بسم الله الرحمن الرحیم
الحمد لله وسلام علی عباد الذین اصطفیٰ
اسلام نے جس طرح دنیا وآخرت کی کام یابی کے اہم اصول اور قواعد بیان کیے ہیں، وہاں اسلامی برادری کی معاشرت کے لیے بھی ہمیں ہدایات اور راہ نمائی عطا کی ہے۔ اس کے لیے ہمارے شیخ اور حضرت اقدس ،شہید اسلام، حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی نے تین احادیث اور اس کی تشریح لکھی ہے۔ انہیں کے الفاظ میں آج کی اہم ضرورت کی بنا پر، ملاحظہ فرمائیں:
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس سے خیانت کرتا ہے، نہ اس سے جھوٹ بولتا ہے، نہ اس کی مدد چھوڑتا ہے، مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان پر حرام ہے، اس کی عزت وآبرو بھی، اس کا مال بھی اور اس کا خون بھی۔ (سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ ) تقویٰ یہاں ہوتا ہے! ایک آدمی کے بُرا ہونے کو یہی کافی ہے کہ وہ مسلمان کی تحقیر کرے۔“ (ترمذی:2/15-14)
ا
س حدیث شریف میں اہلِ اسلام کی اخوتِ اسلامی اور اس کے تقاضوں کو بیان فرمایا گیا ہے، ” مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے “ یہ اسلامی اخوت کا ذکر ہے، جونسبی اخوت سے بھی زیادہ قوی اور پائیدار ہے۔ قرآن کریم نے بھی اس اخوت ایمانی کو اپنے بلیغ انداز میں ارشاد فرمایا:﴿ انما المؤمنون اخوة﴾
․” اہل ایمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں“۔
امام قرطبی رحمہ الله اس آیت شریفہ کے ذیل میں لکھتے ہیں: ”ای فی الدین والحرمة لا فی النسب، لھذا قیل: اخوة الدین أثبت من اخوة النسب، فان اخوة النسب تنقطع بمخالفة الدین، واخوة الدین لا تنقطع بمخالفة النسب“․(قرطبی:16/322)
ترجمہ:” مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، یعنی نسب میں نہیں، بلکہ دین او رحرمت میں ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ :” دینی اخوت، نسبی اخوت سے زیادہ مضبوط ہے“ کیوں کہ نسبی اخوت دین کی مخالفت کے ساتھ منقطع ہو جاتی ہے ، مگر دینی اخوت نسب کے اختلاف سے منقطع نہیں ہوتی۔“
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کی باہمی اخوت کو ذکر فرمانے کے بعد اس اخوت کے حقوق او رتقاضوں کو بیان فرمایا:
∗… ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی خیانت کرے، نہ جان ومال میں ، نہ عزت وآبرو میں۔
∗…اس کے سامنے جھوٹ نہ بولے اور کسی معاملے میں فریب، دھوکا دہی اور غلط بیانی سے کام نہ لے ۔
∗… اس کا مسلمان بھائی اگر مدد کا محتاج ہو تو اس کی مدد سے ہاتھ نہ کھینچے، اس میں دشمنوں کے مقابلے میں مدد کرنا بھی شامل ہے اور فقر وفاقہ اور عسرت وتنگ دستی کے مقابلے میں مدد کرنا بھی داخل ہے۔
∗… ایک مسلمان کی جان، مال او رعزت وآبرو کی حفاظت بھی مسلمان کے ذمے ہے، نہ ان چیزوں میں خود دست درازی کرے او رنہ کسی دوسرے کو کرنے دے۔
∗… ایک مسلمان کسی مسلمان کی تحقیر نہ کرے، نہ اس سے حقارت آمیز سلوک کرے، نہ زبان سے کوئی ہتک آمیز بات کہے اور نہ دل میں اس کو حقیر جانے، کیوں کہ مسلمان بھائی کی تحقیر کرنا ایک ایسی برائی ہے کہ اس کے بعد آدمی کے بُرا ہونے کے لیے مزید کسی چیز کی ضرورت نہیں۔
∗… اس ضمن میں قلب مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ : ” تقوی یہاں ہوتا ہے!“ اس میں دو باتوں پر تنبیہ ہے، ایک یہ کہ تقویٰ کا محل قلب ہے اور کسی مسلمان کی قلبی کیفیت کا احاطہ کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں، اس لیے کسی مسلمان کو حقیر جاننے کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ دوم یہ کہ جس شخص کے دل میں تقویٰ ہو گا، جو خوف خداوندی سے عبارت ہے، وہ کسی مسلمان کو حقیر نہیں سمجھے گا، اس لیے کہ مسلمان کی تحقیر کرنا قلب کے خوف الہٰی سے عاری ہونے کی علامت ہے۔ اس مختصر سی تشریح کے بعد واضح ہو جاتا ہے کہ یہ حدیث اسلامی معاشرت کے اہم ترین اصول وہدایت پر مشتمل ہے او راگر مسلمان بھائی صرف اسی ایک حدیث پر مضبوطی کے ساتھ عمل کر لیں تو ان کی معاشرت جنت کا نمونہ بن سکتی ہے، والله الموفق!
” حضرت ابو موسی اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مومن دوسرے مؤمن کے لیے ایسا ہے جیسے ایک عمارت ( کی اینٹیں) کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔“ (ترمذی:2/15)
اس حدیث پاک میں اسلامی برادری کو ایک عمارت کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے، جس طرح عمارت کاہر حصہ دوسرے حصے کی تقویت اور مضبوطی کا باعث ہے اور اس کے ایک حصے کو نقصان پہنچنے سے عمارت کی مضبوطی او را س کی زیب وزینت کو نقصان پہنچتا ہے، اسی طرح ہر مسلمان اسلامی برادری کی تقویت او رمضبوطی کا باعث ہے او رایک مسلمان کا نقصان صرف اس کا نقصان نہیں، بلکہ پوری اسلامی برادری کا نقصان ہے۔ اس میں اس طرف بھی اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ جس طرح اینٹوں کے ڈھیر او رملبے کا نام عمارت نہیں، جب تک ان سے عمارت کی چنائی نہ کر دی جائے۔ اسی طرح مسلمانوں کے افراد کا نام اسلامی معاشرہ نہیں، جب تک کہ اسلام کی برکت سے ان کے درمیان ربط واتحاد اور جوڑ پیدا نہ ہو جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آں حضرت انے ارشاد فرمایا:” تم میں ہر ایک شخص اپنے مسلمان بھائی کا آئینہ ہے، پس اگر اس میں کوئی داغ دھبہ دیکھے تو اس کو ہٹا دے۔“ (ترمذی:2/15
اس حدیث پاک میں ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے لیے آئینہ قرار دیا گیا ہے او رآئینے میں دو خوبیاں پائی جاتی ہیں، ایک یہ کہ وہ آئینہ دیکھنے والے سے خیانت نہیں کرتا، بلکہ اس کے چہرے میں کوئی عیب اور داغ ، دھبہ ہو تو اس کو نمایاں کر دیتا ہے۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ آئینہ صرف اپنے دیکھنے والے کے سامنے چپکے سے اس کے عیب کا اظہار کر دیتا ہے، دوسروں کے سامنے اظہار نہیں کرتا او راس کے اس عیب کی کسی کو خبر نہیں ہونے دیتا۔ گویا یہ فرمایا گیا ہے کہ جس طرح آئینہ اپنے دیکھنے والے کے حق میں مخلص ہوتا ہے، اسی طرح ایک مؤمن کو چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کے حق میں نہایت مخلص ہو کہ اگر اس میں کوئی عیب پایا جاتا ہے تو چپکے سے اس کی اصلاح کی طرف اسے متوجہ کر دے، مگر لوگوں کے سامنے اس کا اظہار نہ کرے۔
اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جس طرح آئینہ دیکھنے والا آئینے پر اعتماد کرتا ہے اور آئینہ جس داغ دھبے کی، عیب کی نشان دہی کرتا ہے، اس کی اصلاح کر لیتا ہے، آئینے میں اپنے عیب کو دیکھ کر حبشی کی طرح شیشہ توڑنے کی کوشش نہیں کرتا، اسی طرح مسلمان کو چاہیے کہ اس کا جو بھائی اس کے عیب کی نشان دہی کرے، اس کے اخلاص پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے اس عیب کی فوراً اصلاح کر لے، اپنے بھائی کی نشان دہی کا بُرا نہ منائے۔ بعض عارفین نے اس حدیث پاک کی یہ شرح فرمائی ہے کہ: مسلمان کو چاہیے کہ دوسرے اہل ایمان کو آئینہ سمجھے او را ن کے اندر جو عیوب نظر آئیں ان کے بارے میں یوں سمجھے کہ یہ میرے چہرے کا عکس ہے، اس لیے اپنے اندر ان عیوب کا جائزہ لے اور جو عیوب اپنے اندر نظرآئیں ان کی اصلاح کرے، کیوں کہ آدمی کو خود اپنا چہرہ نظر نہیں آیا کرتا، اس لیے دوسرے کے عیوب سے اپنے عیوب پر تنبہ ہوتا ہے اور عقل مند آدمی متنبہ ہو کر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین․