علم فقہ اور فقہاء کی اہمیت وفضیلت

idara letterhead universal2c

علم فقہ اور فقہاء کی اہمیت وفضیلت

مولانا مرغوب احمد لاجپوری

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
 
﴿یُؤْتِی الْحِکْمَةَ مَن یَشَاءُ وَمَن یُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیرًا﴾․
 
دین کا فہم جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور جس کو دین کا فہم مل جاوے اس کو بڑی خیر کی چیز مل گئی۔ (بقرہ، آیت:269)
 
مفسرین کی ایک جماعت نے ”حکمت“ سے مراد” فقہ“ لیاہے۔
(دیکھیے معارف القرآن:1/273۔تفسیر مظہری اردو:1/225)
 
پس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جسے علم فقہ دیا گیا اسے خیر کثیر دی گئی۔ تفسیر ماجدی میں ہے :
حکمت کی تشریحیں بہت سی کی گئی ہیں، لیکن بہترین اور جامع تشریح یہ ہے کہ وہ امور دین میں فہم صحیح کا نام ہے۔
 
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے (مفسرین کی تفسیر کے مطابق) علم فقہ کو” خیرکثیر“سے تعبیر فرمایا اور الفاظ قرآنی پر غور فرمائیے :﴿خیراً کثیراً﴾نکرہ لائے ہیں اظہار عظمت کے لیے ، یعنی بہت ہی بڑی نعمت۔ (تفسیر ماجدی)
 
الله تعالیٰ کی بھلائی کا ارادہ دین کی سمجھ ہے، احادیث نبویہ:
 
”عن معاویة قال: قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: من یرد اللہ بہ خیراً یفقہہ فی الدین“․
 
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:خدا تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے۔ (بخاری :2/16 باب من یرد اللہ…،کتاب العلم، مسلم، باب النہی عن المسئلة، کتاب الزکوة ، مشکوة ، کتاب العلم)
 
تشریح:دین کا علم حاصل ہو جانا اور دین کی سمجھ بوجھ کا مل ہوجانا یہ دونوں بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔ کتابوں یا اساتذہ سے کچھ معلومات کو حافظہ میں جمع کر لینے والا ضروری نہیں کہ دین کی صحیح سمجھ بوجھ بھی رکھتا ہو۔ دراصل ہر کام میں جب آدمی ایک عرصہ دراز تک مستقل لگارہتا ہے اور شب وروز اس کا وہی مشغلہ رہتا ہے اور گویا وہی اس کا اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے تو اسے اس کام میں ایک خاص ملکہ حاصل ہو جاتا ہے، یہی اس کام کی سمجھ بوجھ ہوتی ہے، اسی طرح علوم شرعیہ کے طویل انہماک اور عرصہ دراز تک اس سے لگاؤ کے بعد وہ علوم اس کے دل و دماغ میں رچ بس جاتے ہیں اور آدمی مزاج شریعت سے آگاہ ہو جاتا ہے اور ذہن ایک ایسی لائن پر پڑ جاتا ہے کہ اگر کبھی کسی معاملہ میں کوئی علمی روشنی آفتاب نبوت سے نہ بھی ملے، تب بھی یہ شخص وہی کرے گا جو شریعت کا منشا و مقتضی ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر ذہن انسانی زندگی کی نئی نئی راہوں میں بھی صحیح راستہ نکالنے کے قابل ہو جاتا ہے، جس کو اصطلاح فقہ میں مقام اجتہاد کہتے ہیں۔
 
فقہ کی مجلس میں شرکت ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے
 
”مجلس فقہ خیر من عبادة ستین سنة“․
 
یعنی فقہ کی مجلس (یا فقہ کے درس میں شریک ہونا )ساٹھ برس کی عبادت سے بہتر ہے۔(طبرانی، فتاوی رحیمیہ :4/165)
 
منافق دین سے محروم
 
”عن أبی ہریرة قال: قال رسول اللہ ا: خصلتان لا یجتمعان فی منافق: حسن سمت ولا فقہ فی الدین“․
 
حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:دوخصلتیں ایسی ہیں جو منافق میں جمع نہیں ہو سکتیں، خوش اخلاقی اور فقہ فی الدین ۔(ترمذی،کتاب العلم، الفصل الثانی)
 
تشریح:سراج وغیرہ میں بعض سلف سے منافق کی ایک یہ پہچان بتلائی گئی ہے کہ وہ دنیا کے کام کو آخرت کے کام پر مقدم رکھتا ہے تو مؤ من فقیہ کی شناخت یہ ہوئی کہ وہ آخرت کو مقدم رکھے اور جب فقہ کی پوری سمجھ حاصل ہوتی ہے تو اس کو دنیا کی نمود سے بالکل برات ہو جاتی ہے، پھر بھلا نفاق کا اثر کیسے رہے گا ؟!کیوں کہ وہ بھی منافق ہے کہ اس کا ظاہر و باطن یکساں نہ ہو ، چناں چہ بعض احادیث میں تصریح موجود ہے۔
 
بیہقی نے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت کی ہے کہ ایمان والوں میں سب سے بہتر عالم فقیہ ہے کہ اگر لوگ اپنی ضروریات سے اس کے پاس جاویں تو اس سے نفع اٹھاویں اور اگر بے پرواہی کریں تو وہ ان کی کچھ پروا نہیں کرتا۔ (مقدمہ فتاوی عالمگیری، اردو:1/6)
 
فقیہ کا مقام
 
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما راوی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
 
”فقیہ واحد أشد علی الشیطان من ألف عابد“․
 
یعنی ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابد سے بھاری ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ ، مشکوة، کتاب العلم، الفصل الاول)
 
فقہ سے بہتر کسی طرح خدا کی عبادت نہیں کی گئی
 
”قال النبی صلی الله علیہ وسلم :ما عبد اللہ بشیء افضل من فقہ فی الدین ولفقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد ولکل شیء عماد، و عماد الدین الفقہ“․
 
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ:تفقہ فی الدین سے بہتر خدا کی عبادت کسی اور طریقے سے نہیں کی گئی اور یقینا ایک فقیہ شیطان پر ہزاروں عابدوں سے زیادہ بھاری ہوتا ہے اور ہر چیز کا ستون ہوتا ہے اور دین کا ستون فقہ ہے۔ (الحلیة 2/192، وابن حجر فی المطالب:30/68،30/69، وذکرہ السیوطی فی الدرالمنثور:1/350، والشوکانی فی الفوائد:285، بحوالة حاشیة الشامی مطبوعة دار الباز مکة المکرمة:1/123)
 
تشریح:یہ حدیث فقہ کی فضیلت پر بڑی اہمیت رکھتی ہے ، جس میں صاف ارشاد فرمایا گیا کہ تفقہ فی الدین سے بڑھ کر خدا کی عبادت کسی اور طریقے سے نہیں کی گئی ، اس لیے کہ عبادت کی کماحقہ ادائیگی فقہ کی معرفت پر موقوف ہے، جاہل کو یہ معرفت حاصل نہیں کہ اوامر کی اتباع کر کے اور مناہی سے اجتناب کر کے متقی بن جائے ، اسی وجہ سے فقہ کا امتیاز اور اس کی فضیلت دوسرے علوم پر ظاہر ہے کہ یہ علم بڑا اہم علم ہے، اگر چہ دوسرے علوم مثلاً علم تفسیر وحدیث اشرف ہیں۔
 
حدیث پاک کا دوسرا جملہ”فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد“ کی تشریح کرتے ہوئے صاحب مظاہر حق تحریر فرماتے ہیں:
 
مقابلہ کا یہ مسلم اصول ہے کہ کام یابی اس شخص کے حصہ میں آتی ہے جو اپنے مد مقابل کے داؤ پیچ سے بخوبی واقف ہو اور اس کا توڑ جانتا ہو، چناں چہ ہم خود دیکھتے ہیں کہ اکھاڑے میں وہ شخص جو اپنے ظاہری قویٰ اور جسم کے اعتبار سے اہمیت نہیں رکھتا اپنے اس مقابل کو پچھاڑ دیتا ہے جو جسم وبدن کے اعتبار سے اس سے کئی گنا طاقت ور ہوتا ہے، کیوں کہ جب مقابلہ میں آتا ہے تو اس کا دماغ بنیادی طور پر مقابل سے ہر داؤ سے بچاؤ کی شکل اور اس کے ہر داؤ کا جواب اپنے خزانہ میں رکھتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کام یابی اسی کی ہوتی ہے۔
 
دنیا میں باطنی طور پر انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے، جو اپنے مکر و فریب کی طاقت سے لوگوں کو گم راہی کی وادی میں پھینکتا رہتا ہے، ظاہر ہے کہ جو لوگ شیطان کے مکر و فریب سے واقف نہیں ہوتے اور اس کی طاقت و قوت کا جواب نہیں رکھتے وہ گم راہ ہو جاتے ہیں، مگر ایسے لوگ جو اس کے ہر داؤ کا جواب رکھتے ہیں اور اس کی طاقت وقوت کی شہ رگ پر ان کا ہاتھ ہوتا ہے، وہ نہ صرف یہ کہ خود اس کی گم راہی سے محفوظ رہتے ہیں، بلکہ دوسروں کو بھی محفوظ رکھتے ہیں اور یہ لوگ وہی عالم ہوتے ہیں جن کے قلب ودماغ نور الہٰی کی مقدس روشنی سے منور اور ان کا ذہن و فکر علم و معرفت کی طاقت سے بھر پور ہوتا ہے، اس لیے اس حدیث میں فرمایا جا رہا ہے کہ شیطان کے مقابلہ میں ایک ہزار عابد جتنی طاقت رکھتے ہیں اتنی طاقت تنہا ایک عالم کے پاس ہوتی ہے، کیوں کہ جب شیطان لوگوں پر اپنے مکر و فریب کا جال ڈالتا ہے اور انہیں خواہشات نفسانی میں پھنسا کر گم راہی کے راستہ پر لگادیتا ہے تو عالم اس کی چال سمجھ لیتا ہے، چناں چہ وہ لوگوں پر شیطان کی گم راہی کو ظاہر کرتا ہے اور ایسی تدابیر انہیں بتادیتا ہے جن پر عمل کرنے سے وہ شیطان کے ہر حملہ سے محفوظ رہتے ہیں۔
 
بر خلاف اس کے وہ عابد جو صرف عبادت ہی عبادت کرنا جانتا ہے اور علم و معرفت سے کوسوں دور ہوتا ہے، وہ تو محض اپنی ریاضت و مجاہدے اور عبادت میں مشغول رہتا ہے، اسے یہ خبر بھی نہیں ہونے پاتی کہ شیطان کس چور دروازے سے اس کی عبادت میں خلل ڈال رہا ہے اور اس کی تمام سعی و کوشش کو ملیا میٹ کر رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ظاہری طور پر تو وہ عبادت میں مشغول رہتا ہے، مگر لا علم ہونے کی وجہ سے وہ شیطان کے مکر و فریب میں پھنسا ہوا ہوتا ہے، اس لیے نہ وہ شیطان کی گم راہی سے محفوظ رہتا ہے اور نہ وہ دوسروں کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ ( مظاہر حق جدید:1/245)
 
شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ کا واقعہ
 
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں چند دن کے لیے جنگل میں مقیم تھا۔ ایک روز شدت سے پیاس لگی، میں پانی کی تلاش میں نکلا ،مگر پانی نہ ملا، اسی اثناء میں کچھ بادل چھا گئے ، کچھ بوندیں برسیں، جن سے مجھے تسکین ہوئی، پھر ان بادلوں سے ایک روشنی نکلی، جس نے آسمان کے تمام کناروں کو گھیر لیا، اس روشنی میں ایک عجیب و غریب صورت نمودار ہوئی، جو مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگی کہ:اے عبد القادر!میں تیرا پروردگار ہوں، میں تجھ پر تمام حرام چیزوں کو حلال کرتا ہوں، (اس لیے ) جو چاہو کرو کوئی باز پرس نہ ہو گی۔ میں نے کہا:” اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم “اے شیطان ملعون! راندہ درگاہ! دور ہو اور بھاگ ، کیا بکتا ہے؟ میں نے جیسے ہی ”اعوذ باللہ“ پڑھی وہ روشنی تاریکی سے بدل گئی ، اندھیرا چھا گیا، وہ صورت غائب ہو گئی اور آواز آئی کہ اے عبد القادر شریعت مقدسہ کی واقفیت اور علمی بصیرت جو تمہیں حاصل ہے اور جو تقویٰ تمہیں میسر ہے کہ تم بے دار مغز عالم متقی ہو اس کی وجہ سے تم محفوظ رہ گئے اور مجھ سے نجات پاگئے ،ورنہ اس مقام پر تم جیسے ستر عبادت گذار زاہدوں اور صوفیوں کو گم راہ کر چکا ہوں۔
 
(البلاغ المبین ص:1/34 از حضرت شاہ ولی اللہ صاحب علیہ الرحمہ ۔ بحوالہ فتاوی رحیمیہ:1/121-17) اخبار الاخیار اردو ص :33 پر بھی یہ قصہ ہے، اس میں آخر میں ہے کہ بتائیے کہ یہ کون سا علم وہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عنایت فرمایا ہے ؟ میں نے جواب دیا اللہ کا فضل و کرم اور وہی ابتدا و انتہا میں رہبری کرتا ہے۔( مبادیات فقہ :24)
 
فقہ دین کا ستون ہے
 
حدیث شریف کے آخر میں فرمایا:لکل شیء عماد“ کہ ہر چیز کا ستون ہوتا ہے اور دین کا ستون فقہ ہے، یعنی کوئی بھی چیز بغیر ستون کے قائم نہیں ہوتی، مثلاً ایک بلند و بالا اور خوش نما عمارت اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک کہ اس کے نیچے بنیادی ستون نہ ہو،ایک حدیث پاک میں دین و اسلام کے لیے پانچ ستون فرمائے گئے ہیں کہ:” بنی الاسلام علی خمس“کہ ان پانچ ستون کے بغیر اسلام مکمل نہیں ، ایسے ہی دین کا ستون فقہ کو بتلایا کہ بغیر علم فقہ کے دین اور اس کے ارکان کی معرفت اور اس پر عمل ممکن نہیں گویا فقہ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
 
علامہ ابن عبد البر علیہ الرحمہ نے اپنی مشہور کتاب ”جامع بیان العلم وفضلہ “میں اس روایت کو تھوڑے فرق سے بیان کیا ہے۔
 
بہترین عبادت فقہ کا علم ہے
 
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:سب سے اچھا دین وہ ہے جو سب سے آسان ہو اور بہترین عبادت (علم) فقہ ہے۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، لابن عبدالبر:1/35 العلم والعلماء، ص :53)
 
الناس معادن کمعادن الذہب
 
عن أبی ہریرة رضی اللہ تعالی عنہ قال: قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: الناس معادن کمعادن الذہب والفضة خیارہم فی الجاہلیة خیارہم فی الاسلام اذا فقہوا․(مسلم، مشکوة، کتاب العلم، الفصل الاول)
 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا لوگ سونے چاندی کے کان کی طرح ہیں، جو لوگ ایام جاہلیت میں (کریم الاخلاق ہونے کی وجہ سے مقتد او پیشوا اور ) اچھے تھے وہ (زمانہ ) اسلام میں بھی اچھے ہیں اگر وہ سمجھیں (یعنی فقہ فی الدین حاصل کریں، احکام کو علی وجہ البصیرت جانتے ہوں اور فروعات کے استنباط کی قوت رکھتے ہوں)اس سے فقہ کی شرافت ظاہر ہے۔ پس واقعی خوبی و شرافت ذاتی میں یہ ہے کہ ایمان والا فقیہ ہو اور اگر یہ بات اس سے ظاہر نہ ہو تو گویا کان کے اندر یہ کنکر تھا یا زہریلی مٹی تھی۔ (مقدمہ فتاوی عالمگیری اردو:1/6)
 
فقہاء کی مثال
 
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے :
 
”انما مثل الفقہاء کمثل الاکف“
 
بے شک فقہاء کی مثال ہتھیلی کے مانند ہے، یعنی جس طرح انسان ہتھیلی کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح لوگ فقہ اور فقیہ کے محتاج ہیں۔ (مفید المفتی ، ص:9/فتاری رحیمیہ:4/561)
 
تفقہ فی الدین کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کی دعا
 
فقہ فی الدین کی عظمت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے لیے یہ دعا فرمائی :”اللہم فقہہ فی الدین وعلمہ التاویل“․
 
اے اللہ! ابن عباس کو دین کی سمجھ اور علم تفسیر عطا فرما۔ (ترجمان السنة :4/852)
 
فقہ کے طالب علم کے ساتھ نرمی کی وصیت
 
عن أبی سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ قال: قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: ان الناس لکم تبع وان رجالا یأتونکم من اقطار الارض یتفقہون فی الدین، فاذا أتوکم فاستوصوا بہم خیراً․
 
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضور انے ارشاد فرمایا:(اے میرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ) لوگ تمہارے تابع ہیں۔ دور دراز سے تمہارے پاس تفقہ فی الدین حاصل کرنے کے لیے آئیں گے۔ جب وہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ (نرمی، محبت اور) بھلائی کے ساتھ پیش آنا ، یہ میری تم کو وصیت ہے۔ (مشکوة، کتاب العلم)
 
قرآن پاک میں تفقہ فی الدین کے حصول کا امر
 
﴿فَلَوْلَا نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْہُمْ طَائِفَةٌ لِّیَتَفَقَّہُوا فِی الدِّینِِ﴾․(سورة التوبہ، آیت:122)
 
سوایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر ہر بڑی جماعت میں سے ایک ایک چھوٹی جماعت (جہاد) میں جایا کرے، تاکہ (یہ ) باقی ماندہ لوگ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرتے رہیں۔
 
اس آیت کی تفسیر میں حضرت مولانا مفتی محمدشفیع صاحب علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں :
 
قرآن حکیم نے اس جگہ علم دین کی حقیقت اور اس کا نصاب بھی ایک ہی لفظ میں بتلا دیا ہے، وہ ہے:”لیتفقہوا فی الدین“یہ موقع بظاہر اس کا تھا کہ:”یتعلمون الدین“کہا جاتا، یعنی علم دین حاصل کریں ،مگر قرآن نے اس جگہ تعلم کا لفظ چھوڑ کرتفقہ کا لفظ اختیار فرما کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ علم دین کا محض پڑھ لینا کافی نہیں ، وہ تو بہت سے کافر ، یہودی، نصرانی بھی پڑھتے ہیں اور شیطان کو سب سے زیادہ علم حاصل تھا، بلکہ علم دین سے مراد دین کی سمجھ پیداکرنا ہے۔ یہی لفظ”تفقہ“ کا ترجمہ ہے اور یہ فقہ سے مشتق ہے۔فقہ کے معنی سمجھ پیدا کرنا ہے۔
 
یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ قرآن کریم نے اس جگہ مجرد کے صیغے سے لیفقہوا الدین یعنی تاکہ وہ دین کو سمجھ لیں نہیں فرمایا، بلکہ: ”لیتفقہوا فی الدین“فرمایا جو باب تفعل سے ہے ،اس کے معنی میں محنت و مشقت کا مفہوم شامل ہے۔ مراد یہ ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنے میں پوری محنت و مشقت اٹھا کر مہارت حاصل کریں۔
 
یہ بھی ظاہر ہے کہ دین کی سمجھ بوجھ صرف اتنی بات سے پیدا نہیں ہوتی کہ طہارت ، نجاست یا نماز ، روزے، زکوة، حج کے مسائل معلوم کرے، بلکہ دین کی سمجھ بوجھ یہ ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ اس کے ہر قول و فعل اور حرکت و سکون کا آخرت میں اس سے حساب لیا جائے گا۔ اس کو اس دنیا میں کس طرح رہنا چاہیے۔ در اصل اسی فکر کا نام دین کی سمجھ بوجھ ہے۔ اس لیے امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ نے فقہ کی تعریف یہ کی ہے کہ انسان ان تمام کاموں کو سمجھ لے جن کا کرنا اس کے لیے ضروری ہے اور ان تمام کاموں کو بھی سمجھ لے جن سے بچنا اس کے لیے ضروری ہے۔
 
آج کل جو علم فقہ مسائل جزئیہ کے علم کو کہا جاتا ہے یہ بعد کی اصطلاح ہے۔ قرآن و سنت میں فقہ کی حقیقت وہی ہے جو امام اعظم علیہ الرحمہ نے بیان فرمائی ہے کہ جس شخص نے دین کی کتابیں سب پڑھ ڈالیں، مگر یہ سمجھ بوجھ پیدانہ کی وہ قرآن و سنت کی اصطلاح میں عالم نہیں۔ اس تحقیق سے معلوم ہو گیا کہ علم دین حاصل کرنے کا مفہوم قرآن کی اصطلاح میں دین کی سمجھ بوجھ پیدا کرنا ہے، وہ جن ذرائع سے حاصل ہو، وہ ذرائع خواہ کتابیں ہوں یا اساتذہ کی صحبت، سب اس نصاب میں داخل ہیں۔ (معارف القرآن :4/491)
 
فقہاء سے مشورہ کا حکم
 
امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا:اگر کوئی حادثہ پیش آجائے اور اس کا صریح حکم نہ ملے تو میں کیا کروں؟ آں حضور صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا:”شاوروا الفقہاء والعابدین، ولا تمضوا فیہ رأی خاصة“ یعنی جماعت فقہاء اور جماعت عابدین (جن کو کمال ولایت اور نظر کشف و شہود سے اجتہاد کا مرتبہ حاصل ہے)سے مشورہ کرو۔ اپنی رائے خاص سے اس میں فیصلہ نہ کرو۔ رواہ الطبرانی فی معجمہ الأوسط ورجالہ موثوقون من أہل الصحیح کما فی زوائد الہیثمی:1/178، معارف السنن:3/264 ، فتاوی رحیمیہ:4/155 )
 
فقہاء کی قلت علامات قیامت میں سے ہے
 
شیخ علی متقی علیہ الرحمہ نے حضرت عبد الرحمن بن عمر و الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت نقل کی ہے:
 
”من اقتراب الساعة کثرة القطر، وقلة النبات، وکثرة القراء، وقلة الفقہاء، وکثرةا الامراء، وقلة الامناء “․
 
قیامت کی علامات میں بارش کا زیادہ ہونا اور پیداوار کا کم ہونا ہے اور قراء کی زیادتی اور فقہاء کی قلت ہے اور امراء کی کثرت اور امانت داروں کی کمی ہیں۔ (کنز العمال ،رقم الحدیث:38472)
 
سیادت سے پہلے حصول تفقہ کا حکم
 
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے:”تفقہوا قبل ان تسودوا“ یعنی سردار بننے سے پہلے فقہ حاصل کرو۔ (رواہ البیہقی فی الشعب ، کذا فی المقاصد الحسنة ص:259 ، رقم الحدیث: 341 ، کشف الخفاء ص:278 ، رقم الحدیث:1000)
 
فقہ اور فقہاء کے متعلق صحابہ و اسلاف کے اقوال
ایک گھڑی فقہ کا حصول رات بھر کی عبادت سے افضل ہے
 
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ نے فرمایا: اگر میں ایک گھڑی بیٹھ کر اپنے دین میں تفقہ حاصل کروں تو یہ مجھے اس سے کہیں زیادہ پسند ہے کہ شام سے صبح تک پوری رات عبادت میں گزاروں۔(العلم والعلماء ص :54)
 
ہزاروں عابدوں کی موت ایک فقیہ کے مقابلہ میں ہیچ ہے
 
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے:قائم اللیل اور صائم النہار ہزار عابدوں کی موت حلال و حرام جاننے والے ایک دانا و بینا کی موت کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔ (العلم والعلماء ص:55)
 
علمی مذاکرہ رات کی عبادت سے بہتر ہے
 
حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ : میرے نزدیک پوری رات علمی مذاکرے میں گذار دینا عبادت میں گزارنے سے بہتر ہے۔
 
اسحاق بن منصور علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ:میں نے امام احمد علیہ الرحمہ سے حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اس قول کا ذکر کیا تو فرمایا:اس سے مراد وہ علم ہے جس سے لوگ اپنے دین میں فائدہ اٹھاتے ہیں۔
 
میں نے کہا مثلا وضو ، نماز ، روزہ، حج، طلاق و غیرہ مسائل و احکام کا علم ؟ کہنے لگے ہاں۔ اسحاق علیہ الرحمہ کہتے ہیں اسحاق بن راہو یہ علیہ الرحمہ نے بھی امام احمد علیہ الرحمہ کی تصدیق کی۔ (العلم والعلماء ص :54)
 
علم فقہ میں مہارت حاصل کرنی چاہیے
 
امام محمد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ :آدمی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ شعر گوئی اور نحو میں مہارت حاصل کرے، کیوں کہ شاعر انجام کار (لوگوں کی مدح سرائی یا برائی کر کے )بھیک مانگے گا اور نحو کا ماہر انجام کار تعلیم صبیان میں مشغول ہو گا اور چاہیے کہ حساب داں بھی نہ بنے، کیوں کہ وہ انجام کار زمین کی پیمائش کرتا پھرے گا، بلکہ اس کو چاہیے کہ علم فقہ میں مہارت حاصل کرے۔ (اس لیے کہ لوگ کبھی اس سے مستغنی نہیں ہو سکتے) (مقدمہ شامی ص :121مبادیات فقہ:28)
 
حدیث کی مراد کو فقہاء ہی سمجھنے والے ہیں
 
امام ترمذی علیہ الرحمہ فیصلہ فرماتے ہیں کہ:
 
”وکذلک قال الفقہاء وہم اعلم بمعانی الحدیث “
 
اسی طرح فقہاء نے فرمایا ہے اور وہ حضرات ہی حدیث کی مراد اور مقصد سب سے بہتر سمجھنے والے ہیں۔(ترمذی:1/18)
 
حدیث فقہاء کے بغیر گم راہ کرنے والی ہے
 
امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری علیہ الرحمہ اور امام مسلم علیہ الرحمہ کے استاذ امام سفیان بن عیینہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”الحدیث مضلة الا الفقہاء“ ․(تفقہ فی الدین کے بغیر) حدیث گم راہ کرنے والی ہے ،سوائے فقہاء کے۔
 
یعنی جس کو تفقہ فی الدین حاصل نہیں وہ حدیث کی صحیح مراد تک نہ پہنچ سکے گا اور اپنی ناقص رائے سے الٹا سیدھا مطلب اخذ کرے گا اور گم راہ ہو گا۔ دیکھئے …. فرق باطلہ قرآن وحدیث ہی سے استدلال کرتے ہیں، مگر گم راہ ہوتے ہیں۔ (فتاوی رحیمیہ میں :4/166)
 
علم تو دو ہی ہیں علم فقہ اور علم طب
 
امام شافعی علیہ الرحمہ سے نقل کیا گیا ہے کہ :
”العلم علمان علم الفقہ للادیان وعلم الطب للابدان وما وراء ذلک بلغة مجلس․“
 
(سیکھنے کے لائق ) علم (در حقیقت ) دو ہی ہیں:(ایک) فقہ کا علم طریقہ زندگی کے لیے (بغیر علم فقہ کے دین کے احکام سے ناواقفیت رہ جاتی ہے) اور (دوسرا) علم طب علاج جسمانی کے لیے اور بقیہ علوم تو صرف حظ نفس کا ذریعہ ہیں۔
 
امام شافعی علیہ الرحمہ کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ دو علم ضروری ہیں۔ ان کی تحصیل ہر شخص کے لیے از حد ضروری ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر علوم درجہ کفایت میں ہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ بقیہ علوم بے سود ہیں۔ اسی طرح کا قول حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف بھی منسوب ہے۔
 
علم فقہ کی اہمیت و فضیلت پر چند اشعار
 
            اذا ما اعتز ذو علم بعلم
            فعلم الفقہ اولی باعتزاز
            فکم طیب یفوح ولا کمسک
            وکم طیر یطیر ولا کباز
یعنی جب ذی علم اپنے علم سے اعزاز حاصل کرتا ہے تو علم فقہ اس کے لیے زیادہ بہتر ہے۔
 
اس لیے کہ بہت سی خوش بوئیں مہکتی ہیں، لیکن مشک کی طرح نہیں ہو سکتیں اور بے شمار پرندے اڑتے ہیں مگر باز کو نہیں پہنچ سکے۔
 
            تفقہ فان الفقہ افضل قائد
            الی البر والتقوی واعدل قاصد
            ہو العلم الہادی الی سنن الہدی
            ہو الحصن ینجی من جمیع الشدائد
            وکن مستفیدا کل یوم زیادة
            من الفقہ واسبح فی بحور الفوائد
            فان فقیہا واحدا متورعا
            اشد علی الشیطان من الف عابد
علم فقہ ضرور حاصل کر، کیوں کہ وہ بہترین رہنما ہے بر اور تقویٰ کے حصول کا اور سیدھا قاصد ہے۔ وہ ایسا علم ہے جو سنن ہدی کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ وہ ایسا قلعہ ہے جو تمام مصائب سے نجات دیتا ہے۔ اور روزانہ علم فقہ سے زیادہ مستفید ہو اور فوائد کے سمندروں میں تیر (علم کے سمندر میں خوب غوطہ لگاؤ ) ۔ بے شک ایک (متقی) متورع فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔
 
            وخیر علوم علم فقہ لانہ
            یکون الی کل العلوم توسلا
علم فقہ تمام علوم میں بہتر ہے، اس لیے کہ یہ علم تمام علوم کے لیے وسیلہ ہے۔
 
            والعمر عن تحصیل کل علم
            یقصر فابدأ منہ بالاھم
            وذلک فان الفقہ منہ
            مالا غنی فی کل حال عنہ
اور (انسان کی مختصر ) عمر ہر ( طرح لا محدود ) علوم کے حاصل کرنے سے قاصر (و عاجز) ہے ، لہٰذا اہم (علم کے حصول سے)ابتدا کر ۔ اور وہ (اہم علم ) فقہ ہے، اس لیے کہ اس سے کسی حال میں کوئی مستغنی نہیں۔
 
مولانا عبدالاحد کوثر قادری صاحب لاجپوری علیہ الرحمہ نے خوب کہا #
            علم فقہ کی اب میں فضیلت بیان کروں
            اس کی اہمیت کی حقیقت بیان کروں
            علم فقہ کے معنی طہارت کی زندگی
            اس علم کا منشا نفاست کی زندگی
            علم فقہ کا نام فضیلت کی زندگی
            اس علم سے مراد شریعت کی زندگی
            علم فقہ عطیہ خیر القرون ہے
            فرمایا آپ نے یہ دیں کا ستون ہے
 
فقہ کی فضیلت کے آخر میں اس بات کا اظہار نا مناسب نہ ہوگا کہ علم حدیث و علم تفسیر کے جو فضائل قرآن و حدیث میں آئے ہیں وہ بھی فقہ پڑھنے والے کو حاصل ہو جاتے ہیں ، اس لیے کہ فقہ در حقیقت درایت کا نام ہے۔ فقہ کوئی الگ چیز نہیں ہے، بلکہ قرآن وحدیث ہی کا عطر ہے۔
 
فقہ قرآن وحدیث کا عطر ہے
 
اس کی مثال ایسی سمجھیے جیسے دودھ، مکھن اور گھی۔ حدیث کو دودھ سمجھیے اس سے مکھن اور گھی بنتا ہے۔ اسی طرح اصل قرآن و حدیث ہے اور فقہ اس کا گھی ہے، جس کے بغیر انسان اپنی زندگی نہیں گزار سکتا۔(مبادیات فقہ،ص:2)
 
”شامی “ میں ہے:
”ان الفقہ ہو ثمرة الحدیث، ولیس ثواب الفقیہ اقل من ثواب المحدث “یعنی فقہ حدیث کا خلاصہ ہے اور فقیہ کا اجر محدث کے اجر سے کم نہیں۔ (مقدمہ شامی)
 
محد ثین نے اس حدیث کے زمرہ میں جس میں فرمایا:
”اللہم ارحم خلفائی الذین یأتون من بعدی الذین یروون احادیثی وسنتی ویعلمونہا الناس․“
 
یعنی اللہ تعالیٰ میرے خلفاء پر رحم فرمائے، جو میرے بعد آئیں گے، جو میری احادیث اور سنتوں کو روایت کرتے ہیں اور لوگوں کو سکھاتے ہیں۔
 
فقہاء کو بھی شامل فرمایا ہے، چناں چہ علامہ عبد الرؤف مناوی علیہ الرحمہ اس حدیث کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں:”فیدخل فیہ الفقہاء“کہ اس فضیلت میں فقہاء بھی شامل ہیں۔ (فیض القدیر شرح جامع الصغیر ص :2/188 ، رقم الحدیث:1544)

مقالات و مضامین سے متعلق