مسئلہ ختم نبوت اور پاکستان

idara letterhead universal2c

مسئلہ ختم نبوت اور پاکستان

محدث العصر مولانا سید محمدیوسف بنوری

پاکستان کی بنیاد” لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ“ پر رکھی گئی تھی اور خدا تعالیٰ سے عہد اور قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اس میں اسلام کا عادلانہ نظام قائم کیا جائے گا، یہاں کی حکومت خلافت راشدہ کا نمونہ ہوگی، مسلمانوں کی انفرادی واجتماعی زندگی اسلام کی جیتی جاگتی تصویر ہوگی یہ ملک عالم ِاسلام کے لیے ایک مثالی نمونہ ہوگا اور اسلامی فلاحی مملکت قائم کر کے پوری دنیا پر واضح کیا جائے گا کہ اگر راحت و سکون کی زندگی مطلوب ہے تو خداتعالیٰ کے آخری پیغام کو اپناؤ، جو حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے، وغیرہ وغیرہ ،مگر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔ ”عیاں راچہ بیان ۔“

بد قسمتی سے آزادی کے بعد پے درپے ایسے حکم ران آئے جنہوں نے ملت اسلامیہ کے احتجاجی ضمیر میں جھانکنے کی کبھی زحمت گوارا نہیں کی ، نئے اسلامی ملک اور نئی قوم کے تقاضے کیا ہیں ؟ ملت ِاسلامی کی تشکیل کن عناصرسے ہوتی ہے ؟ اس کے حقیقی خد و خال کیا ہوتے ہیں ؟ جس قوم نے خدا ور رسول کے نام پر انہیں اسلامی ملک کی مسند اقتدار پر فائز کیا ہے ،وہ ان سے کیا کیا توقعات رکھتی ہے ؟ ان سوالات پر غور انہوں نے کبھی کیا ہی نہیں یا شاید وہ اس کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے تھے ، ان کے سامنے دورِ غلامی کا پامال راستہ تھا، جس پر وہ رواں دواں تھے ، وہی آئین و قانون ، وہی حکم رانی کے اصول اور پیمانے ، وہی جبرو استبداد اور مطلق العنانی ، وہی افسر شاہی کی نازک مزاجی، جو لوگ انگریز دشمنی کی بنا پر دور غلامی میں خطرناک سمجھے گئے، وہ اپنے اخلاص و للہیت، قومی خدمات اور حب الوطنی کے باد جود ان نئے حکم رانوں کی لغت میں بھی خطرناک اور معتوب ہی رہے اور ان پر سی آئی ڈی کا پہرہ بدستور رہا اور جن لوگوں کی تخم ریزی اور نشوو نما انگریز نے اپنے مخصوص مصالح کے لیے کی تھی وہ اسلامی ملک میں بھی برسر اقتدار معزز اور معتمد علیہ رہے ۔

اگر ان حکم رانوں میں معمولی سی دینی حس یا کم از کم صحیح سیاسی بصیرت ہی موجود ہوتی تو دور غلامی کے نوکر شاہی ذہن کو بدل کر نئے ملک کے لیے نئے تقاضوں کو سمجھتے ، امت مسلمہ کی نفسیات کا مطالعہ کرتے اورمسلمانوں کے وہ متفقہ اجتماعی و ملی مسائل، جنہیں شدید مطالبوں کے باوجود انگریز کی حکومت نے لائق توجہ نہیں سمجھا تھا، بغیر کسی تقاضے کے خود آگے بڑھ کر انہیں حل کرتے، اگر انہوں نے اس فہم و تدبر اور مسلمانوں سے ہم دردی و بہی خواہی کا مظاہرہ کیا ہوتا تو بے چینی کی فضا ختم ہو جاتی، ملت کا شیرازہ مستحکم ہو جاتا اور دنیا کی نیک نامی کے ساتھ آخرت کی سعادت بھی ان کے حصہ میں آتی ۔

مگر یہاں ہوا یہ کہ جب بھی مسلمانوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا تو دفع الوقتی سے کام لیا گیا اور شدت سے مطالبہ ہوا تو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا گیا، معاملہ بے قابو نظر آیا تو گولہ بارود سے ”جلیا نوالہ باغ“ کی یاد تازہ کر ڈالی اور اپنی ہی قوم کو اقتدار کی طاقت سے کچل ڈالا گیا، نتیجہ یہ کہ حکم ران خود تو بصد ذلت و رسوائی کیفر کردار کو پہنچے ہی، مگر ان کی غلط اندیشی اور کم ظرفی نے ملک کو تباہ کر ڈالا، اس طرح نہ صرف یہ کہ پاکستان کا مقصد وجود ظہور پذیر نہ ہوسکا، بلکہ ہم الٹی سمت سفر کرتے کرتے کہیں سے کہیں جا نکلے ، چناں چہ ایک مدت سے ہم شک و تذبذب ، افراتفری و بد امنی اور بے یقینی وبے چینی کے لق ودق بیانوں میں بھٹک رہے ہیں ، آج ہمارے سامنے مسائل کا جنگل ہے، مگر ہم میں سے ہر شخص جس کے منھ میں زبان اور ہاتھ میں قلم ہے وہ اپنے سوا ہرشخص کو وطن دشمن اور غدار کا خطاب دے کہ یہ فرض کر لیتا ہے کہ مسائل کا یہ جنگل اس خطاب غداری کی چنگاری سے خود بخود بھسم ہو جائے گا، ملک دونیم ہو چکا ہے اور بقیة السلف پر بیرونی سازشوں کے کرگس منڈلا رہے ہیں، مگر ہمارے ز عما باہم دست وگر بیان ہیں ، سوچنا چاہیے کہ ان حالات میں اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ إناللہ وإنا إلیہ راجعون․

عقیدہ ختم نبوت کو تسلیم کیے بغیر پاکستان قائم نہیں رہ سکتا

کسی عمارت کی بنیا دیں کھود کر انہیں اپنی جگہ سے ہٹا دینا اور پھر یہ توقع رکھنا کہ عمارت جوں کی توں قائم رہے گی ایک مجنونانہ حرکت ہے، ملت اسلامیہ کا شیرازہ حضرت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی سے قائم ہے اور یہی وجود پاکستان کا سنگ بنیاد ہے، جو شخص اس سے انحراف کرتا یا اسے منہدم کرتا ہے وہ اسلام ، ملت اسلامیہ اور پاکستان تینوں سے غداری کا مرتکب ہے، ایک ایسے شخص سے جو ملک و ملت کی جڑوں پر تیشہ چلا رہا ہو ، کسی مفید تعمیری خدمت کی توقع رکھنا خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے، جو شخص رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا وفادار نہ ہو وہ ملک وملت کا وفا دارکیوں کر ہو سکتا ہے؟! تاریخ شاہد ہے کہ ملت اسلامیہ کا اجتماعی ضمیر کبھی برداشت نہیں کر سکا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے کسی اور شخص کو محمدرسول اللہ اور ”رحمة للعالمین“ کی حیثیت سے کھڑا کیا جائے اور اس کے لیے وہ تمام حقوق و مناصب اور آداب و القاب تجویز کیے جائیں جو مسلمانوں کے مرکز عقیدت (صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساتھ مختص ہیں، بایں ہمہ یہ اصرار بھی کیا جائے کہ وہ مسلمان ہے، ملک وملت کا وفا دار ہے اور مسلمانوں کو اس پر اعتماد کرنا چاہیے!!

ایک ناگہانی حادثہ اور اس کے اثرات

29/مئی کا سانحہ قوم کے لیے ایک ناگہانی حادثہ تھا، جس نے قوم کو طویل خواب غفلت سے اچانک جگا دیا ، جذبات کے سوتے ابل پڑے اور ملک بھر میں اس کا شدید رد عمل رونما ہوا، قومی جذبات کو نظم و ضبط کا پابند رکھنے اور انہیں اجتماعیت کے دائرے میں لانے کے لیے ایک ایسی ”مجلس عمل“ کی تشکیل ناگزیر ہوئی جو ملک بھر کی دینی و سیاسی جماعتوں کی نمائندہ ہو، یہ بات بڑی خوش آئند اور لائق تحسین ہے کہ موجودہ عوامی حکومت نے بھی قوم کے ملی جذبات کا احترام کرتے ہوئے ان کے مطالبہ پر ہم دردانہ غور کا وعدہ کیا ہے اور اس کے لیے قومی اسمبلی کی ایک خصوصی کمیٹی تجویز کر دی گئی ، توقع ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک کمیٹی کے غور وفکر کا کوئی واضح نتیجہ سامنے آچکا ہوگا، کمیٹی کی کارروائی کے پیش نظر ملک میں قادیانی مسئلہ کے بارے میں اظہار خیال پر پابندی عائد ہے، اس لیے ہم بھی اس مسئلہ کے اعتقادی ، مذہبی، سماجی و معاشرتی اور سیاسی و اقتصادی پہلوؤں سے تعرض نہیں کرتے، البتہ تمام اہل وطن سے اپیل کرتے ہیں کہ یہ بہت نازک وقت ہے، پوری قوم کے امتحان کا موقعہ ہے، تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ نظم و ضبط کو برقرار رکھیں اور ملک میں امن و امان کا مسئلہ ہر گز پیدا نہ ہونے دیں، بلکہ جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے ،اپنی آواز متعلقہ افراد تک مسلسل پہنچاتے رہیں ، تا آنکہ مسئلہ کے اطمینان بخش حل کی صورت نکل آئے۔

ملک و ملت کے بدخواہ اس موقعہ پر نہ صرف خفیہ ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں، بلکہ اس کوشش میں بھی ہیں کہ اشتعال انگیزی کے ذریعے حالات مخدوش کر دیے جائیں، مختلف ذرائع سے مطبوعہ لٹریچر مسلمانوں کے گھروں میں پہنچایا جارہا ہے، گذشتہ دنوں لاکھوں روپے کے بڑے بڑے اشتہار قریبا تمام اخبارات میں مسلسل کئی دن تک شائع ہوتے رہے جن کا مقصد اشتعال دلانے کے سوا کچھ نہیں تھا، ہمیں معلوم ہے کہ یہ کس دماغ کی اختراع تھے، ان کے لیے سرمایہ کس نے مہیا کیا اور جس انجمن کا فرضی نام غلط طور پر استعمال کیا گیا ہم اس کے ارکان سے بھی متعارف ہیں، بہر حال ہماری اپیل یہی ہے کہ مسلمانوں کو پر امن رہنا چاہیے ۔

غیر مسلموں سے مقاطعہ (سوشل بائیکاٹ)

ان دنوں یہ شرعی مسئلہ خاص طور سے زیر بحث ہے اور اس سلسلہ میں بار بار سوال کیا جاتا ہے کہ کیا کسی غیر مسلم سے مقاطعہ جائز ہے ؟ یہاں اس پر مفصل بحث کی گنجائش نہیں، مختصر یہ کہ کسی کافر سے موالات اور دوستی کا برتاؤ تو کسی حال میں بھی جائز نہیں ، نہ انہیں ملی مشوروں میں شریک کیا جا سکتا ہے، نہ ملک کی پالیسیوں میں انہیں دخیل بنایا جا سکتا ہے، نہ کسی کافر کو کسی کلیدی اسامی پرفائز کیا جا سکتا ہے ، رہالین دین اور میل جول کا سوال ؟ تو کافراگر حربی یا باغی ہو، مسلمانوں کے مقابلے میں برسر پیکار ہو اور اس سے لین دین کا معاملہ مسلمانوں کے حق میں مضر ہو تو اس سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر لینا نہ صرف جائز، بلکہ و اجب ہے، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قریش کی ناکہ بندی کرنا سیرت نبوی کا معروف واقعہ ہے ، اسی طرح حضرت ثمامہ بن اثال کا واقعہ بھی مشہور ہے کہ انہوں نے کافروں کی رسد روک کر ان کا ناطقہ بند کر دیا تھا اور جب تک کافروں نے بارگاہ اقدس میں حاضر ہو کر معذرت اور منت و سماجت نہیں کی ان کی رسد بحال نہیں ہوئی ، قرآن کریم میں اجمالاً اور بخاری شریف میں تفصیلاً حضرت کعب بن مالک اور ان کے رفقاء کے مقاطعہ کا عبرت آموز قصہ بھی موجود ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ سنگین موقعہ پر تادیب اور سرزنش کے لیے بعض اوقات ایک مسلمان سے بھی مقاطعہ صحیح ہے، یہ تو کفار ہیں اور بعض اوقات مسلمانوں سے مقاطعہ کا مسئلہ تھا اور جو شخص دین اسلام سے۔ العیاذ باللہ۔ منحرف ہو کر مرتد ہو گیا ہو اس کے ساتھ تو کسی نوع کا بھی تعلق قطعاً جائز نہیں ، یوں بھی اسلامی غیرت اس کو برداشت نہیں کرتی کہ باغیانِ اسلام کے ساتھ کسی قسم کا ربط رکھا جائے، ایسے موقعوں پر عموما انسانی ہم دردی اور اسلامی رواداری کی اپیل کی جاتی ہے، مگر کون نہیں جانتا کہ انسانی ہم دردی اور رواداری کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں ، بعض اوقات جرم کی نوعیت ہی کچھ اتنی سنگین ہوتی ہے کہ انسانی ہم دردی اور رواداری کے سب پیمانے ٹوٹ جاتے ہیں اور رحم کی اپیل مسترد کر دی جاتی ہے ، یہ ہمارے سامنے روزمرہ کے واقعات ہیں، ار تدا د اسلام کی نظر میں بد ترین جرم ہے ، کیوں کہ وہ” بغاوت“ کا دوسرا نام ہے ، اس لیے مرتد کے معاملہ میں انسانی ہم دردی اور رحم کی کوئی اپیل اسلام کی عدالت میں لائق التفات نہیں، تا وقتیکہمجرم اپنے جرم بغاوت سے باز نہ آجائے ، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عکل اور عرینہ کے چند افراد نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا ، مرتد ہو کر انہوں نے صدقات کے اونٹوں پر قبضہ کر لیا اور راعی کو قتل کر ڈالا تھا، پکڑے گئے ، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص میں ان کے ہاتھ پاؤں کٹوا کر انہیں چلچلاتی دھوپ میں ڈلوایا، وہ پیاس کی شکایت کرتے تو پانی تک نہ دیا جاتا، بالآخر اسی طرح تڑپ تڑپ کر اپنے انجام کو پہنچے ۔ سوال ہو گا کہ ان کے معصوم بچوں کا کیا قصور ہے ؟مگر اس کا جواب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے ہیں، چناں چہ عرض کیا گیا کہ کافروں کی بستی پر رات کی تاریکی میں حملہ کیا جائے تو ان کے بچے بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ فرمایا:” ہم من آبائہم“ وہ بھی تو کافروں کے ہی بچے ہیں، یعنی جو حکم کافروں کا ہے وہی کافروں کے بچوں کا۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

بعض لوگوں کی جانب سے یہ غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے کہ ”مجلس عمل“ میں چوں کہ دینی وسیا سی جماعتیں شریک ہیں لہٰذا یہ سیاست بازی ہے ، حالاں کہ ملک بھر کی جماعتوں کا کسی ایمانی مسئلہ پر متفق ہو جانا صرف ایمانی تقاضا ہے، اسے سیاست سے کیا تعلق ؟ بلاشبہ یہ تمام امت مسلمہ کا مشترک سرما یہ ہے، جس میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی تفریق ہی غلط ہے، خود وزیر اعظم بر ملا اعلان کر چکے ہیں کہ وہ منکرین ختم نبوت کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں، اس لیے یہ ذمہ داری تو سب سے بڑھ کر با اقتدار جماعت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلام کے ایک قطعی اور بنیادی مسئلہ میں مسلمانوں کو مطمئن کرے۔ اندریں صورت اس مسئلہ کے تقدس کو سیاسی الزام سے مجروح کرنا نہایت افسوس ناک بے انصافی ہے۔

اسلامی دنیا سے متعلق