”انسان کے تمام اعضا میں زبان وقلب کو بہت اہمیت حاصل ہے، باقی اعضا کی اصلاح او ربگاڑ کا دار ومدار انہی دونوں اعضا کی اصلاح وبگاڑ پر ہے، زبان اگر قابو میں نہ رہے اور قینچی کی طرح چلنے لگے تو بہت سی مصیبتوں کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔“
الله تبارک وتعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اسے ایسی نعمتوں سے نوازا جن سے وہ فائدہ اٹھاسکے، بعض نعمتیں تو خارجی ہیں، یعنی وہ نعمتیں جو انسانی ذات سے باہر کی ہیں اور وہ نعمتیں ہر وقت انسان کے ساتھ نہیں رہتیں، بلکہ وقتی طور پر ہوتی ہیں، جب کہ بعض نعمتیں وہ ہیں جو خود انسان کی ذات میں ہیں، ہر وقت انسان کے ساتھ ہوتی ہیں، ہر وقت انسان ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور وہ ہیں انسان کے اعضا۔
ان تمام اعضاء میں سب سے اہم عضو اور سب سے قیمتی نعمت دل ہے۔ انسان کے خیر وشر کے راستے متعین کرتا ہے او رتمام اعضاء اس دل کے تابع ہوتے ہیں ،اس دل کی اصلاح تمام اعضا کی اصلاح ہوتی ہے اور اس دل کا فساد تمام اعضا کا فساد ہوتا ہے، مشہور حدیث ہے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے:
” خبر دار! انسان کے جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، جب وہ ٹھیک ہو تو پورا جسم ٹھیک ہوتا ہے او رجب وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے اور وہ عضو اور گوشت کا ٹکڑا دل ہے“۔
دل کے علاوہ جتنے اعضائے انسانی یا حواس ہیں ان میں سب سے اہم زبان ہے، زبان جب تک دل کے تابع رہے اس وقت تک یہ قابو میں رہتی ہے او رجب یہ زبان دل کی حدود وقیود سے باہر آجائے اور دل زبان کا تابع بن جائے تو وہیں سے فساد شروع ہو جاتا ہے۔
زبان سے اگر اچھے اقوال نکلیں، نیک کاموں میں استعمال ہو، الله کے ذکر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ، لوگوں کے درمیان اصلاح، دین کی تبلیغ، درس وتدریس، علمی مذاکرہ وغیرہ تو یہ زبان انسان کے لیے نعمت عظمیٰ ہے، آخرت میں اعمال صالحہ کا ذخیرہ کرنے کا بہترین وسیلہ ہے، لیکن جب اسی زبان سے برے اقوال نکلیں، برے کاموں میں استعمال ہو، فحش گوئی، زبان درازی، لعن طعن، غیبت، چغل خوری، گالی گلوچ، جھگڑے فساد، جھوٹ ، جھوٹی قسمیں او رجھوٹی گواہیوں وغیرہ میں استعمال ہو تو یہی زبان وبال جان ہے، انسان کی ہلاکت او راس کے فساد کا سب سے مہلک ذریعہ ہے۔
دیگر اعضاء کی بہ نسبت زبان کبھی بولتے تھکتی نہیں، ہاتھ کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں، پاؤں چلتے چلتے تھکن کا احساس دلانا شروع کر دیتے ہیں، کان کو اس وقت تک سننے کا موقع نہیں ملتا جب کوئی بات کرے اور از خود انسان سننے پر مجبو رہو جائے ،لیکن زبان بلا موقع، بلاوجہ اوربلا جھجک اوربغیر تھکن کے بولتی چلی جاتی ہے۔
زبان سے جہاں بہت سی نعمتیں منسلک ہیں وہیں زبان کی بہت سی آفات اور مصیبتیں بھی ہیں، اسی وجہ سے احادیث میں زبان کی حفاظت کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
” جب صبح ہوتی ہے تو جسم کے تمام اعضا زبان کے سامنے عجزو انکساری سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے بارے میں الله سے ڈرتی رہنا، اس لیے کہ ہمارا دار ومدار تجھ پر ہے، اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے، اگر تو بھٹک گئی تو ہم بھی بھٹک جائیں گے۔“ (جامع ترمذی)
یعنی جسم کے او راعضا سے جو گناہ سر زد ہوتے ہیں ان میں بھی دراصل زبان ہی ذریعہ بنتی ہے ،زبان سے نکلنے والا ایک لفظ کبھی ہاتھ کو گناہ میں ملوث کر دیتا ہے او رکبھی قدم اس لفظ کی وجہ سے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور کبھی آنکھیں گناہ آلود ہو جاتی ہیں۔
اس موقعہ پر سوال کسی کے ذہن میں اٹھ سکتا ہے کہ تقریباً یہی الفاظ اور اس مضمون کی ایک اور حدیث مبارکہ قلب کے متعلق ہے، چناں چہ ارشاد نبوی ہے کہ:
” جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ایسا ہے کہ جب وہ ٹھیک ہو تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے او رجب وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے اور وہ دل ہے“۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام اعضاء جسم کی اصلاح اور فساد کا محور دل ہے، جب کہ حضرت ابو سعیدی خدری رضی الله عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام اعضائے جسم کی اصلاح اور فساد کا محو ر زبان ہے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ زبان در حقیقت دل کی ترجمان ہے او رتمام اعضائے جسمانی میں زبان ہی دل کی نمائندہ ہے، دل میں جوبھی بات آتی ہے صرف زبان ہی ایک ایسا عضو ہے جو دل کے خیالات کو الفاظ کا رنگ دے کر، انسان کے مافی الضمیر کو ظاہر کرتا ہے، چناں چہ انسان کے جو اعمال ہوتے ہیں وہ درحقیت دل اور زبان کی مشترکہ کوششوں سے ظہور پذیر ہوتے ہیں، عرب کا مشہور شاعر زہیر کہتا ہے # لسان الفتی نصف ونصف فؤادہ
فلم یبق الا صورة اللحم والدم
یعنی انسان او را س کے تمام اقوال وافعال دو چیزوں کا مجموعہ ہیں، نصف اس کا دل ہے اور نصف اس کی زبان ہے۔ بالفاظ دیگرانسان ایک خون کے لوتھڑے اور ایک گوشت کے ٹکڑے کا مجموعہ ہے۔
گویا انسان زبان اور دل کے مجموعہ کا نام ہے او رانسان کے تمام افعال میں یہی دو چیزیں کار فرما ہوتی ہیں، لیکن اس کے باوجود زیادہ تر افعال کی نسبت دل کی طرف اسلیے کی جاتی ہے کہ دراصل دل ہی خیالات فراہم کرتا ہے، جن کو زبان اپنے اچھے یا برے پیرائے میں لوگوں تک پہنچاتی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر نے مریض کو شفا دی ہے ،حالاں کہ خدا کی منشا ومرضی کے مطابق مریض کو شفا ملتی ہے، مگر ظاہری طورپر بھی شفا اور صحت میں صرف ڈاکٹر کا حصہ نہیں ہوتا، بلکہ دوائیں دراصل مرض کو ختم کرکے شفا کے لیے راہ ہموار کرتی ہیں، ڈاکٹر کی تو صرف تشخیص ہوتی ہے ،لیکن ڈاکٹر او رادویات کے اس مجموعی فعل کی نسبت ڈاکٹر کی طرف کی جاتی ہے۔ اسی طرح انسان کے تمام خیالات اور سوچوں کا مرکز دل ہے اور خیالات زبان کے ذریعہ سے منظر عام پر آتے ہیں، گویا کہ زبان اور دل کی مشترکہ کوششوں سے، لہٰذا ایک حدیث میں ان کی نسبت دل کی طرف کر دی گئی اور ایک حدیث میں زبان کی طرف۔
دوسری بات یہ ہے کہ دونوں حدیثوں میں بہت باریک سا فرق ہے اور وہ یہ کہ دل والی حدیث میں صرف اتنا بتلایا گیا ہے کہ دل کی اصلاح او رفساد سے انسان کی اپنی ذات متاثر ہوتی ہے، گویا کہ ایک انسان کی قلبی کیفیت، اندرونی جذبات اور اس کی ایک موہوبی فطرت کی خبر دی گئی ہے کہ دل کی اصلاح سے دوسرے اعضا میں درستگی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اس حدیث میں اعضا کی جانب سے دل کے آگے درخواست کرنے کا تذکرہ نہیں، اس لیے کہ دل کے اندر صر ف خیالات آسکتے ہیں، لیکن دل خیالات کااظہار نہیں کر سکتا، دل اپنے خیالات کے اظہار کے لیے زبان کا محتاج ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ انسان کے دل میں برے خیالات ہوں، لیکن وہ کسی وجہ سے زبان سے اس کا اظہار نہ کرے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے، چناں چہ اسی وجہ سے جب ایک صحابی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا ہم سے اپنے دل میں آنے والے خیالات کا مواخذہ کیا جائے گا ؟تو آپ نے فرمایا کہ نہیں، جب کہ زبان والی حدیث میں اس بات کا تذکرہ بھی ہے کہ تمام اعضا زبان کے آگے دست سوال پھیلاتے ہیں کہ تو سنوری رہے تو ہم بھی سنورے رہیں گے اور اگر تو بگڑ گئی تو ہم بھی بگڑ جائیں گے۔ یعنی اگر زبان عقل کو استعمال میں لاتے ہوئے دل کے برے خیالات کا اظہار نہ کرے تو انسان خود بھی بہت سے گناہوں سے بچ سکتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی بچا سکے گا او راگر یہی زبان باوجود دل کے صلاح او راس کے اچھے خیالات کے، اگرنادانی او رجلد بازی کی وجہ سے عقل سے کام نہ لے اور غلط جملہ نکال دے تو اگراس کے خیالات اچھے ہوں، وہ دل کا اچھا آدمی ہے، لیکن بے عقلی، نادانی او رجہالت کا ایک جملہ بہت بڑی مصیبت اور آفت کا ذریعہ بن جاتا ہے، اس لیے یہ تمام اعضا زبان سے خاموش رہنے اور سنورے رہنے کی درخواست کرتے ہیں۔
حضرت سہل بن سعد رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو شخص مجھے دو چیزوں کی ضمانت دے تو میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں، ایک اس کی جو اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان ہے (زبان) اور دوسری وہ جو اس کے دونوں قدموں کے درمیان ہے( شرم گاہ)۔“(صحیح بخاری)
حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو شخص اپنی زبان، اپنے پیٹ اور اپنی شرم گاہ کے شر سے بچ گیا اس کے لیے جنت واجب ہوگئی“۔ (کنز العمال)
اگر کوئی شخص صرف اسی حدیث پر عمل کر لے تو اس کی دنیوی واخروی نجات کے لیے یہی کافی ہے۔
اس لیے کہ انسان سے جو گناہ ہوتے ہیں اس کی وجہ یا تو اس کے اقوال ہوتے ہیں یا حرام مال ہوتا ہے یا ناجائز حیوانی خواہش، اقوال کا تعلق زبان سے ہے ،حرام مال یا حرام کھانا سب کا تعلق پیٹ سے ہے او رناجائز خواہشات کا تعلق شرم گاہ سے ہے تو جس انسان نے اپنے آپ کو ان تینوں کے شر سے بچا لیا تو گویا وہ تمام گناہوں سے بچ گیا اور اس کے لیے جنت کا راستہ ہموار ہو گیا۔
حفاظت لسان کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ محض زبان کی حفاظت کرنے پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم جیسی شخصیت، جنت جیسی مقدس نعمت کی ضامن بن رہی ہے۔
حضرت بلال بن حارث رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”انسان خدا کی پسندیدگی کا کوئی جملہ ایسا بولتا ہے کہ جس کی اہمیت کا اندازہ اس کو نہیں ہوتا، لیکن خدا تعالیٰ اس سے ہمیشہ کے لیے راضی ہو جاتا ہے او رکبھی وہ خدا کی ناراضگی کا ایسا جملہ بولتا ہے جس کا اندازہ اس کو نہیں ہوتا اورالله تعالیٰ اس سے ہمیشہ کے لیے ناراض ہو جاتے ہیں۔“ (مؤطا امام مالک، ترمذی، ابن ماجہ)
زبان کا فائدہ یا نقصان بہت جلدی ظاہر ہوتاہے، چناں چہ بسا اوقات انسان کوئی اچھا جملہ بولتا ہے تو اس کے نزدیک اس کی افادیت بہت معمولی ہوتی ہے، لیکن خدا کو وہ جملہ ایسا پسند آتاہے کہ اس کو ہمیشہ کے لیے خدا کے مقبول بندوں میں شمار کر لیا جاتا ہے۔ اوربسااوقات وہ کوئی ایسا جملہ بولتا ہے کہ اس کے نزدیک اس کا نقصان معمولی ہوتا ہے، لیکن خدا کو وہ جملہ اس قدر ناپسند ہوتا ہے کہ اس کو ہمیشہ کے لیے نافرمان بندوں میں شمار کر لیا جاتا ہے۔
انسان کوئی بھی عبادت کرے تو اس کو اس عبادت میں ایک بڑا مقام اور اس کے درجات میں بلندی صرف ایک مرتبہ عبادت کرنے سے حاصل نہیں ہو جاتی ، یہاں تک کہ وہ اس نیک کام کو بار بار کرے تب خدا تعالیٰ اس کو ایک اونچا مقام عطا فرماتے ہیں ،اسی طرح اگر کوئی شخص برائی کرے تو محض ایک مرتبہ وہ برائی کرنے سے پستی کی گہرائیوں میں نہیں چلا جاتا ہے، بلکہ وہ گناہ کثرت سے کرے تو الله تعالیٰ اس کو پستی کی گہرائیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔
لیکن زبان سے نکلنے والا ایک معمولی سا جملہ اس قدر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کے اثرت اس قدر اصلاح کن اور خوش کن ہوتے ہیں کہ الله تبارک وتعالیٰ اس متکلم کے درجات کو بلند فرما دیتے ہیں اور وہ کام یابی کی رفعتوں میں اڑتا پھرتا ہے او ربسا اوقات ایک معمولی سا جملہ ایسا ہلاکت خیر نشتر ثابت ہوتا ہے کہ جس کے نقصان دہ اثرات تیزی سے پھیل جاتے ہیں او رجس کے نتیجہ میں متکلم جہنم کی پستیوں میں چلا جاتا ہے۔
حضرت انس رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” زبان کو ایسا عذاب دیا جائے گا جو عذاب کسی بھی عضو کو نہیں دیا جائے گا، زبان الله تعالیٰ سے یہ سوال کرے گی کہ تونے مجھے تمام اعضا سے بڑھ کر عذاب کیوں دیا ؟اس کو جواب دیا جائے گا کہ تجھ سے ایک ایسا کلمہ نکلا تھا جو مشرق ومغرب میں پھیل گیا تھا او راس جملہ کی وجہ سے بہت سی جانیں ناحق ضائع کر دی گئیں، بہت سے اموال پر ناجائز دست درازی ہوئی اور بہت سی عصمتیں لٹ گئیں، الله تعالیٰ فرمائیں گے میری عزت کی قسم! میں تجھے ایسا عذاب دوں گا کہ ایسا عذاب میں نے کسی بھی عضو کونہیں دیا۔“
انسان کی زبان سے نکلنے والی کوئی بھیبات پوشیدہ اور ” آف دی ریکارڈ“ نہیں رہتی، بلکہ جو بات بھی زبان سے نکل گئی تو وہ آخرکار منظر عام پر آکر ہی رہتی ہے، انسان اگرآنکھوں سے کوئی منظر دیکھتا ہے تو وہ آنکھوں کے ذریعہ سے دوسرں تک منتقل نہیں ہوتا، اگر وہ کان سے کوئی بات سنتا ہے تو وہ بات کانوں کے ذریعہ دوسروں تک منتقل نہیں ہوتی، بلکہ نقل در نقل کا سلسلہ زبان سے چلتا ہے۔ لہٰذا زبان سے نکلی ہوئی کو ئی بات بھی بہت جلد دور دراز تک پہنچ جاتی ہے اور بہت تیزی سے اپنے اچھے یا برے اثرات دکھا دیتی ہے۔
آج کل کے دور میں جب کہ سائنس کی ترقیوں اور وسائل نقل وحمل نے زمین کی طنابیں کھنیچ لی ہیں اور پوری دنیا ایک گاؤں کی مانند ہو گئی ہے منھ سے نکلی ہوئی کسی بھی بات کو مشرق ومغرب اور شمال او رجنوب میں پہنچنے میں لمحے بھی صرف نہیں ہوتے، ایسے میں زبان کی حفاظت اور اس کے صحیح استعمال کی اہمیت او ربھی بڑھ جاتی ہے۔
کچھ بڑے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ زیادہ بولنے میں ہماری مقبولیت او رکمال یا کچھ چھوٹے لوگ زیادہ بولنے میں بڑائی محسوس کرتے ہیں ،حالاں کہ جس قدر جس کی پہنچ کا حلقہ وسیع ہوگا اسی قدر اس کی بات جلد لوگوں تک پہنچے گی اور بہت تیزی سے اثر انداز ہو گی، لہٰذا انسان جس قدر ذمہ داری ہے او رجس قدر اس کے ملنے جلنے والوں کا حلقہ وسیع ہے اسی قدر اس کو زبان کا استعمال نہایت حفاظت سے کرنا چاہیے۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” انسان کوئی کلمہ اپنی زبان سے نکالتا ہے جس کا مقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ اپنے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں کو ہنسائے، لیکن اس کلمہ کی وجہ سے وہ آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پسیتوں کی طرف پھینک دیا جاتا ہے اور زبان کی لغزشیں قدم کی لغزشوں سے بھی بڑھ کر ہوتی ہیں۔“ (کنز العمال)
زبان کی آفات او راس کے گناہوں میں صرف فحش گوئی نہیں ہے، بلکہ بسا اوقات انسان کوئی جملہ بولتا ہے جس میں کوئی فحش بات نہیں ہوتی، لیکن اس کا مقصد کسی کا مذاق اڑاکر اپنے ہم نشینوں کے لیے وقتی تفریح کا سامان پیدا کرنا ہوتا ہے، چوں کہ اس میں کسی کے ساتھ تمسخر ہوتا ہے، کسی کی کوئی کم زوری یا عیب کو اصلاح کے لیے نہیں ،بلکہ محض مذاق اڑانے اوراس کی توہین کے لیے محفل میں اچھالا جاتا ہے تو یہ فعل خدا کو نہایت ناپسندیدہ ہے اورمحض اس کلمہ کی وجہ سے وہ شخص خدا کی نظروں میں پسیتوں میں ایسے چلا جاتا ہے جیسے کہ کوئی شخص آسمان سے زمین پر گر جائے۔
زبان کی لغزش قدموں کی لغزش سے بھی بڑھ جاتی ہے، کسی کے قدم ڈگمگا جائیں، اس کے قدم میں لغزش آجائے تو اس سے وہ لڑ کھڑا کر گر جائے گا او راس کو اگر اس لغزش سے چوٹ آئی تو اس کا مداوا ممکن ہے، وہ زخم پھر سے مندمل ہوسکیں گے، لیکن اگر زبان لغزش کھا جائے اور اپنی حدود سے تجاوز کر جائے تو اس کی لغزش نہایت مہلک ہے ،اس کے زخم دلوں پر لگتے ہیں اور وہ زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے، وہ کسی کے دل ودماغ پر نقش کالحجر بن جاتے ہیں، ایک عربی شاعر کہتا ہے # جراحات السنان لھا التیام
ولا یلتام ما جرح اللسان
”نیزے کے زخموں کا مداوا تو ہوسکتا ہے لیکن زبان سے جو زخم لگایا جاتا ہے وہ کبھی مند مل نہیں ہوتا۔“
زبان کی کاٹ تلوار سے بھی زیادہ ہوتی ہے ،اسی وجہ سے بہت سی احادیث میں خاموش رہنے کی ترغیب دی گئی ہے اور ضرورت سے زیادہ بولنے کی ممانعت آتی ہے، خاموش رہنے میں انسان کی نجات بتلائی گئی ہے، ارشاد نبوی ہے کہ:
”جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔“
امام غزالی رحمة الله علیہ اپنی کتاب ”کتاب احیاء العلوم“ میں تحریر فرماتے ہیں:
” انسان جو بات بھی کرتا ہے وہ چار حالتوں سے خالی نہیں یا تو وہ بات شر ہی شر ہے، برائی ہے یا وہ خیر ہی خیر ہے، یعنی اچھی باتیں ہیں یا اس بات میں خیر اور شر دونوں ہیں یا اس بات میں نہ تو خیر ہے نہ شر، محض فضول ہے، پہلی حالت میں یقینا خاموش رہنا ہی ضروری ہے، دوسری حالت میں بولنا بہتر ہے، تیسری حالت میں جب انسان کا کلام خیر اور شر پر مشتمل ہو تو شر کے پہلو کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس وقت بھی خاموشی بہتر ہے او رجب کلام نہ خیر ہو نہ شر تو ایسی فضول بات کرنے سے بہتر ہے کہ انسان خاموش رہے۔“
معلوم ہوا کہ انسان کے کلام کی چا رحالتوں میں صرف ایک حالت میں کلام ضروری ہے او رباقی تین حالتوں میں خاموشی ضروری ہے۔
زبان انسان کو اکثر شرمندہ کرتی ہے، کئی مرتبہ انسان کوئی بات منھ سے نکال کر اس پر نادم ہوتا ہے، جب کہ خاموشی کی عادت اور سوچ کر بولنے کی صفت انسان کو شرمندگی سے بچائے رکھتی ہے۔ ایک عربی شاعر کہتا ہے: ما اِن ندمت علی السکوت مرة
ولقد ندمت علیٰ الکلام مراراً
”یعنی میں کبھی بھی خاموش رہنے کی وجہ سے شرمندہ نہیں ہوا، جب کہ بولنے کی وجہ سے میں کئی مرتبہ شرمندہ ہوا ہوں۔“
جوش دریا سے یہ کہتا ہے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
اگر ہم روزانہ اپنی بات چیت کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہماری بہت سے لغزشوں کا اصل سبب زبان ہی ہے، بہت سے گناہ جن پر سخت قسم کی وعیدیں کی گئی ہیں وہ سب زبان کی وجہ سے ہیں، مثلاً جھوٹ، فحش گوئی، لعن طعن، غیبت، جسے زنا سے بھی بڑھ کر گناہ کہا گیا ہے او راس کے علاوہ بے شمار گناہ زبان کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
آخر میں حضرت لقمان حکیم کی ایک حکایت پر اس مضمون کو ختم کیا جاتا ہے:
” ایک بادشاہ نے حضرت لقمان حکیم سے کہا کہ ایک بکری ذبح کرواور اس میں جو سب سے اچھی چیز ہو وہ پیش کرو۔ حضرت لقمان حکیم نے زبان اور دل لا کر پیش کر دیا، اس کے بعد بادشاہ نے کہا کہ جو سب سے بری چیز ہو وہ پیش کی جائے، تو حضرت لقمان حکیم نے پھر زبان اور دل پیش کر دیا۔ بادشاہ نے اس کی وجہ دریافت کی تو لقمان حکیم نے جواب دیا اگریہی زبان اور دل صحیح استعمال کیے جائیں تو یہ جسم انسانی کے سب سے بہترین اعضا ہیں اوراگر ان کا استعمال غلط ہو تو یہی جسم انسانی کے سب سے بدترین اعضا ہیں۔“