اگردنیا کے انصاف ور اور دانش مند ترین حکم رانوں کی فہرست بنائی جائے اور اس میں پہلا نام حضرت عمررضی الله عنہ کا ہو تو تعجب نہ کرنا چاہیے ، مہاتما گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ ہندوستان کو آزاد ہونے کے بعد وہی طریقہ حکم رانی اختیار کرنا چاہیے جو حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنہ وحضرت عمررضی الله عنہ کا تھا ۔ حضرت عمررضی الله عنہ کی شخصیت مختلف پہلوؤں سے نہایت مکمل اور جامع تھی ، آپ کی شخصیت کا ایک اہم وصف یہ تھا کہ اقتدار نے کبھی آپ کو غیر متوازن نہ ہونے دیا ، یہ آسان نہیں کہ آدمی کرسی اقتدار پر متمکن ہو، ملک و قوم کی قسمت کا فیصلہ اس کے قلم سے لکھا جاتا ہو، کوئی زبان اس کو چیلنج کرنے والی اور کوئی پنجہ اس کے دست استبداد کو تھامنے والا نہ ہو، لیکن پھر بھی اقتدار کی ”انا“ اس کو بدمست ہونے نہ دے اور جاہ واقتدار کا نشہ اس کے دل و دماغ تک رسائی نہ پاسکے، یہ اسی وقت ممکن ہے کہ انسان اپنے ماضی کو یا درکھے اور اپنی پرانی سطح کو فراموش نہ کرے۔
حضرت عمررضی الله عنہ میں پوری طرح یہ وصف موجود تھا ، وہ خلیفہ ہونے کے بعد اُمت کے ایک عام فرد کی طرح رہتے تھے ، لباس وپوشاک ہو، کھانا پینا ہو، لوگوں کے ساتھ رہن سہن اور عمومی سلوک ہو، معیار زندگی کے اعتبار سے انہوں نے اپنے آپ کو عام لوگوں کی سطح پر رکھا تھا، اس کا اثر تھا کہ وہ غریبوں کا دکھ جانتے تھے اور ان کے لیے غریبوں کے مسائل جگ بیتی نہیں، بلکہ آپ بیتی تھے، اس لیے ہمیں ان کی زندگی میں عدل وانصاف ، مساوات و برابری ، غریب پروری اور کم زوروں اور زیر دستوں کی دست گیری کے جو نمونے ملتے ہیں، کہیں اور مشکل ہی سے ملیں گے ۔
عتبہ بن فرقد حضرت عمر رضی الله عنہ کی طرف سے آذر بائیجان کی مہم پر مامور تھے، فتح آذر بائیجان کے موقع پر انہوں نے کھجور اور گھی سے مرکب ایک خوش ذائقہ کھانا تیار کیا، جسے” خبیص“ کہا جاتا ہے اور اسے اپنے غلام سحیم کے ساتھ چمڑے اور کپڑے سے چھپا کر حضرت عمر رضی الله عنہ کی خدمت میں بھیجا۔سحیم آئے ، حضرت عمر رضی الله عنہ نے دریافت فرمایا:کیا لائے ہو، سونا یا چاندی؟ پھر حضرت عمر رضی الله عنہ نے کی طرف سے غلاف ہٹایا گیا ، آپ رضی الله عنہنے چکھا اور فرمایا کہ عمدہ اور خصوصی طور پر بنایا ہوا معلوم ہوتا ہے۔پھر دریافت فرمایا کہ تمام ہی مہاجرین نے اس سے آسودہ ہو کر کھایا ہے؟ سحیم نے عرض کیا نہیں، یہ تو عتبہ نے خاص طور پر آپ کے لیے بنوایا ہے۔ عام طور پر ایسی خوشامدانہ باتیں ارباب اقتدار اور اصحاب اختیار کو باغ باغ کر دیتی ہیں اور ان کے دل میں ایسے کارکنوں کی عزت بڑھ جاتی ہے، لیکن حضرت عمررضی الله عنہ کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی، آپ رضی الله عنہنے فورا عتبہ کو ایک غصہ بھرا خط لکھا کہ یہ جو بیت المال کا مال ہے، یہ نہ تری محنت کا ہے اور نہ تری ماں اور ترے باپ کی محنت کا ہے: ”لیس من کدک ولا من کد امک ولا من کد ابیک“پھر تحریر فرمایا کہ میں وہی کھاؤں گا جس کو عام مسلمان آسودہ ہو کر کھائیں۔ (فتوح البلدان:402)
آج ان لوگوں کا تو خیر کیا ذکر ، جو صبح سے شام تک مادیت میں ڈوبے ہوئے ہیں، جو خواب بھی روپیوں پیسوں کا دیکھتے ہیں اور جن کی بیداری کا ایک ایک نفس سیم وزر کی فکر میں گزرتا ہے، اہل دین بھی کیا حضرت عمررضی الله عنہ کے عمل کو اسوہ بنانے کو تیار ہیں؟ دینی مجلسوں اور محفلوں میں بھی من و تو اور ماوشما کا امتیاز موجود ہے، بڑوں چھوٹوں کا فرق ہے، اکابر واصاغر کی تفریق ہے اور تقوی کی بنیاد پر نہیں، بلکہ دولت و غربت اور شہرت وگمنامی کی نسبت سے دائرے قائم کر دیے گئے ہیں ، جب معمولی سا اقتدار آدمی کو توازن سے محروم کر دیتا ہے تو ان لوگوں سے کیا گلہ جو اقتدار کی اونچی چوٹیوں پر پہنچنے کے بعد نیچے رہنے والوں کو دیکھ نہیں پاتے یا ان کو اپنے مقابلہ میں کم قامت خیال کرتے ہیں۔
انسان دوسرے انسان کو انسان سمجھنا چھوڑ دے اور کوئی ادنیٰ مخلوق تصور کرنے لگے یا خود اپنے آپ کو انسان سے بڑھ کر کوئی اور مخلوق خیال کرنے لگے تو دوسرے انسانوں کے غم کی چوٹ اپنے کلیجہ پر محسوس نہیں کر سکتا، یہی چیز انسان کے مزاج کو غیر متوازن اور طریقہٴ فکر کونا منصفانہ بنا دیتی ہے، پھر انسان اپنے ماضی کو بھولتا چلا جاتا ہے اور جوں جوں وہ اپنے ماضی سے دور ہوتا جاتا ہے، کبر وتعلی بڑھتی جاتی ہے، اس لیے جب انسان دولت و ثروت، حکومت و اقتدار اور شہرت و نام وری کے بام پر چڑھنے لگے تو ہر زینہ پر قدم رکھتے ہوئے پچھلا زینہ اور اس زینے کے نیچے بچھی ہوئی زمین کو دیکھتا جائے اور یادرکھے کہ اس نے یہیں سے اپنا سفر شروع کیا ہے۔
حضرت عمر رضی الله عنہ ہی کے ہم نام فرماں روا حضرت عمر بن عبد العزیز رضی الله عنہ ہیں، ان کا نا نہالی سلسلہ بھی حضرت عمر رضی الله عنہ ہی سے ملتا ہے۔ رجاء بن حیوہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی الله عنہ کے قدر شناسوں میں تھے ، انہیں کے مشورہ سے باگ خلافت آپ کو سونپی گئی تھی، زمانہ خلافت میں رجاء ایک شب آپ کے پاس مقیم ہوئے ، ایک معمولی سا چراغ تھا، جو روشن تھا، چراغ بجھنے لگا تو رجاء اٹھے کہ چراغ درست کر دیں ، حضرت عمر بن عبد العزیز رضی الله عنہ نے قسم دی کہ رجاء ہرگز نہ اٹھیں، ناچار بیٹھ گئے ، خلیفہٴ المسلمین خود اٹھے اور چراغ درست فرمایا، بنو امیہ کے ابتدائی دور ہی سے بادشاہان مملکت کی شوکت و سطوت جس طرح روز بروز بڑھتی جاتی تھی ، اس کے تحت حضرت عمر بن عبد العزیزرضی الله عنہ کا یہ عمل نہایت باعث حیرت تھا، رجاء نے عرض کیا: آپ امیر المؤمنین ہونے کے باوجود چراغ درست کرنے کا کام کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں جب اٹھا تب بھی عمر بن عبدالعزیز تھا اور جب واپس آیا تب بھی عمر بن عبدالعزیز ہی تھا!!!
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے امیر المؤمنین ہونے کے بعد بھی اس کو یا درکھا کہ وہ” امیر المؤمنین“ بعد میں ہیں ، ”عمر بن عبدالعزیز“ پہلے ۔ اگر انہوں نے عمر بن عبدالعزیز ہونے کی حیثیت کو بھلادیا ہوتا تو ان کے لیے چراغ بجھانے کے لیے اٹھنا اور خود اپنی ضرورت پوری کرنا دشوار ہوتا، لیکن ماضی کو یاد رکھنے نے ان کی زندگی کو ایک سادہ، بے تکلف اور تصنع سے خالی مومن کی زندگی بنا دیا تھا، یہ ایک ضروری وصف ہے جس کی قدم قدم پر ضرورت ہے، رشتہ داروں سے رشتہ باقی رکھنے کے لیے ، دوستوں سے محبت کی فضا قائم رکھنے کے لیے ، اپنے ماتحت کام کرنے والے مزدوروں اورملازمین کا دل جیتنے کے لیے اور سب سے بڑھ کر اس لیے کہ خدا کے یہاں اس کا شمار کبر کرنے والوں میں نہ ہو!