اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کو تمام مسلمانوں کے لیے انتہائی با برکت و مقدس مہینہ بنایا ہے۔ ماہ رمضان کی افضلیت اور اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت یہ تمنا کرے کہ تمام سال رمضان ہو جائے۔ ماہ رمضان میں ہر نیک عمل کا ثواب بھی کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ اس مہینہ میں ہر نیک عمل کا ثواب ستر گنا کر دیا جاتا ہے اور بعض روایات میں اور بھی زیادہ بیان کیا گیا ہے۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا خلاصی و نجات کا ہے۔ جو شخص اس پورے مہینہ کے روزے رکھے گا عبادت خداوندی میں مشغول رہے گا، قرآن کریم کی تلاوت کرے گا ، شب قدر کو تلاش کرے گا اور اس مہینہ کے تمام تقاضوں کو پورا کرے گا، وہ شخص با مراد ہوگا اور اس کو اللہ رب العزت کا تقرب حاصل ہوگا۔
رمضان المبارک کے پورے مہینہ کے روزے مسلمانوں پر فرض کیے گئے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”اے ایمان والو! تم پر بھی روزہ فرض کیا گیا ہے جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں“۔ (البقرہ:183) قرآن مجید کی اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ روزہ فرض عبادت ہے، دوسرے یہ کہ روزے پہلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے ہیں ۔ گویا کہ روزہ ایسی اہم ترین اور اللہ رب العزت کی نزد یک پسندیدہ عبادت ہے جسے، باری تعالیٰ نے سابقہ امتوں پر بھی فرض کیا تھا۔ اگلی آیتوں میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ کن دنوں کے روزے فرض کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”گنتی کے چند دنوں میں“، (البقرہ:184) یعنی پورے سال کے روزے فرض نہیں کیے گئے، بلکہ چند دنوں کے روزے فرض کیے گئے ہیں ۔ آگے آیت میں بیان کیا گیا :”رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو تمام انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو سیدھا راستہ دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں، پس جو شخص بھی تم میں سے اس مہینہ کو پائے اس پر لازم ہے کہ وہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے“۔ (البقرہ:185) اس آیت میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی کہ گنتی کے چنددنوں سے مراد ماہ رمضان کا مہینہ ہے، چاہے وہ29 دنوں پر مشتمل ہو یا 30 دنوں پر ۔
قرآن مجید میں روزہ کی فرضیت کو بیان کرتے ہوئے اس کی غایت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا:” اے ایمان والو!تم پر بھی روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں ،تا کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو“۔ (البقرہ:183) اگر روزہ پر گہرائی سے نظر ڈالی جائے تو یہ بات واضح طور سے سامنے آتی ہے کہ روزہ رکھ کر تقویٰ کے مقصد کو بخوبی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ روزہ رکھنے کے بعدانسان کھانے، پینے اور جماع کرنے سے رک جاتا ہے، یعنی ان چیزوں سے بھی رک جاتا ہے جو زندگی کے لیے ناگزیر ہیں۔ اگر آدمی چند دن نہ کھائے پیے تو یقینا وہ زندہ نہیں رہ سکتا ،مگر روزہ میں ان بنیادی چیزوں سے الگ رہا جاتا ہے۔ ساتھ ہی جماع کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ گویا نفسانی خواہش کو پورا کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ جو شخص خالص اللہ کے لیے روزہ رکھے گا وہ اس حقیقت کو جانے اور محسوس کیے بغیرنہیں رہ سکتا کہ در اصل انسان بہت ہی لا چار اور عاجز ہے، اگر اسے کھانا نہیں ملتا ہے تو وہ کس طرح جان بلب ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب کھانے پینے اور جماع سے رکنے کے بعد اس بات کی بھی تربیت ہوتی ہے کہ انسان اللہ کے لیے کھانا پینا تک چھوڑ سکتا ہے تو دیگر تمام چیزوں میں بھی اس کے حکم کی تعمیل کر سکتا ہے۔
روزہ رکھنے سے تزکیہٴ نفس کا مقصد بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ نفس کو جس قدر آرام دیا جاتا ہے، وہ اسی قدر آرام پسند ہو جاتا ہے، جس قدر لذیذ کھانے انسان کھاتا ہے، اس قدر اس کانفس فرحت محسوس کرتا ہے، اس طرح آہستہ آہستہ نفس کی خواہشات بڑھتی چلی جاتی ہیں اور وہ مادیت کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔ جب کہ انسان کو جس مقصد کے لیے دنیا میں مبعوث کیا گیا ہے وہ یہ نہیں کہ انسان بہترین سے بہترین کھانا کھائے ، بہترین سے بہترین لباس پہنے، بہترین سے بہترین گاڑیوں میں گھومے ، موج مستی کرتا پھرے اور اللہ کے احکام کی پیروی سے غافل ہو جائے، بلکہ انسان کو تو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے معبود حقیقی کی عبادت کرے، اس کے احکام کو بجالائے اور جس چیز سے منع کیا گیا ہے ان سے باز رہے۔ اس لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ نفس کی خواہشات پر دھیان نہ دیا جائے اور اسے آزاد نہ چھوڑا جائے ۔ روزہ رکھ کر جب انسان کھانے پینے اور جماع کرنے سے رک سکتا ہے تو وہ دیگر تمام نفسانی خواہشات سے بھی رک سکتا ہے اور جب انسان خواہشات نفسانی سے رک جائے اور محض اللہ کی رضا کا طالب ہو جائے اور اللہ کی رضا کے حصول کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جائے تو نفس پر کنٹرول کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
روزہ کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان تقوی کی راہ اختیار کرے۔ یعنی وہ روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے تقاضوں کو بھی کما حقہ پورا کرے، اللہ کی عبادت میں مشغول رہے، قرآن کریم کی تلاوت کرے، تسبیحات پڑھے، غریبوں و مفلوک الحال لوگوں کی مدد کرے، سچ بولے، وعدہ کرے تو اسے پورا کرے ،لوگوں کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے ۔ کذب گوئی ، گالی گلوچ ، غیبت، برے اعمال اور لایعنی باتوں سے پر ہیز کرے۔ اگر انسان پورے ماہ کو عبادت خداوندی میں گزار دے، گناہوں سے پر ہیز کرے اور تقویٰ پر قائم رہے تو یقینا اللہ رب العزت کی خوش نودی اسے حاصل ہوگی۔ پورے ماہ روزہ رکھنے اور اللہ کی خوش نودی کے حصول کے لیے تقویٰ کی راہ اختیار کرنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ رمضان کے بعد بھی گناہوں سے بچنا، نیک اعمال کرنا اور متقی و پرہیز گار بنے رہنا آسان ہو جائے گا۔ گویا کہ یہ مہینہ تربیت کا بھی مہینہ ہے۔
رمضان کے مہینہ میں شب قدر کا وقوع بھی امت محمدیہ کے لیے اللہ کی جانب سے ایک عظیم تحفہ ہے۔ اس لیے کہ شب قدر میں عبادت کرنے کا بہت بڑا ثواب بیان کیا گیا ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:” ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ، جانتے ہو کہ شب قدر کیا ہے؟ وہ ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں پر فضیلت رکھتی ہے۔ اس رات میں ملائکہ اور روح کا نزول ہوتا ہے، جو اپنے رب کے حکم سے تمام امور انجام دینے کے لیے اترتے ہیں، وہ رات طلوع فجر تک سراسر امن وسلامتی ہے۔“ (القدر) احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ رات رمضان المبارک میں آتی ہے، البتہ زیادہ تر احادیث سے رمضان کے آخری عشرہ میں اس رات کے وقوع کا پتہ چلتا ہے۔ بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں یہ رات واقع ہوتی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے اخیر عشرے میں راتوں کو زیادہ سے زیادہ شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور اس عشرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی عبادت کے لیے کمر کس لیتے ۔ شب قدر کی اہمیت و عظمت کے پیش نظر ایمان والوں کوچاہیے کہ وہ رمضان کے پورے مہینہ کی راتوں میں شب قدر کو تلاش کریں۔ یعنی وہ رمضان کی ہر رات اللہ کی عبادت میں مشغول ہوں ، جولوگ پورے مہینہ کی راتوں میں شب قدر کو تلاش نہ کر سکیں تو انہیں چاہیے کہ وہ آخری عشرے کی راتوں میں شب قدر کو تلاش کریں، اگر ایسا بھی نہ کر سکیں تو انھیں چاہیے کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کو تلاش کریں۔
ماہ رمضان کی راتوں میں شب بیداری سے مراد یہ ہے کہ اللہ کی عبادت میں مشغول رہا جائے ۔ یہ نہیں کہ رمضان کی راتوں کو یوں ہی جاگ کر گزار دیا جائے ۔ بعض مقامات پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ تراویح کی نماز کے بعد بہت سے لوگ بازاروں کی طرف نکل جاتے ہیں ، ہوٹلوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور رات دیر تک اِدھر ُادھر کی باتیں کرتے رہتے ہیں، یہ مناسب نہیں ہے۔ اسی طرح بعض لوگ روزہ کی حالت میں آپس میں لڑتے دکھائی دیتے ہیں یا گالی گلوچ کرتے یا الزام تراشی کرتے یا جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں، روزہ کا تقاضا ہے کہ ان چیزوں سے بھی پر ہیز کیا جائے۔