اکابر و اسلاف کی باتیں بڑی موثر و پُر مغز ہوا کرتی ہیں۔ اخلاف و اصاغر کو چاہیے کہ ان سے عبرت حاصل کریں۔ بڑوں کے واقعات قصہ وکہانی کے طور پر نہیں، سبق حاصل کرنے کے لیے سننے، پڑھنے او ر بیان کرنے چاہییں۔ اسی مقصد کے تحت ان مشکل حالات میں آج ایک دل چسپ اور سبق آموز واقعہ آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے، اللہ تعالیٰ مفید بنائے۔ (آمین)
ایک مرتبہ سلیمان بن عبد الملک مکہ مکرمہ جاتے ہوئے مدینہ طیبہ سے گزرے۔ انھوں نے معلوم کیا کہ کیا مدینہ میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے حضرت نبی کریم صلی الله علیہ وسلمکے کسی صحابی سے ملاقات کی ہو ؟ لوگوں نے بتایا: ابو حازم ہیں۔ سلیمان نے انھیں بُلوا بھیجا۔وہ آئے تو سلیمان نے کہا: اے ابو حازم !یہ کیسی جفا ہے ؟ ابو حازم نے کہا :آپ کون سی جفا کی بات کر رہے ہیں؟ سلیمان نے کہا:تمام اہلِ مدینہ میرے پاس ملاقات کے لیے آئے، لیکن آپ نہیں آئے۔ ابو حازم نے کہا:اے امیر المومنین!میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کہ آپ وہ کہیں جو ہوا ہی نہیں ہے۔ میںآ ج سے پہلے نہ آپ کو جانتا تھا اور نہ میں نے پہلے کبھی آپ کو دیکھا ہے!سلیمان ،محمد بن شہاب زہری کی طرف متوجہ ہوئے تو زہری نے کہا :شیخ ابو حازم نے صحیح کہا ہے، غلطی آپ کی ہے۔
سلیمان نے پوچھا : اے ابو حازم ! کیا وجہ ہے کہ ہم موت کو ناپسند کرتے ہیں ؟ ابو حازم نے کہا: کیوں کہ تم نے اپنی آخرت کو خراب کر دیا ہے اور دنیا کو آباد کیا ہے، اس لیے تم آبادی سے خرابی کی طرف جانے کو ناپسند کرتے ہو۔سلیمان نے کہا : اے ابو حازم ! آپ نے صحیح کہا۔
سلیمان نے پوچھا: یہ بتائیں کہ ہم کل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کیسے آئیں گے ؟ابو حازم نے کہا : جو نیکو کار ہے وہ اُس مسافر شخص کی طرح آئے گا جو اپنے گھر والوں کے پاس سفر سے (خوش و خرم) واپس آتا ہے اور جو بدکار ہے وہ بھاگے ہوئے غلام کی طرح آئے گا، جسے پکڑ کر آقا کے سامنے لایا جاتا ہے۔ سلیمان یہ سن کے رونے لگے۔
سلیمان نے پوچھا:کاش ہمیں معلوم ہو جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے کیا صورت تجویز کر رکھی ہے! ابوحازم نے کہا : اپنے اعمال کو کتاب اللہ پر پیش کرو۔ سلیمان نے پوچھا:ہمیں کیسے اپنا ٹھکانا معلوم ہوگا ؟ ابو حازم نے کہا:﴿إِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِی نَعِیمٍ،وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِی جَحِیمٍ﴾ یقین رکھو کہ نیک لوگ یقیناً بڑی نعمتوں میں ہوں گے اور بدکار لوگ ضرور دوزخ میں ہوں گے۔ (سورة الانفطار)
سلیمان نے پوچھا:اے ابو حازم ! اللہ تعالیٰ کی رحمت کہاں ہے ؟ ابو حازم نے کہا:﴿إِنَّ رَحْمَتَ اللَّہِ قَرِیبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِینَ﴾ یقیناًاللہ کی رحمت نیک لوگوں سے قریب ہے۔(اعراف)
سلیمان نے پوچھا:اے ابو حازم ! اللہ کے کون سے بندے معزز ہیں ؟ ابو حازم نے کہا :جو مروّت اور عقلِ سلیم رکھتے ہیں۔
سلیمان نے پوچھا:کون سے اعمال افضل ہیں ؟ ابو حازم نے کہا: حرام چیزوں سے بچتے ہوئے فرائض و واجبات کا ادا کرنا۔
سلیمان نے پوچھا:کون سی دعا زیادہ سنی جاتی ہے ؟ ابو حازم نے کہا :وہ دعا جو کوئی شخص اپنے اوپر احسان کرنے والے کے لیے کرتا ہے۔
سلیمان نے پوچھا:کون ساصدقہ افضل ہے ؟ ابو حازم نے کہا : مصیبت زدہ سائل کے لیے کیا گیا صدقہ اور وہ صدقہ جو اپنے افلاس کے باوجود کیا جائے اور اس طرح کیا گیا صدقہ جس میں احسان اور اذیت نہ ہو۔
سلیمان نے پوچھا :کون سا کلام زیادہ بہتر ہے ؟ ابو حازم نے کہا : اس شخص کے سامنے حق بات کرنا، جس سے تم ڈرتے ہو یا جس سے تم کوئی امید رکھتے ہو (اور ڈر اور امید پوری نہ ہونے کا خوف دامن گیر ہونے کے باوجود تم سچ بات کہو)۔
سلیمان نے پوچھا :کون سا مومن عقل مند ہے ؟ ابو حازم نے کہا:وہ جو اللہ کی طاعت کرے اور طاعت پر لوگوں کی راہ نمائی کرے۔
سلیمان نے پوچھا کون سا مومن احمق ہے ؟ ابو حازم نے کہا : وہ جو اپنے بھائی کی مدد کرے، باوجود اس کے کہ وہ ظالم تھا۔اس نے گویا اپنی آخرت کو غیر کی دنیا کے بدلے بیچ ڈالا۔سلیمان نے کہا:آپ نے صحیح کہا۔
سلیمان نے پوچھا:ہم جس حالت میں ہیں، اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ؟ ابو حازم نے کہا:اے امیر المومنین!آپ مجھے اس سوال سے معاف رکھیں؟ سلیمان نے کہا:نہیں!آپ ضرور مجھے نصیحت کی بات کہیے۔ ابو حازم نے کہا :اے امیر المومنین !آپ کے آباو اجداد نے تلوار کے ذریعے لوگوں پر جبر کیا اور مسلمانوں کی رضا اور مشورے کے بغیر یہ ملک سختی سے حاصل کیا، یہاں تک کہ انھوں نے بہت سے لوگوں کو قتل کیا اور یہ سب کرنے کے بعد دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔ کاش!آپ کو معلوم ہوتا کہ جو انھوں نے (مرنے کے بعد حسرت کے ساتھ)کہا اور جو ان کے بارے میں کہا گیا۔ سلیمان کے ایک حواری نے کہا:اے ابو حازم!آپ نے بہت بری بات کہی۔ ابو حازم نے کہا :تم جھوٹ کہتے ہو، میں نے کوئی بُری بات نہیں کہی۔ اللہ تعالیٰ نے علما سے عہد لیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق بیان کریں اور اُسے ہرگز نہ چھپائیں۔
سلیمان نے پوچھا :اب ہم کیسے اصلاح کریں ؟ ابو حازم نے کہا : ڈینگیں مارنا چھوڑدو، مروّت اختیار کرو اور حقوق والوں کو ان کے حقوق انصاف کے ساتھ برابر تقسیم کرو۔
سلیمان نے پوچھا:ہم ٹیکس کیسے لیں ؟ ابوحا زم نے کہا :جس سے لینا جائز ہے، اُس سے وصول کرو اور جو حق دار ہے، اسے پہنچاو۔
سلیمان نے عرض کیا :اے ابو حازم !کیا آپ کے لیے ممکن ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں، تاکہ ہم آپ سے استفادہ کر سکیں؟ ابو حازم نے کہا :میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں!سلیمان نے پوچھا :ایسا کیوں ؟ ابو حازم نے کہا :مجھے اندیشہ ہے کہ میں آپ کی خاطر کسی تھوڑی سی چیز کو جھکادوں اور اللہ تعالیٰ مجھے دنیا وآخرت کا دوہرا عذاب دے۔
سلیمان نے کہا:آپ کی کوئی ضرورت ہو تو ہمیں بتائیے! ابو حازم نے کہا :آپ مجھے جہنم سے بچا لیجیے اور جنت میں داخل کروا دیجیے۔ سلیمان نے کہا:یہ تو میری قدرت میں نہیں۔ ابو حازم نے کہا : مجھے اس کے علاوہ آپ سے اور تو کوئی حاجت نہیں۔
سلیمان نے کہا:آپ میرے لیے دعا کیجیے۔ ابو حازم نے دعا کی: اے اللہ !اگر سلیمان آپ کا پسندیدہ بندہ ہے تو اس کے لیے دنیا وآخرت کی خیر آسان فرمادے، اگر آپ کا دشمن ہے تو اس کی پیشانی کو پکڑ کر اپنی رضا والے کاموں کی طرف لے آ۔ سلیمان نے کہا:یہ کافی ہے!ابو حازم نے کہا: میں نے مختصر دعا مانگی ہے اور اگر آپ اس دعا کے اہل ہیں تو میں نے زیادہ مانگ لیا ہے اور اگر آپ اس کے اہل نہیں ہیں تو مناسب نہیں کہ میں ایسی کمان سے مارا جاوں جس کا وتر نہ ہو۔
سلیمان نے عرض کیا:مجھے کوئی وصیت کیجیے۔ ابو حازم نے کہا: میں آپ کو مختصر سی وصیت کروں گا؛آپ اپنے رب کی عظمت بیان کیجیے اور ایسی جگہ نہ جائیے جس سے اس نے منع کیا ہے یا ایسی جگہ سے مفقود نہ ہوئیے جہاں اس نے حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔
جب ابو حازم باہر چلے گئے تو سلیمان نے اُن کی خدمت میں سو دینار بھیجے اور لکھا:آپ اِنھیں خرچ کریں اور آپ کے لیے میرے پاس اس کی مثل بہت سے دینار ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ابو حازم نے وہ دینار واپس کر دیے اور خط میں لکھا :اے امیر المومنین !میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ آپ کا مجھ سے سوالات کرنا مذاق ہو یا میں اس پر آپ سے عطا کی امید رکھوں۔ جب میں اس مال کو آپ کے لیے پسند نہیں کرتا، تو اپنے لیے کیسے پسند کروں گا؟ نیز ابو حازم نے کہا:یہ سو دینار میری گفتگو کا عوض ہیں تومیرے لیے مردار، خون اور خنزیر کا گوشت ،جو کہ حالتِ اضطرار میں حلال ہوتا ہے،وہ اس سے بہتر ہے اور اگر یہ بیت المال میں سے میرے حق کی وجہ سے ہے توکیا اس میں میرے جیسے اور لوگ بھی ہیں؟ اگرآپ نے دیگر علما اور مجھ میں برابری کی ہے تو فبہا، ورنہ مجھے اس رقم کی ضرورت نہیں ہے۔(تفسیرِ قرطبی، بذیل:سورہ بقرة، آیت:42)