
ساری دنیا کی حکومت سے بڑی نعمت
اللہ رب العزت کا بہت بڑا کرم ہے کہ اس نے اپنے فضل وکرم سے بغیر استحقاق کے ہم کو اپنے دین کی محنت میں لگنے کی توفیق عطا فرمائی اور باوجود اس کے کہ ہم نے ایک محنت کو سنا اور جانا پہچانا۔ لیکن جو اس کی بڑائی تھی، اس کا کبھی خیال نہیں کیا اور جو کرنا چاہیے تھا وہ نہیں کیا اور اس نعمت کی قدر نہیں کی، جیسی کرنی چاہیے تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کو گستاخی قرار دے کر ہم کو دھکے دے کر نکال نہیں دیا، بلکہ اس میں لگائے رکھا۔ ہم سے لگاتار اس میں کوتاہیاں ہوتی رہیں۔ نیت کے اعتبار سے بھی اور عمل کے اعتبار سے بھی۔ اصول کے اعتبار سے بھی اور جذبات کے اعتبار سے بھی۔ لیکن باوجود اس کے وہ ہم کو بڑھاتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ کام شہروں سے ملکوں میں جا پہنچا۔ اگرچہ کام بڑھ رہا ہے، لیکن اب تک ہم اس کو صحیح طریقہ پر اور اس طریقہ پر جیسے اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کرنے کے لائق نہیں بنے۔ ایک کام جس طرح ہونا چاہیے نہیں ہو رہا۔ لیکن پھر بھی وہ چلا رہے ہیں۔ اور اس کو بڑھا رہے ہیں۔ یہ اس کا بہت بڑا کرم ہے، یہاں تک کہ آج ہمیں اللہ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے دیار (مدینہ منورہ) سے اپنے راستے میں نکلنے کی توفیق عطا فرمائی۔ دوستو! سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کے لیے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد سے روانہ ہوا جائے۔ اگر آج ہمیں ساری دنیا کی حکومت دے دی جاتی تو وہ کوئی بڑی بات نہیں ہوتی، لیکن یہ اس کا بہت بڑا کرم ہے۔ بہت بڑے فخر کی بات ہے کہ جہاں سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم جس کام کے لیے جایا کرتے تھے آج اسی جگہ سے، اس عالی مقصد کے لیے، ان کی مشابہت میں ہم روانہ ہو رہے ہیں۔
انسان کے عمل کے ثمرات نیت کے اعتبار سے مرتب ہوتے ہیں
انسان جو عمل کرتا ہے اس کے ثمرات نیت کے اعتبار سے مرتب ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہ کام کرنے والا سب سے پہلے اپنی نیت کو درست کر کے قدم اٹھائے۔ دنیا کی عزت، سربلندی اور کام یابی حاصل کرنے کی نیت کوئی بلند نیت نہیں ہے۔ بلکہ بڑی اور صحیح نیت یہ ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم والی محنت کو کرتے کرتے اس کو اس سطح پر پہنچا دیں جس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت تھی۔ ایک منی کے قطرہ سے انسان بنتا ہے۔ وہ انسان نبی بھی بنتا ہے، ولی بھی بنتا ہے، صدیق بھی، شہید بھی، یہ سب اللہ ہی بناتے ہیں۔ خود کوئی کچھ نہیں بن سکتا۔ ہم جو کام کرتے ہیں اس کو کام نہ قرار دیا جائے، بلکہ اس کو منی کے قطرے کی طرح گندہ سمجھ کر اس کو اس لیے اختیار کیا جائے اور مانگا جائے کہ اس کو بڑھاتے بڑھاتے اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کردیں۔ بس ہم اسی محنت پر مر جائیں۔ یہ سب سے بڑی کام یابی ہے۔ ہم ہر کام میں ہر چیز میں ان کی مشابہت کی کوشش کریں۔ جب پیشاب پاخانہ میں مشابہت مطلوب ہے تو اس سب سے اونچے کام میں کس قدر زیادہ مطلوب ہوگی۔ دین کی محنت میں سب سے زیادہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت ظاہری اور باطنی ہونی چاہیے۔ یہ ہمارا انتہائی عروج ہے کہ ہماری محنت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ قرار دے دی جائے۔ قدم اٹھاتے وقت یہ یقین کریں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں میری حیثیت ایک ضد کی نسبت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے کام نہ ہم اس یقین پر کر رہے ہیں جیسے ہمیں کچھ گھر چھوڑنا آتا ہے تو اس گھر چھوڑنے کے اعتبار سے کچھ مشابہت ضرور آگئی، لیکن اجزا کے اعتبار سے مشابہت بالکل نہیں آئی۔ بلکہ اس کے خلاف ہے، محنت کرتے کرتے اصلی مشابہت پر پہنچنا ہے۔ اگر ہم نے یہ سمجھا کہ ہم کام کرنے والے ہو گئے تو ہم گر گئے۔ اور ہم اگر یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کام کرنے والا بنا دیں تو ترقی ہوگی۔
کام بگاڑنے والا ہی صحیح کام کرنے والا بنتا ہے۔ بشرطیکہ وہ طلب پیدا کرے اور مسلسل محنت کرتا رہے۔ اگر ہمارے دل کی تہہ تک میں یہ بات آجائے تو ہم کو محنت آ جائے گی اور جہاں تک ہم پہنچ سکیں گے اس کے آگے اللہ ہم کو نیت کے اعتبار سے ثواب عطا فرما ئیں گے۔
نیة المسلم خیر من علمہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تمام عالم کی نیت لیے ہوئے تھے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت عالم دنیا سے نکل کر عالم آخرت تک پہنچی ہوئی تھی۔ یعنی روز محشر گنہگاروں کی شفاعت کراکے ان کو جنت میں داخل کرانا۔
ایک تو ہم یہ نیت کر لیں کہ ہم اپنا سب کچھ لگا کر ساری دنیا میں محنت کرنے والے بنیں۔ دوسری یہ نیت کریں کہ ہم اس لیے نکلتے ہیں کہ محنت کرتے کرتے ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے مشابہ ہو جائیں۔
عالم پر تمہاری محنت کے بقدر اثرات نہیں پڑیں گے۔ بلکہ نیت کے مطابق اثرات پڑیں گے۔ جہاں جہاں تمہاری محنت کی نیت ہے۔ اللہ ان سب جگہ اثرات ڈالیں گے اور ہدایت دیں گے۔ ابراہیم علیہ السلام نے ایک آواز لگائی۔ ایک مقام اور ایک وقت پر، لیکن آج تک اس کے ثمرات سارے عالم پر مرتب ہور ہے ہیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت کے نقشے کو سامنے رکھو اور یہ شوق وولولہ دل میں رکھو کہ وہ محنت حاصل ہو جائے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت تھی اور اس کی کوشش بھی کرو اور دعا بھی کرو۔
نیت کے ساتھ دعا بھی ملالی جائے
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت سراسر مشقت اور تکلیف اور ہماری محنت برابر آرام۔ تو ہم کیسے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشے پر پہنچ سکتے ہیں؟! لہٰذا نیت کے ساتھ ساتھ دعا کو ملا لیا جائے۔ اور ہم اللہ سے بہت دعائیں مانگیں کہ اللہ ہم کو محنت کے ان نقشوں پر پہنچا دیں۔ جن نقشوں پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔ ہم اپنے آپ کو اس طریقے پر لگا دیں جس طریقے پر دعا قبول ہوا کرتی ہے، اب اس محنت کو اپنی بساط کے مطابق انتہائی کوشش کے ساتھ کرنا چاہیے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت کے بہت سے باب ہیں۔ ان میں سے ایک باب وہ ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر کی زندگی میں کیا کرتے تھے۔ اس کی مشق شروع کر دی جائے۔ نکلتے ہی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نکلنے کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اگر ہم کو باہر نکلنے کے زمانے میں ان کی محنت کا نقشہ آگیا تو واپس آ کر ہم کو محنت کا وہ نقشہ قائم کرنا آسان ہوگا اور باہر نکلنے کے دوران ہی یہ نیت کرنی چاہیے کہ گھر جا کر اس نقشے کو اختیار کریں گے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نقشہ تھا۔
نیت میں یہ ہو کہ سفر وحضر میں ہم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر محنت کرنی ہے۔ اگر نکلنے کے زمانے میں مشابہت جان دار ہوگی تو اپنے مقام پر بھی مشابہت کرنا اور اس کو اختیار کرنا آسان ہوگا۔ اس سے استعداد پیدا ہوگی محنت میں مشابہت کی ۔
ہمارے پسماندگان اس وقت بہت آرام سے ہیں، بہ نسبت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بچوں کے جب وہ گھر سے نکلتے تھے اور ہم اپنے کو ان تکالیف میں نہیں ڈال رہے، جن میں وہ ڈال رہے تھے۔ ان کے گھروں میں تو ان کے نکلنے کے دوران فاقے ہوتے تھے۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت کے نقشے کے اعتبار سے ہر ایک کوتاہ ہے۔ ظاہری شکل وصورت کے اعتبار سے کوتاہ اور ناقص ہے تو باطنی احسان یعنی نیت اور اخلاص کا کیا ذکر؟ کیوں کہ یہ تو اندرونی چیزیں ہیں۔ ہماری نیت نیت نہیں، بلکہ تصورِ نیت ہے۔ نیت بہت دیر سے آتی ہے۔ بار بار نیت کرتے رہیں، تاکہ ہمیں اصلی نیت کرنی آجائے۔
مدینہ منورہ میں بسنے والے تین قسم کے لوگ تھے
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت کیا ہے؟ مدینہ منورہ میں بسنے والے تین قسم کے تھے۔ ایک یہود تھے، جو کھلم کھلا دشمن تھے۔ دوسرے منافقین جو یہود کی طرح حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کی ہر وقت اسکیمیں بناتے رہتے تھے۔ تیسرے پکے مومن۔ منافقین ہمیشہ تکلیف دینے کی غرض سے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ جن سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تکلیفیں اٹھانا پڑتی تھیں۔ یہود کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی جواب دیا تھا۔ ایک دفعہ ایک وفد آیا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مددکرنا چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم مومن ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم مشرکین کی استعانت نہیں لیتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک غلام جو نصرانی تھا آپ رضی اللہ عنہ اس کو فرمایا کرتے تھے کہ اسلام قبول کر لے، تا کہ تجھے مسلمانوں کے کام کے لیے استعمال کیا کروں۔ اب دو قسمیں رہ گئیں۔ ایک مسلمان، ایک منافق۔ منافقین سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ بہت تکلیفیں اٹھا نا پڑی ہیں۔ ایک قافلہ اترا۔ یہ غزوہٴ مُرَیسیع کا واقعہ ہے۔ دو آدمی پانی کے لیے چلے۔ ایک انصاری رضی اللہ عنہ اور ایک مہاجر رضی اللہ عنہ۔ ان میں اختلاف ہوگیا۔ مہاجر نے انصاری کو تھپڑ مارا تو دونوں نے اپنے اپنے قبیلے کو بلا لیا، لیکن سمجھ دار لوگوں نے اس کو ختم کر دیا۔ جب یہ خبر عبد اللہ بن ابی کے خیمہ میں پہنچی تو اس نے کہا کہ ہم نے تو کہا ہی تھا کہ ان کو جگہ مت دو، تم نے ان کتوں کو کھلا کھلا کر موٹا کر دیا۔ (نعوذ باللہ من ذالک)
تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کتے کو موٹا کر دیا۔ اب یہ تم پر ہی بھونک رہے ہیں۔ مدینہ منورہ پہنچ کر ان ذلیلوں کو نکال دو۔ حضرت زید بن ارقم نے یہ خبر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائی اور اس کا عبداللہ بن ابی کو پتہ چل گیا۔ وہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، بہت وجیہ تھا اور آکر قسم کھا کر کہا کہ میں نے ایسا نہیں کہا تھا۔ بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی کہا کہ لڑکے کو سمجھنے میں غلطی ہو سکتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا کوچ کا حکم دے دیا۔ ایک صحابی نے کہا کہ حضور! آج آپ نے اس قدر جلدی کیوں حکم دے دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے سنانہیں کہ اس نے کیا کہا۔ انہوں نے کہا کہ حضور! اب اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ جو چاہے بکتا پھرے۔
سارا دن چلایا، یہاں تک کہ مدینہ منورہ تک کا سفر تین دن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طے کیا۔ یہاں تک کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم اترے تو اترا نہیں گیا۔ بلکہ گر گئے اور گرتے ہی گرم ریت پر سو گئے۔ سقطوا فناموا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چلو، حتیٰ کہ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واسطے چلایا کہ تھکن کی وجہ سے کوئی بات ایسی نہ کرے۔ جب مدینہ منورہ پہنچے تو عبداللہ بن ابی کا لڑکا تلوار سونت کر کھڑا ہو گیا کہ تو ذلیل ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عزت والے ہیں۔ اور تجھے مدینہ منورہ میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ عبداللہ بن ابی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میرے لڑکے سے کہہ دیجیے کہ مجھے مدینہ میں جانے دیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اجازت دلوا دی۔ یہ کتنی ذلت ہے کہ اپنے بیٹے سے اجازت لینے کے لیے اس ذات کی سفارش کرانی پڑی، جس کو ذلیل کہتا تھا۔ وہ مسجد نبوی میں خطبہ دیا کرتا تھا۔ اب یہ خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہوا تو سب نے اسے پکڑ کر کھینچ لیا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اگر پہلے میں اس کو قتل کرنے کے لیے کہتا تو فتنہ کھڑا ہوتا۔ لیکن اس کا آج کوئی بھی ساتھی نہیں ہے، آج چاہو تو قتل کر سکتے ہو۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قربانیاں
سب چیزوں کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم خوب برداشت کرتے رہے۔ اب ایک قسم مومن یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رہ گئے۔ ان کو ساتھ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک محنت اٹھائی۔ ان کی اس طرح تربیت فرمائی کہ جس وقت آواز لگائی جائے یہ جواب نہ آئے کہ میں نہیں جا سکتا۔ خواہ لاکھوں کا نقصان ہو جائے۔
کوئی عذر سامنے آئے۔ جان اور مال اللہ کے راستے میں خرچ ہونے میں کوئی چیز مانع نہ آئے، ایک ادا یہ تھی۔ اور اگر یہ بات آجائے کہ اللہ کا یہ حکم تھا اور ہو نہ سکا تو گھبراہٹ آ جائے۔ خندق کی جگہ سے واپسی پر ہتھیار اتار دیے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور کہا کہ ہم فرشتوں نے تو ابھی ہتھیار اتارے نہیں۔ آپ نے کیوں اتار دیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا گئے۔ اور فرمایا کیا بات ہے؟ فرمایا کہ بنو قریظہ کا معاملہ باقی رہ گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ فوراً سب جاوٴ۔ اور عصر کی نماز جا کر بنو قریظہ میں پڑھو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم دوڑے، حتیٰ کہ آفتاب غروب ہونے لگا۔ اب دو فرقے ہوگئے۔ ایک فرقہ نے نماز بنو قریظہ میں پڑھی۔ دوسرے فریق نے آخر وقت میں راستہ میں پڑھی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ باہر سے پہنچیں۔ ہم اندر سے پہنچتے ہیں۔ اور ہم ان کو آپ کے پہنچنے سے پہلے مرعوب کر دیں گے۔ ان کے جانے نے ان کو مرعوب کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں پہنچ گئے اور بہت جلال کا اظہار کیا کہ کبھی ایسا نہیں کیا تھا اور فرمایا کہ اے بندرو! سوٴرو! اور بہت ذلیل کرنے والے الفاظ سے پکارا، جس سے وہ بہت مرعوب ہو گئے، انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے آپ سے ایسے الفاظ کبھی نہیں سنے تھے، ہم ابولبابہ رضی اللہ عنہ سے پوچھ لیں، کیوں کہ یہ سب اپنے تھے، وہ رونے لگے۔ ابولبابہ رضی اللہ عنہ بھی رونے لگے۔ جب انہوں نے پوچھا کہ کیا ہو گیا اور آگے کیا ہوگا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اشارہ سے کہا کہ گلے کٹیں گے، پھر ان کو بڑی حسرت وندامت ہوئی کہ میں نے ایک راز فاش کر دیا تو اس پر آکر مسجد نبوی کے ستون سے اپنے کو باندھ لیا، ان کی بیوی آتیں، نماز کے اوقات میں ان کو کھول دیتیں اور پھر دوبارہ باندھ دیتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ میرے پاس آجاتے تو میں ان کی مغفرت کرا دیتا۔ اب جو شکل انہوں نے اپنے لیے خود تجویز کی ہے جب تک اس شکل پر معافی نہیں آئے گی تو میں ان کے لیے معافی نہیں مانگوں گا اور کھولوں گا بھی نہیں۔ غرض بہت دنوں بعد ان کی معافی تو بہ قبول ہوئی۔
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا بنو قریظہ کے بارے میں فیصلہ
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ خندق میں زخمی ہو گئے، ان کے گلے میں تیر لگا اور خون بہنے لگا۔ انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر قریش کا حملہ باقی ہے تو مجھے حملے تک زندہ رکھ کہ میں غداروں کا فیصلہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں۔ ان کا خون بہنا بند ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا خیمہ مسجد کے صحن میں لگوا دیا اور فرمایا کہ جو تم ان کا فیصلہ کرو گے وہ ہمیں منظور ہے۔ اس کے بعد حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ گئے اور بنو قریظہ سے پوچھا کہ تم کو میرا فیصلہ منظور ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! منظور ہے۔ اس کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منھ کر کے پوچھا کہ آپ کو میرا فیصلہ منظور ہے؟ راستے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سے کہتے جاتے تھے کہ یہ سب اپنے ہی ہیں، اگر ایک غلطی ہوگئی تو کیا ہے؟ وہ سنتے جاتے تھے قول وقرار کے بعد آپ نے فیصلہ دیا کہ میری قوم کے سب بالغ قتل کیے جائیں اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا جائے اور مہاجرین میں تقسیم کیا جائے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے وہ فیصلہ کیا جو ساتوں آسمانوں میں ہو چکا تھا۔ رات کو جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور پوچھا کہ آج کس کا انتقال ہوگیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً گھبرا کر سعد رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ ان کے گلے کا خون جاری ہو چکا تھا اور آخری سانس باقی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر کو اپنی رانوں کے اوپر رکھ لیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چاہ رہے تھے کہ سعد رضی اللہ عنہ کا خون حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ آئے، بلکہ ان حضرات پر گرے اور اس لیے ان کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے لینا چاہتے تھے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اوپر ہی ان کا خون لے رہے تھے۔ پھر جب انتقال ہو گیا تو فرمایا کہ جلدی سے ان کو غسل دو، کیوں کہ فرشتے بڑی تعداد میں آئے ہیں۔ کہیں ہمارے ہاتھ سے حنظلہ کی طرح یہ بھی نہ چلے جائیں، فرشتوں کی کثرت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پنجوں کے بل چل رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ کوئی جگہ فرشتوں سے خالی نہیں ہے۔ ایک طرف جان خرچ کرنے والا بنایا، حکم پورا کرنے سے پہلے نہ اٹھنا اور جو اپنے اوپر گزرے اس کی پروا نہ کرنا، اس جان پر خواہ کچھ ہی گزرے، فوراً حکم پورا کرنے کے لیے اٹھنا اور جب تک حکم پورا نہ ہو نہ ہٹنا اور مالیات کے اعتبار سے ایسا بن جانا کہ گھر والوں کی رعایت سے پیسے خرچ نہ کرنا، بلکہ نقل وحرکت کی رعایت سے خرچ کرنا، خواہ گھر والوں پر کچھ ہی گزرے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کا واقعہ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ان نئے مسلمانوں کو اتنی اتنی کھجوریں ہدیے میں دے دو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ خدا کی قسم! ہمارے گھر والوں کے پاس صرف اتنی کھجوریں ہیں جو صرف چھ ماہ چل سکتی ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا کہ اے عمر رضی اللہ عنہ! حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر ایسا کہتے ہو اور تاویلیں کرتے ہو، ان کو تنبیہ ہوئی اور فرمایا ضرور دوں گا، وہ ان مسلمانوں کو اپنے ہم راہ لے گئے اور فرمایا کہ ہر شخص اپنی ضرورت کے مطابق لے لے۔ وہ کہتے ہیں کہ کھجوریں صرف ایک آدمی کی ضرورت کی تھیں، لیکن اللہ نے برکت دی اور سب نے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق لے لیں اور پھر بھی وہ بچی رہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں، کھجوریں سب کے لینے سے پہلے زیادہ تھیں یا بعد میں زیادہ بچیں۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کو کوئی قرض دینا چاہتا ہے تو حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ! اللہ بھی قرض لینا چاہتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، تو حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے اپنا انگوٹھا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر رکھ کر کہا کہ یہ لیجیے میرا باغ، اس کے بعد وہاں سے چلے اور باغ کے باہر ہی سے پکارنے لگے کہ اے ام درداء رضی اللہ عنہ یہ باغ اللہ کو قرض دے چکا ہوں، اب میرا نہیں رہا، لہٰذا تم باہر نکل آؤ۔
مختلف اوقات میں مختلف تقاضے ہوں گے، اگر اس میں نہیں جائیں گے تو کام نہیں ہوگا، آپ کو ہی جانا ہے اور اپنے پیسوں سے جانا ہے۔ خواہ مکان ہی کیوں نہ بیچنا پڑے، جان اور مال کو ہر وقت حکم کی تعمیل میں خرچ کرنا اور حکم کو اپنی حد تک پہنچانا۔ دعا کرو کہ اے اللہ! اس طرح محنت کرنے والا بنا دے، ہم ابھی دور بہت ہیں، جانا ہے، خواہ مکان، جائیداد، کپڑے کیوں نہ بیچنا پڑیں، یہ جذبہ پیدا کر دے، بیوی بچوں پر کتنی ہی تنگی آجائے۔ بہرحال مجھے جانا ہے، اس سطح سے ابھی ہمارا کام بہت دور ہے۔ نیت کرو کہ اللہ ہمیں اس طرح کام کرنے والا بنا دے، جب اس نیت سے کام ہوگا تو اپنی معاشرت کو بدلنا پڑے گا، موٹے تھوڑے کھانے پر قناعت کرو، سادے کپڑے اور طریقوں پر قناعت، دین پر پیسہ لگے حوصلے کے ساتھ اور جان لگے ہر وقت، لیکن اپنے متعلقین پر مال بہت کم لگے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعض سفر ایسے ہوئے ہیں کہ چمڑا جلا کر اس کی راکھ پھانکی، کئی سفروں میں ٹڈیاں کھائیں، کئی میں پتے کھائے، کئی سفروں میں کچھ کھانے کو نہیں ملا، گئے اور بغیر کھائے آگئے، لیکن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے قوت میں کمی نہیں آئی۔
کام کرنے والے اگر فاقے اٹھائیں گے تو یہ دلوں کو ہلا دینے والی چیز ہوگی
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی بیوی کو فاقہ ہونا، یہودی کے گھر گوشت پکنے کی خوش بو پر کئی مرتبہ آگ لینے کو جانا، لیکن گوشت نہ ملنا، ان کا رونا پھر یہودی کا ان کے گھر گوشت بھجوانا، ان کے شوہر وہ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام کے لیے تلوار سونتی۔
کام کرنے والے اگر فاقے اٹھائیں گے تو یہ دلوں کو ہلا دینے والی چیز ہوگی، صحابہ باہر جاتے رہے اور باہر والے یہاں آتے رہے، باہر جانے والے جاتے رہے، تکلیفیں اٹھاتے رہے، اب مدینہ منورہ میں رہنے والے جو باہر گئے تو باہر والے مدینہ میں آگئے، ان کی خدمت ان کے ذمہ رہی جو مدینہ منورہ میں رہنے والے تھے۔ مدینہ کے اندر تقسیم کاری تھی۔ آنے والوں کو لے کر بیٹھنا، تعلیمیں کرنا، مختلف قسم کے کام کرنا، چارسو کا قبیلہ آیا، اس کو ایک قوم لے گئی اور لے جا کر دین سکھایا، ایک ہفتے کے بعد وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا امتحان لیا اور فرمایا کہ ان میں دین کی کچھ کچھ سمجھ پیدا ہوگئی ہے۔ پھر دوسرا محلہ لے گیا، دین سکھایا اور پندرہ دن میں وہ دین کے پکے بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ میرے صحابہ کو کیسے پایا؟ کہا اپنے بستروں کو ہمارے نیچے بچھا دیا، اپنے کھانے ہم کو کھلا دیے اور دن میں ہمیں خوب دین سکھایا۔ تبوک سے یمن تک کے لوگ آتے تھے اور ان سب کو مدینہ منورہ والے کھلاتے تھے، سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ (80) مہمان اپنے گھر لے جاتے تھے اور ان سب کو جو کام کرنے والے ہیں ان سے تحفے دلوائے تھے، لیکن کام کرنے والوں کو باہر آنے والوں سے کچھ نہیں لینے دیا، سب دینے والے تھے، لینے والا کوئی نہیں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ارب ہا ارب مال آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ دونوں نماز میں مشغول ہوگئے، کوئی پہرہ نہیں، کیوں کہ دینے والے تھے، لینے والا کوئی نہیں تھا۔
شادی بیاہ کا نقشہ نقل وحرکت کے تابع ہوگیا، بات طے ہوگئی، بیاہ ہوگیا، لباس، غذا، مکان شادی بیاہ، ہر ایک کا مسئلہ ختم ہوگیا۔ کام کی دلچسپی کے راستے سارا معاشرہ بالکل بدل گیا تھا، اگر نکلنے کے زمانے میں ہم نے اپنے دلوں کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشوں کی طرف موڑ لیا تو ہم اپنی معاشرت کے نقشے کو بدل سکیں گے، محنت کو ان کے نقشے پر لا کر ساری زندگی کو ان کے نقشے پر لانا ہے۔
باہر نکل کر تبلیغ میں چار چیزیں ہونی چاہییں
جس طرح نماز میں چار چیزیں ہیں: قیام، رکوع، سجدہ، قعدہ۔ اسی طرح باہر نکل کر تبلیغ میں بھی چار چیزیں ہیں۔ دعوت، تعلیم، نماز، ذکر۔ ان میں سے ہر ایک کی چار شکلیں ہیں:
(1) دعوت: خصوصی گشت، عمومی گشت، اجتماعی دعوت، انفرادی دعوت۔
اجتماعی دعوت میں ایک دعوت دے گا، باقی اس کی دعوت توجہ سے سنیں گے۔ اس سے اس کی دعوت میں قوت پیدا ہوگی۔ پوری جماعت جب دعوت کرتی ہے تو اس کے ایمان میں قوت پیدا ہوتی ہے۔ آج کی بیماری یہ ہے کہ ایمان کی باتیں ہماری زبانوں پر ہیں، دل میں نہیں اترتیں۔ کچھ ذرائع ہیں جن سے یہ باتیں دل میں اترتی ہیں، اسی کو سوچو، اسی کی بات کرو، اسی کو دیکھو، اس کی طرف چلو، اس کی بات گنگناؤ۔ وہ چیز دل میں اتر جائے گی، یہ سارے ذرائع ایمان کے لیے استعمال کرو۔ جب بات زبان پر ہو اور دل میں نہ ہو تو یہ نفاق ہے۔ اس سے ڈرنا چاہیے۔ زبان ہی کو ذریعہ بنایا جائے گا دل کے اندر بات اتر جانے کا۔ اب دعوت ہی کو اس کا ذریعہ بنایا جائے گا۔ دل کے اندر بات اتر جانے کا۔ ذکر کرنے والوں کو دیکھیں۔ نماز پڑھنے والوں کو دیکھیں۔ ساری تدبیریں ایمان کی تقویت کے لیے کرنی ہیں، ایمان کو سوچنا اور اسی کے لیے اللہ پاک سے دعا مانگنا۔ کہنے والے کا اپنے ایمان کی تقویت کی نیت سے دعوت دینا، سننے والے کا اس نیت سے سننا، کوئی یہ نہ سوچے کہ بات میں کروں۔ اگر مشورہ میں آپڑی تو اللہ کی مدد ہوگی، یہ ہمارے نفس والا داعیہ نہیں رہا۔ دعوت کا وقت ہے اور کوئی نہیں تو اب یہ منجانب اللہ مجھ پر آپڑی۔
(2) تعلیم: اجتماعی تعلیم میں ترغیبات و ترہیبات پہلے ہیں، مسائل بعد میں ہیں۔ مکہ مکرمہ میں صرف ترغیبات و ترہیبات ہیں۔ مدینہ منورہ میں دونوں، جب ترغیبات وترہیبات زندہ ہوں گی تب مسائل آئیں گے۔ سننے کی اس طرح مشق کریں کہ رغبت کی بات سے شوق اور ترہیب کی بات سے ڈر کی کیفیت پیدا ہو جائے۔ دوسری شکل سیکھنا، تیسری سکھانا، چوتھی یاد کرنا۔
(3) عبادات: پچھلے کی ادائیگی، حال کی ادائیگی، سنتوں کی ادائیگی، نفلوں کی ادائیگی۔
(4) ذکر: تلاوت قرآن، اذکار وتسبیحات، دعا، مراقبہ ومحاسبہ، ذکر والا نمبر روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ شکل دوسرے نمبروں سے ملے گی، لیکن روح ذکر سے پڑے گی۔ اس کے علاوہ چار خدمتیں آئیں گی۔
مسلم وہ ہے جو ہر اعتبار سے دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھ کر خدمت کرے
اپنے نفس کی ضروری خدمت کرنا، اپنے امیر کی خدمت، اپنی جماعت کی خدمت اور ان کے علاوہ جو ملے، یعنی خلق خدا کی خدمت۔
اعمال پر جنت ملتی ہے، خدمت پر خدا ملتا ہے، اپنے اندر تذلّل کو اس وقت پیدا کیا جا سکتا ہے جب ہم دوسروں کی خدمت کریں گے۔ مسلم وہ ہے جو ہر اعتبار سے دوسروں کو اپنے سے بہتر سمجھ کر خدمت کرے۔
چار چیزیں کم کرنا اور چار چیزوں سے بچنا
چار چیزوں کو کم کرنا ہے: کھانے پینے کو، سونے کو، پیشاب پاخانے کو، سواری کے اہتمام واشغال کو۔ صرف بقدر ضرورت کھانا پینا، سونا اور سواری کا استعمال، کم سے کم ان سب میں وقت لگانا اور استعمال کرنا۔
چار چیزیں بالکل بچنے کی ہیں: اسراف، سوال، بغیر اجازت استعمال، اشراف۔ اشراف کیا ہے؟ میلان طبیعت، اگر زبان پر آ گیا تو سوال ہو گیا، اندر داعیہ رہا تو اشراف ہے۔ وہ کھانا پاک نہیں رہتا جس میں اشراف آگیا، سوال سے تو حرام ہو جاتا ہے لیکن اشراف بھی مکروہ ہے، اشراف والا کسی نہ کسی دن سوال میں پڑ جائے گا، دوسروں کے مال اور کھانے پر بالکل نظر نہ ہو۔ اشراف سے سارا کام کر کرا رہ جائے گا۔
دوسروں کی چیز کا بغیر اجازت استعمال حرام ہے۔سب سے بہتر یہ ہے کہ دوسروں کو اپنی چیز کی اجازت دے دے، خود کسی کی چیز استعمال نہ کرے۔ ہر حال میں ہر چیز میں اسراف سے بچنا ہے۔
چاروں طرف نگاہ نہ جائے، بلکہ چاروں طرف جماعتیں جائیں۔ چاروں حال میں جائیں، عُسر میں، یُسر میں۔ خوب اللہ سے دعائیں مانگو، اندھیرے، اجالے، اکٹھے، اکیلے، چاروں طرف جماعتیں چاروں حال میں بھیجو، چاروں کے دین میں داخل ہونے کی صورت ہوجائے گی یہود ونصاریٰ، مشرکین وملحدین۔
چاروں حال ٹھیک ہو جائیں گے، دنیا، برزخ، حشر وعالم استقرار۔
محنت کر کے اللہ سے دعا مانگو کہ اے اللہ! ہماری محنت کو قبول کرلے، جیسے تو نے محنت کی توفیق عطا فرمائی ہے ویسے ہی صحیح محنت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم والی محنت عطافرما، مجھ کو بھی اور سب مسلمان بھائیوں کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلنے کی توفیق عطا فرما، غیر مسلموں کی دخولیت کی دعامانگو اسلام میں۔
آج کے نقشوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشےکو پہچاننا بڑی مشکل سے سمجھ میں آتا ہے
ان چیزوں سے ہم کو اتنی مناسبت پیدا ہونی چاہیے کہ اپنے مقام پر پہنچ کر ہم کو ان سے رغبت باقی رہے اور اپنی معاشرت کو اس نقشے پر لے آئیں۔ آج کے نقشوں سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشے کو پہچاننا بڑی مشکل سے سمجھ میں آتا ہے، آج کی مسجد سے مسجد نبوی کو پہچاننا ہماری مشقتوں سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی مشقتوں کو پہچاننا، اپنی معاشرت سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرت کو پہچاننا مشکل ہو گیا۔ حقیقت سامنے نہیں آتی، الفاظ سامنے آتے ہیں۔ لفظ اخلاق بولتے ہیں، اخلاق ذہن میں نہیں آتے، سادگی بولتے ہیں، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی ذہن میں نہیں آتی، موجودہ معاشرہ حجاب بن رہا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشے کو سمجھنے کے لیے، کاش ہمارے اندر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر چلنے کے داعیے بیدار ہو جائیں۔
(1) محنت اس طرح ہو جائے جس طرح اللہ چاہتے ہیں، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے والی محنت۔
(2) اللہ سے محنت کی شکل کے صحیح ہونے کی دعا کی جائے، اپنے لیے، اپنے خاندان والوں کے لیے، اپنے علاقے والوں کے لیے دعائیں ہوں۔ نماز پڑھ کر دعا مانگو کہ نماز پڑھنی آجائے۔ سادگی اختیار کر کے مانگو کہ سادگی آجائے۔ اللہ سے مانگو کہ جس طرح تو چاہتا ہے ویسا کرنے والا بن جاؤں۔ اپنی محنت کو ان سے مت ملاؤ جو نہیں کر رہے۔ ان سے ملاؤ جنہوں نے پہلے محنت کی ہے۔ محنت کرو اور پہلوں کو دیکھ کر شرمندہ ہوتے رہو۔ یہ بڑھنے کی چیز ہے۔ دوسری چیز کرنے کی یہ ہے کہ ہم اپنے کو کرنے والا قرار نہ دیں۔ ہم کرنے والے نہیں ہیں اور اللہ سے مانگیں کہ جو حقیقی محنت کرنے والے تھے ان جیسا ہم کو بھی کردے۔ اپنے ساتھیوں کا اکرام کرو اور سوچو کہ اس زمانے میں اتنا بھی کوئی کرنے والا نہیں جتنا یہ کر رہے ہیں۔
اب تک جماعتیں اپنے ملک سے نکلیں، اب یہ جماعتیں مسجد نبوی سے نکل رہی ہیں۔ اگر تم نے اس بات کا خیال رکھا کہ میں مسجد نبوی سے نکلی ہوئی جماعت کا آدمی ہوں اور اوقات اس طرح گزارے تو اللہ تعالیٰ اس نکلنے پر اس سے بہت زیادہ دیں گے کہ یہ جماعت کہیں اور سے نکلتی۔ اللہ تعالیٰ سے مانگو کہ اللہ تعالیٰ ہم کو وہ ثواب عطا فرمائے جو مسجد نبوی سے نکلنے کے ثوابات ہیں۔
دین ہمارے پاس امانت ہے اور اس میں دنیا کے سارے انسانوں کا حصہ ہے۔