اسلام کی تعلیمات ہمہ گیر اور ہدایات عالم گیر اور آفاقی ہیں، جس نے بندگان خدا کو خدائے وحدہ لاشریک لہ کی عبادت و بندگی اور اطاعت وفرماں برداری کا پابند کیا ؛ اس لیے ایک بندہ مومن اپنے معبود حقیقی و مسجود اصلی کے سامنے اپنی عاجزی و بے بسی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے سرتسلیم خم کرتا ہے ، جو کہ در حقیقت ایک گم شدہ بندے کے اپنے آقا کے دربار میں حاضری کا سبق ہے اور اس حقیقت کی خوب صورت ترجمان اور بہترین شکل نماز ہے، ”نماز“اسلام کا مہتم بالشان رکن اور بنیادی ستون ہے، جو ایمان وکفر کے مابین حد فاصل اور خط امتیاز ہے، جس کی ادائیگی ہر صاحب عقل، بالغ مسلمان پر فرض و لازم ہے اور اس کی ادائیگی کے لیے شریعت مطہرہ نے ایک مخصوص و مقدس مقام بنایا ہے، اور وہ مقدس و پاکیزہ جگہ شریعت کی اصطلاح میں” مسجد“کہلاتی ہے، مسجد در حقیقت پروردگار عالم کا بابرکت گھر اور پر عظمت دربار ہے، خیر و برکت کا منبع اور نور و ہدایت کا سر چشمہ ہے ، عبادت و بندگی کا مظہر اور اسلام کی نشر و اشاعت کا مرکز ہے، امن و سلامتی کا گہوارہ اور رحمت و برکت کی منزل ہے اور ملائکہ کا مسکن اور اسلام کی عظیم درس گاہ ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ مسجد ہر علاقے اور ہر بستی کی وہ بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں اور اس کا کوئی نعم البدل بھی نہیں ، اس کا ادب و احترام ہر صاحب ایمان پر لازم و واجب ہے؛ کیوں کہ اس کی حیثیت اور مقام دیگر جگہوں سے بلند و بالاتر ہے۔
مساجد کی فضیلت
مسجد خانہ خدا اور خیر البقاع ( دنیا کی بہترین جگہ ) ہے ، کتاب وسنت میں بیشتر مقامات پر اس کی فضیلت و عظمت وارد ہوئی ہیں :چناں چہ مسجد اللہ کا گھر ہے، مسجد آسمان والوں کو ایسے ہی چمکتے اور روشن نظر آتی ہے، جس طرح زمین والوں کو آسمان کے ستارے چمکتے نظر آتے ہیں ۔ ( مجمع الزوائد:1934)
خطہٴ ارض پر عند اللہ محبوب ترین جگہیں ”مساجد“ہیں ؛ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ” ( مساجد ) جنت کے باغ ہیں ، اللہ تعالیٰ کی نظر میں روئے زمین پر سب سے بہترین جگہیں مسجدیں ہیں اور سب سے بدترین جگہیں بازار ہیں“۔ (مسلم ،باب فضل الجلوس فی مصلاہ:671 )
صرف یہی نہیں ؛ بلکہ مسجد امن و سلامتی کا گہوارہ ہے ، ہر مؤمن متقی کا گھر ہے؛ نیز جماعت کی نماز منفرد کی نماز سے درجہ ثواب زیادہ رکھتی ہے ۔ ( بخاری ومسلم، مشکوة :1052 ) لہٰذا ہر صاحب ایمان شخص کو چاہیے کہ پنچ وقتہ فرض نمازوں کا اہتمام کرے اور ان کی ادائیگی کے لیے مسجدوں کا رخ کرے۔
مساجد کی آبادی اور حاضری کی فضیلت
کتنا خوش نصیب اور نیک بخت ہے وہ مسلمان جس کو باری تعالیٰ نے نماز کی ادائیگی اور مسجد میں حاضری کی توفیق ارزانی فرمائی ہے، یہ صرف فضیلت ہی نہیں، بلکہ بہت بڑی سعادت بھی ہے ؛ اس لیے کہ حدیث مبارکہ میں ہے : اللہ تعالیٰ مسجد میں آنے والے بندے سے اس طرح خوش ہوتے ہیں ، جس طرح گم شدہ آدمی کے ملنے سے گھر والے خوش ہوتے ہیں ۔ نیز یہ کہ مسجد میں آنے والے کی اللہ رب العزت والجلال خود میز بانی اور مہمان نوازی کرتے ہیں ؛ گویا مسجد میں آنے والا اللہ کا مہمان بن جاتا ہے۔ (بخاری،باب فضل من غدا الی المسجد :631)
مسجد میں پیہم حاضری اور آمد ورفت کمال ایمان کی نشانی اور متقی شخص کی علامت ہے:اللہ تعالیٰ اس (مسجد میں آنے والے) بندے سے محبت فرماتے ہیں اور ملائکہ اس کے معاون و مددگار بن جاتے ہیں۔ (مسند احمد:4914)
نیز اکثر وقت مسجد میں گزار نے والے بندہ کو بشارت دیتے ہوئے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ صبح و شام مسجد میں حاضر ہونے والا گنا ہوں اور خطاؤں سے اس طرح منزہ ومبرہ ہو جاتا ہے، جس طرح اس وقت تھاجب ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ (مسلم:666)
اور مسجد میں آنے والا کبھی خیر سے محروم نہیں رہتا؛ کیوں کہ سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : مسجد میں بیٹھنے والا تین فائدوں میں سے ایک فائدہ ضرور حاصل کرتا ہے۔کسی بھائی سے کوئی دینی فائدہ ہو جاتا ہے۔یا کوئی حکمت کی بات سننے کو ملتی ہے ۔ یا اللہ کی رحمت مل جاتی ہے، جس کا ہر مسلمان منتظر رہتا ہے۔(مسند احمد:4914)
بہ ہر حال مسجد میں بیتنے والا وقت بھی قیمتی ہو جاتا ہے اور آدمی کسی نہ کسی خیر سے مالا مال ہو جاتا ہے ؛ لیکن مساجد کی آبادی بھی خدائے بزرگ وبرتر کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں اور نمازوں کے پابند ہوں اور زکاة دیتے ہوں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں ، توقع ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔ (سورة التوبہ:18)
مساجد کی آبادی کی ترغیب دیتے ہوئے محبوب کل جہاں صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو خوب چر و سوال کیا گیا کہ : جنت کے باغ کیا ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مساجد ۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات :2/191)
مختصر یہ کہ ہر فرد مؤمن کو اس بات کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا چاہئے کہ وہ ان سب فضائل و برکات سے مستفید ہو۔
مسجد سے بے التفاتی وبے تو جہی کا نقصان
مسجد میں بکثرت آمد و رفت کمال ایمان کی نشانی ہے اور نہ آنا نفاق کی علامت ہے ؛ یہی وجہ ہے کہ نبی علیہ السلام نے، جو کہ کائنات میں سب سے بڑھ کر رحیم و بردبار ہے ، مسجد میں نہ آنے والوں کے بارے میں یہ ارادہ فرماتے ہیں کہ ان کے گھروں کو جلا دوں ۔ (بخاری:کتاب الجماعة والا مامہ:618 ) ذرا اندازہ لگائیے کہ کتنی بڑی بات ہوگی اور کیا عظمت ہوگی مسجد کی کہ جس میں نماز با جماعت کی کوتاہی پر اس قدر ناراضگی کا اظہار فرما رہے ہیں، پس مسجد میں حاضری کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، لیکن یہ بات بھی مہتاب نیم شب کی طرح عیاں ہے کہ ابتدائے آفرینش سے ہی حق و باطل کا تصادم اور ٹکراؤ جاری رہا ہے کہ ہر زمانے میں دشمنان اسلام، اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں ،کبھی تو احکام شریعت میں ترمیم اور تبدیلی کر کے، تو کبھی شعائر اسلام کا استہزا اور مذاق بنا کر، کبھی تو اذانوں پر پابندیاں لگا کر، کبھی مسجدوں کی بے حرمتی و تقدس پامالی کر کے ؛ لیکن یاد رکھیں کہ یہ سب ہمارے شامت اعمال اور دین سے دوری کا نتیجہ اور اثر ہے ، پس ہمارے ملک ہندوستان میں سب سے پہلے بابری مسجد کو ہدف بنایا گیا اور نا جائز قبضہ کر کے اس کو مندر میں تبدیل کیا گیا، اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے اویس زمانہ قاری سید صدیق صاحب رحمة اللہ علیہ نے اس طرح کہا تھا #
وہ میر باقی کی تھی جو مسجد جو عہد بابر کی تھی نشانی
خدا کا گھر وہ گرا کے ظالم یہ کیسا مندر بنا رہے ہیں؟
لیکن پھر بھی جب تک ظالم کی آتش ظلم ٹھنڈی نہ ہو جائے تو وہ کچھ نہ کچھ شر انگیزی ضرور کرتا رہتا ہے، ابھی سال دو سال قبل شہر حیدر آباد میں بھی دو مسجدوں کی بے حرمتی کی گئی اور ان کو مسمار کر دیا گیا، اس طرح کے اور بھی واقعات رونما ہوئے ہیں، یہ سب ہماری شامت اعمال کا نتیجہ اور قرب قیامت کا قرینہ ہے، ہم سے صرف بابری مسجد ہی نہیں چھینی گئی ؛ بلکہ بابری مسجد تو ہدف اور نشانہ ہے، اس کے علاوہ دلی کی جامع مسجد ، حیدر آباد کی مکہ مسجد وغیرہ بھی نشانے پر ہے، وقفہ وقفہ سے دشمن ہماری رگ غیرت وحمیت کو بھڑکاتے رہتے ہیں، یکے بعد دیگرے مسجدوں پر نا پاک حملے کیے جاتے ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم تو بس نام کے مسلمان رہ گئے ہیں، خود مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے، ہمارا طرز عمل تو محض رمضانی مسلمان ہونے کا واضح ثبوت پیش کرتا ہے، جیسے ہی رمضان آجائے، تو مسجد یں آمد و رفت شروع ہو جاتی ہے ، قرآن کی تلاوت کا خوش گوار ماحول پیدا ہو جاتا ہے، روزوں کے اہتمام کی خوش بودار فضا چلنے لگتی ہے، تسبیحات کی پابندی کے دلچسپ مناظر نظر آتے ہیں، غریبوں کی امداد، مسکینوں کی دادرسی، بیماروں کی مزاج پرسی ؛ بلکہ ہر اعتبار سے انسانیت نوازی اور خدمت خلق جیسی نمایاں صفات کا ظہور ہوتا ہے ، خیر خواہی کے جذبات ابھر نے لگتے ہیں ، ہم دردی کے حوصلے پروان چڑھنے لگتے ہیں ، لیکن پھر جوں ہی ہلال عید نظر آجائے ، تو دفعةً ماحول بدل جاتا ہے، مزاج میں تبدیلی آجاتی ہے، بہار کے بجائے خزاں جیسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے اور در پردہ چھپے ہوئے سب شرور وفتن عود کر آجاتے ہیں، مسجدوں سے بیگانگی و بے التفاتی ، نمازوں کی غفلت و لا پرواہی کا ایسا منظر ہوتا ہے جو نا قابل بیان ہے ؛ شاعر مشرق علامہ اقبال نے امت کی اسی زبوں حالی کا رونا رویا ہے #
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ، ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اب بھی وقت ہے سدھر جانے کا ، مزاجوں کو بدلنے کا ، عادات کا رخ موڑنے کا تو اس سلسلے میں سب سے پہلے ہمیں ان حالات میں ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، اولا تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خاموش رہنے کے بجائے جائز اور جمہوری حدود میں رہتے ہوئے، اس کے خلاف آواز بلند کریں، ثانیا ہمیں خود اپنے طور پر مسجدوں کو آباد کرنے کی فکر کرنی چاہیے؛ اس لیے کہ جب تک ہماری مسجد یں آباد اور نمازیوں سے پر ہوں گی تو کسی میں بھی اتنی جرات و ہمت نہیں کہ وہ اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھ سکے اور اس کے خلاف اپنے ذہن کو دوڑاسکے ، لیکن ہمارا حال تو یہ ہو گیا ہے کہ مسجدوں کی کوئی فکر ہے، نہ نمازوں کا شوق اور جب مسجدوں پر حملے اور انگشت نمائی ہوتی ہے اور اس کی بے حرمتی کی جاتی ہیں، تو تب کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہ جاتا ، پھر ہائے ہائے کرنا کچھ نفع بخش اور سود مند نہیں ہوتا ، اس لیے ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم خود محلہ واری سطح پر مسجدوں کو آباد کرنے کی فکر کریں ، آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمان بھائیوں سے ترغیب اور تشویق کی باتیں کر کے، انہیں مسجد کا پابند بنائیں ، جس طرح مسجد کی تعمیر اور آباد کاری باعث سعادت اور اجروثواب کا موجب ہے ، بس یوں ہی اس کے برخلاف مسجد ڈھانا اور تخریب کاری و ویرانی کے اسباب و ذرائع کو پیدا کرنا بدبختی وحرماں نصیبی ہے، جو سنگین گناہ اور ظلم عظیم ہے ؛ جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے :﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّہِ أَن یُذْکَرَ فِیہَا اسْمُہُ وَسَعَیٰ فِی خَرَابِہَا﴾
خلاصہ تحریر
مختصر یہ کہ ہم قرآنی پیغام:﴿إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّہِ مَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ﴾
کا عامل بنتے ہوئے اپنے مؤمن کامل ہونے کا ثبوت دیں اور مساجد کی حفاظت کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس کی آبادی کی کوشش کی جائے ، اس کے بے شمار فوائد وثمرات ہیں، ہر شخص کو شعوری طور پر یہ کوشش کرنا چاہیے کہ وہ جس علاقے میں رہتا ہے، اگر وہاں مسجد نہ ہو تو مسجد کی تعمیر کی فکر کریں اور اگر ہو تو اس کی آبادی کی کوشش کرے، اسی طرح ہر نمازی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی دعاؤں میں مسجد کی آبادی اور علاقے کے لوگوں کے لیے دعا کریں کہ پروردگار عالم ہر مسلمان کو پکا نمازی اور سچا دین دار بنائیں اور مساجد کے آئمہ و موذنین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اذان و نماز تک محدود رکھنے کے بجائے مسجد کی آبادی کی بھی کوشش کریں، اپنے آپ کو اپنی ذمہ داری سے سب کدوش نہ سمجھیں؛ بلکہ یہ بھی ان کے فریضہ میں داخل ہے۔
اللہ تعالی توفیق عمل نصیب فرمائے:﴿رَبِّ اجْعَلْنِی مُقِیمَ الصَّلُوةِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِی رَبَّنَا وَتَقَبَّلُ دعاءِ ﴾
آمین، بجاہ سید المرسلین صلی الله علیہ وسلم ۔