مادّی ورُوحانی اقتدار کی انتہا

idara letterhead universal2c

مادّی ورُوحانی اقتدار کی انتہا

حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی           (آخری قسط)

ماں کے حقوق باپ سے زیادہ ہیں

اور اس کی وجہ قرآن کریم نے ارشاد فرمائی کہ عورت جتنی مصیبت اولاد کی پرورش میں اٹھاتی ہے باپ نہیں اُٹھاتا۔ باپ زیادہ سے زیادہ کماتا ہے۔ میں کہتا ہوں اگر وہ شادی نہ کرتا جب بھی کماتا ، اپنے لیے کماتا، دوسروں کے لیے کماتا۔ تو کماتا اس کی طبعی بات ہے ،وہ ہر صورت سے کماتا گویا وہ محنت محض بیوی کے لیے نہیں ہوتی ، وہ اپنے نفس کے لیے بھی ہوتی ہے ، اپنے عزیزوں کے لیے بھی ہوتی ہے، لیکن عورت اولاد کے لییجو محنت گوارا کرتی ہے وہ خاوند نہیں کر سکتا۔ نو مہینے تو پیٹ میں اُٹھائی پھرتی ہے، جس کو فرمایا گیا:﴿حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہًا وَوَضَعَتْہُ کُرْہًا﴾ اور فرمایا گیا:

﴿حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْنًا عَلَیٰ وَہْنٍ وَفِصَالُہُ فِی عَامَیْنِ أَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ﴾․ (سورہ لقمان، آیت:14)

تھک تھک کے، عاجز آ کر ،نو مہینے اس کو پیٹ میں اُٹھاتی ہے۔ اس کے اوپر ایک بوجھ ہے ،مگر برداشت کر رہی ہے۔

پھر اس کے بعد وضع حمل، تو اس کے بارے میں مثل مشہور ہے کہ ”جننا اور مرنا برابر ہوتا ہے۔“ گویا اس کی زندگی کے لالے ہوتے ہیں۔ باقی اللہ بچاوے توبچاوے ورنہ موتیں واقع ہو جاتی ہیں۔ تو نو مہینے وہ مصیبت اُٹھائی ۔ اور جننے کی ایک مستقل مصیبت اٹھائی، پھر اس کے بعد دو برس اس کو اپنا خون چسانا ، دودھ پلانا، یہ اپنے بدن کے اجزا اس کو پہنچانا یہ خاوند نہیں کرسکتا، بیوی کرتی ہے، یہ ماں ہی کرتی ہے ۔ باپ نہیں کر سکتا۔

پھر اگر بچے کوضد چڑھ گئی کہ میں تو گود چڑھ کر سوؤں گا۔ تو عورت کو ساری ساری رات گزر جاتی ہے کہ گود میں اٹھائے پھرتی ہے۔ بچہ اگر بیمار ہے تو ماں اس سے پہلے بیمار ہو جاتی ہے۔ اس کو الگ دکھ ہوتا ہے ۔ غرض باپ کی مجال نہیں ہے کہ یہ محنت برداشت کرے ، وہ تو مجنوں ہو کے نکل جائے ۔

عورت میں جذبہ خدمت

اگر کہیں ایسا ہو کہ عورت یوں کہے کہ سال یا مہینہ بھر کے لیے خدمات کا تبادلہ کر لیں۔ میں تیری خدمات انجام دوں اور تو بیٹھ کے بال بچے پال ، تو ممکن نہیں ۔ دودن میں اسے جنون ہو جائے گا اور پریشان ہو کے نکل جائے گا، یہ عورت ہی کا حوصلہ ہے کہ وہ اس محنت کو برداشت کرتی ہے۔ مرد برداشت نہیں کر سکتا ۔

وہ ہمارے ہاں ایک کاشت کار کا قصہ مشہور ہے اور قصہ واقعی ہے، فرضی نہیں ہے کہ وہ کاشت کار اپنے کھیت پر گیا۔ وہاں جا کے کھیت کیاری کے کام میں لگ گیا۔ تو طریقہ یہ تھا کہ اس کی عورت ٹھیک بارہ بجے کھانا پکا کے لایا کرتی تھی۔ ایک دن اتفاق سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دیر ہوگئی۔ کاشت کار آئے جائے تو کہاں ؟ اُسے غصہ چڑھا، اس نے سینکڑوں صلواتیں بیوی کو سنائیں کہ تجھ سے کام نہیں ہوتا اور توسست ہو گئی ہے اورکم بخت تجھ سے کچھ نہیں نبھتا۔ اورمیں ہوتا تو یوں کرتا۔ اور تو ایسی ہے تو ویسی ہے، بے چاری سنتی رہی ۔ یعنی صبح سے شام تک لڑکھپ کے بچوں کو الگ پالا ، کھانا الگ پکایا، کھیت پر لے کر بھی گئی ، اتفاق سے اگر ذرا دیر ہوگئی تو خاوند نے سینکڑوں صلواتیں سنا دیں، خیر وہ غریب سنتی رہی ۔ خاوند کی زبان سے نکلا کہ اگر میں اس کام میں ہوتا تو کبھی یہ بات نہ ہوتی ۔ اس نے کہا اچھا! پھر دو چار دن کے لیے خدمتوں کا تبادلہ کر لوں، میں کھیت پر کام کروں گی تو گھر پر رہ بچوں کو پال اور بارہ بجے کھانا لے کر آجایا کرنا۔ اس نے کہا یہ کون سی بڑی بات ہے، میں کرلوں گا۔ اس نے کہا اچھا کل سے پھر یہی ہو گا۔

چنا ں چہ صبح کو اٹھتے ہی بیوی تو کھیت پر چلی آئی اور کھیتی کا کام شروع کر دیا۔ اب یہ خاوند صاحب گھر لیٹے رہے، آنکھ کھلی تو ایک بچہ رو دیا۔ یہ اسے سنبھالنے کے لیے گئے تو ادھر سے دوسرا چلایا۔ اُسے پکڑنے کے لیے گئے تو تیسرا رویا۔ ابھی اس سے نہیں نمٹے کہ معلوم ہوا ، وہ گھر میں گائے بندھ رہی تھی، اس کا بچھڑا رسہ چھڑا کر گائے کے دودھ پر جا کے لگ گیا۔ اسی پر گزر اوقات تھا۔ یہ جلدی سے بچھڑے کو سنبھالنے گیا، تو بچہ چار پائی سے نیچے گر پڑا۔ اب وہ چلا رہا ہے ، شور مچا رہا ہے۔ یہ وہاں پہنچے، بچھڑا جو وہاں پہنچا اور اس نے دودھ لیا تو گائے گھبرا کے بھاگی اور اس کی رسی چار پائی میں اٹک گئی تو وہ چار پائی سمیت چولھے پر چڑھ گئی ۔ تو اب چار پائی چولھے کے اوپر رکھی ہوئی ہے، بچہ وہاں پڑا ہوا ہے اور ایک بچہ ادھر چلارہا ہے ۔ اب اسے پریشانی ہے کہ بچوں کو سنبھالوں یا بچھڑے کو سنبھالوں یا کھانا پکاؤں یا دودھ نکالوں؟! کھڑا ہوا، مجنوں کی طرح ہر طرف دیکھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ دس گیارہ بج گئے ۔ وہ بے چاری کھیت کے اُوپر محنت کر رہی تھی ۔ اُسے توقع تھی کہ آج بارہ چھوڑ ساڑھے گیارہ بجے کھانا آجائے گا۔ اس لیے کہ مردبہت قوی ہے، خوب کام انجام دے گا۔ جب بارہ چھوڑ ایک بج گیا اور کوئی نہ آیا۔ اس نے کہا کیا قصہ پیش آگیا ۔ وہ آئی تو آگے دیکھا کہ ایک بچہ ادھر پڑا رو رہا ہے، ایک ادھر رو رہا ہے اور چار پائی چولھے کے اوپرٹنگ رہی ہے اور گائے چولھے پر چڑھ رہی اوربچھڑا پڑا ہوا ہے۔ نہ کھانا ، نہ دودھ ، نہ چارپائی، نہ اپنے بچے ، گھر میں کوئی چیز بھی ٹھکانے پر نہیں اور خاوند صاحب بیٹھے ہوئے ہیں۔

اس نے کہا کیا بات ہے؟ خاوندنے کہابس کچھ نہیں۔ یہ تیرا کام ہے ،میرے بس کا کچھ نہیں ۔پھر اس نے کھیتی کا کام شروع کیا اور عورت نے نے گھر کوسنبھالا تو واقعہ یہ ہے کہ عورت کا بڑا حوصلہ ہے کہ گھرمیں بچوں کو سنبھالنا، کھانا پکانا، گھر کا انتظام کرنا اور خاوند کے سارے معمولات اور خدمات کو انجام دینا۔ اگر خاوند کو چار خدمتیں سپرد کردی جائیں، دیوانہ ہوجائے ۔ یہ عورت کرسکتی ہے، چوں کہ یہ چیز تھی، اس واسطے شریعت اسلام نے اس کا رتبہ بلند کیا ۔ باپ سے زیادہ اس کے حقوق بڑھائے ۔ مرد منصب کے لحاظ سے کتنا ہی بلندسہی ۔ لیکن حقوق کے لحاظ سے اتنا بلند نہیں ہے جتنے شریعت نے عورت کے حقوق قائم کیے ہیں۔

تو شریعت کا یہ خاص اصول ہے کہ :﴿اَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فی الأرض﴾ جو زمین میں ضعیف اور کم زور ہیں ہم ان کو اُبھاریں گے۔ ہمارا یہ اصول ہے کہ ان کو بلند و بالا کیا جائے۔ تو عورت ضعیف نازک تھی، اس لیے اس کو ابھارا۔

یتیم پر شفقت کے لیے ساری امت کو متوجہ کیا گیا

اسی طرح یتیم بے چارہ ضعیف ہوتا ہے۔ ماں باپ اس کے گزر گئے، لاوارث رہ گیا ۔ کوئی پالنے والا نہیں ہے ۔ اس پر شفقت کی ۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے:

اگر کوئی شخص یتیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھے تو جتنے بال ہاتھ کے نیچے آئیں اتنی نیکیاں اس کے نامہٴ اعمال میں لکھ دی جائیں گی۔ حدیث میں آپ نے فرمایا:” أَنَا وَ کَافِلُ الْیَتِمُ کَہَا تَیْنِ“ میں اور یتیم کی خدمت کرنے والا جنت میں بالکل اس طرح برابر ہوں گے۔ میں ذرا آگے نکل جاؤں گا۔ وہ کچھ پیچھے رہے گا۔ مگر اس کے رتبے کی معیت وہی ہوگی جو جنت میں مجھے دی جائے گی ۔

اور پہلے یتیم خودبنی کرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ یتیموں کا والی اور وارث کون ہو سکتا ہے؟ اور آپ سے زیادہ یتیموں کو سہارا دینے والا کون ہو سکتا ہے ؟ اس واسطے احادیث یتیموں کی خدمت کے فضائل سے بھری پڑی ہیں ۔

روح اس کے اندر یہی ہے کہ یتیم کم زور تھا۔ ماں باپ گزر گئے تھے ، دنیا میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا۔ عزیز واقر با بھی ہوتے ہیں، لیکن جب تک خود اپنی غرض متعلق نہ ہو خلوص سے خدمت کرنے والے دنیا میں گنے چنے ہوتے ہیں۔ عام طور سے نہیں ہوتے۔ اس واسطے پوری امت کو متوجہ کیا ہے کہ یتیم کا باپ گزر گیا تو ساری امت بمنز لہ باپ کے ہے۔ ہر انسان اور ہرمسلمان کا فرض ہے کہ اس کی خدمت کی طرف توجہ کرے ۔ تو عورت کم زور تھی ،اس کی طرف توجہ فرمائی، یتیم کم زور تھا ،اس کی طرف توجہ فرمائی۔

غلاموں کے ساتھ حُسنِ سلوک کا حکم

اگر آپ کا کوئی زر خرید غلام ہے وہ بے چارہ کم زور ہے۔ آپ کو آقا سمجھتا ہے، تو اس کے لیے شریعت نے فرمایا:اخْوَانُکُمْ خَوَ لَکُمْ ․ وہ غلام جن کو تم نے خریدا ہے وہ بمنزلے تمہارے بھائی کے ہیں، جو خود کھاتے ہو وہ انہیں کھلاؤ ،جو خود پہنتے ہو وہ انہیں پہناؤ ،جو اپنی اولاد کو تعلیم دیتے ہو وہ انہیں تعلیم دو، یعنی برابری کا رتبہ رکھو۔ پھر اس کی اتنی عزت بڑھائی کہ اگر آقا اور غلام مسجد میں آئیں تو یہ فرق نہیں ہو سکتا کہ غلام پچھلی صف میں آئے اور آقا اگلی صف میں آئے۔ وہ دوش بدوش برابر کھڑا ہو گا۔ آقا کو کوئی حق نہیں ہے کہ اُسے پیچھے ہٹادے۔ شریعت نے مساوات قائم کی۔ تو ادھر فرمایا اخوانکم خولکمتمہارے برابر کے بھائی ہیں،جو خود کھاتے ہو انہیں کھلاؤ، جو خود پہنتے ہو انہیں پہناؤ۔ ان کو تعلیم اور تادیب کرو، حسن سلوک سے ان سے پیش آؤ۔

پھر غلام کو آزاد کرنے کے فضائل سے احادیث بھری پڑی ہیں کہ اگرکسی نے غلام کو آزاد کر دیا فرمایا وہ ایسا ہے جیسے اس نے ایک حج مع عمرے کے انجام دیا ہو، جو اس کااجر ہوتا ہے وہ ایک غلام کو آزاد کرنے میں اجر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں شروع زمانے میں جہاد جتنا زیادہ تھا ، غلام زیادہ آتے تھے۔ ان کو آزاد کرنے کا اتنا تو دستور تھا کہ روز انہ ہزاروں کی تعداد میں غلام آزاد ہوتے تھے ۔ اور ان کو تعلیم دیتے تھے ، پڑھاتے تھے ، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شروع زمانہ اسلام میں بڑے بڑے اکابر علماء جن سے دین و علم پھیلا ، زیادہ تر غلام ہوتے تھے، اس لیے ان کے پاس کوئی زیادہ اسباب معیشت اور دولت نہیں ہوتی تھی، گھر بارنہیں ہوتا تھا کہ اس میں لگیں، وہ خالص دین اور علم کی طرف متوجہ ہو جاتے۔ اس لیے جتنا وہ علم سیکھتے تھے گھر بار والے اتنانہیں سیکھتے تھے۔ انہیں کچھ دولت کا ،کچھ گھر کا شغل بھی ہوتا۔انہیں فقط علم سیکھنے کا شوق اور شغل ہوتا تھا۔

امام حسن بصری رحمة اللہ علیہ دیہات کے رہنے والے اور غلام تھے، لیکن آج وہ سارے مسلمانوں کے امام ہیں۔ عطا ابن ابی رباح کے بارے میں امام ابی حنیفہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ :”مَا رَأَیْتُ أَحْسَنَ مِنْ عَطَاء ِ ابْنِ أَبِی رِبَاحٍ“ میں نے اپنے زمانے میں عطا ابن ابی رباح سے زیادہ فضیلت والا کوئی شخص نہیں دیکھا۔ توجس کے علم کی امام ابی حنیفہ رحمہ الله تعریف کریں ۔ اندازہ کیجیے کہ اس کے علم کا کیا رتبہ ہوگا ۔ یہ بھی غلام ہیں۔ تو اتنے بڑے ہیں کہ آج مسلمانوں کے مقتدا ہیں اور اپنی ذات سے دیکھیں تو وہ غلام ہیں۔

صوفیا اور علماء میں غلام بڑے بڑے اکابر ہوئے۔ اور بڑی تعداد میں ہوئے۔ یہ شریعت اسلام کی اس ہدایت کا اثر ہے کہ اس نے کم زور دیکھ کر پوری اُمت کو متوجہ کر دیا۔ ہر آقا کومتوجہ کیا کہ اپنے غلام کو حقیر مت سمجھنا۔

اسلام سے قبل غلاموں سے بدسلوکی

یہ اس پر ہے کہ اسلام سے پہلے کے دور میں دنیا کے لیے غلامی ایک بد ترین عذا ب تھا، آقا کو غلام پر حق حاصل تھا کہ اسے قتل کردے ، اس کو ذبح کردے، اس کو دردناک سزائیں دے، کوئی قانون اس کو اس پر گرفت نہیں کر سکتا تھا۔یہاں تک لوگ کرتے تھے کہ تاریخوں میں دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں کہ کس طرح ان کے دل برداشت کرتے تھے۔ غلام سے ذرا سی کوتا ہی ہوئی شکنجے بنوائے ہوئے ہوتے ،جس میں ادھر ادھر بر چھے لگے ہوتے تھے، بیچ میں غلام کو رکھ کے اس کو ملا دیتے تھے۔ ادھر ادھر سے برچھا آر پار ہو جاتا تھا اور ہنس رہے ہیں۔

تالابوں کے اندر سانپ چھوڑے ہوئے ہیں۔ غلام سے ذراسی کو تاہی ہوئی، لات مار کے دھکیل دیا۔ سانپ لپٹ گئے اور آقا کی تفریح ہو رہی ہے ۔ بھیڑیے جمع کیے گئے اور اس غلام پہ چھوڑ دیے گئے جو سزا کا مستحق تھا۔ بھیڑیے اس کو جھپٹ رہے ہیں، پھاڑ کھا رہے ہیں اور آقا تفریح کر رہے ہیں۔ غلامی کی یہ کیفیت تھی۔

اسلام نے غلامی کو ختم کیوں نہ کردیا ؟

اسلام نے آکر غلامی کو تو نہیں مٹایا کہ یہ فطری سی چیز ہے۔ سیاسی طور پر جب کسی قوم پر غلبہ ہو اور وہ قوم حربی بنے اور مقابلہ پر آئے تو سیاسی آزادی چھینی جاتی ہے۔ دنیا کی ہر قوم مفتوح قوم سے سیاسی آزادی چھین لیتی ہے ۔ ان سے بھی چھینی جاتی تھی، یہی معنی غلامی کے ہیں۔ دینی آزادی نہیں چھینی جاتی تھی۔ غلام مسجد میں آسکتا ہے ۔ تلاوت بھی کر سکتا ہے، آقا کے برابر عبادات کر سکتا ہے۔ سیاسی حقوق نہیں دیتے تھے۔ اس لیے کہ انہوں نے اسلام کے خلاف جنگ کی تھی تو سیاسی آزادی چھن گئی اور سارے حقوق باقی رکھے گئے۔ تو پچھلی اقوام غلام پر اتنا حق رکھتی تھیں کہ انتہائی دردناک سزائیں دیتیں۔ اسلام نے وہ سب سزائیں مٹادیں ۔ آزاد کرنے کے فضائل بیان کیے، جس سے ہزاروں غلام مرد روز آزاد ہوتے تھے ،تعلیم دینے کی فضیلت بیان کی جس سے ہزاروں غلام بڑے بڑے علماء اور فضلاء بن گئے تو ضعفاء کے اوپر اسلام نے رحم کھایا ۔ اس لیے عورت ،یتیم اور غلام پر رحم کیا، جو مظلوم اور بے کس ہو اس کے لیے پوری اُمت کو فرمایا گیا کہ پوری اُمت کا حق ہے کہ اس کے ظلم کو دفع کرے اور اس کی مدد کرے۔

جانوروں پر رحم کرنے کا حکم

حتی کہ جانورجو زیادہ کم زور ہوتا ہے اس پراور زیادہ رحم وکرم بتلایا گیا۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ایک فاحشہ عورت کو آپ نے جنت میں دیکھا۔ ساری عمر بدکاری کی اور دیکھا گیا جنت میں۔

وجہ کیا پیش آئی ؟

فرمایا ۔ ایک کتا پیاس کی وجہ سے مر رہا تھا۔ زبان پرکانٹے پڑے ہوئے تھے، عرب کی گرمی کی خشکی کی وجہ سے زبان باہر نکلی ہوئی وہ فاحشہ عورت آئی ،اس کو رحم آیا کہ ایک بے زبان جانور مر رہا ہے، کنویں پر نہ ڈول تھا، نہ رسی تھی ۔ اس نے اپنے پیروں سے چمڑے کا موزہ نکالا اور اپنے دوپٹے میں اس کو باندھ کر اوراس میں جتنا پانی آیا وہ کتے کے منھ میں ٹپکایا،جس سے اس کے دم میں دم آگیا اور اس کی جان بچ گئی۔ فرمایا اس عمل کی بدولت فاحشہ عورت جنت میں داخل کی گئی ۔

اور حدیث میں ہے کہ ایک نیک اور متقی آدمی کوآپ صلی الله علیہ وسلم نے جہنم میں دیکھا۔ فرمایا کہ یہ منکشف ہوا کہ وہ اس لیے جہنم میں گیا اس نے ایک بلی کو جو ستاتی تھی جیسے بعض جانور ستاتے ہیں۔ اس نے غصے میں آکر ایک کوٹھڑی میں بند کیا اور کہا کہ اسے کوئی نہ کھولے، دو تین دن میں وہ سسک کر اندر مرگئی۔ فرمایا وہ متقی جہنم میں گیا۔ اس لیے کہ اس نے جانور کے اوپر رحم نہیں کھایا۔

فرعونی طاقت پر بنی اسرائیل کے ضعفاء کو غالب کیا گیا

عرض اسلام ہر کم زور پر رحم کھاتا ہے۔ انسانوں میں کوئی کم زور ہو یا جانوروں میں تو جس دین نے جانوروں تک پر رحم کھایا وہ کیسے گوارا کرے گا انسان انسانوں پر ظلم کرے یا کوئی کسی دوسرے کے اوپر زیادتی کرے؟! یہ اس نے برداشت نہیں کیا۔ اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا:﴿ أَن نَّمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَہُمُ أئمةً وَنَجْعَلَہُمُ الْوَار ثِینَ﴾ یہ قصہ فرعون کے زمانے کا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہے۔ حق تعالیٰ اس کو قرآن میں حکایت فرمارہے ہیں کہ ان نمن ہم احسان کریں گے ، کن پر ؟ ان لوگوں پر جو زمین کے اندر کم زور ہو گئے۔ گویا یہ موسی علیہ السلام کو فرمایا جا رہا ہے۔ فرعون چوں کہ غالب تھا۔ اقتدار اس کے ہاتھ میں تھا، بنی اسرائیل مغلوب تھے اور بنی اسرائیل کو فرعون نے انتہا درجے کی ذلت پرپہنچا دیا تھا۔ حالاں کہ انبیا زادے تھے، نبیوں کے خاندان سے تھے۔ اہل علم وسمجھ تھے لیکن چوں کہ فرعون کی غلامی میں مبتلا ہو گئے، اس واسطے اس نے جتنی ذلیل خدمات تھیں وہ بنی اسرائیل کے سپرد کر رکھی تھیں ۔ مزدوریاں کرنا، کوڑا اٹھانا اور ان کے بچوں کو پالنا …غرض اس قسم کی ساری ذلیل خدمات ان سے لی جاتی تھیں اور انتہائی ذلت کے ساتھ ان کی زندگی بسر ہو رہی تھی۔

موسیٰ علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے پیدافرمایا اور انہیں نبی بنا کر مبعوث فرمایا ۔موسیٰ علیہ السلام نے ان کی تربیت شروع کی، تعلیم و تربیت کے ذریعے ان کے اخلاق اور کردار کو درست فرمایا ۔ اس وقت حق تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ یہ جو کم زور ہیں جن کی تم تربیت کر رہے ہو، ان کے اخلاق کو درست کر رہے ہو، ان نمن ، ان پر ہم احسان کرنے والے ہیں ، یہ ضعفاء ہیں ۔ زمین پر کم زور ہیں ، ہم ان کو قوت دینے والے ہیں۔

ونَجْعَلَہُم أئمةً انہیں کو زمین میں امام بنانے والے ہیں۔ وَنجَعَلَہُمُ الْوَارِثِینَ اور زمین کی وراثتان کو سپرد کرنے والے ہیں۔ زمین کی وراثت میں یہ حق دار بنیں گے ۔گویا موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو تسلی دی گئی کہ اپنی کم زوری پر غم نہ کھاؤ ،مگر ہاں! شرط یہ ہے کہ موسی علیہ السلام جس طرح تعلیم و تربیت دے رہے ہیں ان کا اتباع کیے جاؤ، جس علم کی طرف لارہے ہیں اس علم کی طرف آجاؤ، اخلاق کی طرف بلا رہے ہیں۔ ان اخلاق کی طرف آؤ، ان کی پیروی کرتے رہو، ان کی تعلیم وتربیت کے سامنے جھکتے رہو، جب تمہارا اخلاق بلند ہوگا تو عنقریب ہم تم کو بلند کرنے والے ہیں۔ یہ موسی علیہ السلام کو فرمایا گیا ۔ آگے ارشاد فرمایا:﴿ونمکن لَہُم فِی الْأَرْضِ وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُودَہُمَا مِنْہُم مَّا کَانُوا یَحْذَرُونَ﴾اور ہم انہیں اقتدار و تمکنت دینے والے ہیں اور فرعون و ہامان اور ان کے لشکر جن جن چیزوں کو سامنے رکھ کر ڈرتے تھے۔ اب ان کے سامنے آنے والا ہے۔ انہیں چیزوں میں وہ مبتلا کیے جانے والے ہیں جن چیزوں کا خطرہ تھا کہ کہیں یہ بنی اسرائیل غلبہ نہ پائیں اورہمیں کہیں نیچانہ دکھا دیں۔ یہ ان کے آگے آئیں گی اور تم کم زوری میں مبتلا تھے۔ تم ان پر غلبہ پاؤ گے، حق تعالیٰ نے اس زمانے کے اس واقعہ کی حکایت فرمائی اور اسلام نے اسے بطور اصول بیان کیا۔ تو اسلام کا اصول یہ ہے کہضعفاء کو سہارا دیا جائے ،جو کم زور ہوں ان کے اوپر احسان کیا جائے، جو مفلوک الحال ہوں ان کی مدد کی جائے ،جو غربا، یتامیٰ اور مساکین ہوں ان کا ہاتھ بٹایا جائے۔ جو کسی ظلم میں گرفتار ہواور اس ظلم سے نجات دلانا آپ کے اختیار میں ہوتوآپ پر فرض ہے کہ آپ اسے نجات دلائیں ۔

بہر حال عورت، غلام، یتیم اور مظلوم ومصیبت زدہ ان سب پررحم کیا ہے۔ تو یہ اسلام کا خاص اصول ہے کہ اس امت مسلمہ کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تم کم زوروں پر احسان کرنا سیکھو۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رحمة للعالمین فرمائی گئی کہ آپ جہانوں کے لیے رحمت ہیں اور سب سے زیادہ آپ کی رحمت کم زوروں پر ظاہر ہوئی ہے، سب سے زیادہ کم ز در عرب تھے ۔ ان کو اتنا قو ی کیا کہ پورے عالم میں ان کا نظام قائم ہو گیا۔ ان کی حکومت قائم ہوگئی۔ تو آپ کی رحمة للعالمینی نے کم زوروں اور ضعفاء کو سہارے دیے، مساکین کو اُونچا کیا، یتیموں کو والی اور وارث بلکہ آقا بنا یا۔ غلاموں کو ان کے آقاؤں کے اوپر غالب کر دیا ۔ یہ اسلام کی تعلیم کا اثر تھا۔ اس اُمت کے سامنے یہ تعلیم پیش کی گئی ہے، تا کہ امت بھی اسی راستے پر چلے۔ کم زوروں پر رحم کھائے ۔ ہر قوم میں کم زور بھی ہوتے ہیں۔ قوی بھی ہوتے ہیں، جن کے ہاتھوں میں سب کچھ ہوتا ہے۔ ان کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ ناداروں کی وہ خبر گیری کریں، ضعفاء کی رعایت و مدد کریں۔

دور فاروقی میں غرباء کو عدل وانصاف کے ذریعہ غالب کیا گیا

امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ المسلمین بنا دیے گئے تو آپ نے ممبر پر کھڑے ہو کے اعلان کیا کہ آج سے جو کم زور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے اور جو قوی ہے وہ آج سے میرے نزدیک کم زور ہے۔ یعنی میں کم زوروں کی مدد کروں گا اورا قویاء اس گھمنڈ میں نہ رہیں کہ ان کے ہاتھ میں قوت ہے، میں ایک ایک حق ان سے منتقل کر کے کم زوروں کو دلاؤں گا۔

چناں چہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت اس سے بھری پڑی ہے کہ عدل و انصاف سے غریبوں کو کتنا سہارا دیا۔ گویا اسلامی حکومت کا اصل مقصد تربیت خلق اللہ ہے۔ امیر المومنین کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی رعایا کی تربیت کرے ۔ اخلاقی طور پر ان کی نگہ داشت کرے اور یہ دیکھے کہ علم اور اخلاق کے اندر کون کم زور ہے، اس کو سہارا دیں۔ بڑے بڑے واقعات پیش آئے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مثالیں قائم کیں۔

حدیث میں ایک واقعہ فرمایا گیا ہے کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ رات کو نگہ داشت کرنے کے لیے نکلتے کہ رات میں کون کس طرح زندگی بسر کر رہا ہے، حتی کہ گھروں کی حالت معلوم کرتے تھے کہ اخلاقی حالت کچھ کم زور تو نہیں ہوگئی تو راتوں کو گشت کرتے تھے۔ ایک دفعہ گشت کر رہے تھے کہ ایک گھر سے کچھ گنگنانے کی آواز آئی، جیسے کوئی کچھ گا رہا ہو۔ اور عورت کی آواز تھی ۔ نوجوان لڑکی کچھ اشعار پڑھ رہی تھی۔ اشعار بھی کچھ عاشقانہ تھے۔ تو فاروق اعظم کو کھٹک پیدا ہوئی کہ ایک لڑکی اورگھر میں عاشقانہ اشعار پڑھے۔

خیر، وہ گھر پہ آ ئے دستک دی کہ کون ہے گھر کے اندر ؟

وہ لڑکی امیر المومنین کی آواز پہچان گئی اور رعب کی وجہ سے سہم گئی اور دب گئی اور اتنارعب پڑا کہ وہ جو اب نہ دے سکی۔ اس کے جواب نہ دینے اور چپ ہو جانے کی وجہ سے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اور زیادہ شبہ پیدا ہوا کہ گانے کی آواز تو بند ہوگئی، مگر جواب کوئی نہیں دیتا۔ پھر ڈانٹ کر آواز دی کہ اس گھر کے اندر کون ہے ؟ لڑکی بے چاری اور زیادہ دب گئی اور ڈر گئی تو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ دیوار پھاند کر گھر میں داخل ہو گئے کہ دیکھوں اندر کیا بات ہے؟ معلوم ہوا کہ کھڑی ایک نوجوان لڑکی ہے اور گھر میں کوئی نہیں ہے۔

فرمایا: تو کون ہے ؟ اورکیوں گا رہی تھی ؟ اور تجھے معلوم نہیں ہے کہ اسلام نے عورت کی آواز کو بھی عورت بنایا ہے۔ تو اتنی زور سے بول رہی تھی کہ باہر آواز آئے، تو نہیں سمجھتی کہ تو گنہگار ہوئی ؟

اب وہ لڑکی نے جرا ت کی ۔ اُسے بھی بھروسہ تھا کہ فاروق ا عظم عادل کامل ہیں۔ جو چیز کہوں گی تو یہ نہیں ہے کہ وہ جذبات میں آکر فیصلہ کریں وہ اس پر غور کریں گے۔

اس لڑکی نے ذرا کرخت آواز کر کے کہا :
امیر المؤمنین !مجھے آپ طعنہ دے رہے ہیں کہ میں نے گناہ کیا۔

آپ نے اس وقت کھڑے کھڑے تین گناہ کیے ہیں۔ اور قرآن وحدیث کے احکام کی تین خلاف ورزیاں کی ہیں۔

بس!فاروق اعظم ٹھنڈے ہو گئے ، بجائے اس کے کہ کوئی غصہ آتا۔ رعایاکی ایک لڑکی اور امیر المومنین کو ڈانٹ دے تو جذبات اُبھر نے چاہیے تھے۔ کوئی اشتعال پیدا ہونا چاہیے تھا ۔لیکن جب اس نے کہا کہ آپ نے تین گناہ کیے ہیں توفوراً سہم گئے اور مرعوب ہو گئے۔ فرمایا بہن!میں نے کیا گناہ کیے ؟

اس نے کہا کہ پہلا گناہ تو آپ کا یہ ہے کہ ایک اجنبی لڑکی ہوں اورا جنبی لڑکی کے ساتھ کسی مرد کو خلوت جائز نہیں ہے۔ آپ کو کیا حق تھا کہ آپ میرے گھرمیں آپائے اور آکرمیرے تخلیے میں خلل ڈالا۔

دوسری بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا صاف حکم ہے کہ:﴿وَاْتُوا البُیُوتَ مِنْ ابوابھا﴾․ گھروں میں دروازوں کے ذریعے سے داخل ہوں۔ آپ نے خلاف ورزی کہ آپ دیوار پھاند کر گھر میں آئے ۔ آپ کو دیوار پھلانگ کر آنے کا کیا حق تھا ؟

تیسری بات یہ ہے کہ قرآن کا حکم ہے:﴿لَا تَدْخُلُوا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتانسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَی أَہْلِہَا﴾ کسی کے گھر کے اندر اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو اورسلام نہ کر لو۔

بنی کریم صلی الله علیہ وسلم کی عادت شریفہ تھی کہ جب کسی دوسرے کے گھر پر جاتے تو تین دفعہ سلام فرماتے ۔ اورتین سلاموں کی کیا صورت ہوتی ؟

ایک سلام استئذان ،یعنی اجازت لینے کا سلام ، بجائے اس کے دستک دیں نام لے کر پکاریں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم دروازے پر کھڑے ہو کر زور سے فرماتے۔ السلام علیکم، گھر والوں کو آواز سنائی دیتی، وہ وعلیکم السلام کہہ کر باہر آتے ، اجازت دیتے اور گھر میں بُلاتے پھر جب گھر میں داخل ہوتے تو مجلس کو سلام کرتے ۔ یہ سلام تحیہ کہلاتا ہے اور پھر جب واپس ہوتے ، پھر سلام و داع کہتے۔ یہ سلام وداع کہلاتا ہے۔ تو تین سلام ہوتے ہیں۔ جو ابتدائی سلام ہے وہ سلام استئذان یعنی اجازتلینے کا سلام ہے ۔تولڑکی نے کہا، قرآن نے حکم دیا تھا کہ جب تک اجازت کا سلام نہ کیا جائے، گھرمیں داخل نہ ہوں ۔ آپ بلا سلام استئذان واجازت کیسے داخل ہو گئے ؟

یہ تین گناہ آپ سے سرزد ہوئے ہیں ۔ لڑکی نے یہ ڈانٹ کر فاروق اعظم سے کہا۔ تو فاروق اعظم نے فرمایا ۔ بہن!لوجہ اللہ مجھے معاف کر واقعی میرے سے غلطی ہوئی ۔

اس نے کہا کہ میری خطا آپ نے کب کی ہے جو میں آپ کے معاف کروں؟ جس کی خطا کی ہے اس سے معافی چاہو ، قرآن کی خلاف ورزی کی ہے ۔ خدا کے سامنے توبہ استغفار کرد، میرے سے معافی کا کیا مطلب؟

اب فاروق اعظم رضی الله عنہ بہت ہی شرمندہ اور بہت ہی منفعل وہاں سے واپس آئے۔ حالاں کہ فاروق اعظم امیر المؤمنین ہیں۔ امیر کو یا امیر کی پولیس کو شبہ پریہ حق حاصل ہے کہ چھا پہ مار کر گھر میں داخل ہو ۔ فاروق اعظم نے یہ کوئی گناہ نہیں کیا تھا ۔ پھر فاروق عظم نے اجازت تولی ۔ ڈانٹ کر کہا کہ کون ہے جو اندر گا رہا ہے ؟ جب کوئی بولا نہیں اور انہیں شبہ ہوا، پھر داخل ہونے کا حق تھا تو خلاف ورزی انہوں نے کی یا لڑکی نے ؟

امیر المؤمنین ہونے کی حیثیت سے وہ یہ سب چیزیں کرسکتے تھے، لیکن اس کے با وجود انہوں نے اپنے آپ کو گنہگار کے مقام پر سمجھا کہ حقیقتاً مجھ سے غلطی ہوئی اور تمام رات جاگ کر استغفار کیا ، عبادت کی اور اللہ کے سامنے روئے صبح کو انشراح ہوا کہ اللہ نے میری غلطی معاف کردی، حالاں کہ توبہ کی ضرورت نہیں تھی۔ آپ گنہگار تھے ہی نہیں، مگر پھر بھی اپنے آپ کو گنہگار سمجھ کر توبہ کی۔

اب ضابطے کے مطابق آدمی بھیجا کہ اس لڑکی کو دربار خلافت میں حاضر کرو۔ لڑکی لائی گئی۔ فرمایا! بہن الله تجھے جزائے خیرے دے۔ تو نے مجھے میری غلطیوں پر متنبہ کیا۔ میں نے تمام رات اللہ کے سامنے استغفار کیا اور توبہ کی۔ اوراب مجھے انشراح ہے کہ اللہ نے میرے گناہ کو معاف کر دیا۔

تواضعاً گناہ کہہ رہے ہیں۔ ورنہ گناہ نہیں تھا۔ مجھے اللہ نے معاف کر دیا۔ اور میں تیرا احسان مند ہوں، لیکن اب بحیثیت امیر المؤمنین ہونے کے تجھ سے پوچھتا ہوں کہ وہ گانا بجانا کیسا تھا اور تو کیوں گا رہی تھی؟ تجھے ایسے عاشقانہ اشعار پڑھنے کا کیا حق ہے؟ لڑکی نے کہا ۔ امیر المؤمنین اصل واقعہ یہ ہے کہ میں ایک نوجوان لڑکی ہوں اور پھر یہ جوانی ہے اور ابھی پندرہ دن میری شادی کو ہوئے تھے۔ میرا خاوند بھی نوجوان ہے، آپ نے اُسے فلاں محاذ کے او پر فوج کے ساتھ بھیج دیا۔ میں اس کے فراق میں یہ عاشقانہ اشعار پڑھ رہی تھی ۔ اور کوئی بات نہیں تھی ۔ نہ میں زانیہ ہوں ،نہ بدکار۔

فرمایا ، بہتر۔ تونے سچ کہا۔ تیرا لہجہ بتلا رہاہے کہ حقیقتاً بات یہی ہے۔ پھر اسے بہت اکرام کے ساتھ واپس کیا۔

ایک لڑکی کی وجہ سے پوری فوج کے لیے ضابطہ جاری کیا گیا

ادھر لڑکی کو واپس کیا اور گھرمیں آکر فاروق اعظم رضی الله عنہ نے اہلیہ محترمہ سے یہ پوچھا کہ اگرنوجوان لڑکی کی شادی ہو اور نوجوان ہی خاوند ہو اور دونوں میں جدائی کر دی جائے تو کتنے دن تک وہ صبر کر سکتے ہیں کہ اس کے بعد بدکاری میں مبتلا ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ فرمایا! تین مہینے سے زیادہ نوجوان عورت صبر نہیں کرسکتی۔ یہ الگ چیز ہے کہ اس کا دین مضبوط ہو۔اس میں حیا ہے اور اپنے اخلاق کی وجہ سے صبر سے برسہا برس، بلکہ عمر بھر گزار دے۔ یہ عوارض کی بات ہے، گفت گو طبعی جذبات کے او پر ہو رہی تھی، طبعی جذبات کے اعتبار سے فرمایا کہ اندیشہ ہوتا ہے کہ تین ماہ کے بعد بدکاری میں مبتلا ہو جائے، اگر کوئی دین و دیانت مانع نہ ہو۔

فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اب سرکاری آرڈر جاری کیا:” جن شادی شدہ جوانوں کو جنگ پر بھیجا گیا ہے ۔ انہیں تین مہینے کے اندر واپس کیا جائے اور ان کی جگہ دوسرے سپاہی بھیجے جائیں، تین مہینے یا تین مہینے سے زیادہ کسی نوجوان کو نہ رکھا جائے جس کی شادی ہو چکی ہو۔ اور امکانی حد تک ان جوانوں کو فوج میں بھیجنے کی کوشش کی جائی، جو شادی شدہ نہ ہوں، تاکہ یکسوئی کے ساتھ جہاد کر سکیں اور شادی شدہ ہوں تو انہیں تین مہینے کے اندر اندر فوراً واپس کیا جائے ۔“

قوم کے اخلاق کی نگہ داشت امیر المؤمنین کا فرض ہے

گویا اخلاق کی یہ نگہ داشت سرکاری طور پر تھی ۔ ایک سیاسی نگہ داشت ہوتی ہے، وہ تو ہر بادشاہ کرتا ہے۔ ایک اخلاقی تربیت ہوتی ہے۔ اسلام میں امیر المؤمنین کا یہ فرض ہوتا تھا کہ پبلک کے اخلاق و عادات کی اصلاح کرے ۔ ان کے اخلاق اور گھریلو معاملات کو دیکھے کہ کوئی بد اخلاقی تو نہیں ہو رہی۔ ان کے تقویٰ وطہارت میں کوئی فرق تو نہیں آگیا، یہ ساری ذمے داری امیر المؤمنین پر عائد ہوتی تھی۔

مذہبی معاملات میں پیشوائی بھی امیرالمؤمنین کا فرض ہے

یہی وجہ تھی کہ امیر کا حق سمجھا گیا ہے کہ وہ امامت کرائے۔ نماز پڑھانا یہ امیر المؤمنین کا اصل کام ہے، جس عہدے کو ہم بہت ہی گھٹیااور ردّی سمجھتے ہیں۔

یہاں تو خدا کا فضل ہے ، یہاں کے مسلمان الحمد للہ مسجدوں کا صرف احترام ہی نہیں رکھتے، بلکہ مسجدوں کو اپنے گھروں سے زیادہ آراستہ کرتے ہیں ۔ آئمہ مساجد کی عزت بھی ہے، تنخواہیں بھی معقول ہیں۔ لیکن ہماری طرف اس بارے میں اس قدر حال ابتر ہے کہ جو بالکل کو دن ،نکما اور کندہٴ ناتراش ہوا سے امام بنائیں گے۔ جو حد درجہ جاہل ہو۔ جو دنیا کا کوئی کام نہ کر سکتا ہو اسے امام بنائیں گے ، جو اندھا، لنگڑا ، لولا ہو اسے مؤذن بنائیں گے جو دنیا کے کسی کام کا نہ ہو۔ اور یوں سمجھتے ہیں کہ ہمارے گھر کا کمین ہے، جیسے نائی ، حجام ، ڈوم کمین ہوتے ہیں۔ یہ امام بھی ایک کمین ہے، جیسے شادیوں کے موقع پر حجاموں اور ڈوموں کو دیا جاتا ہے مسجد کے امام کو بھی کچھ دے دیتے ہیں۔

حالاں کہ فقہا لکھتے ہیں کہ یہ بہت بڑا وقیع عہدہ ہے ۔ اس کو امام بنانا چاہیے جس کی محلے دارعزت و عظمت کر سکیں ، اس کی عزت کرنا شریعت نے فرائض میں شامل کیا۔

اس لیے کہ وہ در حقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے۔ یہ قائم مقام کی حیثیت سے امامت کرا رہا ہے۔ تو اصل میں یہ حق امیر المؤمنین کے لیے رکھا گیا ہے۔ اور اس میں مصلحت یہ ہے کہ النَّاسُ عَلَی دِینِ مُلوکہم مثل مشہور ہے کہ لوگ اپنے بادشاہ کے طریق پر چلتے ہیں، جیسا راجہ ویسی پر جا ۔“ جیسا بادشاہ ہو گا ویسی رعیت بنے گی تو جب امیر المؤمنین پانچ وقت آکر نماز پڑھائیں گے تو رعیت کا کون سا آدمی رہ جائے گا جومسجد میں حاضر ہو کر نماز نہ پڑھے ۔

اس لیے کہ لوگ بادشاہ کی شوکت کو دیکھ کر ہی کام کرتے ہیں جو بادشاہ کرتا ہے۔ یعنی دین تو بڑی چیز ہے، اگر بادشاہ فسق و فجور میں مبتلا ہے تو رعیت میں بھی از خود وہی بات ہو جاتی ہے کہ رعیت بھی مبتلا ہے۔

تاریخ میں لکھا ہے کہ سلیمان بن عبد الملک، یہ اموی خاندان کا خلیفہ تھا۔ اس کو شادیاں کرنے کا بہت شوق تھا۔ ناجائز تو نہیں کرتا تھا۔ چار بیوں سے زیادہ نہیں رکھتا تھا، مگر جسے جائز عیاشی کہتے ہیں کہ قانون کی آڑرکھ کر عیاشی کرنا۔ وہ کرتا تھا۔ چار بیویاں رہتی تھیں ،جہاں چھ ماہ گزرے ایک کو طلاق دی، اس کا مہر ادا کیا، اس کی جگہ پانچویں لے آئے۔ پھر دوسری کو طلاق دے کر اس کی جگہ لے آئے بغرض اسی طرح کرتے کرتے اس نے دو اڑھائی سو کے قریب شادیاں کیں ،بس اس کا یہ شوق تھا، بادشاہت تھی، خزانہ ہاتھ میں تھا۔ دین و دیانت پیش نظر نہیں تھا کہ وہ قومی خزانہ اس طرح سے ذاتی مصارف میں خرچ کرتا۔ اتنا غنیمت تھا کہ حرام کاری سے بچتا تھا۔ بیک وقت چار بیویوں سے زیادہ نہیں ہوتی تھیں۔ مگر چار میں رد و بدل ہوتا رہتا تھا۔ یہ اس کا طریقہ تھا۔

تو اس زمانے کے امراء کی مجلس میں بیٹھ کر فخریہ باتیں ہوتی تھیں۔ ایک رئیس کہتا کہ میں پچاس شادیاں کر چکا ہوں تو دوسرا کہتا آپ نے کون سا بڑا کام کیا، میں سو بیویاں کر چکا ہوں، تیسرا کہتا جناب!میں دو سو کر چکا ہوں، چوں کہ بادشاہوں میں یہ طریقہ تھا تو ساری پبلک میں یہی چیز فخر کا باعث بن گئی۔

جس راستے پر امراء اور سلاطین چلتے ہیں اسی پر عام پبلک کے لوگ چلتے ہیں۔

اس لیے شریعت اسلام نے امیر المومنین کا کام قرار دیا کہ وہ امامت کرائے، تا کہ یہ ذلیل نہ رہے۔

اب ظاہر ہے کہ جب امیر المؤمنین خود مسجد میں آئیں گے تو امراء میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا جو مسجد میں نہ آجائے، غرباء ممکن ہے نہ آئیں، لیکن امیر، نواب اور جاگیردار کوئی باقی نہیں رہے گا جو مسجد میں نہ آئے ، اس لیے کہ انہیں بادشاہ کی رضا مندی اور اس راہ پر چلنا مقصود ہوتا ہے۔ اب جب بادشاہ نماز کے راستے پر آگیا تو وہ کہیں گے،چلو! ہم بھی نماز کے راستے پر سہی ۔

عالم گیر کے زمانے کا واقعہ لکھا ہے کہ عالم گیر کے زمانے میں علماء کچھ کس مپرسی میں مبتلا ہو گئے، انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں رہا۔ اس واسطے کہ امراء اپنے نشہ دولت میں پڑ گئے ۔ اب علماء سے مسئلہ کون پوچھے۔ تو علما بے چارے جوتیاں چٹخاتے پھر نے لگے۔ عالم گیر چوں کہ خود عالم تھے۔ اہل علم کی عظمت کو جانتے تھے۔ تو انہوں نے کوئی بیان وغیرہ اخبارات میں شائع نہیں کرایا کہ علماء کی قدر کرنی چاہیے ۔

یہ تدبیر اختیار کی کہ جب نماز کا وقت آیا تو عالم گیر نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آج فلاں والی ملک ،جو دکن کے نواب ہیں، وہ ہمیں وضو کرائیں توجود کن کے والی تھے انہوں نے سات سلام کہے کہ بڑی عزت افزائی ہوئی کہ بادشاہ سلامت نے مجھے حکم دیا کہ میں وضو کراؤں ۔ وہ سمجھے کہ اب کوئی جاگیر ملے گی۔ بادشاہ بہت راضی ہے تو آپ فوراً پانی کا لوٹا بھر کر لائے اور آکر وضو کرانا شروع کر دیا ۔

عالم گیر نے پوچھا کہ وضو میں فرض کتنے ہیں؟ انہوں نے ساری عمر کبھی وضو کیا ہو تو انہیں خبر ہوتی ۔ اب وہ حیران کیا جواب دیں ۔ پوچھا واجبات کتنے ہیں ؟ کچھ پتہ نہیں۔ پوچھا سنتیں کتنی ہیں ؟ جواب ندارد۔

عالم گیر نے کہا بڑے افسوس کی بات ہے کہ لاکھوں کی رعیت کے اوپر تم حاکم ہو ، لاکھوں کی گردنوں پر حکومت کرتے ہو اور مسلم تمہارا نام ہے، تمہیں یہی پتہ نہیں کہ وضو میں فرض، واجب اورسنتیں کتنی ہیں!! مجھے امید ہے کہ میں آئندہ ایسی صورت نہیں دیکھوں گا ۔ایک کے ساتھ یہ برتاؤ کیا۔ رمضان المبارک کا مہینہ تھا۔ ایک دوسرے امیر سے کہا آپ ہمارے ساتھ افطار کریں ۔ اس نے کہا ۔

جہاں پناہ !یہ تو عزت افزائی ہے، ورنہ فقیر کی ایسی کہاں قسمت کہ بادشاہ سلامت یاد کریں ۔ اور جب افطار ہوا، تو عالم گیر نے ان سے کہا کہ مفسداتِ صوم جن سے روزہ فاسد ہوتا ہے کتنے ہیں ؟

انہوں نے اتفاق سے روزہ ہی نہیں رکھا تھا ، انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ روزے کے مفسدات کیا ہیں۔ اب چپ ہیں کیا جواب دیں۔ عالم گیر نے کہا۔ بڑی بے غیرتی کی بات ہے کہ تم مسلمانوں کے امیر والی ملک اورنواب کہلاتے ہو ، ہزاروں آدمی تمہارے حکم پر چلتے ہیں اور تم مسلمان ، ریاست اسلامی، تمہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ روزہ فاسد کن کن چیزوں سے ہوتا ہے۔

اسی طرح کسی سے زکوٰة کا مسئلہ پوچھا تو زکوة کا نہ آیا،کسی سے حج وغیرہ کا ۔ غرض سارے فیل ہوئے اور یہ کہا کہ آئندہ میں ایسا نہ دیکھوں ۔

بس جب یہاں سے امراء واپس ہوئے ۔ اب انہیں مسائل معلوم کرنے کی فکر پڑی تو مولویوں کی تلاش شروع ہوئی ۔ اب مولویوں نے نخرے شروع کیے کہ ہم پانچ سو روپے تنخواہ لیں گے ۔ انہوں نے کہا حضور! ہم ایک ہزار روپیہتنخواہ دیں گے۔ اس لیے کہ جاگیریں جانے کا اندیشہ تھا۔ ریاست چھن جاتی ۔ تو مولوی نہ ملیں ۔ تمام ملک کے اندر مولویوں کی تلاش شروع ہوئی۔ جتنے علماء طلباء تھے سب ٹھکانے لگ گئے، بڑی بڑی تنخواہیں جاری ہوگئیں اور ساتھ یہ کہ جتنے جتنے امراء تھے انہیں مسائل معلوم ہو گئے ۔ اور دین پر انہوں نے عمل شروع کر دیا ۔ تویہ وہی بات تھی کہ:”النَّاسُ علی دینِ ملوکہم․“ جیسا راجہویسی پر جا، جیسا بادشاہ ویسی رعایا ، با دشاہ گر خود دین کی طرف متوجہ ہو جائے تو ناممکن ہے کہ رعایا اور پبلک متوجہ نہ ہو، اس لیے کہ حکومت جو راستہ ڈالتی ہے پبلک اسی پرخوش دلی سے چلتی ہے ۔

اس میں نیکی ہی کی بات نہیں بُری سے بری بات ہو بادشاہ اس کو رائج کردے لوگ اس پر چلیں گے۔ آج کا تہذیب و تمدن چوں کہ حکومتوں کی طرف سے آیا ہے۔ تو آج کے تہذیب و تمدن کے کیا معنی ؟ اسلام میں تہذیب و تمدن کے یہ معنی تھے کہ اخلاق ہونا، صبر و شکر، حیا و غیرت، شجاعت وسخاوت ہو، لیکن آج تہذیب کے معنی ہیں کلب گھروں میں جا کر نا چنا، عریانی اور ننگے پن کا مظاہرہ کرنا، فحش اور بے حیائی کی باتیں کرنا، آج کی تہذیب کے یہ معنی ہیں، چوں کہ حکم رانوں کی طرف سے یہ تہذیب آرہی ہے، پبلک بھی اسی پر چل رہی ہے، اب انہیں یہ خبر نہیں ہے کہ یہ اچھی یا بری چیز ہے۔ ہر اچھی یا بری چوں کہ او پر والے کر رہے ہیں لہٰذا ہم بھی کر رہے ہیں۔ تو جس چیز کے پیچھے شوکت اور قوت آجاتی ہے۔ وہ چیز دل پذیر بن جاتی ہے، دلوں میں گھر کر جاتی ہے، لوگ اسے اختیار کرتے ہیں۔
اسی واسطے اسلام نے جتنی نیکیاں ہیں ان کا ذمہ دار خود امیر المؤمنین کو بنایا ہے، یعنی حق کی بات یہ ہے کہ اگر جنازہ آجائے ۔ تو حق یہ ہے کہ امیر المؤمنین جنازے کی نماز پڑھا ئیں ۔ ظاہر ہے کہ جب امیر المؤمنین اور بادشاہ جنازے کی نماز پڑھائے گا۔ تو امراء جاگیردار، نواب جتنے بھی ہوں گے یہ لوگ میت سے کنارہ کشی چھوڑ دیں گے کہ بھئی ! میت کے پاس بھی جانا چاہیے، اس کی نماز جنازہ بھی پڑھنا چاہیے ۔ تو دین دار ہو جائیں گے ، امامت کریں گے تو مساجد بھر جائیں گی۔ نماز جنازہ پڑھائیں گے تو لوگ میت کے ساتھ خیر خواہی اور ہم دردی شروع کر دیں گے۔ امیر زکوٰة دے گا تو دنیا میں زکوة رائج ہو جائے گی، جس کو قرآن کریم میں فرمایا گیا:﴿الَّذِینَ إِن مَکَنَّہُم فِی الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَّوُا الزَّکوة وَآمَرُوا بِالْمُعَرفِ وَنہوَوا عَنِ الْمُنکَرِ وَ لِلَّہِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ﴾اگر ہم ان مسلمانوں کو زمین کی قوت و سلطنت دے دیں تو وہ تعیش نہیں اختیار کریں گے ﴿أَقَامُوا الصَّلوةَ﴾ یہ دین قائم کریں گے ﴿وَاتَّوُا الزَّکوة﴾ زکوٰة کا نظام قائم کریں گے، امر بالمعروف کا نظام قائم کریں گے ۔ اچھی باتیں دنیا میں رائج کریں گے منکرات کو مٹائیں گے توجب صاحب اقتدار منکرات کو مٹانے لگے تو پبلک میں کون رہے گا جو منکرات پر عمل کرے گا؟! وہ بھی مٹائیں گے ۔ امیر المومنین معروف اور پاکیزہ خصلت کو رائج کرے تو ہر امیر و غریب رائج کرنے کی فکر میں لگے گا، دین پھیل جائے گا۔ اس واسطے امراء کے فرائض میں قرار دیا گیا ہے کہ نماز جنازہ بھی وہی پڑھا ئیں، مسجد میں امامت بھی وہی کرائیں ۔ یہ منصب دراصل ایسا ہے جیسے آج دنیا میں گورنری کا عہدہ ہے، جو کسی سلطنت یا صوبے میں بادشاہ کا نائب ہوتا ہے ، امام، اللہ کا نائب ہوتا ہے اللہ کے رسول کا قائم مقام ہو کے کھڑا ہوا ہے ۔ تو دینی حکومت ہو تو یہ بڑے عہدے ہوتے ہیں ۔

اسی واسطے فرمایا گیا:﴿یؤُمُّ القَوْمَ أَقْرَأَہُمْ لِکِتَابِ اللہِ﴾ امامت کا حق اس شخص کو ہے جو سب سے زیادہ قرآن پڑھا ہوا ہے اور: ”فَإِن کَانُوا فِی الْقِرَاءَ ةِ سَوَاء ً فَاعْلَمُہُمُ بالسنة“ اور اگر قرآن پڑھنے ہیں ۔ مقتدی اور امام سب برابر ہیں تو اُسے امام بنا ؤ جو سنت کے علم سے زیادہ واقف ہو اور اگر قرآن و سنت میں سب کے سب ماہر ہوں، پھر اسے امام بناؤ جو فقہ اور نماز کے مسائل زیادہ جانتا ہو اور اگر فقہ میں بھی سارے ما ہر ہیں تو پھر اسے بناؤ جس کا نسب اُونچا ہو۔ اور اگر اس میں بھی سب برابر ہیں پھر اسے بناؤ جو خوب صورت ہو۔

مطلب یہ کہ امام کے اندر کوئی خصوصیت ایسی ہو کہ مقتدیوں کو اس کے پیچھے کھڑے ہونے میں کوئی عار نہ پیدا ہو۔ وہ اس کے ساتھ جھک جائیں، اس کی بھی عزت کریں۔ اب اگر آپ جان بوجھ کر ایسے امام رکھیں جن کی صورت نہ شکل، نہ علم نہ ہنر ،کوئی چیز بھی ان کے اندر نہ ہو۔ جو ساری دنیا سے نکمیہوں انہیں امام بنا دو۔ تو پھر جیسا امام ہوگا، ویسی نماز ہو گی۔ ویسا ہی آخرت میں اجر ملے گا۔

بہر حال یہ عہدے ہیں اور ان عہدوں کی ذمہ داری امرائے اسلام کے اوپر ڈالی گئی ہے۔ یہیوجہ ہے کہ وعظ ، تقریر یا خطابت یہ امیر کے ہاتھ میں دی گئی ہے اور فرمایا گیا:”لَا یَقُصُّ إِلَّا أَمِیرٌأَوْ مَا مُرْرٌ أَوْ مُحتال“ تقریر اور خطابت کا حق سب سے پہلے امیر المؤمنین کو ہے، وہ خطیب بن کر وعظ کہے اور مسائل کہے یا پھر وہ بیان کرے جس کو امیر حکم دے اور مامور کرے کہ تم جا کے وعظ و خطابت کرو اور مسائل پہنچاؤ۔ اور تیسرا جو کرے گا وہ دھوکہ باز ہوگا۔ وہ اپنی اغراض کے لیے وعظ و تقریر کرے گا۔ اس لیے کہ جب نہ امیر نے اجازت دی اور نہ وہ خود امیر اور مامور، معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ذاتی اغراض والا ہے۔

آج کے دور میں مجموعہ علماء کو خلافت کا قائم مقام قرار دیا گیا ہے

آج کے دور میں جہاں امارت ہے خلافت نہیں ہے تو علما کے مجموعے کو امیر کے قائم مقام سمجھا گیا ہے ۔ اگر وہ شہادت دیں کہ یہ اس قابل ہے کہ خطابت کرے ،مسائل بیان کرے ، اس کو حق ہے، لیکن جس کی کوئی سند نہ ہو، پڑھا ہوا نہ ہو، کوئی عالم شہادت نہ دے کہ اس میں علم ہے۔ وہ اگر تقریر کرے گا ظاہر ہے دین کوفا سد کرے گا، اس کو بھی آزاد نہیں رکھا گیا۔

تقریر وتحریر کی آزادی نہیں ہے، بلکہ شہادت کے ساتھ تقریر وتحریر کی اجازت ہے، اگر یہ عام ہو جائے جیسے آج ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ایک کچھ کہہ گیا، دوسرا کچھ کہہ گیا۔ عوام تشویشاتمیں مبتلا ہوتے ہیں کہ کس کے مسائل پر عمل کریں۔ ایک جائز کہہ رہا ہے ، ایک نا جائز کہہ رہاہے، اب ان بے چاروں کو یہ خبر نہیں کہ عالم کالبادہ پہن کر آیا وہ عالم نہیں ہے، عالم فلاں ہے۔ ان کے سامنے جو الله کا نا لے گا وہ کہیں گے یہ عالم ہے ۔ امتیاز نہیں ہوسکے گا۔

یہی وجہ ہے کہ دین کے ساتھ امارت اور خلافت قائم کی گئی تھی کہ وہ دینی چیزوں کو اپنے قبضہ اور اقتدار میں رکھ کے آگے چلائے، اسی لیے فرمایا گیا:” لا یقص أمیر أَوْ مَا مُور او مُحْتَالُ“ تقریر کرنے والا یا امیر ہوگا یا مامو ہو گایا پھر دھو کے بازہوگا اور امیر کے قائم مقام اہل علم ہیں ۔

ہمارے ہاں ہندوستان میں حیدرآباد اور بھوپال کی ریاستوں میں کچھ وقت پہلے یہ چیز تھی کہ جب کوئی باہر سے خطیب آتا تو علماء کی ایک مجلس جب تک پاس کر کے شہادت نہ دے کہ یہ اس قابل ہے کہ تقریر کر سکے۔ تقریر کی اجازت نہیں ہوتی تھی، اس کا ثمرہ یہ ہوتا کہ ریاست میں صرف ایک خیال کے لوگ تھے۔ خیالات میں پراگندگی نہیں تھی۔ ایک مسلک پر سب عمل کرتے تھے، عوام میں کوئی تشویش نہیں تھی، دین پر چل رہے ہیں ۔ حیدر آباد میں بھی یہ چیز تھی اور بھوپال میں بھی۔ اس لیے وہاں علماء کی کثرت تھی، علم کی عظمت بھی تھی۔ اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی جب ریاست قدر دانی کراتی ہے تو دین پھیلتا ہے۔

بھوپال میں ایک عام دستور تھا کہ اگرکسی غریب آدمی نے اپنے بچے کو مکتب میں بٹھلایا تو آج مثلاً اس نے الٓمٓ کا پارہ شروع کیا تو ریاست کی طرف سے ایک روپیہ ما ہوار اس کا وظیفہ مقرر ہو گیا۔ جب دوسرا پارہ لگاتو دو روپے ماہوا رہو گا۔ تیسراپارہ لگا تو تین روپے ماہوار ہو گئے ۔ یہاں تک کہ جب تیس پارے ہوں تو تیس روپے بچے کا ماہوار وظیفہ ہوتا۔

اور اس زمانے میں ساٹھ ستر برس پہلے تیس روپے ماہوار ایسے تھے جیسے تین سو روپے ماہوار ۔ بہت بڑی آمدنی تھی، سستا زمانہ تھا، ارزانی تھی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جتنے غریب لوگ تھے جنہیں کھانے کو نہیں ملتا تھا وہ بچوں کو مدرسہ میں داخل کر دیتے تھے کہ قرآن کریم حفظ کرے گا تو اسی دن سے وظیفہ جاری ۔ ہزاروں ایسے گھرانے تھے اور ہزاروں ایسے حافظ پیدا ہو گئے۔ ساری مسجدیں حافظوں سے آباد ہو گئیں، اس لیے کہ ریاست پشت پناہی کرتی تھی ۔

تو یہ قاعدہ ہے کہ حکومت یا ریاست جس چیز کی پشت پناہی کرتی ہے وہ چلتی ہے اور عوام و خواص سب شوق کے ساتھ اس کو قبول کرتے ہیں۔ خلافت میں چوں کہ اصلی مقصود دین ہے، اس لیے امیر کے ذمہ فرائض عائد کیے گئے کہ جب بادشاہ دین پر چلے گا، تو رعیت اور پبلک بھی دین پر چلے گی اور دین عام ہوتا جائے گا۔ جب تک خلافت قائم رہی ، دین عام ہوتا رہا اور خلافت کے دوران میں تیس سال کے اندر اندر نصف دنیا سے زیادہ او پر اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ پورا ایشیا، آدھا یورپ اور ایشیا کوچک ان سب میں اسلام کا پرچم اونچا کر دیا ، اس لیے کہ سب کا مقصد یہ تھا کہ دین پھیلے ۔

خلافت کے ختم ہو جانے کے بعدعلمائے ربانی او ر صوفیائے کرام نے اسلام پھیلایا

خلافت کے ختم ہو جانے کے بعد جب ملوکیت، با دشاہ پسندی اور اقتدار پسندی کا دور آیا تو سلاطین اسلام نے محض اپنے اقتدار کے بچاؤ کے لیے آپس میں لڑنا شروع کیا۔ وہ جو دینی تبلیغ واشاعت تھی وہ قصہ ختم ہو چکا اور جو ملک صحابہ و تابعین و تبع تابعین کے زمانے دین میں آئے وہ تو آئے، اس کے بعد کسر ویت و قیصر ویت اور اقتدار پسندی غالب آئی تو سلاطین اسلام آپس میں تحفظ اقتدار کے لیے لڑنے لگے ۔ دین کی اشاعت اور حفاظت بے چارے علماء نے سنبھال لی، جتنا اسلام پھیلا وہ صوفیاء کی بدولت پھیلا، جو چٹائیوں پر بیٹھنے والے تھے، ان کے ہاتھ میں نہ کوئی اقتدار تھا ،نہ کوئی سلطنت کی باگ ڈور تھی ۔

اسی لیے ان لوگوں کو تاکیدیں کی گئیں کہ امراء کے پاس مت جاؤ۔ بادشا ہوں کی ہم نشینی اور صحبت مت اختیار کرو ، ورنہ تم بھی دین سے جاؤ گے ۔ ان سے ہٹ کر دین کو پھیلایا۔ تو دین رحم و کرم اور نرمی و مروت کے اخلاق کے راستے سے آیا ۔ سلطنت کے راستے ختم ہو گئے، وہاں اقتدار پسندی رہ گئی ۔

ہمیں نبوت کے مزاج پر چلنا ہے

تو میں نے اس پر عرض کیا تھا کہ دنیا میں دو مزاج ہیں۔ ایک نبوت کا مزاج ہے اور ایک ملوکیت کا مزاج۔ بادشاہ کا مزاج اقتدار پسندی ہے۔ اور نبوت کا مزاج خاکساری اور عجز و نیاز مندی ہے۔

نبی تمام سلاطین اور سارے لوگوں سے بالا تر ہوتا ہے ،لیکن ایسا جھک سکتا ہے جیسے عام آدمی جھک سکتے ہیں۔ بادشاہ ایک محدود خطہ میں رہتا ہے۔ وہ اپنے کو”ما بدولت“ کے ساتھ تعبیر کرتا ہے کہ ہم نے یوں کیا ، ہم نے یوں کہا۔ تو لفظ لفظ کے اندر اقتدار اور رعونت ہوتی ہے اور انبیاء علیہم السلام کے الفاظ میں انتہائی تواضع، خاکساری ہوتی ہے اور اور عجز ونیاز کا برتاؤ ہوتا ہے۔ اپنے سے چھوٹے کے سامنے بھی عجز ونیاز کا برتاؤ کرتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سفر پر جا رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رخصت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”وَلا تَنسانَایَا أَخِی فِی دُعَائِک“ اے میرے بھائی!اپنی دعاؤں میں ہمیں فراموش مت کرنا!الله،الله کہاں سردار دو عالم صلی الله علیہ وسلم اور فاروق عظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک خادم اور غلام ہیں ان کو فرماتے ہیں کہ میرے بھائی!مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا۔ تو یہ انتہائی عجز ونیاز کی بات ہے کہ سردار اولین و آخرین اور سردار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہی ایک خادم اور چھوٹے کو فرما رہے ہیں کہ مجھے دعا میں یا درکھنا ۔ یہ مزاج نبوت کا ہے اور وہ مزاج بادشاہت کا ہے۔ ہمیں نبوت کے مزاج پر چلناہے ۔

جب بادشاہت اور ملوکیت دنیا کو فاسد کرے تو پناہ کی جگہ صرف نبوت ہوتی ہے۔ اس واسطے ہم جتنا نبوت کے دامن میں آئیں گے۔ اتنے ہی اخلاق بلند ہوں گے، اتنا ہی علم و معرفت آئے گی۔ اتنا ہی کیریکٹر اور کردار عمدہ ہوگا۔ اس واسطے انبیا ء علیہم السلام کی تعلیما ت، پر ان کی تربیت پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے راستے پر چلنا چاہیے۔ اس علم کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان اخلاق کو اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ضعفاء قوی بن جاتے ہیں۔ جو پست ہوتے ہیں وہ شوکت والے بن جاتے ہیں، جو مظلوم ہوتے ہیں انہیں عدل مل جاتا ہے۔ یہ انبیاء علیہم السلام کے راستہ پر ہی چلنے کا ثمرہ نکلتا ہے، اس کے سوا پناہ کی کوئی صورت نہیں ہوتی ۔

اس واسطے میں نے یہ چند جملے عرض کیے، تاکہ دین کے اعتبار سے بھی نافع ہوں اور دنیا کی مشکلات بھی حل ہوں اور حل کا راستہ ایک ہی ہے اور وہ انبیاء علیہم السلام کا راستہ ہے ۔ اس کو فرمایا گیا:﴿أَن نَّمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ﴾․ (سورة القصص، آیت:5)راستے پر چلو گے ، ضعیف بھی ہوگئے تو قوی بنا دیے جاؤ گے۔ بے شوکت ہوگے تو با شوکت کر دیے جاؤ گے۔

اس واسطے یہ چند جملے میں نے اس آیت کے تحت عرض کیے چوں کہ یہ معلوم ہوا تھا کہ عورتیں بھی مدعو کی گئی ہیں۔ اس لیے کچھ عورتوں کے متعلق بھی بیان کیا کہ ان کے حقوق پہچاننے کی ضرورت ہے کہ ان کے حقوق پامال نہ کیے جائیں ۔ ان عورتوں کا حق ہے کہ وہ اپنے خاوندوں کے حقوق پامال نہکریں ،تا کہ معاشرت صحیح طور پر چل سکے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو نیک راہ پر چلنے کی توفیق عطا فروئے، ہمارے احوال بھی درست فرمادے ۔ ہمارا دین و دنیا دونوں درست فرما دے۔

اللَّہُمَّ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْکَ رَحْمَةً إِنَّکَ أَنْتَ الْوَہَّابُ․رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ وَأَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا إِنَّکَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِیم․ُ

صَلَّی اللہُ تَعَالَی عَلَی خَیْرِ خَلْقِہِ مُحَمَّدٍ وَالِہِ وَأَصْحَابِہِ اجْمَعِینَ، بِرَحْمَتِکَ یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ․

مجالس خیر سے متعلق