیر فرمایا ہے۔
﴿یتلو علیہم اٰیتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتب والحکمة﴾․ (الجمعہ: 2)
رسول انہیں اللہ کی آیات سُناتا ہے، ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
اسلام کے نزدیک علم وتعلیم مقصود بالذات نہیں ہے، بلکہ وہ کسی چیز کا وسیلہ اور ذریعہ ہے، اصل مقصد اخلاق کی درستی اور خالق کا عرفان ہے، اس کا دائرہ صرف اپنی ذات تک محدود نہیں ہے، بلکہ دوسروں کے اخلاق کی اصلاح اور نہ جاننے والوں کو سکھانا، بھولے بھٹکوں کو راہِ حق دکھانا، ان کو پھیلانا اور باطل کو ہٹانا بھی مقاصد تعلیم ہی میں شامل ہے۔ مختصر الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم کا مقصد شخصیت کی تکمیل، عرفانِ الہٰی اور اعمال حسنہ کی وسعت ہے۔ ارشاد ہے:
﴿ان الذین اٰمنوا وعملوا الصلحت اولئک ھم خیر البریة﴾ (البینہ: 7)
ایسے ہی عظیم الشان مقاصد رکھنے والے نظام تعلیم کے فضائل حدیث نبوی میں وارد ہیں، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: اگر تمہارے ذریعہ سے ایک شخص نے ہدایت پائی تو یہ تمہارے لیے دنیا وما فیہا سے بہتر ہے۔ (ترمذی)
ایک دوسرے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: کیا ہی عمدہ عطیہ اور عمدہ ہدیہ ہے، حکمت کا وہ ایک کلمہ جسے تم نے سنا اور محفوظ رکھا، پھر اسے اپنے بھائی تک پہنچایا۔ (ترمذی)
ابو داوٴد میں یہ حدیث بھی آئی ہے:
ترجمہ: علم سکھاوٴ، اس لیے کہ علم سکھانا نیکی ہے اور اس کا طلب کرنا عبادت ہے۔ مذاکرہٴ علم تبلیغ ہے اور اس پر بحث کرنا جہاد ہے اور اس کا خرچ کرنا تقرب الہٰی کا ذریعہ ہے اور نہ جاننے والوں کو بتانا صدقہٴ جاریہ۔
علم کے جو بنیادی مقاصد بیان کیے گئے ان میں عرفان الہٰی کے ساتھ اہم بات خود شناسی بھی ہے، اس ضمن میں قرآنی آیات کی روشنی میں صرف اتنا اشارہ کرنا کافی ہے کہ جو تعلیم انسان میں نیابت الہٰی کا شعور نہ پیدا کرسکے وہ بے نتیجہ اور بے ثمر ہے۔ یہ نکتہ بھی اپنے ذہن میں ضرور رکھنا چاہیے کہ تعلیم میں دین ودنیا کی کوئی تفریق نہیں۔ فرق دراصل مقاصد میں ہے، اگر عرفان حق اور رضائے الہی مقصود نہ ہو تو ہر تعلیم لا دینی ہے، ورنہ سارے علوم دینی ہیں۔ قرآن حکیم میں مختلف علوم کی طرف اشارات کی موجودگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمیں سارے علوم سیکھنے چاہییں۔ کتاب اللہ میں تاریخ بھی ہے، نباتات، ہیئت اور ٹکنالوجی کی طرف بھی اشارات ہیں۔ فزکس، کیمسٹری، بیالوجی اور فلکیات جیسے علوم بھی غیر اسلامی نہیں۔ اصل چیز مقصد تعلیم ہے۔
امام غزالی رحمہ اللہ ان علوم کو جنہیں لوگ آج دنیوی کہتے ہیں، مثلا ٹکنالوجی اور طبی علوم، فرض کفایہ کہتے ہیں۔ ابن خلدون کے نزدیک تعلیم کا مقصد معاشرے کو منظم اور لوگوں کو متمدن بنانا ہے، لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ صالح اور خود کفیل تمدن وہی ہوتا ہے جس میں معاشرے کی ساری ضروریات کا علم رکھنے والے لوگ موجود ہوں، اسلام نے ہمیں علم کی ترغیب دی ہے اور مقصد تعلیم کی طرف بھی ہماری رہ نمائی کی ہے۔ عرفان خالق کے بعد جو اہم مقصد ہے وہ پاکی اخلاق وکردار ہے۔
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: میرے پروردگار نے مجھے ادب وسلیقہ سکھایا تو مجھے نہایت بہتر طریق پر سکھایا اور اس نے مجھے فضائل اخلاق کا حکم دیا۔
بس یہی مقصد تعلیم ہے اور یہ انسان کی جبلت اور فطرت میں ہے، علم اسی جوہر اخلاق کو اُبھارتا ہے اور اللہ کا عرفان اور اس کا خوف پیدا کر کے صالح اور متمدن معاشرہ تیار کرتا ہے۔