نحمدہ نصلی علی رسولہ الکریم
أما بعد! قال رسول الله ا:الدین النصیحة․
وقال عمر بن الخطاب رضي الله عنہ:”لاخیر فی قوم لیسوا بنا صحین، ولا خیر فی قوم لا یحبون الناصحین․“
میرے نہایت قابل قدر عزیز طلباء! کوئی لمبی بات میں آپ سے نہیں کرسکتا، اختصار کے ساتھ چند گزاراشات میں آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مناصحہ۔ ایک دوسرے کو نصیحت کرنا اور ایک دوسرے کی ہم دردی، پیار محبت دل میں ہونا، یہ نہایت اہم ہے ،حضرت عمر بن الخطاب رضی الله عنہ فرمایا کرتے تھے:”لاخیر فی قوم لیسوا بناصحین“
اس قوم میں بھلائی نہیں جو ایک دوسرے کو نصیحت نہ کرتی ہو۔”لاخیر فی قوم لایحبون الناصحین“
اس قوم میں بھی بھلائی نہیں جو نصیحت کرنے والوں کے ساتھ محبت نہ کرتی ہو، جانبین کو حکم دیا گیا ہے کہ نصیحت کی جائے اور نصیحت کرنے والوں کو توجہ سے سنا جائے او ران سے محبت کی جائے۔
حافظ شیرازی رحمہ الله فرماتے ہیں #
نصیحت گوش کن جاناں کہ از جان عزیز تردارد
جوانان سعادت مند پند پیر دانارا
حافظ شیرازی رحمہ الله فرماتے ہیں کہ اے میرے پیارے! آپ نصیحت سنا کیجیے، اس لیے کہ سعادت مند نوجوان بوڑھے دانش مند کی باتوں کو توجہ سے سنتے ہیں۔ اور صالح بن عبدالقدوس رحمة الله علیہ کا ایک بہت لمبا قصیدہ ہے اور ہر شعر قصیدے کا آب زر کے ساتھ لکھنے کے لائق ہے۔
بالکل آخر میں فرماتے ہیں:
ولقد نصحتک إن قبلت نصیحتی
والنصح أعلی ما یباع ویوھب
میرے پیارے! میں نے تجھے نصیحت کی، بشرطیکہ آپ میری نصیحت کو قبول کریں اور نصیحت جو ہے ان تمام چیزوں میں جو خریدی اور بیچی جاتی ہیں اور جو بطور ہدیہ پیش کی جاتی ہیں، نصیحت ان تمام میں اعلی، اغلی ، زیادہ قیمتی ہے، اس لیے میرے دوستو! کوشش ہماری یہ ہو کہ ہم نصیحت کو توجہ کے ساتھ سنیں۔
میں صرف ایک گزارش آپ کے سامنے رکھوں گا ،وہ یہ ہے کہ عام طور سے طلباء کو شکایت ہوتی ہے قوت حافظہ کی کہ یادداشت ٹھیک نہیں ہے، میں کیا کروں؟ ہر ایک سے کہتے پھرتے ہیں کہ قوت حافظہ ٹھیک نہیں ہے تو یاد رکھیے کہ قوت حافظہ کو درست رکھنے کے لیے سب سے پہلی بات ملازمة شیخ ہے کہ اپنے شیخ، اپنے استاد کے ساتھ آدمی رہے، ان کی صحبت اختیار کرے، اس کی باتوں کو مسلسل سنے، اس کی نصیحتوں کو مسلسل سنے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ دنوں کو بھی رہتے تھے، راتوں کو بھی رہتے تھے ،سفر میں بھی رہتے تھے، حضر میں بھی رہتے تھے، ملازمة الشیخ۔
امام مالک رحمة الله علیہ کے دو شاگرد تھے، دونوں کا نام یحییٰ بن یحییٰ ہے، ایک یحییٰ بن یحییٰ اللیثی اور دوسرے یحییٰ بن یحییٰ التمیمی النیسابوری۔ تو یحییٰ بن یحییٰ التمیمی النیسابوری کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے امام مالک رحمة الله علیہ سے مؤطا پڑھی، تو مؤطا پڑھنے کے بعد مزید ایک سال اپنے استاد کی صحبت میں رہے، لوگوں نے کہا کہ آپ تو عالم فاضل ہوگئے، مؤطا آپ نے پڑھ لی، آپ کو گھر جانا چاہیے تو یحییٰ بن یحییٰ تمیمی نے جواب میں کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنے استاد امام مالک رحمة الله علیہ کی صحبت میں رہوں ،اس لیے کہ مجھے امام مالک رحمة الله علیہ سے صحابہ کرام کے اخلاق، تابعین کے اخلاق کی خوش بو آتی ہے، میں نہیں چاہتا کہ اپنے استاد سے میں محروم رہوں۔
ان کا لقب ہی أعقل اھل خراسان
کہ اہل خراسان میں سب سے زیادہ عقل مند یہی سمجھے جاتے تھے، اس زمانے میں جب لفظ خراسان بولا جاتا تھا تو یہ پورا ایران کا علاقہ، افغانستان کا علاقہ، یہ ہرات وغیرہ، بلخ وبخاری وغیرہ یہ سارے کے سارے علاقے خراسان میں آتے تھے، بعد میں پھر حکومتیں تبدیل ہوئیں، مسائل ہوئے، الگ الگ ہو گئے او راب خراسان بہت چھوٹا ہو کے رہ گیا، تو اس زمانے میں ایک آدمی کے بارے میں کہا جائے: ھو أعقل اھل خراسان
، تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کتنا بڑا آدمی ہو گا؟!تو وہ اپنے استاد کی صحبت میں رہے۔
امام مالک رحمة الله علیہ کے دسرے شاگرد یحییٰ بن یحییٰ اللیثی ہیں، ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں ہاتھی آیا، تمام طلبہ اس ہاتھی کو دیکھنے کے لیے گئے، اس لیے کہ بلاد عربیہ میں ہاتھی بہت کم ہوتا ہے، اس لیے سارے چلے گئے ہاتھی دیکھنے کے لیے، لیکن یحییٰ بن یحییٰ اللیثی نہیں گئے۔
امام مالک رحمة الله علیہ نے فرمایا: سب ہاتھی دیکھنے گئے ،آپ کیوں نہیں گئے؟ تو جواب میں اس عظیم شاگرد نے یہ کہا کہ حضرت! ہاتھی تو میں بعد میں بھی دیکھ لوں گا، لیکن اگر آپ میرے ہاتھ سے نکل گئے، لا أجد منک بدلا، آپ کا بدل پھر مجھے نہیں ملے گا، آپ اگر دنیا سے چلے گئے تو آپ کا بدل پھر مجھے کہیں نہیں ملے گا، اس لیے میں ساری قربانی دے کر آپ کے ساتھ ہی رہوں گا، آپ کے ساتھ ہی بیٹھوں گا۔
اور اسی طریقے سے ابوعاصم النبیل جو امام بخاری رحمة الله علیہ کے استادوں میں سے ہیں، کوفہ میں تھے، ابن جریج رحمة الله علیہ کے پاس پڑھتے تھے، وہاں بھی ہاتھی کا واقعہ پیش آیا، ایک ہاتھی آیا، سب طلباء دیکھنے کے لیے گئے، لیکن ابو عاصم نبیل نہیں گئے تو ابن جریج رحمة الله علیہ نے پوچھا آپ کیوں نہیں گئے؟ توجواب میں شاگرد نے کہا کہ حضرت! آپ کا بدل مجھے کہیں نہیں ملے گا، میں ہاتھی دیکھنے کے لیے نہیں جاسکتا۔ تو پہلی بات میں نے عرض کی، ملازمة الشیخ، اپنے استاد، اپنے شیخ کو لازم پکڑنا، اپنے استاد، اپنے شیخ کی صحبت میں مسلسل رہنا، تاکہ جو انوارات شیخ کے اند رہیں، جو علم شیخ کے اند رہے، وہ براہ راست آپ کی طرف منتقل ہو جائے۔
دوسری بات۔ یاداشت کو ٹھیک کرنے کے لیے۔ کثرة التکرار۔ حالاں کہ تکرار میں خود کثرت پائی جاتی ہے، لفظ کثرت کو میں نے بڑھا دیا،تاکہ آپ سمجھ جائیں، ایک بات کو بار بار۔ بار بار دہرانا، ہمارے سلف صالحین ایک کتاب کوسات سو مرتبہ، پانچ سو مرتبہ، سو سو مرتبہ، پچاس پچاس مرتبہ پڑھا کرتے تھے۔
آج کل ایک کتاب کو ایک مرتبہ ہم پڑھ لیتے ہیں اور یاد نہ ہو تو ہم اپنی یادداشت کو متہم قرار دیتے ہیں کہ ہماری یادداشت ٹھیک نہیں ہے۔ یہ اصول ہمیشہ کے لیے آپ یاد رکھیں کہ قوت حافظہ کے لحاظ سے غیر معمولی لوگ بہت کم گزرے ہیں، امام بخاری کی طرح، امام ترمذی کی طرح، علی بن مدینی کی طرح، یحییٰ بن معین کی طرح ، ان حضرات کی طرح چند لوگ جن کو انگلیوں پہ آپ گن سکتے ہیں، جو یادداشت کے لحاظ سے بہت غیر معمولی تھے، اس کے علاوہ جتنے محدثین گزرے ہیں، جتنے مفسرین گزرے ہیں، جتنے فقہاء گزرے ہیں، انہوں نے بڑی محنت کی ہے، ایک چیز کو بار بار بار بار پڑھا ہے #
گرہمی خواہی کہ باشی خوش نویس
مے نویس ومے نویس ومے نویس
اگر آپ چاہتے ہیں کہ بہترین خطاط بنیں، اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ لکھیں، لکھیں، بہت اہتمام کریں۔ جتنا آپ لکھیں گے اتنا ہی آپ کی تحریر، آپ کی لکھائی، آپ کا خط اچھا ہو گا۔لیکن ہمارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ ہم سوچتے ہیں کہ سبق ایک مرتبہ پڑھ لیا، اگر یاد نہ ہوا تو اپنی یادداشت کو متہم قرار دیتے ہیں، یہ غلط ہے، بلکہ بار بار پڑھیں، بار بار پڑھیں، آپ کو یاد ہو جائے گا۔
ایک شعر اگر مشکل ہو تو ظاہر ہے کہ ایک مرتبہ سے یاد نہیں ہو گا، ہاں آپ دو مرتبہ،تین مرتبہ، چار مرتبہ، چھ مرتبہ اس شعر کو یاد کریں گے توآپ کو یاد ہو جائے گا ،کوئی مشکل نہیں ہے #
مردرا باید کہ ہراسان نشود
آں مشکل مشکل نیست کہ آسان نشود
اس لیے درخواست عزیز طلباء سے یہ ہے کہ خوب اہتمام سے پڑھا جائے، بار بار پڑھا جائے، مجھے امید ہے کہ بار بار پڑھنے کی وجہ سے الله تعالیٰ آپ کی یادداشت کو بڑھائیں گے، یادداشت کے لیے بھی مشق کرنی پڑتی ہے، جتنی آپ مشق کریں گے یادداشت ان شاء الله آپ کی اچھی ہو گی۔
تیسری بات دعاہے کہ آدمی اپنی یادداشت کے لیے خود بھی دعا کرے اور دوسروں سے بھی دعا کرائے کہ حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ نے رسول پاک علیہ الصلوٰة والسلام کے سامنے حاضر ہو کر اپنی یادداشت کی شکایت کی کہ بہت سی باتیں میں بھول جاتا ہوں تو رسول پاک علیہ الصلوٰة والسلام نے ان کے لیے دعائے خیر کی اور دعا کی برکت سے حضرت ابوہریرہ کی یادداشت اتنی ہوئی، فرمایا کہ اس کے بعد کبھی بھی میں کسی چیز کو نہیں بھولا، تو دعاؤں کا اہتمام خود بھی کریں، اپنے اساتذہ سے بھی درخواست کریں کہ وہ آپ کے لیے دعائے خیر کریں، اپنے ساتھیوں سے بھی دعا کے لیے کہیں۔
اور چوتھی بات نشر العلم، علم کا پھیلانا، آپ علم کو جتنا پھیلائیں گے اتنا ہی آپ کا علم پختہ ہو گا، اس لیے کوشش ہماری یہ ہو کہ علم کو پھیلائیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ الله فرمایا کرتے تھے:
”ما نحلت بالافادة، وما استنکفت عن الاستفادة“
․ کہ فائدہ پہنچانے میں میں نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا، بلکہ ہر ایک کو فائدہ پہنچاتا اور علم حاصل کرنے میں بھی میں نیتکبرسے کام نہیں لیا، بلکہ ہرایک سے علم حاصل کرنے کی کوشش کی۔
ت
و چوتھی بات نشر العلم،
علم کو پھیلانا، جتنا آپ دوسروں کو پڑھائیں گے او رتکرار کریں گے، آپ کے تکرار اور پھیلانے کی برکت سے خود بخود آپ کی علمیت ان شاء الله مضبوط ہو گی۔
اور پانچویں بات یہ ہے کہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچائیں،گناہوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں، اس لیے کہ گناہوں کی نحوست سے آدمی کی یادداشت برباد ہو جاتی ہے۔ آدمی کا قوت حافظ ختم ہو جاتا ہے۔
امام شافعی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں: شکوت إلی وکیع سوء حفظی
فأوصانی إلی ترک المعاصی
فإن العلم نور من الہی
ونور الله لا یعطی لعاصی
کہ میں نے اپنے استاذ امام وکیع سے اپنی یادداشت کے بارے میں شکایت کی فأوصانی إلی ترک المعاصی․میرے استاذ نے کہا یادداشت کو بڑھانا چاہتے ہیں، قوت حافظہ کو بڑھانے چاہتے ہیں تو گناہوں کو چھوڑ دیں، اس لیے کہ علم الله کا نور ہے او رالله کا نور گناہ گار کو نہیں دیا جاتا۔ یہ ہمارے ساتھی جو موبائل میں مشغول ہوتے ہیں ۔ بازاروں میں جاکے بدنظری کرتے ہیں، یاد رکھیں اس بدنظری کی وجہ سے اور موبائل دیکھنے کی وجہ سے آدمی کی یادداشت بہت متاثر ہوتی ہے۔
اور امام شافعی رحمہلله کے بارے میں آتا ہے کہ جب انہوں نے قبیلہ بنو ھذیل سے علم حاصل کیا، علم بلاغت، علم فصاحت حاصل کرنے کے بعد مکہ مکرمہ آئے اور بنی زھرہ کے ایک آدمی سے ملاقات ہوئی اور کہا کہ میں شاعر بھی بن چکا ہوں، ادیب بھی بن چکا ہوں، فصاحت وبلاغت میں میرا بلند مقام ہے، اب میں کیا کروں؟
تو بنو زہرہ، کے اس آدمی نے مشورہ دیا کہ آپ مدینہ منورہ جائیں، امام مالک رحمة الله علیہ سے مؤطا پڑھیں۔
چناں چہ امام شافعی رحمہ الله مدینہ منورہ پہنچے ،امام مالک رحمہ الله سے ملاقات کی اور امام مالک رحمة الله علیہ نے اس ہونہار شاگرد کو دیکھا، شاگرد کو دیکھنے کے بعد، چوں کہ صاحب فراست تھے، بہت بڑے آدمی تھے تو انہوں نے فرمایا:
اے نوجوان!”انی اری الله قد ألقی علیک نورا، فلا تطفئہُ بظلمة المعصیة“․
تو گناہوں کی ظلمت اور گناہوں کی تاریکی کی وجہ سے اس نور کو آپ نہ بجھانا۔
تو ہمار ی بھی آپ سے درخواست یہ ہے، جیسے امام مالک رحمة الله علیہ نے اپنے شاگرد کو نصیحت فرمائی، ہم بھی آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ گناہوں کی تاریکی او رگناہوں کی ظلمت سے آپ علم کے نور کو، تقویٰ کے نور کو متاثر نہ کریں ،متقی ہوں، پرہیز گار ہوں ۔یہ بات اصولی طور سے آپ یاد رکھیے۔ ایک ہے گناہ کرنا او رایک ہے گناہ کا تقاضا ۔ یاد رکھیے کہ متقی اور غیر متفی، ولی اور غیر ولی، ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ولی کو بھی گناہ کا تقاضا ہوتا ہے، لیکن ولی جوہے اس تقاضے کو پاؤں کے نیچے دبا دیتا ہے۔ اس تقاضے پہ عمل نہیں کرتا اور غیر ولی کو گناہوں کا تقاضا ہوتا ہے، فوراً گناہ کر بیٹھتا ہے۔ یہ ولی اور غیر ولی میں فرق ہے، متقی اور غیر متقی میں بھی یہی فرق ہے کہ متقی جو ہے جب گناہ سامنے آتے ہیں تو فورا توبہ استغفار، گناہ سے اعراض کااہتمام کرتا ہے اور غیر متقی جب گناہ کاتقاضا ہوتا ہے فوراً گناہ کر بیٹھتا ہے۔
یاد رکھیے! گناہ کا تقاضا ہونا مذموم نہیں ہے، ہر ایک کو گناہ کا تقاضا ہوتا ہے، لیکن اصل یہ ہے کہ گناہ کے تقاضے کو ہم دبائیں، بد نظری کا تقاضا ہو ہم اس کو دبائیں اور بدنظری نہ کریں، غیبت کا تقاضا ہو اس تقاضے کو دبائیں اور غیبت نہ کریں، جتنے بھی معاصی ہیں صغائر ہیں کبائر ہیں، تمام کو۔ موقع ہو آپ کو تو ابن حجر الہیثمی رحمة الله علیہ کی کتاب الزواجر کا مطالعہ کریں۔ کبائر کے بارے میں تقریباً سب سے بڑی کتاب ہے، ورنہ ابن جوزی رحمة الله علیہ کی بھی ایک کتاب ہے، علامہ ذہبی رحمہ الله کی بھی، لیکن سب سے بڑی کتاب ابن حجر الہیثمی کی ”الزواجر“ ہے، جنہوں نے کبائر کو جمع کیا ہے۔
کوشش ہماری یہ ہو کہ ہم لوگ گناہوں سے اپنے آپ کو بچائیں ایک مرتبہ ایک بڑے الله والے نے الله سے درخواست کی کہ اے الله! تو نفس کو ختم فرما، اس لیے کہ نفس ہے ،نفس کے تقاضے ہیں اور نفس کے تقاضے گناہ کی صورت میں ہوتے ہیں، لوگ گناہ کرتے ہیں او رآپ سے دور ہو جاتے ہیں۔اے الله! تو نفس کو ختم فرما کہ نہ نفس ہو اور نہ نفس کے تقاضے ہوں، نہ گناہوں میں وقوع ہو، اس نفس کو ختم فرما۔
الله نے کہا اے میرے بندے! یہ دنیا جو ہے یہ دارالامتحان ہے، دارالاختبار ہے، امتحان کی جگہ ہے، میں نے نفس کو جو پیدا کیا امتحان کے لیے، اس لیے اس مسئلے کو آپ چھوڑ دیں، اس نے کہا نہیں اے الله! نفس کو آپ ختم فرمائیں،تو الله نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ میں آپ کے نفس کو ختم کر دیتا ہوں، چناں چہ اس کا نفس جب ختم ہوا، ایک ہفتہ گزرا، دو ہفتے گزرے، چوں کہ بڑے ولی تھے، انہوں نے دیکھا کہ پہلے جو میرے مقامات بلند ہوتے تھے، میرے مراتب ، درجات الله کے ہاں بلند ہوتے تھے، اب وہیں کاوہیں کھڑا ہوں، میرا درجہ، مرتبہ بلند نہیں ہورہا۔
اس نے کہا اے الله! کیا بات ہے؟ الله نے فرمایا: اے میرے بندے! تیرا نہ نفس ہے، نہ نفس کے تقاضے ہیں، نہ ان تقاضوں کو دبانا ہے اور نہ رفع درجات ہیں، پہلے جب نفس کے تقاضے ہوتے تھے، آپ دباتے تھے ان تقاضوں کو، جونہی آپ نفس کے تقاضوں کو دباتے تھے الله آپ کے مقام کو بلند کرتا تھا، اب نہ نفس ہے، نہ نفس کے تقاضے ہیں، نہ رفع درجات ہیں۔ اس لیے میرے عزیز طلباء کوشش یہ کریں ایسے ماحول میں رہیں، ایسی جگہوں میں رہیں ، ایسے ساتھیوں کے ساتھ رہیں کہ جو آپ کو اعمال صالحہ کی ترغیب دیں اور نیک اعمال کی ترغیب دیں ۔
اور پانچویں بات یادداشت کے لیے یہ ہے، ہمارے استاد محترم حضرت مولانا عبدالله درخواستی رحمہ الله نے ایک دعا ہمیں بتلائی تھی اور وہ دعا سبق سے پہلے سات مرتبہ، تکرار سے پہلے سات مرتبہ پڑھ کر آدمی سینے پر دم کر لے۔
دعا بہت آسان ہے:”اللھم نور قلبی وزد قوة سمعی وبصری وحفظی، واجعلنی فوق کثیر من الخلق“․
اس دعا کو گیارہ مرتبہ پڑھ کر اپنے سینے پہ، اپنے دل کی طرف دم کر دیں ،مجھے امید ہے کہ ان شاء الله ثم ان شاء الله سبق آپ کا یاد ہو گا اور قوتِ حافظہ میں ترقی ہو گی۔ الله تبارک وتعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہر قسم کے معاصی گناہوں سے الله ہماری حفاظت فرما دے۔ وآخر دعوانا ان الحمدلله رب العلمین․