الْحَمْدُلِلَّہِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِینُہُ وَنَسْتَغْفِرُہُ وَنُؤْمِنُ بِہ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَنَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ شُرُورِ اَنْفُسَنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ یَہْدِہِ اللہُ فَلَا مُضِلَّ لَہُ وَمَنْ یُضْلِلْہُ فَلَا ہَادِیَ لَہُ وَنَشْہَدُ انَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ، وَنَشْہَدُ أَنَّ سَیِّدَنَا وَ سَنَدَنَا وَمَوْلَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ أَرْسَلَہُ اللہُ إِلَی کَافَةٍ لِلنَّاسِ بَشِیرًا وَنَذِیرًا․ وَدَاعِیًا إِلَیْہِ بِإِذْنِہِ وسِرَاجًا مُنِیرًا
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوذُ باللہِ مِنَ الشَّیْطَنِ الرجیم ، بسم اللہ الرحمن الرحیم:﴿وَنُرِیدُ أَن نَّمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَہُمُ الْوَارِثِینَ، وَنُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْأَرْضِ وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَہَامَانَ وَجُنُودَہُمَا مِنْہُم مَّا کَانُوا یَحْذَرُونَ﴾ ․(سورہ قصص،آیت:6-5)
صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ
بزرگان محترم! الله تعالیٰ نے دنیامیں نعمتوں کے دد سلسلے قائم فرمائے ہیں۔ ایک سلسلہ مادّی نعمتوں کا ہے۔مادّی نعمتوں کے سلسلے میں جیسے بہترین غذائیں ، بہترین لباس اوربہترین مکان اور بہترین شکلیں، صورتیں اور ان سے نفع اٹھانا وغیرہ ایک یہ سلسلہ ہے، جس کی کوئی حد و نہایت معلوم نہیں ہوتی۔ دنیا میں نعمتیں روز بروز ترقی پر ہیں۔ ہر چیز کے نئے سے نئے ڈیزائن اور نمو نے کچھآنکھوں کو فرحت دینے والے، کچھ کانوں کو ،کچھ دماغ کو اور کچھ ناک کو،غرض حواس خمسہ کے لیے اللہ نے نئی سے نئی نعمت پیدا کی اور وہ بڑھتی رہتی ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ مادّی نعمتوں میں سب سے بڑھ کر اقتدار ہے کہ کسی قوم کو عزت دی جائے۔ اس کے ہاتھ میں قدرت وتمکنت ہو اور وہ اپنی قسمت کی مالک آپ بن جائے۔ اسی کا نام اقتدار ہے، پھر ان مادّی نعمتوں میں ایک حصہ لذات کا ہے اور ایک اقتدار کا ہے۔
اس کے بالمقابل دوسری قسم کی نعمتیں روحانی ہیں، جیسے علم، اخلاق، ہدایت پانا۔ قلب کی تسکین اور عقلی کام ہیں۔ یہ سب روحانی نعمتیں کہلاتی ہیں، جن کے ذریعے انسان کی روح کو فرحت اورتسکین ملتی ہے۔ اور یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ مادّی نعمتیں اس کے سامنے گرد ہیں، جس کو روحانی لذت میسر آجائے ، پھر مادّینعمتیں ہیچ اور گرد بن جاتی ہیں۔
اہل اللہ نے مادّی لذتوں پر لات ماری ہے تو کوئی نعمت ان کو ہاتھ لگی ہے، جس کی وجہ سے انہوں نے ان نعمتوں کو حقیر اورکم رتبہ سمجھا ہے۔ غرض یہ بات الگ ہے کہ ایک نعمت اعلیٰ ہےاور ایک ادنی ٰہے۔ مگر ہیں دونوں نعمتیں۔ ایک مادّی اور جسمانی ، دوسرے روحانی اور معنوی لذتیں ۔ مادّی لذتوں کی انتہا ملوکیت پر ہو جاتی ہے کہ کسی قوم کو اللہ، بادشاہت اور تمکنت دے دے اور ساری نعمتیں اس کے قبضہ میں آجائیں۔ اور روحانی نعمتوں کی انتہا نبوت پر ہو جاتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام نبوت کے راستے سے جو نعمتیں لاتے ہیں وہ روح کی تسلی کی ہیں۔ ان میں علم و اخلاق ہے۔ اللہ کے جلال و جمال کا مشاہدہ ہے ، ہدایت پانا ۔ اللہ کی کتابوں کی تلاوت کرنا ، اس کے ذریعے سے روح کو اقتدار ملتا ہے۔ یہ سلسلہ نبوت پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔
مادی و روحانی اقتدار کی تاثیر
تو بادشاہوں کا اقتدار مادّی ہے، جو بدنوں کے اوپر ہوتا ہے اورابنیاء کا اقتدار روحانی ہوتا ہے ،جو دلوں کے اوپر ہوتا ہے ۔ یہ بدنوں کے بادشاہ ہوتے ہیں وہ دلوں کے بادشاہ ہوتے ہیں، ان کی حکومت جبری اوران کی حکومت محبت کی ہوتی ہے۔ اگر بادشاہ سامنے ہے تو آدمی ڈرتا ہے۔ اس کی سی ۔ آئی۔ ڈی ہے تو خائف ہوتا ہے کہ کوئی کلمہ زبان سے ایسا نہ نکال دوں جس کی وجہ سے قانون کی زدمیں آجاؤں اور مقدمہ چل جائے ۔ چاہے دل میں لعنت ہی بھیجے ۔ تو دل پر کوئی حکومت نہیں۔ بلکہ دل میں بعض اوقات نفرت ہوتی ہے، لیکن زبان سے نہیں کہہ سکتا۔ تو شاہی اور ملوکیت کا اقتدار بدنوں پر ہوتا ہے۔ اور انبیاء علیہم السلام کی حکومت اور اقتدار قلوب کے اوپر ہوتا ہے ۔ وہ سامنے بھی نہ ہوں تب بھی آدمی اپنی عظمت میں دبا ہوا ہوتا ہے، بلکہ دنیا میں بھی نہ ہوں جب بھی وہی عظمت و اقتدار قلب کے اوپر ہوتاہے جوان کی موجودگی میں ہوا ہے۔ آج انبیاء علیہم السلام کا نام آجائے تو سب درود شریف پڑھیں گے، صلی اللہ علیہ وسلم پڑھیں گے، انبیاء علیہم السلام کی ذات تو بہت بلند و بالا ہے، اُن کے خدام صحابہ کا ذکر آجائے تو رضی اللہ عنہم اجمعین کہیں گے۔ صحابہ کرام کا مقام بھی بہت بلند ہے، ان کے خدام اور غلام اولیائے کرام ہیں ۔ ان کا ذکر آجائے تو سب رحمة اللہ علیہم اجمعین کہیں گے۔ صالحین کا ذکر آجائے محبت سے یاد کریں گے۔ تو آج انبیاء علیہم السلام اس دنیا میں ہماری آنکھوں کے سامنے موجودنہیں ہیں، لیکن قلوب ان کی محبت وعظمت سے لبریز ہیں ۔ اگر آج خواجہ اجمیری رحمة اللہ علیہ کا نام آجائے تو عقیدت سے دل جھک جاتا ہے، اگر شیخ علاء الدین صابر کلیری رحمة الله علیہ الله کا نام آجائے تو فرط عقیدت سے دل جھک جائے گا ۔ آج اگر کوئی امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک ، احمد ابن حنبل اور امام بخاری کا نام لے تو دل عقیدت سے جھک جائیں گے۔ اگر کوئی شخص ان کی شان میں گستاخی کا کلمہ کہے آدمی جان دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ۔ ان کے خلاف کوئی کلمہ برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ محبت و عقیدت نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ یہ حضرات آج دنیا کے اندر موجود نہیں ہیں ،لیکن قلوب پر حکومت آج بھی کر رہے ہیں۔
مسٹر آرنلڈ جو سر سید مرحوم کے زمانے میں علی گڑھ یونیورسٹی کا پروفیسر تھا۔ اس نے ایک کتاب”پریچنگ آف اسلام “لکھی ہے۔ اس نے اسلامی تبلیغ کے دور اور طریقے تاریخی طور پر ذکر کیے ہیں کہ کس کس طرح سے اسلام پھیلا اور دنیا میں رائج ہوا ۔ اس نے اس میں بڑی تفصیلات ذکر کی ہیں۔ ہندوستان کا بھی ذکر کیا ہے ، اس میں وہ لکھتا ہے کہ ہندوستان میں، میں نے بڑی عجیب بات دیکھی، جو مجھے اور کہیں نظر نہیں آئی اس کے لحاظ سے تو ٹھیک ہے اُسے کہیں اور نظر نہیں آئی۔ لیکن دوسروں کو وہ ہر جگہ نظر آئی۔ مگر اس کے لیے وہ انوکھی بات ہے ۔
”وہ یہ کہ میں نے ہندوستان میں دیکھا کہ ایک شخص اجمیر میں قبر میں لیٹا ہوا ۔ پورے ہندوستان پر حکومت کر رہا ہے اور سلطان بنا ہوا ہے۔ نام بھی اس کا سلطان الہند ہے ۔ یعنی حضرت خواجہ اجمیری رحمة اللہ علیہ“۔
تو اس نے کہا میں نے یہ عجیب بات دیکھی کہ ایک شخص قبر میں لیٹا ہوا ہے، اس دنیا میں نہیں ہے، مگر پورے ہندوستان کے لوگوں کے دلوں پر اس کی حکومت قائم ہے، اس کا نام بھی آتا ہے تو لوگ عظمت سے اس کا نام لیتے ہیں۔
میرے عرض کرنے کا مطلب یہ ہے مادّی اقتدار بدنوں کے اُوپر ہوتا ہے۔ اس لیے انبیاء علیہم السلام، ان کے خدام اورتربیت یافتہ دلوں کے اوپر حکومت کرتے ہیں۔ سلاطین اور ان کے تربیت یافتہ بدنوں کے اُوپر حکومت کرتے ہیں۔سلاطین دنیا سامنے موجود ہوں تو آدمی عظمت کاکلمہ کہتا ہے، ورنہ بعض اوقات لعنت کرتا ہے ۔ انبیاء اور اولیاء دنیا میں موجود ہوں یا نہ ہوں، قلوب پر یکساں ان کی عقیدت و عظمت قائم ہے، محبت سے دل لبریز ہے۔ تو اقتدار کے دو سلسلے نکلے ۔ مادّی اقتدار کی انتہا حکومت کے اُوپر ہے۔ اور روحانی اقتدار کی انتہا نبوت کے اُوپر ہے۔
مزاج نبوت و ملوکیت میں فرق
لیکن ان دونوں کے مزاج میں بڑا فرق ہے۔ نبوت کا بھی ایک مزاج ہے اور بادشاہت و ملوکیت کا بھی ۔ دنیا میں جب بادشاہت غالب آتی ہے تو اس کا مزاج کچھ اور ہے۔ ان دونوں مزاجوں کا قرآن حکیم نے تذکرہ کیا۔ فرمایا کہ باد شاہ جب کسی ملک پر غالب آتے اور اقتدار پاتے ہیں اور فاتحانہ داخل ہوتے ہیں تو وہ کیا کرتے ہیں؟﴿إِنَّ الْمُلُوکَ إِذَا دَخَلُوا قَرْیَةً أَفْسَدُوہَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَہْلِہَا أَذِلَّةً وَکَذَٰلِکَ یَفْعَلُونَ﴾․(سورة النمل، آیت:34)
جب کوئی بادشاہ کسی ملک میں فاتحانہ داخل ہوتا ہے تو وہ اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے اس شہر کو اس طرح سے فاسد کرتا ہے کہ عزت والوں کو پست کرتا ہے ، ذلت والوں کو اونچا کرتا ہے۔ انقلاب عظیم برپا کرتا ہے ۔
اس لیے کہ جو اب تک عزت والے تھے ان سے عزت چھیننی ہے، کیوں کہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ پھر بر سر اقتدار نہ آجائیں۔ اس لیے انہیں کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان کے اقتدار کا کوئی نشان باقی نہ رہے ۔ وہ نشانات مٹائے جاتے ہیں۔ جو کسی قوم کے اقتدار کے ہوتے ہیں۔ کاغذوں سے وہ نام محو کیے جاتے ہیں، تا کہ خیال بھی اُدھر نہ جائے، اس لیے کہ اگر ان کا اقتدار کسی درجہ میں بھی رہ گیا تو ہمارا اقتدار قائم نہیں ہو گا:﴿وَکَذَلِکَ یَفْعَلُونَ﴾
یہ سلاطین کا طریقہ ہے، بادشاہت اور ملوکیت کی تاریخ دیکھی جائے تو الٹی ہی نظر آئے گی ۔
اقتدار پانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز ِعمل
اور ایک انبیاء علیہم السلام کا مزاج ہے ۔ جب نبوت کا اقتدار غالب ہوتا ہے تو وہ امن کا اعلان کر تے ہیں۔ عزت والوں کی عزت کی داشت کرتے ہیں اور جو پست ہیں ان کو اُبھارتے ہیں، تاکہ سب عزت میں شریک ہو جائیں اور کسی کی تذلیل اور رسوائی نہ ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس برس کی زندگی کے بعد جب مدینہ طیبہ سے تشریف لائے اور فاتحانہ مکہ کے اندر داخل ہوئے تو دس ہزار صحابہ کرام رضی الله عنہم کا لشکر ساتھ تھا۔ آپ اُونٹنی پر سوار ہیں بادشاہ ایسے موقع پر اقتدار جتلاتا ہوا اور اینٹھتا ہوا ۔ داخل ہوتا ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے۔ حدیث میں ہے کہ تواضع اور خاکساری کی وجہ سے گردن مبارک اونٹنی کی گردن پر جھکی ہوئی تھی ۔ چوں کہ عزت کے ساتھ داخلہ ہوا ہے تو اللہ کی عزت پیش نظر تھی۔ اس لیے غایت تواضع اور انکساری کی وجہ سے سر مبارک اتنا جھک گیا تھا کہ اونٹنی کے سرکو آملا تھا۔ تو انبیاء کا داخلہ تو اس شان سے ہوا سلاطین داخل ہوتے ہیں تو اکڑتے ہوئے داخل ہوتے ہیں۔ پھر سلاطین عزت والوں کو ذلیل بناتے ہیں۔ پستوں کو اور پست کرتیہیں، انبیا علیہم السلام کا مزاج ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم دس ہزار کے لشکر کے ساتھ داخل ہوئے تو جگہ جگہ امن کا اعلان فرمایا فرمایا مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِی سُفْیَانَ فہو آمن
۔ ابو سفیان کے گھر میں جو چلا جائے گا اسے بھی امن ہے۔ وَمَنْ دَخَلَ المسجد الحرامَ فَہُو آمِنْ
جو مسجد حرام میں چلا جائے گا اسے بھی امن ہے۔ من اغْلَقَ بَابَہُ فَہُوا آمِنْ
جو اپنے گھر کا دروازہ اندر سے بند کرے گا اس کے لیے بھی امن ہے ۔ غرض امن کا اعلان عام ہوتا جا رہا ہے۔
اور کس قوم کے مقابلے میں ؟ جس نے تیرہ برس اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو چین نہیں لینے دیا۔ انتہائی ایذار رسانی کی، بلکہ حد کردی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔ گالیاں دی گئیں۔
کذاب، مجنون ، ساحر اور کا ہن کہا گیا ،جادو آپ صلی الله علیہ وسلم کے اُوپر کرایا گیا ۔ طائف میں تشریف لے گئے تو اتنے پتھر مارے گئے کہ پیر مبارک اتنے زخمی ہوگئے کہ نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔ کُتے پیچھے لگائے گئے۔ اس قوم کے مقابلے پر امن کا اعلان کیا جارہاہے۔ جو مسجد حرام میں ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے گا یا اپنے گھر کا دروازہ بند کرے ، اسے بھی امن ۔ گویا کوئی راستہ ایسا نہیں چھوڑا کہ بدامنی یا قتل و غارت ہو۔ اور اس قوم کے ساتھ یہ شفقت برتی گئی جس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا ۔ وطن سے بے وطن کیا۔ یہ نبوت کا مزاج ہے کہ جتنا اقتدار ملتا جاتا ہے اتنا ہی اور جھکتے جاتے ہیں۔
نہد شاخ پر زمیوہ سر بر زمین
درخت کا پھل جب بڑھ جاتا ہے تو شاخیں زمین کی طرف جھک جاتی ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ درخت جب پھل دار ہو تو اوپر کو اُٹھنے لگے۔ انبیاء علیہم السلام اللہ کی طرف سے ساری دولتیں لے کر آتے ہیں،ان میں تواضع بڑھتی رہتی ہے، لیکن مادی دولت جوں جوں بڑھتی رہتی ہے اس سے نخوت بڑھتی رہتی ہے۔
حدیث میں واقعہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جب آپ ہجرت فرما رہے تھے تو جاتے ہوئے مسجد حرام میں تشریف لائے تو بیت اللہ کا کلید بردار عثمان شیبی کا خاندان تھا۔ شیبی اسے کہتے تھے ۔ وہ بیت اللہ کے دروازے پر بیٹھتا تھا ۔ بیت اللہ کی کنجی اس کے پاس رہتی تھی ۔ آپ چوں کہ مکہ چھوڑ کر ہجرت فرما رہے ہیں ۔ آپ کو صدمہ ہے تو شیبی سے کہا!ا
”اے شیبی!ایک دو منٹ کے لیے بیت اللہ کا دروازہ کھول دے، تاکہ میں اندر دو نفل پڑھ لوں“
اس نے جھڑک کر اور ڈانٹ کر کہا کہ تم ہرگز داخل نہیں کیے جا سکتے۔ تم نے ہمارے آبائی دین کو چھوڑا ۔ ہمارے بتوں کو برا کہا۔ یہ نہیں ہو سکتا، جاؤ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے پھر لجاجت سے کہا کہ ”میں عبادت کرنا چاہتا ہوں، دو رکعت پڑھنا چاہتا ہوں۔“ اس نے کہا نہیں ۔ آپ (صلی الله علیہ وسلم) کو اجازت نہیں دی جائے گی ، آپ جائیے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”اے شیبی!ایک وقت آنے والا ہے کہ جس جگہ تو بیٹھا ہوا ہے وہاں تو میں ہوں گا اور جہاں میں کھڑا ہوا، التجا کر رہا ہوں، یہاں تو کھڑا ہو گا۔ اس وقت تیراکیا حال ہوگا ؟
اس نے کہا” جاؤ !ایسی باتیں بہت دیکھی ہیں“ اقتدار کے غرور میں مست تھا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ بے کس و بے بس ہو کر گھر سے باہر نکل رہے تھے۔ مکے والوں کی اکثریت تھی ، اقتدار تھا ، دولت اور فوج بھی ان کی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ تو اسے غرور کانشہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کچھ نہیں کر سکتے، نبوت کی عظمت اس کے دل میں نہیں تھی، وہ نہیں جانتا تھا کہ نبوت کو الله نے کیا کیا طاقتیں بخشی ہیں۔ وہ تو صرف مادی طاقت کو جانتا تھا، اس بنا پر اس نے کہا ایسی تخیلات کی باتیں بہت سنی ہیں ۔ حالت تو یہ ہے کہ گھر سے باہر نکلنا مشکل ہے اور خواب یہ دیکھ رہے ہیں کہ میں کعبہ کے دروازے پر بطور متولی کے بیٹھوں گا اور جو آج متولی ہے وہ نیچے کھڑا ہو گا ۔ یہ شیخ چلی کی باتیں ہیں، محض تخیلات ہیں یہ اُس نے کہا۔
آپ صلی الله علیہ وسلم واپس ہو گئے ،ہجرت فرمائی ۔ جب مکے میں فاتحانہ د اخل ہوئے اورامن کا اعلان کیا، ایک نفس کی خوں ریزی نہیں ہوئی،ایک جان نہیں گئی ۔ آپ مسجد حرام میں تشریف لائے اور فرمایا کہ شیبی کو بلاؤ۔
وہ آیا ، کعبے کی کنجی اُس کے ہاتھ میں۔ کعبے کے دروازے کا تالا کھولا ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم وہیں تشریف لے گئے جہاں شیبی کھڑا ہوا تھا۔ اور یہ شیبی وہیں کھڑا ہوا تھا جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کھڑے ہوئے التجا کر رہے تھے۔ فرمایا شیبی!وہ وقت تجھے یاد ہے کہ میں نے لجاجت سے التجا کی تھی کہ مجھے ایک دو رکعت پڑھنے کی اجازت دے دے ، تو نے ڈانٹ دیا تھا۔
کہا جی ہاں!یاد ہے۔
فرمایا ، یہ بھی یاد ہے کہ میں نے کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا تھا کہ جس جگہ تو بیٹھا ہوا ہے اس جگہ میں ہوں گا اور جس جگہ میں کھڑا ہوا ہوں اس جگہ تو کھڑا ہوا ہوگا۔ یہ تونے دیکھ لیا ؟
اس نے کہا۔ جی ہاں! دیکھ لیا۔ بے شک میں اسی جگہ کھڑا ہوا ہوں جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے اور آپ صلی الله علیہ وسلم اس جگہ ہیں جس جگہ میں تھا ۔
فرمایا ۔ اب تیرا کیا حشر ہونا چاہیے ؟
اس نے ایک ہی جملہ کہا کہ :اخٌ کَرِیمٌ ُونبیٌ کَرِیمٌ
میں ایک کریم پیغمبر اور کریم بھائی کے سامنے کھڑا ہوا ہوں بہر حال یہ خاندان قریش میں سے تھا، تو اس نے یہ جملہ کہا اَخٌ کریمٌ ونبیٌ کریمٌ․
اب یہ خیال فرمائیے شیبی نے کس طرح ڈانٹا تھا۔ اللہ کے رسول کی انتہائی عظمت کے باوجود اس نے کیا کہا، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے کیا معاملہ فرمایا۔ فرمایا
”اے شیبی!کنجی تیرے حوالے کرتا ہوں ، قیامت تک تیرے ہی خاندان میں رہے گی ، کوئی دوسرا اسے نہیں حاصل کر سکے گا۔ آج سے تو اور تیرا خاندان قیامت تک کے لیے متولی ہے ۔“
عرب میں بیسیوں نئے انقلابات ہوئے، حکومتیں بدلیں، لیکن شبیی کا خاندان بدستور قائم ہے اور کعبے کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں، بلکہ مکہ کے آدھے بازاروں پر آج شیبی کا قبضہ ہے ،اس کی دولت کی کوئی انتہا نہیں۔
اس لیے کہ بیت اللہ میں داخل ہونا ہر شخص چاہتا ہے اور وہ فیس لگا دیتا ہے کہ اتنی فیس ادا کردو گے تو داخل ہونے دوں گا، ورنہ نہیں ۔ حالاں کہ ایسا داخلہ لگانا ممنوع ہے، کیوں کہ اس پر فیس لگانا جائز نہیں۔ مگر ایک تو بیت اللہ کی محبت اور اوپر سے کچھ عظمت بھی اور کچھ محبت بھی ۔ اس لیے لوگ فیس ادا کرتے ہیں اور داخل ہوتے ہیں لیکن محض محبت ہی تو مطلوب نہیں ، شریعت کا ادب بھی تو ملحوظ ہے، وہ صحیح محبت سے کام نہیں کرتا جب تک اتباع شریعت نہ ہو۔ وہ محنت کار آمد نہیں ہے جب تک محبت کے ساتھ متابعت سنت اور شریعت کی عظمت نہ ہو۔ اس لیے رشوت دے کر داخل ہونا جائز نہیں ہے۔
کئی بار حاضری ہوئی، ہمارا بہت جی چاہتا تھا تو ہمارے لیے یہ مشکل تھی توہم نے افسوس کے ساتھ مکے میں اپنے ایک دوست سے ذکر کیا کہ ہم تو محروم ہی رہ گئے اور بیت اللہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل نہ کر سکے۔ ان کے شیبی کے ساتھ تعلقات تھے ۔ اس نے کہا ۔ تنہا آپ کے لیے بیت اللہ کھولا جائے گا۔ آپ فکر نہ کریں ۔ آپ اندر جا کے زیارت کریں گے۔
چناں چہ انہوں نے ایسا انتظام کیا جب ہجوم ختم ہوگیا اور شیبی کعبے کا دروازہ بند کر کے جانے لگا۔ انہوں نے اپنے تعلقات کی وجہ سے اس سے بات کی اور بیت اللہ کا دروازہ کھولا اور میرے پاس آدمی بھیج کے مجھے بلایا کہ آپ کے لیے بیت اللہ کھلا ہوا ہے تو میں تو کیا چیز تھا لیکن میں سمجھتا ہوں میں نے شریعت کا اتباع کیا تھا اور دل میں داخل ہونے کا جذبہ تھا، لیکن رشوت دیناجائز نہیں تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام فرما دیا۔
بہر حال لوگ یہ نہیں سمجھتے، وہ چاہتے ہیں بس داخل ہو جائیں، خواہ کسی ممنوع کا ارتکاب کرنا پڑے۔
غرض شیبی آج بھی بر سر اقتدار ہے۔ چودہ صدیاں گذرگئیں، مگر اسی کے خاندان کے ہاتھ میں بیت اللہ کی کنجیاں ہیں، حالاں کہ شیبی نے اللہ کے رسول کے ساتھ انتہائی بے عظمتی کا برتاؤ کیا تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے نبی ہونے کی حیثیت سے اسے کیا دیا کہ بیت اللہ کا متولی قیامت تک کے لیے قرار دے دیا ، بجائے اس کے کہ شیبی سے انتقام لیا جاتا۔ یہ چیز ملوکیت اور بادشاہت میں نہیں ہے۔ بادشاہت میں اگر کوئی ذرا بھی اقتدار کے خلاف کرے تو بغاوت کا الزام قائم ہوتا ہے اور اسے پھانسی دے دی جاتی ہے۔ تو یہ نبوت کا خاصہ ہے کہ دشمنوں کے ساتھ وہ برتاؤ کیا جاتا ہے جو ایک دوست، دوست کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے۔ تو نبوت کا مزاج اور ہے، ملوکیت کا اور ہے۔ آج بھی شیبی برسر اقتدار ہے اور کعبے کی کنجیاں اس کے پاس ہیں اور قیامت تک رہے گا۔ کیوں کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمادیا ہے کہ کنجیاں قیامت تک کے لیے تیرے خاندان کو دیتا ہوں۔
اہل اللہ کے مزاج میں نیکی کی حرص
اس پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ الله والے بھی عجیب چیز ہیں۔ یہ ہر بات سے اپنی آخرت کا فائدہ اٹھالیتے ہیں۔ جب ایک شخص دنیا کا طالب ہو وہ ہیر پھیر کر کے اپنے پیسے کھا لیتا ہے۔ یہ اللہ والے ہیر پھیر کر کے دین اور آخرت کمالیتے ہیں ۔ جب ہم دنیا دار دنیا کے بارے میں حریص ہیں کہ اگر سور و پیہ مل جائے تو تمنا ہوتی ہے کہ ہزار روپیہ مل جائے ۔ ہزار مل جائے تو تمنا ہوتی ہے کہ کروڑوں ہو جائیں ۔ غرض طلب کسی حد پر رکتی نہیں ہے۔
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اگر اس بنی آدم کو ایک جنگل بھی سونے کا مل جائے تو کہے گا یا اللہ!پیٹ نہیں بھرا ۔ ایک جنگل اور سونے کا مل جائے ۔ دوسرا مل جائے تو تیسرا مانگے گا ،کسی حد پر نہیں رکتا۔ بعینہ یہی کیفیت اللہ والوں کی ہے کہ ساری جنت پر ان کا قبضہ ہوا ہے تب بھی ان کا پیٹ نہیں بھرتا۔ غرض اہل دنیا دنیا کے بارے میں حریص ہوتے ہیں۔ اہل اللہ آخرت کے بارے میں حریص ہوتے ہیں۔
ہمارے دارالعلوم دیو بند کے سب سے پہلے مہتمم حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رحمة اللہ علیہ نقش بند یہ خاندان کے اکابرین سے تھے ، ہجرت فرما کر مکہ مکرمہ آئے، وہیں ان کی وفات بھی ہوئی اور قبر بھی ہے۔
انہیں یہ حدیث معلوم تھی کہ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم نے شیبی کو بیت اللہ کی کنجیاں سپرد کی ہیں۔ مکہ میں چاہے سارے خاندان اجڑ جائیں، مگر شیبی کا خاندان قیامت تک کے لیے باقی رہے گا۔ یہ ان کا ایمان تھا اور اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا قول تھا۔ تو مولانا رفیع الدین صاحب کو عجیب ترکیب سوجھی ۔ واقعی ان بزرگوں کو داد دینی چاہیے کہاں ذہن پہنچا!!
انہوں نے کہا جب یہ خاندان قیامت تک کے لیے باقی رہے گا تو اس زمانے میں بھی موجود ہوگا۔ جب امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو گا۔ اس واسطے حدیث میں فرمایا گیا کہ مہدی کا جب قرب قیامت میں ظہور ہوگا تو مکہ ہی میں ہو گا اور وہ بیت اللہ شریف کی دیوار سے کمر لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے، لوگ ان کے ہاتھ پرآکربیعت کریں گے۔
اور اس وقت کی جو علامات بتلائی گئی ہیں وہ یہ کہ پوری دنیا پر نصاری کا قبضہ ہوگا۔ واسطہ بلا واسطہ پوری دنیا پر نصاری کا اقتدار چھایا ہوا ہوگا دوسری علامت یہ فرمائی گئی مُلِئَتِ الدُّنْیَا ظُلما وجورا
․پوری دنیا ظلم وستم سے لبریز ہوگی۔ دین و دیانت کا نشان باقی نہیں رہے گا۔ شرارت نفس ، تعیش وعیاشی، ظلم اور بد دینی عام ہو جائے گی ۔
محدودلوگ ہوں گے جو پہاڑوں کی چوٹیوں میں جا کر اپنے دین کو سنبھالیں گے ۔ دنیا ان کو حقیر و ذلیل سمجھے گی۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ایک عالم اتنا ذلیل ہو جائے گا جیسے مردے گدھے کی لاش ہوتی ہے کہ اسے کوئی دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ ایک عالم کی ذلت کی یہ کیفیت ہوگی ۔ تو اس درجہ ظلم وستم، بددینی اور بد دیانتی دنیا میں پھیل جائے گی۔ یہ وقت ہوگا کہ دنیا پر نصاریٰ کا قبضہ ہوگا، مسلمان انتہائی ظلم وستم میں گرفتار ہوں گے۔ دین دار پہاڑوں کی گھاٹیوں میں جا کر چھپ چھپ کر اپنے دین کی حفاظت کر رہے ہوں گے ، شہروں اور قصبوں میں ان کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی ۔ نماز روزہ کا تو ذکر کیا رہے گا، بس ظلم وستم غالب ہوگا۔ اس وقت مکہ مکرمہ میں مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوگا۔
اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ ان کے بارے میں اللہ کی طرف سے اعلان کیا جائے گا۔ ایک غیبی آواز پیدا ہوگی کہ ہَذَا خَلِیفَةُ اللَّہِ الْمَہْدِی، فَاسْمَعُوالہ و أَطِیعُوا
․ یہ اللہ کے خلیفہ مہدی ہیں ،ان کی بات سنو اور اطاعت کرو فرمایا گیا اس وقت ابدال شام ،نجبائے عراق اور اقطاب ہند اور تمام اہل اللہ جہاں جہاں ہوں گے سمٹ کر شام میں پہنچیں گے اور شام کو امام مہدی مرکز بنائیں گے اور وہیں جا کر ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔ اور مسلمانوں کی قوت وہاں جمع ہو گی، ان کے ہاتھ پر مغرب اور نصاری کی طاقتیں ٹوٹیں گی، اس کے بعد وہ وقت آئے گا کہ پورے عالم میں دین اسلام پھیل جائے گا اور دوسرا کوئی دین اور قومیت باقی نہیں رہے گی۔ اس کی تفصیلات ہیں ۔ ان میں مجھے نہیں جانا جو مجھے واقعہ سنانا ہے اس کے متعلق جتنی چیز بیان کرنی تھی وہ میں نے عرض کی، گویا امام مہدی کا ظہور مکے میں ہوگا۔ شام کو وہ اپنا مرکز بنائیں گے۔ مسلمانوں کی ساری قوت شام میں سمٹ آئے گی۔ دجال اور مغربی طاقتوں کا مقابلہ ہوگا، ملحمہکبری واقع ہو گا ،یعنی سب سے بڑا جہاد اس زمانے میں ہو گا۔ اور تین معر کے ہوں گے لاکھوں آدمی اس میں قتل ہوں گے۔
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ محاذ جنگ ہی اتنا لانبا ہو گا کہ کوّا اڑے گا۔ کوّے کا اڑان مشہور ہے کہ صبح سے شام تک اڑتا رہتا ہے، تھکتا نہیں ہے تو صبح سے شام تک کوا اڑے گا ، جہاں جہاں وہ جائے گا لاشیں ہی لاشیں نیچے پڑی ہوئی ہوں گی۔ اس کو یہ نظر آئے گا۔ اتنا لانبا محاذ ہوگا اور مقتولین کی کوئی حد نہیں ہوگئی ۔ عظیم جہاد ہو گا اس جہاد کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے مجاہدین کو وہ اجر ملے گا جو غزوہ بدر کے مجاہدین صحابہ کو اجر دیا گیا ہے۔
یہ حدیث میں فرمایا گیا ہے، اب میں وہ واقعہ عرض کرتا ہوں جو مولانا رفیع الدین صاحب یہ حدیث سن کر ،ہجرت کر کے، مکہ مکرمہ پہنچے ۔
یہ ان کا ایمان تھا کہ شیبی کا خاندان قیامت تک ضرور رہے گا اور جب مہدی کا ظہور ہو گا جب بھی یہ مکہ ہی میں ہوگا۔ جب مہدی کا ظہور مکے میں ہو گا تو وہ بیت اللہ کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے اور مسلمانوں سے بیعت کریں گے۔ تو بیت اللہ کے دروازے کی کنجیاں شیبی کے ہاتھ میں ہوں گی۔ اس لیے یہ بھی وہاں موجود ہوگا۔ یہ چند کڑیاں ملا کر مولانا رفیع الدین صاحب نے ایک حمائل شریف اور ایک تلوار، یہ دونوں لیں اورامام مہدی کے نام ایک خط لکھا کہ :
”فقیر رفیع الدین دیوبندی مکہ معظمہ میں حاضر ہے اور آپ جہاد کی ترتیب کر رہے ہیں۔ مجاہدین آپ کے ساتھ ہیں، جن کو وہ اجر ملے گا جوغزوہ بدر کے مجاہدین کو ملا تو رفیع الدین کی طرف سے یہ حمائل تو آپ کی ذات کے لیے ہدیہ ہے اور یہ تلوار کسی مجاہد کو دے د یجیے کہ وہ میری طرف سے جنگ میں شریک ہو جائے اور مجھے وہ اجرمل جائے جوغزوہ بدر کے مجاہدین کو ملا “
یہ خط لکھ کر کے تلوار اور حمائل شیبی کے سپرد کی، جو ان کے زمانہ میں شیبی تھا اور کہا کہ تمہارا خاندان قیامت تک رہے گا اور مہدی علیہ السلام کے ظہور تک یہ امانت ہے ۔تم جب انتقال کر و توجو تمہارا قائم مقام ہو اسے وصیت کر دینا اور اس سے یہ کہہ دینا کہ جب اس کا انتقال ہو وہ اپنی اولاد کو وصیت کرے کہ رفیع الدین کی یہ تلوار اور حمائل شریف خاندان میں چلتی رہے، یہاں تک کہ مہدی کا ظہور ہو جائے ۔ تو جو اس زمانے میں شیبی ہو وہ میری طرف سے امام مہدی کو یہ دونوں ہدیے پیش کردے ۔ حمائل ان کی ذات کے لیے تحفہ ہے اور تلوار امانت ہے کہ وہ کسی مجاہد کو میری طرف سے دے دیں ،تا کہ جب وہ جہاد میں شریک ہو میری بھی شرکت ہو جائے اور اس اجر میں میں بھی حصہ پالوں …۔
کہاں کی بات انہوں نے سوچی ۔ اس حدیث سے انہوں نے کسی طرح کام لیا کہ اعلیٰ ترین جہاد کے اندر اپنی شرکت کرلی۔
تو واقعہ یہ ہے کہ اللہ والے نیکیوں پر اتنے حریص ہوتے ہیں کہ چاہے ان کا گھر بھر جائے نیکی سے،لیکن انہیں خیال ہو کہ نیکی یہاں سے بھی مل جائی گی جھٹ وہاں بھی پہنچ جائیں گے کہ اسے بھی کیوں نہ سمیٹ لیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ ساری جنتیں ہمارے قبضہ میں آجا ئیں ۔یہ اللہ والوں کا مزاج ہے۔
امام ابی داؤد رحمة اللہ علیہ بہت بڑے محدث گزرے ہیں ،جن کی کتاب ابو داؤد مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ داخل درس ہے۔ ان کے واقعات میں لکھا ہے کہ یہ سمندر کے کنارے کھڑے ہوئے تھے اور سمندر میں جہاز اترا ہوا تھا، کھڑا تھا۔ ایسی گودیاں اس زمانے میں نہیں تھیں جیسی آج بنتی ہیں۔ تو جہاز ایک آدھ فرلانگ کے فاصلے پر کھڑا ہوتا تھا۔ چوں کہ کنارے پر پانی کم ہوتا تھا وہ جہاز کے لیے کافی نہیں ہوتا تھا اور لوگ کشتیوں میں بیٹھ کے جہاز میں جاتے اور سوار ہوتے ۔
ایک جہاز فرلانگ ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر کھڑا ہوا تھا اور امام ابو داؤد سمندر کے کنارے کھڑے ہوئے تھے، جہاز میں کسی شخص کو چھینک آئی۔ اس نے چھینک لے کر زور سے الحمد للہ کہا۔ تو مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی کو چھینک آئے اُسے الحمد للہ کہنا چاہیے اور جس کے کان میں الحمد للہ پڑے وہ جواب میں یرحمک اللہ کہے اس شخص نے الحمد للہ اس زور سے کہا کہ امام ابوداؤد کے کان میں آواز آئی ۔ اب ان کا جی چاہا کہ میں شریعت کی اس چیز پر عمل کروں اور یرحمک الله کہوں، تا کہ مجھے ثواب ملے، حالاں کہ مسئلہ یہ ہے کہ چھینک لینے والے کو الحمد للہ کہنا واجب ہے، جب کہ اس مجلس میں وہ موجود ہو اور اس کے کان میں پڑ جائے کہ اس نے الحمد للہ کہا ہے۔ وہ یرحمک اللہ کہہ کر جواب دے۔ یہ نہیں ہے کہ مسجد میں ایک شخص کو چھینک آئے اور دوسرا شخص بازار میں جا رہا ہو اور وہ جواب دینے کے لیے مسجد میں آجائے۔ ایک مجلس کا مسئلہ ہے، مجلس سے خارج کا نہیں ہے تو امام ابوداؤد پر واجب نہیں تھا کہ وہ جواب دیں ۔ اس لیے کہ چھینک لینے والا ایک فرلانگ پہ ہے اور یہ یہاں وہ جہاز پر ہے۔ یہ کنارے پر ہیں۔ مجلس بھی ایک نہیں، جگہ بھی ایک نہیں، بیچ میں سمندر حائل، مگر وہی بات ہے کہ نیکی کی حرص ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح کمالیں ،اس نیکی کوبھی کیوں چھوڑیں۔
امام ابی داؤد کی آواز اتنی اونچی تو تھی نہیں کہ یہاں کنارے سے یرحمک اللہ کہیں تو اس کے کان میں پہنچے، چھینک لینے والے کی آواز اتنی بلند تھی کہ اس نے الحمد للہ کہااس کی آواز یہاں پہنچ گئی تو تین درہم میں کرائے کی کشتی لی اور اس کشتی میں بیٹھ کر ڈیڑھ فرلانگ کا سفر کر کے جہاز میں پہنچے اور جہاز میں اوپر چڑھ کے کہا۔ یرحمک اللہ، یہ گویانیکی کمائی ۔ مورخین لکھتے ہیں کہ جس وقت انہوں نے جا کر یرحمک اللہ کہا۔ غیب سے ایک آواز آئی ،پیدا ہوئی، کہنے والا نظر نہیں آیا تھا۔ آواز یہ آئی کہ :
اے ابی داؤد!آج آپ نے تین درہم میں جنت خرید لی ۔
یہ آواز کان میں پڑی، معلوم نہیں کس خلوص سے یرحمک اللہ کہا۔ حالاں کہ امام ابی داؤد محدث ہیں۔ جانے کتنی انہوں نے حدیثیں لکھیں اور کتنا اجر کمایا، کتنے نوافل اور تہجد پڑھے ہوں گے ، کتنے صدقات دیے ہوں گے، لیکن جنت کی خریداری کے وقت اس حقیر سے عمل کا ذکر کیا کہ تین درہم کی کشتی کرائے پر کرا کر یر حمک اللہ کہہ د یا۔
اس سے اندازہ ہوا کہ عمل کی مقبولیت اس کی صورت سے نہیں ہوتی، بلکہ اس کی حقیقت سے ہوتی ہے۔ اخلاص جتنا غالب ہو ، چاہے عمل چھوٹا ہو، مگر اخلاص سے وزن پیدا ہو جاتا ہے ،وہ مقبول ہوتا ہے۔ لمبا چوڑا عمل ہو، اخلاص ندارد ۔ قبولیت کی شان نہیں پیدا ہوتی ۔ توامام ابی داؤد نے معلوم نہیں کس خلوص سے یرحمک اللہ کہا ہو گا۔ اتباع سنت کے کس جذبے سے گئے ہوں گے کہ یہ ایک عمل اتنا غالب آگیا کہ نہ تہجدوں کا ذکر آیا، نہ صدقات کا ذکر آیا تواس عمل کا آیا کہ تین درہم میں آپ نے جنت خرید لی۔غرض یہ لوگ دین کے اندر بے حد حرص رکھتے ہیں ،کمانا اتنا جانتے ہیں کہ گویا ہر وقت کماتے ہی رہتے ہیں۔ ہم دکان پر بیٹھ کے کماتے ہیں۔ یہ چلتے ہوئے الگ ، بیٹھتے ہوئے الگ، سوتے الگ، اور گھر میں الگ کمائیں ۔ غرض ہر جگہ ثواب کمانے کی فکر رہتی ہے۔
ہمارے حضرت حاجی امداد اللہ قدس اللہ سرہ جو شیخ الطائفہ ہیں، گویا تمام اہل دیوبندکے مرشد ہیں ،حضرت مولانا نانوتوی اور حضرت گنگوہی کے مرشد ہیں۔ ان کا عمل کیا تھا ؟ حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ آدمی جب گھر سے مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے چلتا ہے تو ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے ۔ ایک بدی مٹائی جاتی ہے۔ اور یہ بھی دوسری حدیث میں فرمایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے سوال فرمایا کہ لوگو!جانتے ہو کہ درجات کن کن چیزوں سے بلند ہوتے ہیں اورکفارات کن کن چیزوں سے ہوتے ہیں کہ گناہ مٹا دیے جائیں ؟
عرض کیا ۔ اللَّہُ وَ رَسُولہ اعلم اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔ منجملہ اور چیزوں کے فرمایا کَثرَةُ الْخُطَاء ِ إِلَی الْمَسْجِدِمسجد
کی طرف جتنے زیادہ قدم پڑیں گے اتنا ہی گناہوں کا کفارہ ہوگا۔ اتنے ہی درجات بلند ہوں گے، تو ایک طرف یہ حدیث ہے کہ جتنے قدم زیادہ ہوں گے نیکیاں بڑھیں گی۔ بدیاں گھٹیں گی ۔ اور دوسری طرف وہ حدیث ہے کہ ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ اور ایک بدی مٹائی جاتی ہے۔
ہمارے حضرت حاجی امداد اللہ صاحب قدس اللہ سرہ کا یہ عمل تھا کہ اگرمسجد کو دور استے جاتے ہوں۔ ایک ذرا لانبا اور ایک چھوٹا ہو تو لانبا راستہ اختیار کرتے تھے ،تا کہ قدم زیادہ پڑیں ، نیکیاں زیادہ لکھی جائیں اور بدیاں زیادہ مٹائی جائیں ۔
اور اس میں بھی یہ کرتے تھے کہ لمبار استہ اختیار کر کے چھوٹے چھوٹے قدم ڈالتے تھے۔لانبی لانبی گرہیں نہیں ڈالتے تھے ، اس لیے کہ حدیث میں کثرة الخطاء فرمایا گیا ہے کہ قدموں کی کثرت مطلوب ہے ۔ یہ نہیں کہاگیا کہ چھوٹے قدم ہوں یا بڑے قدم ہوں ،اس کی کوئی قید نہیں لگائی گئی ۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر میں چھوٹے قدم ڈالوں ،شریعت نے مجھے نہیں روکا، یعنی اگر بیس قدم سے راستہ طے ہوتا چالیس قدم سے طے کرتے تھے ،تا کہ چالیس نیکیاں ملیں ۔
یہ جب ہوتا ہے کہ دل میں ایک لگن لگی ہوئی ہو کہ مجھے نیکی کمانی ہے ،بالکل ہمیں اپنے اوپر قیاس کر لینا چاہیے کہ ہمارے دل میں ایک لگن ہوتی ہے کہ کسی طرح ہم پیسہ کمائیں ، تجارت، زراعت ، ملازمت کے ذریعے کسی طرح کمائیں۔ چوبیس گھنٹے آدمی دماغ لڑاتا رہتا ہے کہ مال کس طرح سے فراہم کروں ، اگر مال میں کمی ہو جائے تو کس طرح سے بڑھاؤں، ڈیزائن ختم ہو جائے تو کس طرح سے پورا کروں کہ کمی نہ ہونے پائے۔ گاہک آئے ،میں یوں نہ کہوں کہ اس وقت مال نہیں ہے۔ تو تاجر ہر میل رکھتا ہے ،تا کہ گاہک کو جواب نہ دینا پڑے ۔
گاہکوں کی اگر کثرت ہے ۔ مثلاً پچاس ہوں تو سوگا ہگ کا مال رکھے گا کہ اگرایک دم سو گاہک آجائیں تو مجھے انکار نہ کرنا پڑے۔ حالاں کہ اگر وہ انکار کرتا اور سو کی بجائے پچاس کو دے ، روٹی تو تب بھی چلے گی، مگر وہ تو جذ بہ ہوتا ہے کہ مال بڑھے، پیسہ بڑھے ،ایک لگن لگی ہوتی ہے بس ٹھیک اسی طرح سے ان لوگوں کے دل میں لگن ہوتی ہے کہ نیکی بڑھے ، حالاں کہ نجات کے لیے اتنی نیکیاں بھی کافی ہیں جتنی اب تک تھیں ، مگر یہ چاہتے ہیں کہ اور اضافہ ہو ، درجات ملتے رہیں، کسی مرتبے اور درجے پر آکر رکتے ہی نہیں ۔ ان کے دل میں ہوس ہوتی ہے ۔
اس سے اندازہ کر لینا چاہیے کہ حرص و ہوس کوئی بُری چیز نہیں، مصرف اس کا صحیح غلط ہوتا ہے۔ حرص بہت بڑی چیز ہے ، اس کو ہم برا نہیں سمجھتے۔ حرص سے انسان کا حوصلہ کھلتا ہے ۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں :اگر ہم ایک جنگل بھر کر بنی آدم کو سونے کا دے دیں تو یہ ہم سے دوسرا مانگے گا۔
معلوم ہوا ، اتنا بڑا حوصلہ ہے کہ پوری دنیا کو سونے سے بھر دیں، جب بھی اس کا پیٹ نہیں بھرے گا۔ گویا اس کا پیٹ یعنی حوصلہ بہت بڑا ہے تو حرص بہت بڑی چیز ہے۔ اس واسطے یہ بری چیز نہیں ہے کہ اس کو برا کہا جائے گا۔
ا لبتہ بُرا کس چیز کو سمجھاگیا ؟ اس کو کہ حوصلہ تو اتنابڑا اور اسیچند ٹھیکروں میں گنوادے، اس چیز سے وہ چیز کماؤ کہ جیسے تمہاری حرص کی حد نہیں۔ اس نعمت کی بھی کوئی حد نہ ہو۔ دنیا داری میں اگر ہم نے حرص لگائی تو حرص تو اتنی بڑی کہ دنیا کے ساتھ آخرت بھی سما جائے ۔ اور اسے دنیا کی چیزوں کے اوپر لگا دیا ،دنیا کی چند دن کی عمر ہے، وہ ختم ہو جا ئے گی ۔ حرص تو آگے جا رہی ہے اور دنیا یہیں ختم ہوگئی۔ تو اس جذبے کی ہم نے ناقدری کی کہ الله نے جذبہ بڑا دیا تھا، اس کو حقیر چیز کے اندر ہم نے کھو دیا۔ لیکن اگر اس حرص سے ہم جنت چاہیں تو جیسے ہماری حرص کی حد نہیں، جنت کی نعمتوں کی بھی حد نہیں ۔ مانگو کہاں تک مانگتے ہو۔
﴿وَفِی ذَٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ﴾
یہی موقع ہے جس میں آدمی حریص بنے۔ تو حرص کا جذبہ بُرا نہیں ہے۔ اس کا مصرف ہم نے غلط تجویز کر رکھا ہے ۔ حرص ہمیں وہاں کرنی چاہیے جہاں نعمت کی کہیں انتہا نہ ہو ،وہ الله کے علوم وکمالات ہیں کہ ان کی کہیں حد نہیں یعنی ایک عالم دوسرے عالم کو دیکھ کر حرص کرے کہ اسے سو مسئلے معلوم ہیں، میں ڈیڑھ سو کیوں نہ معلوم کروں؟ اور یہ دوسو جانتا ہے تو میں اڑھائی سو کیوں نہ معلوم کروں ، اس میں حرص کرے۔
اس لیے دونوں اگر حرص کریں گے کہ اسے ڈیڑھ سو معلوم ہوئے، اسے عار آئی کہ یہ مجھ سے بڑھ گیا میں تین سو معلوم کروں گا، پھر اسے عار پیدا ہوئی تویہ کہے گا میں چار سو معلوم کرتا ہوں۔ ساری عمر یہ بڑھتے رہیں ،وہاں کمی نہیں آئے گی۔ اس لیے کہ علم کی کوئی انتہا نہیں، اگر ساری دنیا مل کر حرص کرنے لگے کہ ہمیں علم حاصل ہو جب بھی علم میں کمی نہیں آئے گی۔ تو حرص ایسے موقع پر کرے جہاں کمی نہ ہو، حرص جیسی نعمت کو چھوٹی چیزوں میں گنوا دیا جائے ، اسے پسند نہیں کیا گیا۔ یہاں تو ضرورت پورا کرو اورحرص کے جذبے کو آخرت، علم اور معرفت کے ساتھ لگاؤ، تاکہ کہیں بھی تم رک نہ سکو، ان اہل اللہ نے دانش مندی سے کام لیا کہ اپنے اس حرص کے جذبے کو نیکی اور اجر کمانے کے اندر لگایا کہ جیسے ہماری حرص کی حد نہیں نیکی کی بھی حد نہیں۔ ہم نے حرص کو ان چیزوں کے اندر لگادیا وہ چند دن کے بعدختم ہو جانے والی ہیں اور حرص آگے تک چلے گی تو اس کا پیٹ نہیں بھرے گا اور آخرت میں پیٹ بھر سکتا ہے، اس لیے یہ لوگ چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو چھوڑنا نہیں چاہتے ۔ تو ہمارے حاجی امداد اللہ صاحب رحمة اللہ علیہ، مسجد کے دو راستے ہوتے تو طویل راستے کو اختیار کرتے۔ مختصر راستے کو اختیار نہ کرتے اور طویل راستے میں بھی قدم کثیر رکھتے، تاکہ قدم بڑھ جائیں۔ یہ وہی حرص تھی کہ جتنی نیکیاں کما سکیں ۔
نبوت ضعفاء کو بلند کرتی ہے
بہر حال ایک ملوکیت اور ایک نبوت ہے ۔ ملوکیت دولت اور اقتدار کی مالک ہوتی ہے، مادی چیزیں قبضے میں ہوتی ہیں۔ اور نبوت روحانی نعمتوں، علم، معرفت، کمالات خداوندی اورقُرب الٰہی وغیرہ کی مالک ہوتی ہے، ابنیاء علیہم السلام کے مزاج میں رافت، نرمی ، محبت اور ترس کھانا ہوتا ہے۔ جتنا زیادہ غالب ہوں گے اتنا زیادہ رحم وکرم ان میں اور بڑھتا رہے گا اور مادّی اقتدار کے اندر رقصہبرعکس ہوتا ہے ،چوں کہ اقتدار محدود ہے، خواہ بادشاہ کا ہو۔ اُسے ڈر ہوتا ہے کہ دوسرا نہ چھین لے، میرے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ تو وہ شک کے اُوپر بھی دوسروں کی راہیں بند کرنا شروع کر دیتا ہے کہ یہ کہیں آنے نہ پائیں کہ میرے اقتدار میں کمی آجائے۔
تو نبوت اور ملوکیت میں یہی فرق ہے کہ ملوکیت تعدی اور زیادتی کی طرف چلتی ہے اور نبوت رحم دلی اور مہربانی کی طرف چلتی ہے۔
بادشاہت میں اگر کوئی برسر اقتدار سامنے آئے اس کو گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر کوئی کم زور ہو اُسے دبانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ابھر نے نہ پائے اور انبیاء علیہم السلام کم زوروں کو اُبھارتے ہیں۔ جو زور آور ہوا سے اعتدال پر رکھتے ہیں، اسی واسطے جو زیادہ ضعیف ہو گا اس پر انبیا علیہم السلام کا لطف و کرم زیادہ مبذول ہوگا۔
دنیا کی اقوام نے عورت کی تذلیل کی اور اسلام نے اسے مقام بخشا
مثلاً: مثال کے طور پر میں عرض کرتا ہوں کہ عورت بہت زیادہ کم زور صنف ہے۔ مردکو اللہ پاک نے قوت بخشی ہے۔ عورت میں وہ قوت نہیں ہے۔ نہ معنوی قوت اتنی ہے نہ ظاہری۔ بدن کے اعتبار سے بھی عورت بنسبت مرد کے کم زور ہے، اور اندرونی قوتوں عقل و فراست دونوں کے لحاظ سے بھی مردسے کم زور ہے ۔ تو یہ ایک ناتواں اور ضعیف صنف ہے۔ اسلام نے اس کو اتنا اُبھارا ، اتنا سہارا دیا کہ اسے احساس نہ پیدا ہومیں کم زور ہوں۔ شروع سے اُبھارنا شروع کیا۔
عورت پر تین ہی حالتیں گزرتی ہیں۔ ایک اس کا بچپن ہے، جب وہ اولاد کے درجے میں ہوتی ہے۔ ماں باپ سر پرست ہوتے ہیں۔ دوسرا درجہ جوانی کا ہے، جب اس کا نکاح ہو جاتا ہے تو خاوند کے ماتحت آجاتی ہے۔ اور تیسری حالت یہ ہے کہ اس کی اپنی اولاد سامنے ہو ۔ تو ایک خود بیٹی ہے اور ایک بیٹوں کی ماں بن جائے اور ایک خاوند کی بیوی بنے ۔ ان تینوں حالتوں کے اندر اسلام نے اسے اُبھارا ہے۔ جب وہ خود بیٹی ہو تو حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ لڑکے تمہارے حق میں نعمتیں ہیں ان پر شکر کرو۔ اور لڑکیوں کے بارے میں کہا گیا کہ یہ تمہاری نیکیاں ہیں۔ گویا نعمت کے اُوپر شکر واجب ہے، کفران نعمت کرو گے سزا ملے گی اور لڑکی کو کہا گیا کہ یہ باپ کی حسنات داخل ہے۔ نیکیاں جنت میں پہنچاتی ہیں تو یہ تمہیں جنت میں پہنچانے کا ذریعہ بنیں گی ۔ اس لیے لڑکی کے اُوپر محبت و شفقت زیادہ مبذول کی گئی تاکہ لڑکوں کی نسبت لڑکیوں پر ماں باپ زیادہ شفقت کریں۔
اندازہ کیجیے لڑکوں کو نعمت اور لڑکیوں کو نیکی کہا گیا۔ تو جیسے ہر نیکی پر توقع ہوتی ہے کہ اجر ملے گا تولڑکی کے ہونے پر اجر ملے گا۔ لڑکے اگر دس بھی ہوجائیں اس پر اجر کا کوئی سوال نہیں۔ شکر کرو گے تو ٹھیک ہے۔ نہیں کروگے توگردن نپے گی۔ اور لڑکی اگر ہوگئی۔آ دمی شکر نہ کرے، لیکن خود اس کا ہو جانا ایک مستقل نیکی ہے ۔ نامہ اعمال میں اجر لکھا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اولاد میں گویا ماں باپ کے اوپر اس درجے میں احسان ہے کہ ان کے نامہ اعمال کو اس نے نیکیوں سے بھر دیا اور شریعت کا منشا یہ ہے کہ شفقت و رحمت لڑکی کے اوپر زیادہ مبذول ہونی چاہیے۔ غرض جب وہ بیٹی ہے تو شریعت نے اس کے ساتھ یہ برتاؤ کیا۔
اور جب وہ منکوحہ ہو کر خاوند کے تحت آئی، پھر شریعت نے یہ بتلایا کہ:” إِنَّ أَکْرَمَ الْمُؤْمِنِینَ أَحْسَنُکُمْ أَخْلَاقَا الْطَفَکُمْ أَہْلاً“
تم میں سے زیادہ قابل تکریم مسلمان وہ ہے کہ اس کے اخلاق پاکیزہ ہوں اوربیویوں کے ساتھ لطف و محبت کرے ، سخت دلی کا برتاؤ نہ کرے، تنگی اور سختی سے پیش نہ آئے۔ اگر ان سے کوئی زیادتی بھیہو توصبر وتحمل سے کام لے ۔ تو جب بیوی ہونے کی حالت ہے تو خاوند کو متوجہ کیا کہ یہ تیری سب سے زیادہ شفقت و محبت کی مستحق ہے۔
اور اس کی اپنی اولاد ہو جائے ۔ یعنی ماں بنے تو حدیث میں فرمایا گیا کہ اولاد کے لیے ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ جتنی ماں کی اطاعت کرے گا ، جنت اس کے قریب ہوگی ،جتنی ماں کی نافرمانی کرے گا، اتنی جنت بعید ہوگی، اللہ کی رحمت سے دور ہوتا جائے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے سر پر حق تعالیٰ کی رحمت مبذول ہوتی ہے کہ اگر اولاد ماں کے قریب ہو جائے تو رحمت قریب ہو جاتی ہے ۔
اور یہ کیسے لطف کے ساتھ فرمایا۔ یوں بھی فرما دیتے کہ عورت (ماں) کے ہاتھ کے نیچے یانگا ہوں کے نیچے جنت ہے۔ یہ نہیں فرمایا، فرمایا قدموں کے نیچے جنت ہے۔ گویا مطلب یہ ہے کہ قدم سب سے زیادہ کم درجے کی چیز ہوتی ہے۔ انسان کے بدن میں سب سے زیادہ کم رتبہ قدم ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ بارُتبہ سر ہوتا ہے ۔ ا ولاد کو یہ تنبیہ کی گئی تیرے حق میں اس کے قدم بھی بہت اونچا مرتبہ رکھتے ہیں۔ اگرتوان قدموں کے اُوپر ہاتھ رکھے گا تو جنت کو اس کے قدموں میں پائے گا ،گویا انتہا درجے کی تکریم کی
عورت اقوام دنیا کی نظر میں
اور یہ اس لیے کہ دنیا کی اقوام نے عورت کو ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اسلام سے پہلے ایک زمانہ تھا جب کہ یہود کا غلبہ تھا۔ اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان کے مذہب کی چیز تھی یا نہیں تھی۔ غالب گمان یہ ہے کہ مذہب کی چیز نہیں تھی ، قومی قانون بنایا گیا تھا، اس قومیت کے قانون کے تحت یہ چیز تھی اور یونانیوں میں سب سے زیادہ تھی۔
وہ یہ کہ عورت پر ماں باپ کو اتنا استحقاق حاصل ہے کہ اسے چاہے باپ قتل کر دے، چاہے اسے زندہ دفن کر دے، حتی کہ مشرکین مکہ میں بھی یہ رسم رائج تھی کہ عورت کو زندہ دفن کرتے۔ گویا اس زمانے کے قانون نے انہیں یہ حق دیا تھا کہ اگر لڑکی کا گلا گھونٹ کر یا زندہ کو قبرمیں ڈال دو، کوئی رکاوٹ ڈالنے والا نہیں، کوئی عدالت انہیں سزا نہ دے سکتی۔ یونانیوں کے ہاں یہ قانون تھا کہ خاوند جب کسی عورت سے نکاح کر لیتا تھا تو عورت باندی سے بھی کم رتبہ ہوتی تھی۔ ذراسی کو تاہی اور نافرمانی پر اسے حق تھا کہ عورت کی گردن مارے اور قتل کردے۔ انتہا سے زیادہ سزا تھی ، یہاں تک کہ اگر عورت سے کوئی برائی ثابت ہو جائے تو گھوڑے کی ٹانگ میں رسی باندھ کر رسی کا ایک سرا عورت کی گردن میں باندھا جاتا تھا اور خاوند گھوڑے پربیٹھ کر اسے دوڑاتا تھا اور وہ بے چاری گھسٹتی جارہی ہے اورلہو لہان ہو رہی ہے۔ عورت سے یہ سلوک کر رکھا تھا۔ اسلام نے آکر عورت کا رُتبہ بلند کیا۔
اور یہ تو وہ زمانہ تھا جس کو جہالت کا زمانہ کہا جاتا ہے ۔ آج تمدن کا زمانہ ہے ،ابھی تقریبا ًدس پندرہ سال کا عرصہ ہوتا ہے، اخبارات میں خبر چھپی تھی کہ یورپ میں ایک کا نفرنس منعقد ہوئی کہ اس پر غور کیا جائے کہ عورت کی حیثیت کیا ہے ؟ یعنی آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ عورت کی حیثیت و پوزیشن کیا ہے ؟ اور اس کے ساتھ کیا برتاؤ ہونا چاہیے ؟
مختلف ممالک کے نمائندے جمع ہوئے ،جنہوں نے اس پر غور کرنا شروع کیا کہ اس کی پوزیشن کیا ہے ؟ اور اس کے ساتھ کیا برتاؤ ہونا چاہیے؟ مختلف رائیں ہوئیں، بعض ملکوں کے نمائندوں نے کہا کہ ہماری رائے یہ ہے کہ عورت انسا نیت میں ہی داخل نہیں ہے، انسان نام فقط مرد کا ہے ، عورت کا نام نہیں ہے۔ یہ کوئی اور جنس ہے، جو مرد کے رحم و کرم پر ہے۔ یہ ایک ملک والوں نے رائے دی۔ پھر آراء میں اختلاف ہوتا رہا،بالآخراس پر سب کا اتفاق ہوگیا کہ عورت مرد کی تفریح کا ایک آلہ ہے ،کھلونا ہے کہ اس سے تفریح کر سکتا ہے، اس سے زیادہ کوئیخاص پوزیشن عورت کی نہیں ہے، اس تفریح کی وجہ سے قدر کرتے ہیں ۔ عورت کے مرتبے کی وجہ سے قدر نہیں کرتے۔ چوں کہ اپنی غرض متعلق ہے، اس واسطے اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ آلہ تفریح ہے، اس لیے اس کو سجاتے ہیں ۔ جیسے لڑکیاں جب گڑیوں سے کھیلتی ہیں تو دلہن کو بڑے اچھے اچھے کپڑے پہناتی ہیں۔ اس کو زیور بھی پہناتی ہیں۔ اور بعض بے وقوف جب ان کی آپس میں شادیاں کرتی ہیں تو دس دس روپے کا جہیز بھی اُسے دیتی ہیں ۔
یہ اس لیے نہیں ہوتا کہ ان کے دل میں گھڑیا کی کوئی وقعت ہے۔ وہ تو ایک کھلونا ہے، اپنی تفریح طبع کے لیے اس گڑیا کو لباس پہنا کے سجا دیتے ہیں۔ چوں کہ عورت بھی تفریح کا آلہ ہے ، اس لیے اس کو سجا دیا ۔ زیور پہنا دیا۔ ورنہ اس کا کوئی خاص حق نہیں ہے۔
خاوند بیوی بلحاظ حقوق مساوی ہیں
لیکن اسلام نے آکر ان کے برخلاف عورتوں کو حقوق دیے اور فرمایا:﴿وَلھن مِثْلُ الَّذِی عَلَیْہِِنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾
جو عورت پر خاوند کے حقوق واجب ہیں وہی خاوند پر عورت کے حقوق واجب ہیں ۔ وہ حقوق میں کمی کر دے گا اس کو سزادی جائے گی۔ عورت کرے گی اسے سزا دی جائے گی۔
تو زوجین میں نکاح کے بعد ازدواجی زندگی میں دونوں کا رتبہ حقوق کے لحاظ سے برابر قرار دیا۔ یہ الگ چیز ہے کہ عورت کی عقل میں چوں کہ نقصان یا کم زوری ہے، اس واسطے اس کو زیر تربیت رکھا ، تو یہ منصب کی بات ہے، لیکن حقوق کے درجے میں دونوں کو برابر قراردیا کہ عورت کے اُوپر مرد کے حقوق ہیں تو عورت کے بھی ہیں۔
اگر عورت نافرمانی کرے تو مرد کو طلاق کا مالک بنایا گیا ہے ۔ اگر مرد زیادتی کرے تو عورت کو خلع کا مالک بنایا گیا ہے۔ اگر اسلامی حکومت ہو تو وہ عدالت میں قاضی کے ہاں درخواست دے سکتی ہے کہ میں خاوند کے ساتھ نباہ نہیں کرسکتی۔ نان و نفقہ خاوند پر واجب ہے، وہ ادا نہیں کرتا، حکومت اس کے اوپر جبر کرے گی اور اگر بالکل علیحدہ ہونا چاہے تو علیحدہ بھی ہو سکتی ہے، جس کو خلع کہتے ہیں۔ وہ یہ کہ وہ قاضی کے ہاں درخواست کرے گی ،قاضی خادند کو بلا کر اس سے مواخذہ کرے گا، کیوں نہیں تم نے حقوق ادا کیے ؟ اگر اس نے جواب کچھ معقول دیا فبھا ورنہ قاضی کہے گا نکاح فسخ کردے۔ یہ تیرے پاس نہیں رہنا چاہتی۔ اگر فسخ نہیں کرے گا تو قاضی عورت کو طلاق دے دے گا اور طلاق واقع ہو جائے گی تو اس خلع کا مالک عورت کو بنایا گیا ہے۔ غرض اگر ایک طرف طلاق کی ملکیت مرد کے لیے رکھی تو خلع کی ملکیت عورت کے لیے رکھی ۔ وہ مجبور ہوکر جدا ہونا چا ہے ، ہو سکتا ہے۔ یہ چاہے یہ بھی ہو سکتی ہے۔ معلوم ہوا کہ حقوق کے درجے میں مساوی قرار دیا۔
بعضی چیزیں عورت اخلاقاً انجام دیتی ہے اور بعضی چیزیں مرد بھی اخلاقاً انجام دیتا ہے، لیکن عورت کے لیے واجب نہیں ہے ،جیسے مثلاً دودھ پلانا ہے، عورت کے ذمے واجب نہیں ہے۔ وہ مرد سے کہہ سکتی ہے کہ تو خرچ کرکے دودھ پلا ،میں دودھ نہیں پلاسکتی۔ عورت اولاد کے کپڑے سیتی ہے لیکن اگر وہ خاوند سے کہے درزی سے سلواؤ، میرے ذمے واجب نہیں ہے تو خاوند ہر گز مجبورنہیں کرسکتا۔ بہر حال شریعت اسلام میں اس قسم کی چیزیں رکھی گئی ہیں کہ اگر اس کے حقوق ہیں تو اس کے بھی حقوق ہیں ۔ یہ اسلام ہی نے اس کو اُبھارا ۔ تنگ دست اور نازک صنف کو اُبھارا،جس کو دنیا کی اقوام نے پامال کردیا تھا۔
غرض جاہل اقوام نے اس پر یہ حقوق جتلائے کہ اس کی گردن مار سکتے تھے ۔ اس کو ایذائیں پہنچا سکتے تھے اور متمدن اقوام یہاں تک پہنچیں کہ وہ تفریح کا ایک کھلونا ہے، اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں۔ اسلام نے کہا کہ کھلونا نہیں، بلکہ خانگی زندگی میں برابر کی حق دار ہے، جس طرح کہ خاوند کے انتقال کے بعد اس کی اولاد وارث ہوگی ، دوسرے اس کے وارث ہوں گے ، عورت کو وراثت پہنچے گی۔ جس طرح سے عورت کے انتقال کے بعد خاوند کو وراثت میں حصہ ملتا ہے ۔ عورت کو بھی خاوند کا وارث قرار دیا گیا۔
﴿وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾
جتنے عورتوں پر خاوندوں کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ اتنا ہی خاوندوں کے اوپر بھی عورتوں کے حقوق عائد ہوتے ہیں۔ برابری اس حد تک رکھی گئی ہے کہ عورت کوئی باندی اورمملوک نہیں، بلکہ شریک زندگی اور شریک حیات ہے، میرے عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کا خاص اصول ہے کہ کم زوروں کو اُبھارتا ہے ،دبتے کو دباتا نہیں بلکہ دبے ہوئے کو اُونچا کرنا چاہتا ہے۔ کم زوروں کو دباتا نہیں، بلکہ اُونچا بنانا چاہتا ہے ،سب سے زیادہ کم زور صنف عورت تھی۔ اسلام نے اس کے او پر انتہائی رحم و کرم کیا کہ جب وہ بیٹی ہونے کی حالت میں ہے تو ماں باپ کی نیکیوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ جب وہ منکوحہ بنی ، توخاوند سے کہا گیا تو قابل تکریم تب بنے گا جب عورت کے ساتھ نرمی اور مدارت کا برتاؤ کرے۔ جب وہ ماں بن گئی تو اولاد سے کہا جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے ۔ اگر قدم پر ہاتھ رکھے گا تو جنت کو قریب پائے گا ، اگر تو نے ماں کو ستایا تو جنت قریب نہیں ہوگی ، آخرت میں نجات نہیں ہوگی، یعنی باپ سے زیادہ ماں کا حق قائم کردیا۔ باپ کے بھی اولاد کے اوپر حقوق ہیں، لیکن ماں کے حقوق اس سے زیادہ ہیں ۔(جاری)