قران کریم میں اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
جنہوں نے محنت کی ہمارے واسطے، ہم سجھا دیں گے ان کو اپنی راہیں اور بے شک اللہ ساتھ ہے نیکی والوں کے۔(عنکبوت،69)
جہاد کے اصلی معنی دین میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کرنے کے ہیں، اس میں وہ رکاوٹیں بھی داخل ہیں جو کفار و فجار کی طرف سے پیش آتی ہیں، کفار سے جنگ و مقاتلہ اس کا اعلی فرد ہے اور وہ رکاوٹیں بھی داخل ہیں جو اپنے نفس اور شیطان کی طرف سے پیش آتی ہیں، جہاد کی ان دونوں قسموں پر اس آ یت میں یہ وعدہ ہے کہ ہم جہاد کرنے والوں کو اپنے راستوں کی ہدایت کر دیتے ہیں، یعنی جن مواقع میں خیر وشر یا حق و باطل یا نفع و ضرر میں التباس ہوتا ہے عقل مند انسان سوچتا ہے کہ کس راہ کو اختیار کروں، ایسے مواقع میں اللہ تعالی اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو صحیح، سیدھی، بے خطر راہ بتا دیتے ہیں، یعنی ان کے قلوب کو اسی طرف پھیر دیتے ہیں جس میں ان کے لیے خیر و برکت ہو۔(معارف القرآن:6/716)
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مجاہدہ نفس کے بغیر سالک کوئی مرتبہ حاصل نہیں کر سکتا لہٰذا نفس کی مخالفت عبادت کی تمام قسموں کی بنیاد اور مجاہدے کے تمام درجوں کا کمال ہے۔ بندہ اس مقام تک رسائی کے بغیر راہ حق کو نہیں پا سکتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نفس کی مخالفت کا حکم دیا ہے،ایک بزرگ نے اس کی مثال اس طرح دی کہ ایک کاغذ کو موڑ دیا جائے، اب اگر اس کاغذ کو سیدھی جانب موڑتے رہیں گے تو کبھی وہ سیدھا نہیں ہوگا اور اگر اس کو مخالف سمت میں موڑیں گے تو وہ سیدھا ہو جائے گا، اسی طرح نفس کا کاغذ بھی گناہوں کی طرف مڑا ہوا ہے، اس کو مخالف سمت موڑیں گے تو یہ نفس سیدھا ہو جائے گا،یہی مجاھدہ ہے۔غنیة الطالبین میں حضرت شیخ ابوعلی دقاق کا ایک قول روایت کیاگیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنے ظاہر کو مجاہدہ کے ذریعے آراستہ کیا، اللہ تعالیٰ اس کے صلہ میں اس کے باطن کو مشاہدہ کے ساتھ آراستہ فرمادے گا۔ایک غزوہ سے واپسی پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا : اب ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ !جہاد اکبر کیا ہے؟ فرمایا وہ نفس سے مجاہدہ ہے۔(أخرجہ البیہقی فی الزہد)
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:(بڑا) مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا ہے۔(أخرجہ أحمد بن حنبل فی المسند:6/20)
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:(اگلے زمانوں میں)سب سے پہلے تم جس چیز کا اِنکار کرو گے وہ جہاد بالنفس ہوگا۔(ابن رجب الحنبلی فی جامع العلوم والحکم /196)
امام سفیان ثوری کہتے ہیں:بے شک تمہارا دشمن وہی نفس ہے جو تمہارے پہلووں کے درمیان ہے۔ تم اپنے دشمن کے ساتھ جنگ سے بھی بڑھ کر اپنی نفسانی خواہشات کے ساتھ جنگ کرو۔(ابن بطال فی شرح صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب من جاہد نفسہ فی طاعة الله)
ان تمام احادیث سے معلوم ہواکہ نفس کی پیروی کرنا بہت بڑی حماقت ہے اور دنیا و آخرت میں ذلت ورسوائی کا باعث ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کا محاسبہ کرے اور دیکھے کہ اس نے اپنی کل کی دائمی زندگی کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔