مغربیت کے دل دادہ حضرات کا یہ خیال کہ مذہب اسلام میں عورتوں کی کسی بھی جہت سے رعایت نہیں ہے قطعاً غلط ہے۔ اسلام سے زیادہ کسی مذہب میں بھی عورتوں کی رعایت نہیں، البتہ اسلام نے عورتوں کو ایسی آزادی نہیں دی کہ جہاں چاہیں اور جس کے ساتھ چاہیں چلی جائیں اور نہ ہی ان کو سب باتوں میں مردوں کے برابر کیا ہے۔ اسلام میں عورتوں کو بیہودہ آزادی تو نہیں دی گئی، باقی ان کی رعایت اور حقوق کی رعایت و نگہداشت بہت کی گئی ہے، حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ آؤ! ہم اور تم مل کر دوڑیں ۔ آپس میں دوڑ ہوئی کہ کون آگے نکلتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم پیچھے رہ گئے۔حضرت صدیقہ رضی الله عنہا آگے نکل گئیں ۔اخیر عمر میں جب بدن مبارک بھاری پڑ گیا پھر ایک دفعہ فرمایا کہ اچھاآؤ !تم مل کر دوڑیں، کون آگے نکلتا ہے، اس بار آپ آگے نکل گئے۔ فرمایا کہ چلو برابر سرابر ہو گیا، اب کوئی کہے کہ انبیاء علیہم السلام کو بھاگ دوڑ سے کیا تعلق؟
حقیقت یہ ہے کہ عورت کی دل جوئی کرنے کے لیے یہ چیزیں فرمائی ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ اس کے لیے تسلی کا سامان ہو، اس کے ساتھ یگانگت و محبت کا معاملہ ہو، اب اگر کوئی اس قصہ پر یہ قیاس کرنے لگے کہ عورت کی دل جوئی کے لیے اس کو سنیما تھیٹروں میں فلمیں دکھائی جائیں تو اسلام میں ان چیزوں کی کوئی گنجائش نہیں، اگر چہ عورت ناراض ہی کیوں نہ ہو جائے۔ شریعت اسلام کی تعلیم بھی عجیب پاکیزہ ہے کہ کسی ایک قابل رعایت پہلو کو بھی نہیں چھوڑا ،ہر شے کا ایک مصرف ہے رحم اور ہمدردی کا بھی موقع ہے، اگر اس موقع پر کی جائے گی تو قابل مدح ہوگی ،ورنہ قابل مذمت ۔ جدید تعلیم سے جہاں فائدے پہنچے ہیں وہیں اس کی کاری ضرب جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے اذہان ، اجسام، احساسات، خیالات پر بھی پڑی ،جس کے نتیجہ میں مردوں اور عورتوں میں مغربیت پسندی کی جھلک صاف نظر آتی ہے اور مغرب مسلمانوں سے چاہتا بھی یہی ہے۔ مغربی متمدن دنیا کے ملحدانہ نظریات سے متاثر تجدد پسند طبقہ اور تجدد پسندخیالات کے حامل افراد عورت کی زنانہ کشش کو آزاد چھوڑ دینے ہی میں اس کی اور اپنی بھلائی سمجھتے ہیں،حتی کہ عورت کا اپنے سر کو ڈھانپنا بھی ان کو برداشت نہیں، جس کے نتیجہ میں مغربی ذہنیت رکھنے والا طبقہ بہت بگاڑ تک پہنچ گیا ہے، اسلام نے عورت کے لیے جو قانون بنایا ہے وہ ایک مثالی قانون کا درجہ رکھتا ہے، اس نے عورتوں کے حقوق کی حفاظت اور امکانی حد تک ان کی مدد کا ذمہ لیا ہے اور ان کے کسی ایسے حصہ پرجو وہ اپنے اعزہ بھائیوں اور شوہر سے پائیں دست درازی کا سد باب کر دیا ہے، آج کل دنیا میں تعلیم نسواں کا راگ بھی بڑے شدومد سے الا پا جا رہا ہے، لیکن تعلیم نسواں کے نام پر ایسی تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ ان میں مادیت پرستی کے سوا کوئی فکری اور روحانی تبدیلی پیدا نہیں کرتی لہٰذا اکثر مسلم گریجویٹ لڑ کی ۔ ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگری تو حاصل کر لیتی ہے، لیکن صحیح تلفظ کے ساتھ کلمہ طیبہ نہیں پڑھ سکتی۔ عورت کی خوبی یہ ہے کہ محرم کے علاوہ کسی نے دیکھا نہ ہو، اللہ نے اسلام کے ذریعہ عورت کو جو مقام دیا ہے اخبارات و ایجادات و خرافات کے ذریعہ اس کو مسخ کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے، دنیامیں جتنے بھی فتنے عورت کے اوپر آتے ہیں وہ اس کے ظاہری حسن کی وجہ سے آتے ہیں،ظاہری حسن امتحان کا سبب بن جاتا ہے ۔عورت کے بارے میں اسلام نے بہت ڈھیل دی ہے، جب کہ پروپیگنڈہ یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت پر پابندیاں بہت ہیں، حالاں کہ کئی معاملات میں ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ برتا ہے، اسلام کی مہربانی دیکھیے کہ عورت پر روزی کا کمانا کبھی بھی فرض نہیں کیا ہے یا تو باپ پر فرض ہے کہ وہ بیٹی کو روٹی کما کر کھلائے، بہن ہے تو بھائی کا فرض ہے، اگر بیوی ہے تو خاوند کا فرض ہے کہ کما کر لائے اور بیوی کو گھر بیٹھے ہوئے کھانا پہنچائے ،اگر ماں ہے تو اولاد پر اس کی روزی فرض ہے۔ گویا عورت کو پوری زندگی میں شرع شریف نے روزی کمانے کا بوجھ نہیں ڈالا ہے ،یہ نرمی نہیں تو اور کیا ہے؟ اور بتائیے کسی معاشرہ نے عورت کو اس سے زیادہ آسان زندگی دی؟ اسلام نے عورت کو اس کے گم شدہ حقوق واپس کیے ،تاریخ شاہد ہے کہ قبل از اسلام دنیا کے مختلف معاشروں میں عورتوں کے حقوق کو پامال کیا جاتا تھا، عورت کو اس کا جائز مقام بھی نہیں دیا جاتا تھا، مثلا فرانس کے اندر یہ تصور تھا کہ عورت کے اندر آدھی روح ہوتی ہے اس لیے یہ معاشرہ میں برائی کی وجہ اور بنیاد بنتی ہے۔ چائنا کے اندر عورت کے بارے میں تصور تھا کہ اس کے اندر شیطانی روح ہوتی ہے اس لیے پورے معاشرے میں فساد کا سبب یہی بنتی ہے۔ عیسائیت کے نظریہ کے مطابق ازدواجی زندگی گذارنا حصول معرفت الہٰی میں رکاوٹ تھا ،اس لیے ان کی تعلیم یہ تھی کہ عورت و مرد کو تجرد کی زندگی گزارنی چاہیے ۔ ہندوازم کے مطابق اگر جوان عورت کا خاوند فوت ہو جاتا تو اس کو بد بخت سمجھا جاتا تھا، اس لیے اس شخص کی بیوی اس کی چتا میں چھلانگ لگا کر مر جاتی تھی، ایسا نہ کرنے پر ہندو معاشرہ اس کو لعن طعن کرتا تھا، خود بلا د عرب میں لوگ اپنے گھر میں بیٹی کا پیدا ہونا برداشت نہیں کرتے تھے لہٰذا معصوم بچیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے جب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے دنیا کو سبق سکھایا کہ عورت اگر بیٹی ہے تو یہ تمہاری عزت ہے، اگر بہن ہے تو تمہاری ناموس ہے، اگر بیوی ہے تو تمہاری زندگی کی ساتھی ہے، اگر ماں ہے تو تمہارے لیے اس کے قدموں میں جنت ہے۔ آج اسلام دشمن قو میں یہ پروپیگنڈہ کر رہی ہیں کہ اسلام نے عورتوں پر بہت زیادہ پابندی لگا دی ہے جس کی وجہ سے تعلیم یافتہ مسلم خواتین یہ سمجھنے لگی ہیں کہ شاید ہمیں ہمارے جائز حقوق نہیں دیے گئے ،عورت کو شریعت اسلامیہ نے قابل احترام بنایا ہے، نہ مورد تذلیل و اہانت۔ مغرب اور اہل مغرب نے عورت کو صرف ایک کھلونا سمجھا ہے، چناں چہ عرب ممالک میں آج بھی اگر عورت سامنے آجائے تو محرمة کہہ کر لوگ اسے تو قیر کے ساتھ راستہ دیتے ہیں اگر اس کی حرمت باقی نہ رہے تو گھر والے، بلکہ اولا د تک اس کی عزت نہیں کر سکتی ،اس لیے شریعت نے جہاں مردکوعورت پر حقوق دیے ہیں اسی طرح عورت کو بھی مرد پر حقوق دیے ہیں، تا کہ وہ معاشرہ میں باعزت رہے۔ مرد کو اگر طلاق کا حق دیا گیا ہے تو عورت کوخلع کا حق سونپا گیا ہے ،اگر نزاع با ہمی ہے تو مرد اور عورت دونوں کو اپنے اپنے افراد کو حکم منتخب کرنے کا برابری کے ساتھ حق دیا گیا ہے ،جو اس کی واضح دلیل ہے کہ عورت کو لاوارث بنا کر مرد کے سپرد نہیں کیا جاتا، بلکہ باعزت اور با حقوق بنا کر دیا جاتا ہے، دونوں کے منصب کا تقاضا ہے ،کوئی اونیچ نیچ پیش نظر نہیں ۔شریعت اسلامیہ نے عورت کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت نہیں دی ،مغرب نے عورت کو بطور تماشہ کے پیش کیا ہے، چناں چہ آج کوئی ڈیزائن اور نمونہ مقبول نہیں جس میں عورت کی تصویر چسپاں نہ ہو، کوئی رسالہ جاذب نظر نہیں جب تک تصاویر اور خصوصاً عورت کی نیم برہنہ تصویر سے مزین نہ ہو ،علم میں طاقت نہیں کہ لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکال سکے ،مگر عورت کی تصویر اپنی خالص محبوبیت کی بنا پر یہ جذب و کشش ضرور رکھتی ہے کہ تجارت کو فروغ دے سکے، یورپ کی تمدن پرست قومیں اس باطل سازی اور تصویر بازی کی لعنت میں سب سے زیادہ گرفتار ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کی قابل ذکر تعداد یہود ونصاریٰ کی تقلید میں حد سے گذر چکی ہے اور طریقہائے اسلامی سے ان کو نفرت ہے اور ایسے ہی گھروں کی عورتیں لڑکیاں آزاد خیال ہوتی ہیں، جن کو مذہب سے ذرا بھی لگاؤ نہیں ہوتا، انہیں آزادخیالوں کی طرف سے آئے دن مذہب اسلام پر اعتراضات کیے جاتے ہیں اور اسلام میں ترامیم کے مشورے دیے جاتے ہیں۔یہ سب دینی تعلیم سے دوری کے سبب ہوتا ہے، گویا اس قسم کی عورتیں مغرب کی آلہ کار ہوتی ہیں اور کھانا پینا، رہنا سہنا، کوٹھی بنگلے، یہی ان کی دنیا اور یہی ان کی آخرت ہوتی ہے، اس سے آگے کوئی چیز نہیں، نہ ان کو حلال و حرام کی تمیز کی ضرورت ہے۔ الغرض اسلام نے صنف نازک کے حقوق اور ان کی عصمت و عفت پر خصوصی توجہ دی ہے اور ان کی عزت و عصمت کے تحفظ کے لیے اسلام نے پورا ایک نظام تشکیل دیا ہے۔