محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ محرم الحرام سے ہجری سال کا آغاز ہوتا ہے اور ذی الحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔یہ ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیا ہے۔ اس ماہ کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے ۔ یوں تو سارے ہی دن اور مہینے اللہ تعالیٰ کے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ ماہ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ہے۔ حضرت علی سے روایت ہے کہ میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک صاحب نے آکر پوچھا یا رسول اللہ! رمضان کے مہینہ کے بعد کس مہینے کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں؟ تو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر رمضان کے مہینہ کے بعد تم کو روزہ رکھنا ہو تو محرم کا روزہ رکھو، اس لیے کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے ۔اس میں ایک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور دوسرے لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائیں گے (ترمذی)۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی سال کی ابتدا ماہ محرم الحرام سے ہی کیوں کی گئی؟ جب کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ منورہ کی طرف ماہِ ربیع الاول میں ہوئی تھی۔ جواب سے پہلے چند ایسے امور کا ملاحظہ فرمائیں جن کے متعلق تقریباً تمام مورخین متفق ہیں:
ہجری سال کا استعمال حضرت عمرفاروق کے عہد خلافت میں صحابہ کرام کے مشورے کے بعد17 ہجری میں شروع ہوا۔
ہجری سال کے کیلنڈر کا افتتاح اگرچہ حضرت عمر فاروق کے زمانے میں ہوا تھا ، مگر تمام بارہ اسلامی مہینوں کے نام اور ان کی ترتیب نہ صرف نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے، بلکہ عرصہ دراز سے چلی آرہی تھی اور ان بارہ مہینوں میں سے حرمت والے چار مہینوں (ذو القعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب) کی تحدید بھی زمانہ قدیم سے چلی آرہی تھی۔ اسلامی کیلنڈر (ہجری) کے افتتاح سے قبل عربوں میں مختلف واقعات سے سال کو موسوم کیا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے عربوں میں مختلف کیلنڈر رائج تھے اور ہر کیلنڈر کی ابتدا محرم الحرام سے ہی ہوتی تھی۔ حضرت عمر فاروق کے زمانہ خلافت میں جب ایک نئے اسلامی کیلنڈر کو شروع کرنے کی بات آئی توصحابہ کرام نے اسلامی کیلنڈر کی ابتدا کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ولادت یا نبوت یا ہجرت ِمدینہ سے شروع کرنے کے مختلف مشورے دیے ۔ آخر میں صحابہ کرام کے مشورہ سے ہجرت ِمدینہ منورہ کے سال کو بنیاد بناکر ایک نئے اسلامی کیلنڈر کا آغاز کیا گیا۔
سورج کے نظام سے عیسوی کیلنڈر میں 365یا366 دن ہوتے ہیں، جب کہ ہجری کیلنڈر میں354 دن ہوتے ہیں۔ہر کیلنڈر میں12 ہی مہینے ہوتے ہیں۔ ہجری کیلنڈر میں مہینہ 29 یا30 دن کا ہوتا ہے، جب کہ عیسوی کیلنڈر میں سات مہینے 31 دن کے، چار ماہ30 دن اورایک ماہ28 یا29 دن کا ہوتا ہے۔ سورج اور چاند دونوں کا نظام اللہ ہی نے بنایا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں متعدد عبادتیں ہجری کیلنڈر سے مربوط ہیں۔ دونوں کیلنڈر میں 10 یا11 روز کا فرق ہونے کی وجہ سے بعض مخصوص عبادتوں کا وقت ایک موسم سے دوسرے موسم میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ موسموں کی تبدیلی بھی اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ موسم کیسے تبدیل ہوجاتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس پر غور وخوض کرنے کی دعوت دینی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف اور صرف اللہ کا حکم ہے، جس نے متعدد موسم بنائے اور ہر موسم میں موسم کے اعتبار سے متعدد چیزیں بنائیں۔
کیا ہم نے امسال اپنے نامہ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لیے دنیا وآخرت میں نفع بخش بنیں؟ یا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اعمال ہمارے نامہ اعمال میں درج ہوگئے جو ہماری دنیا وآخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں گے؟ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ امسال اللہ کی اطاعت میں بڑھوتری ہوئی یا کمی آئی؟
ہم نئے ہجری سال پر عزم مصمم کریں کہ زندگی کے جتنے ایام باقی بچے ہیں ان شاء اللہ اپنے مولی کو راضی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ابھی ہم بقید حیات ہیں اور موت کا فرشتہ ہماری جان نکالنے کے لیے کب آجائے، معلوم نہیں۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے ۔ مرنے سے قبل زندگی سے۔ کام آنے سے قبل خالی وقت سے۔ غربت آنے سے قبل مال سے۔ بیماری سے قبل صحت سے۔ (مستدرک الحاکم ومصنف ابن ابی شیبہ)۔ اسی طرح حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا یہاں تک کہ وہ مذکورہ سوالات کا جواب دے دے۔ زندگی کہاں گزاری؟ جوانی کہاں لگائی؟ مال کہاں سے کمایا؟ یعنی حصول ِ مال کے اسباب حلال تھے یا حرام۔ مال کہاں خرچ کیا؟ یعنی مال سے متعلق اللہ اور بندوں کے حقوق ادا کیے یا نہیں۔ علم پر کتنا عمل کیا؟ ۔ ہمیں اپنی زندگی کاحساب اپنے خالق ومالک ورازق کو دینا ہے جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، جو پوری کائنات کا پیدا کرنے والا اور پوری دنیا کے نظام کو تن تنہا چلا رہا ہے۔
ہمیں گزشتہ354 دن کے چند اچھے دن اور کچھ تکلیف دہ لمحات یاد رہ گئے ہیں، باقی ہم نے 354 دن اس طرح بھلا دیے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ غرض کہ ہماری قیمتی زندگی کے 354 دن ایسے ہو گئے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ حالاں کہہمیں ہجری سال کے اختتام پر یہ محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہمارے نامہ اعمال میں کتنی نیکیاں اور کتنی برائیاں لکھی گئیں ۔ کیا ہم نے امسال اپنے نامہ اعمال میں ایسے نیک اعمال درج کرائے کہ کل قیامت کے دن ان کو دیکھ کر ہم خوش ہوں اور جو ہمارے لیے دنیا وآخرت میں نفع بخش بنیں؟ یا ہماری غفلتوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے اعمال ہمارے نامہ اعمال میں درج ہوگئے جو ہماری دنیا وآخرت کی ناکامی کا ذریعہ بنیں گے؟
ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ امسال اللہ کی اطاعت میں بڑھوتری ہوئی یا کمی آئی؟ ہماری نمازیں، روزے اور صدقات وغیرہ صحیح طریقہ سے ادا ہوئے یا نہیں؟ ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوئیں یا پھر وہی طریقہ باقی رہا جوبچپن سے جاری ہے؟ روزوں کی وجہ سے ہمارے اندر اللہ کا خوف پیدا ہوا یا صرف صبح سے شام تک بھوکا رہنا؟ ہم نے یتیموں اور بیواوں کا خیال رکھا یا نہیں؟ ہمارے معاملات میں تبدیلی آئی یا نہیں؟ ہمارے اخلاق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلمکے اخلاق کا نمونہ بنے یا نہیں؟ جو علم ہم نے حاصل کیا تھا وہ دوسروں کو پہنچایا یا نہیں؟
ہم نے اپنے بچوں کی ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں کام یابی کے لیے کچھ اقدامات بھی کیے یاصرف ان کی دنیاوی تعلیم اور ان کو دنیاوی سہولیات فراہم کرنے کی ہی فکر کرتے رہے؟ ہم نے امسال انسانوں کو ایذائیں پہنچائیں یا ان کی راحت رسانی کے انتظام کیے؟ ہم نے یتیموں اور بیواوں کی مدد بھی کی یا صرف تماشہ دیکھتے رہے؟ ہم نے قرآن کریم کے ہمارے اوپر جو حقوق ہیں وہ ادا بھی کیے یا نہیں؟ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی یا نافرمانی؟ ہمارے پڑوسی ہماری تکلیفوں سے محفوظ رہے یا نہیں؟ ہم نے والدین، پڑوسی اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کیے یا نہیں؟