ماہ رمضان کے شاہانہ تحفے

idara letterhead universal2c

ماہ رمضان کے شاہانہ تحفے

مولانا حبیب الله بستوی

روزے

روزہ نام ہے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک ہر ایسی چیز سے رکنے اور باز رہنے کا کہ جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، انسان کے اندر اللہ رب العزت نے ملی جلی دو صفتیں ودیعت رکھی ہیں، جن کی وجہ سے وہ اوامر ونواہی کا مکلف قرار پایا ہے اور جزاوسزا اس کے کھاتے کی چیز بنائی گئی ہے، ان ہی میں سے ایک صفت ”مَلکیت“ ہے، یعنی اسے فرشتوں کے اوصاف و اخلاق سے بھی حصہ ملا ہے، جو اسے امور خیر پر آمادہ کرتا ہے، طاعات و عبادات کی طرف راغب کرتا ہے نواہی سے متنفر اور منکرات سے بیزار و باز رکھتا ہے اوردوسری صفت ”بہیمیت “ہے، جو حیوانات میں پائی جاتی ہے، جو سراپا خواہش نفس اور سر تا پا شہوت رانی و خودغرضی اور من مانی زندگی گزارنے سے عبارت ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ملکوتی صفات کو اجاگر کرنے اور بہیمیت پر غالب کرنے کی خاطر اپنے مومن بندوں کے لیے ایک ماہ کے روزے فرض فرمائے، تا کہ میرے بندے صبح سے شام تک (پورے دن ) میرے معصوم بندوں (فرشتوں)کی مشابہت اختیار کیے رہیں اور سال بھر کی بہیمیت کا زور دب کر رہ جائے اور ان میں میری عنایات خاصہ اور انعامات نفسیہ کے تحمل کی استعداد ا ہو جائے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے عشرہ اول کو رحمت بنا کر، عشرہ ثانی میں مغفرت کا مستحق بنا دیا اور پھر عشرہ آخر میں جہنم سے آزاد ہونے کا مژدہ اور خوش خبری سنا دی اور یہ فرمایا گیا کہ یہ ماہ مبارک پا کر بھی جس نے اپنی بخشش و مغفرت نہ کر الی، یعنی اس نے اس کی قدر کر کے اپنے کو بخشش و مغفرت کا اہل اور مستحق نہ بنالیا اور اس کی مغفرت نہ ہوئی تو ایسا شخص محروم ونا مراد اور بڑا بد نصیب ہے۔

حاصل یہ ہے کہ شکم پروری و شکم سیری جوبہیمیت کا خاصہ اور اصل روح ہے، اس میں اعتدال پیدا کیا جائے کیوں کہ یہی چیز برائیوں پر آمادہ کرتی ہیشہوت کو بھڑکاتی ہے اور خواہش نفس کو تحریک دیتی ہے ۔امام غزالی فرماتے ہیں کہ روزے کا اصل مفہوم یہ ہے کہ پیٹ خالی رہے اور نفس کی خواہشات ختم ہو جائیں اور اس سے مقصود یہ ہے کہ روزہ دار کے نفس میں تقویٰ پیدا ہواور اس کی اصل روح یہ ہے کہ برائیوں کے تقاضے کم زور پڑ جائیں اور شیطانی حربے بے کار ہو جائیں ۔(احیاء العلوم اردو،ص:597) صاحب رحمة اللہ الواسعہ معارف الحدیث سے نقل کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ ارشاد خداوندی ہے ، اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں،جس طرح تم سے پہلی اُمتوں پر فرض کیے گئے تھے، تا کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔ اس جملے﴿ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ﴾ میں روزے کی حکمت کا بیان ہے، یعنی اس حکم کا مقصد یہ ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو، روزہ رکھنے سے عادت پڑے گی نفس کو اس کے متعدد تقاضوں سے روکنے کی اور وہی بنیاد ہے تقویٰ کی۔ (ج4،ص:103 )اور مزید لکھتے ہیں کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب قدس سرہ نے روزوں کی اسی حکمت پر دو پہلوؤں سے کلام کیا ہے، ایک تو اس جہت سے کہ روزوں کی ریاضت سے بہیمیت کا زور ٹوٹتا ہے اور ملکیت کو اپنا جو ہر دکھانے کا موقع ملتا ہے، دوسری جہت یہ ہے کہ دیگر عبادات کی طرح روزوں کے ذریعہ بھی بہیمیت کو ملکیت کا تابع دار و فرماں بردار بنانا مقصود ہے اور جب وہ رام ہو جاتی ہے تو اس کی طرف سے کوئی اندیشہ باقی نہیں رہتا اور آدمی پاک بازی کی راہ پر بے خطر گام زن ہو جاتا ہے، یہی تقوی کی بنیاد ہے۔ (ج4 ص:104)

فضائل و برکات

ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس نے رمضان کے روزے نیت وعزم یعنی اس کی فرضیت کی تصدیق اور خوش دلی و خندہ روئی کے ساتھ اجر وثواب کی رغبت و خواہش کرتے ہوئے رکھے، تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ ( بخاری و مسلم )

اور ایک روایت میں اس کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ جب ماہ رمضان المبارک آتا ہے تو جنت و رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیا طین بیڑیوں میں جکڑ دیے جاتے ہیں ۔ ( بخاری و مسلم)

اور ایک روایت میں یہ آیا ہے کہ ہر نیکی کا اجر دس سے لے کر سات سو گنا تک ہوتا ہے، مگر روزہ تو ایسا مبارک و پسندیدہ عمل ہے کہ اس کے اجر و ثواب کی کوئی حد ہی مقرر نہیں، وہ میرے(الله) لیے ہے اور میں ہی ان کا بدلہ اور اجر وصلہ دوں گا ۔ ( بخاری و مسلم )

اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جنت میں ریان نامی ایک مخصوص دروازہ ہے، اس دروازے سے صرف روزہ دار لوگ ہی داخل ہوں گے ۔ ( بخاری و مسلم )

بلا عذر روزہ نہ رکھنے کا وبال

کتنی بڑی محرومی اور بدنصیبی ہے کہ اللہ رب العزت نے تو ہمارے اوپر انعام و اکرام، بخشش ونوازش، مغفرت وعنایت کی بارش برسانے کے لیے ماہ رمضان جیسا مبارک مہینہ عطا کیا اور اس میں روزے فرض فرمائے اور ہم اپنی کوتاہ دستی اور تنگ دامنی اور کسل دستی کی وجہ سے اس موقع کو ہاتھ سے گنوادیں، ایکتو ہم سال کے گیارہ مہینے جرم پہ جرم کیے جاتے ہیں، نافرمانی و معصیت کا انبار لگا دیتے ہیں اور پھر جب اکرم الاکرمین پروردگار، عالی جاہ و عالی مرتبت کے دربار سے رمضان کے روزوں کی شکل میں ہمیں عظیم تحفے سے نوازا جاتا ہے تو ہم اسے ٹھکرا دیتے ہیں، بھلا بتائیے! ایک تو ہزار ہاجرموں کے مرتکب و مجرم اور پھراس کے اوپر سے شاہی انعام سے بے اعتنائی اور ٹھکرا دینا! ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیے کہ ایسا کرنا کتنا عظیم جرم اور سنگین معاملہ ہے، شاید اسی کے پیش نظر ایک روایت میں یہاں تک مذکور ہے: جس نے بلا عذر رمضان المبارک کا ایک روزہ نہ رکھا تو اگر اس کے بدلے ہمیشہ روزہ ہی رکھا کرے تو بھی اس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ (ترمذی، نسائی، وغیرہ) اور حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ دین اسلام کی بنیاد تین ارکان پر ہے، اگر کسی نے ان میں سے ایک کو بھی چھوڑ دیا تو وہ کافر ہے ، مباح الدم ہے ۔ تو حید ورسالت کا اقرار، (ایمان ) فرض نمازیں ۔ رمضان کے روزے ۔ (ابو یعلی باسناد حسن )

فائدہ:اس روایت میں تین چیزوں کو ارکان اسلام بتلایا گیا ہے، حالاں کہ دوسری احادیث میں یہ ہے کہ” بُنِی الْإِسْلَامُ عَلَی خَمْسٍ“ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اوپر کی تینوں چیزیں تو ہر ایک سے متعلق ہیں، ہر شخص اس کا پابند ہے اور زکوة وحج صرف ان لوگوں کے ذمہ ہے جو صاحب نصاب اور صاحب استطاعت ہیں۔

افطار کرانے کی فضیلت

بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو خود بھی روزے کا اہتمام کرتے ہیں اور دوسروں کے روزے کا بھی ثواب حاصل کر لیتے ہیں ، یہ ہے اصل سیاست اور چالا کی کہ زیادہ سے زیادہ ثواب بٹورنے کے لیے خود بھی روزے رکھے اور دوسروں کو افطار کرا کے ادھر سے بھی پورا پورا حصہ لے لے، چناں چہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس نے کسی روزہ دار کو افطار کرایا یا کسی مجاہد کو سامان مہیا کرایا تو اس کے لیے بھی اس کے مانند اجر ہے۔ (مشکوة حدیث:1992 ) اور صحیح ابن خزیمہ کی ایک طویل روایت میں یہ ہے کہ جس نے رمضان المبارک میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا، تو ایک اس کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے اور دوسرے یہ کہ جہنم سے آزادی پائے گا اور تیسرے یہ کہ جتنا ثواب اس روزہ دار کو عطا کیا جائے گا اتناہی ثواب اس شخص کو بھی ملے گا ، مگر روزہ دار کے ثواب میں سے بانٹ کر نہیں، بلکہ الگ سے اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں گے۔ بعض صحابہ کرام نے یہ بات سن کر عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہماری مالی پوزیشن آپ دیکھ ہی رہے ہیں ،ہم میں ہر شخص تو افطار کرانے کی قدرت نہیں رکھتا ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ پیٹ بھر افطار کرانے کی قدرت نہ ہونے کی صورت میں یہ ثواب اللہ تعالیٰ اسے بھی عنایت فرمائیں گے جو اپنی حیثیت کے مطابق افطار کرادے، خواہ ایک کھجور کھلا دے اگر یہ بھی نہ ہو تو ایک گھونٹ دودھ یا پانی پلا دے۔

فائدہ:افطار کرانے کا مطلب پیٹ بھر کر کھلانا ہے اور ناداری کی صورت میں دودھ یا پانی سے افطار کرانے پر بھی اللہ تعالیٰ یہ اجر عطا فرماتے ہیں ۔ (معارف السنن:6/235)

نماز تراویح

تہجد کی نماز تو سال بھر کی راتوں کی نماز ہے اور مضان المبارک کی راتوں میں ایک خاص قسم کی نماز کا اور اضافہ ہو جاتا ہے، اس کا نام تراویح کی نماز ہے، حضور اقدس کا معمول تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے ،اسی معمول کے مطابق آپ صلی الله علیہ وسلم اعتکاف فرما کر تھیکہ ایک رات آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے اعتکاف گاہ سے باہر تشریف لائے اور وہاں موجود لوگوں سے فرمایا کہ آؤ! میں تمہیں نماز پڑھاؤں ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور صبح ہوتے ہی یہ بات پھیل گئی اور بہت سے لوگوں کے دلوں میں خواہش پیدا ہوئی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہوں۔ خیر اس رات بھی آپ صلی الله علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور لوگوں کو نماز پڑھائی، صبح ہوتے ہی اور زیادہ شہرہ ہو گیا کہ لگتا ہے اب آپ روز انہ یونہی نماز پڑھایا کریں گے۔ جب دوسری رات بھی آپ نے نماز پڑھائی تو سب کو یقین ہو گیا۔ اب کیا تھا تیسری رات کو مسجد نبوی کچھا کھچ بھر گئی اور سارے لوگ آپ کے اپنے معتکف سے باہر تشریف لانے کے انتظار میں بیٹھے رہے، جب کافی دیر ہوگئی تو لوگوں نے کھنکھارنا وغیرہ شروع کیا، مگر پھر بھی آپ صلی الله علیہ وسلم تشریف نہ لائے یہاں تک کہ لوگ منتشر ہو گئے اور جب صبح ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں رات برابر تمہارا طرز عمل دیکھتا رہا ،مگر مجھے اس بات کا اندیشہ لاحق ہو گیا تھا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور تم اس کو نباہ نہ سکو ۔ (مشکوة حدیث :1295) اب جب کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو چکا تو حضرت عمر رضی الله عنہ(اللہ ان کی قبر مبارک کو نور سے بھر دے)کو اللہ رب العزت نے اس بات کا الہام فرمایا اور توفیق دی کہ یہ نماز جس کی آپ صلی الله علیہ وسلم نے دو راتوں میں باجماعت پڑھا کر بنیاد ڈال دی تھی ،اس کو اس اہتمام کے ساتھ شروع کیا جائے، کیوں کہ اب وہ اندیشہ باقی نہ رہ گیا تھا، چناں چہ تمام صحابہ کرام نے جماعت کا نظام بنا کر اس نماز کو امت میں رائج کیا اور حضرت علی نے فرمایا اللہ عمر کی قبر کو منور کرے۔ جس طرح انھوں نے ہماری مسجد کو منور کیا۔ (رحمة اللہ الواسعہ:3/504)

تراویح کی نماز سنت مؤکدہ ہے، اس کا اہتمام نہ کرنا محرومی کے ساتھ ساتھ گناہ بھی ہے، ایک روایت میں آیا ہے کہ:” مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانَا وَاحْتِسَابًا غُفْرَلہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ“․(بخاری و مسلم ) یعنی جو شخص رمضان المبارک کی راتوں میں نماز عشا کے سوا اورزائد نمازیں (نوافل و تراویح و تہجد) پڑھے گا تو اس کے سارے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔

الفاظ حدِث بتلاتے ہیں کہ یہ فضیلت اس وقت حاصل ہو گی جب کہ پورے مہینے تراویح کی نماز پڑھی جائے ، بہت ایسے لوگ بھی ملیں گے جو دنیاوی کاروبار میں مشغول و ملوث ہونے کی وجہ سے پورے ماہ تراویح کے لیے وقت نہیں نکال سکتے تو وہ پانچ سات دنوں میں کسی سپر فاسٹ حافظ سے تراویح سن لیتے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ پورے مہینے بھر کی فضیلتوں کو ہم نے چند دنوں میں پالیا ہے، تو یادر ہے کہ یہ ان کی سراسر غلط فہمی ہے، تراویح تو پورے ماہ کی سنت ہے، بڑی حیرت اور افسوس ہے کہ ہم اتنی بڑی فضیلت حاصل کرنے کے لیے اپنے دنیاوی کاروبار میں سے ایک آدھ گھنٹہ نہیں نکال سکتے ،یہ ہے ہمارا ایمان؟ اور یہ ہے ہماری دین داری کی پوزیشن؟

اعتکاف

اس کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ مخلوق سے منقطع ہو کر خود کو اپنے خالق و مالک حقیقی سے جوڑ لے اور دنیا کے جھمیلوں اور خرخشوں سے الگ تھلگ ہو کر اپنے مولی سے لولگالے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ جب بندہ، اعتکاف کر کے، سب سے کٹ کر اور ہٹ کر اپنے مالک کے آستانے پر جاپڑے گا تو اس سے یکسوئی پیدا ہو کر، اس کی عبادات میں جان پیدا ہوگی اور دنیاوی کاروبار میں مشغول وملوث ہونے کی وجہ سے اس کے دل میں جو کدورتیں اور کثافتیں جم گئی تھیں ان کی صفائی و ستھرائی ہو جائے گی۔ نیز اعتکاف ملائکہ سے مشابہت پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے کہ جس طرح وہ ہر وقت اللہ کی اطاعت و عبادت کے لیے فارغ رہتے ہیں اور جٹے رہتے ہیں ،اسی طرح یہ بندہ معتکف بھی ان دنوں میں ان جیسا بنا رہتا ہے، نیز اس کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اس میں شب قدر کی تلاش و جستجو بھی ہے اور اس کے پیش نظر آں حضور صلی الله علیہ وسلم تادم آخر ہر سال آخری عشرے کا اعتکاف پابندی کے ساتھ فرمایا کرتے تھے۔

اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے لہٰذا ہر ایسی مسجد میں جس میں پنج وقتہ نماز با جماعت ہوتی ہو، اس محلے یا بستی کے کسی ایک شخص (مرد) کا اعتکاف میں بیٹھنا بطور سنت موکدہ ضرور ی ہے۔ ایک سے زائد لوگ ہو جائیں تو بہت اچھی بات ہے اور اگر مسجد خالی رہی، یعنی کسی نے بھی اعتکاف نہ کیا تو سارے لوگ سنت مؤکدہ چھوڑنے کے مجرم ہوں گے ۔ امام زہری فرماتے ہیں کہ مجھے لوگوں پر تعجب ہو رہا ہے کہ انہوں نے اعتکاف جیسی سنت کو چھوڑ دیا، حالاں کہ یہ ایسی سنت ہے کہ جب سے آپ صلی الله علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تب سے کسی سال بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے اعتکاف کا ناغہ نہ فرمایا۔ (بدائع :2/273 )اور عطا خراسانی فرماتے ہیں کہ معتکف کی مثال اس شخص جیسی ہے جو درمولی پر یہ کہتا ہواڈٹ گیا ہو کہ جب تک میری مغفرت نہ ہو جائے گی میں نہ ٹلوں گا۔ (ایضاً)

فضائل اعتکاف

درِ کریم پر دھرنا دے کر بھی کوئی محروم ہوا ہے؟ بھلا اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اکرم الاکرمین کے در سے دس دنوں کے لیے جا لگے، جس کسی کے در سے کوئی حاجت مند محروم ہو کر چلا جائے ایسا شخص کریم کہے جانے کا مستحق نہیں ہے تو بھلا وہ ذات عالی صفات اکرم الاکرمین کہاں ہو سکتی ہے جس کے در سے حاجت مند و نیاز مند بندہ ناکام و نامراد واپس لوٹ جائے ؟! ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس نے رمضان المبارک کے دس دنوں کا اعتکاف کیا تو اس کا یہ اعتکاف دو حج اور دو عمروں کی طرح ہے۔ (رواہ البیہقی ) اور حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لیے تگ و دو کرتا ہے اور وہ مقصد حل بھی ہو جاتا ہے تو یہ دس سال کے اعتکاف سے بہتر ہے اور جو شخص ایک دن کے لیے بھی اخلاص کے ساتھ اعتکاف کرتا ہے تو اللہ تعالی اس شخص کے اور جہنم کے بیچ تین ایسی گھاٹیاں بنا دیتے ہیں، جس کی دوری مشرق و مغرب کی دوری سے زیادہ ہوتی ہے۔ (بیہقی و طبرانی فی الاوسط، کذا فی الترغیب :2/150)

شب قدر

ہم نے اپنے طور پر رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کو شب قدر متعین طور پر فرض کر لیا ہے اور جاہل عوام کا تو یہ حال ہے کہ اگر کوئی شخص یہ بتلائے کہ شب قدر پورے ماہ رمضان میں دائر رہتی ہے یا اور قریب کرتے ہوئے یہ کہے کہ آخری عشرے کی کوئی بھی رات ہو سکتی ہے یا یہ کہے کہ آخری عشرے کی کسی بھی طاق رات میں ہو سکتی ہے تو وہ بے چارہ منھ تکتارہ جائے گا، شاید وہ کسی ہلکے پھلکے شخص سے لڑ بھی جائے، مگر حقیقت یہی ہے کہ آپ نے ابتدا میں شب قدر کی تلاش کے لیے عشرہ اول کا اعتکاف فرمایا، مگر جب اس میں نہ ملی تو دوسرے کا بھی اعتکاف فرمایا اور جب اس میں بھی نہ ہوئی تو آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا اور مل گئی اور پھر آپ صلی الله علیہ وسلم ہمیشہ آخری عشرے کا ہی اعتکاف فرماتے رہے (جمع الفوائد ) البتہ وصال کے سال آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا تھا ، (ایضاً) آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک تو اپنے عمل سے آخری عشرے میں شب قدر ہونے کو تقریباً متعین فرمادیا اور پھر متعدد احادیث کے ذریعہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں اس کے تلاش کرنے کی ترغیب دی ، ان روایات کی حیثیت ایک حکم عام کی سی ہے اور جو روایات کسی ایک متعین رات میں ہونے پر دلالت کرتی ہیں تو وہ ہمیشہ کی بات نہیں ہے، بلکہ اسی رمضان کے ساتھ مخصوص ہے، اس توجیہ کی بناپر بظاہر جو روایات کے درمیان تضاد نظر آتا ہے دور ہو جائے گا۔

فضائل شب قدر

قرآن پاک میں صراحة مذکور ہے کہ:﴿ لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ﴾ شب قدرا یسے ہزار مہینوں سے بہتر ہے جس میں شب قدر نہ ہو۔ ہزار مہینے تراسی سال اور چار ماہ ہوتے ہیں، اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ شب قدر ہزار مہینوں کے برابر ہوتی ہے ،بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہوتی ہے اور کتنا بہتر ہوتی ہے اس کی کوئی حد مقرر نہیں فرمائی گئی ، اس آیت کے شان نزول کے متعلق ایک روایت نقل کی جاتی ہے کہ آں حضور صلی الله علیہ وسلم کے سامنے بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا کہ جس نے ایک ہزار مہینے تک راہ خدا میں جہاد کیا تھا، تو یہ سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم بڑے متعجب ہوئے اور اپنی امت کے لیے بھی آرزو کی اور عرض کیا اے پروردگار!آپ نے میری اُمت کی عمر بھی کم رکھی ہے اور اعمال بھی کم ، چناں چہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو شب قدر جیسی عظیم خیر و برکت والی نعمت دی ،تا کہ عمریں اگر چہ کم رہیں ،مگر ان کے عمل کی حیثیت اور درجہ لمبی عمر والوں کے بالمقابل بڑھ جائے، (صاوی: 4/337) حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رمضان آیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو !یہ ماہ مبارک آ گیا ہے، اس میں ایک رات ایسی ہوتی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو اس رات سے محروم رہ گیا وہ سارے خیر سے محروم رہ گیا اور اس کے خیر سے وہی محروم رہتا ہے جو محروم و بد نصیب ہو۔ (قزوینی ) اور حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:” وَإِنَّ الْمَلَائِکَةَ فِی تِلْکَ اللَّیْلَةِ فِی الْأَرْضِ أَکْثَرُ مِنْ عَدَدِ الحصی“ یعنی اس مبارک رات میں کنکریوں اور ریت کے ذرات سے بھی زیادہ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے ۔(جمع الفوائد ) اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص یقین و اعتقاد اور طلب اجر و ثواب کے لیے شب قدر میں عبادت کرے گا تو اس کے سارے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (مشکوٰة) رمضان المبارک کی چند اہم اور خاص چیزوں پر ٹوٹے پھوٹے بے ترتیب الفاظ و عبارات کے ذریعہ روشنی ڈال دی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی روشنی میں اصل حقیقت تک پہنچنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور رمضان المبارک کی مکمل قدردانی کی توفیق عطا کرے۔
این سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

مقالات و مضامین سے متعلق