اسلام پورے عالم کے لیے رحمت ہے، اس کی عالمی تعلیمات میں سے ایک بنیادی تعلیم یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر انسان وہ ہے، جو دوسروں کے لیے مفید اور کام آنے والا ہو؛ اسی لیے اسلام میں آپسی تعاون کی بہت تاکید کی گئی ہے، ”قرض“ بھی آپسی تعاون کی ایک قدیم شکل ہے، ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اس کی ضرورت پیش آجاتی ہے؛ لہٰذا اسلام نے اس کی بہت ترغیب بھی دی ہے اور قرض دینے والے کے لیے بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے اور قرض کے لین دین کے لیے بہت سے حدود اور احکام بیان فرمائے ہیں؛ تاکہ نہ کوئی کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے اور نہ کوئی کسی شریف انسان کو پریشان کر سکے۔
قرض دینے کی فضیلت
ہمیں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بہت سی آیات اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے بہت سے ارشادات قرض دینے کی فضیلت میں ملتے ہیں؛ چناں چہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنْ تُقْرِضُوا اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا یُضَاعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللَّہُ شَکُورٌ حَلِیمٌ﴾․ (سورة التغابن:17)
ترجمہ:اگر تم اللہ تعالی کو قرض حسن دوگے، تو اللہ تعالیٰ اسے تمہارے لیے بڑھائیں گے اور تمہاری مغفرت کردیں گے اور اللہ تعالیٰ بہت قبول کرنے والا اور بردبار ہے۔
دوسرے کسی انسان کومدد کے طور پر قرض دینے کو اس آیت میں اللہ تعالیٰ کو قرض دینا قرار دیا گیا ہے اور اس پر دو بشارتیں سنائی گئی ہیں: قرض کی شکل میں اس تعاون کی برکت سے اللہ تعالیٰ ثواب اور مال دونوں میں اضافہ کرے گا۔ دوسری بشارت مغفرت کی ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت میں یہ نکتہ بھی واضح فرمایا ہے کہ خوش حالی اور تنگ دستی تو اللہ تعالی کی طرف سے ہے، لہٰذا خوش حال کو چاہیے کہ وہ قرض کی شکل میں پریشان حال لوگوں کی مدد کرے، اللہ کا ارشاد ہے:﴿مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافًا کَثِیرَةً وَاللَّہُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُون﴾ (البقرة:245)
کون ہے جو اللہ کو قرض حسن دے؟ پھر اللہ تعالیٰ اس کو کئی گنا بڑھادے اور اللہ ہی تنگی پیدا کرتا ہے اور وہی کشادگی عطا کرتا ہے اور تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اس سلسلے میں رسول رحمت صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات بھی بہت حوصلہ افزا ہیں، درج ذیل حدیث میں کتنی بڑی بشارت دی گئی ہے:
رأیتُ لیلة أسری بی علی باب الجنة الصدقة بعشر أمثالہا، والقرض بثمانیة عشر، فقلت: یا جبریل، ما بال القرض أفضل من الصدقة؟ قال: لأن السائل یسأل وعندہ، والمستقرض لا یستقرض إلا من حاجة․
رسول اللہ صلی الله علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے:شب معراج کے موقع پر میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا:صدقہ کا ثواب دس گنا زیادہ ہے اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا زیادہ ہے۔ تو میں نے جبریل سے پوچھا کہ قرض، صدقے سے بھی افضل کیسے ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ سائل جب مانگتا ہے، تو اس کے پاس کچھ نہ کچھ پہلے سے بھی رہتا ہے اور قرض لینے والا ضرورت کے وقت ہی قرض لیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ،باب القرض، 2431)
ایک دوسرے موقع پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:إنَّ ملکًا بباب من أبواب السماء، یقول: من یقرض الیوم یجزی غدًا، وملکًا بباب آخر یقول: اللہم أعْطِ منفقًا خلفًا، وعجل لممسک تلفًا. (مسند أحمد، 8054)
آسمان کے ایک دروازے پر ایک فرشتہ ہے، جو یہ آواز لگاتا رہتا ہے: جو آج قرض دے گا، کل اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ اور آسمان کے دوسرے دروازے پر ایک دوسرا فرشتہ ہے، جو یہ آواز لگاتا ہے:اے اللہ! خرچ کرنے والوں کو اس کا بدل عطا فرما اور بخیل پر جلدی ہلاکت نازل فرما۔
قرض کی واپسی میں مہلت دینا
قرض دینے کے بعد اس کی واپسی کے لیے قرض لینے والے کو ایک مناسب وقت اور مہلت دینا ضروری ہے؛ تاکہ وہ قرض کی واپسی کے انتظامات کر سکے، اسی طرح بسا اوقات ایسابھی ہوتا ہے کہ قرض لینے والے کے پاس انتظام نہیں ہو پاتا، جس کی وجہ سے طے شدہ وقت میں قرض کی واپسی اس کے لیے بہت دشوار ہوجاتی ہے؛ لہٰذا اسلام میں جہاں قرض دینے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہیں، وہیں واپسی میں مہلت دینے پر بھی اللہ کی طرف سے بڑے انعام کا وعدہ کیا گیا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَإِنْ کَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَی مَیْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَیْرٌ لَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾․ (البقرة:280)
ترجمہ:اگر قرض لینے والاتنگ دست ہو، تو سہولت ہونے تک مہلت دینا ہے اور اگر تم قرض معاف کردو، تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تمہیں اس کے فائدہ کا علم ہو۔
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے:” مَن سرَّہ أن ینجیہ اللہ من کرب یوم القیامة فلینفِّس عن مُعسِر أو یضع عنہ“․
ترجمہ:جو یہ چاہتا ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی پریشانیوں سے نجات عطا فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ تنگ دست کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کردے۔(صحیح مسلم، باب انظارالمعسر، 1563)
ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فر ماتے ہیں:جو تنگ دست کو مہلت دے گا یا اس کا قرض معاف کردے گا تو اللہ تعالیٰ کل قیامت کے دن اسے اپنے عرش کے سایہ میں جگہ عنایت فرمائے گا:”مَن أنظر معسرًا أو وضع عنہ أظلہ اللہ فی ظلہ“․(رواہ مسلم، 3014)
بلکہ ایک روایت میں تو نبی مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مقررہ وقت کے بعد، انسان قرض لینے والے کو جتنی مہلت دے گا، ہر دن اسے قرض دینے کے برابر صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا اور جیسے جیسے مہلت کے دن بڑھیں گے، ویسے ویسے ثواب میں دوگنا اضافہ ہوتا رہے گا۔
قَالَ:”لَہُ بِکُل یَوْمٍ صَدَقَةٌ قَبْلَ أَنْ یَحِلَّ الدَّیْنُ، فَإِذَا حَلَّ الدیْنُ فَأَنْظَرَہُ فَلَہُ بِکُل یَوْمٍ مِثْلَیْہِ صَدَقَةٌ“.(رواہ أحمد، 23046)
ترجمہ:جس نے وقت پورا ہونے سے پہلے تنگ دست کو مہلت دی تو اسے ہر دن کے بدلہ اتنی ہی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔اور وقت پورا ہونے کے بعد مہلت دی تو اس سے دوگنی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔
ایک بے عمل تاجر کی مغفرت
حدیث میں واقعہ لکھا ہے کہ قیامت کے دن ایک تاجر کے اعمال کو تولا جائے گا، تو اس کے اعمال میں کوئی ایسی نیکی نہیں ملے گی، جس کی وجہ سے وہ جہنم سے بچ سکے، لہٰذا فرشتے یہ بات اللہ تعالی سے عرض کریں گے، اللہ تعالی اس سے اس کے اعمال کے بارے میں پوچھیں گے؟ وہ کہے گا: یا اللہ! میرے پاس صرف ایک عمل ہے کہ دنیا میں جب کوئی مجھ سے قرض لیتا تھا، تو میں واپسی کے مطالبہ میں اس پر زور نہیں ڈالتا تھا، بلکہ اسے مہلت دیتا تھا اور اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرتا تھا، اس امیدپر کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے گا۔ تو یہ سن کر اللہ تعالی اس کی مغفرت فرما دیں گے اور فرمائیں گے کہ ہم تم سے زیادہ نرمی کرنے والے اور مہلت دینے والے ہیں۔
مات رجل، فقیل لہ: ما کنت تقول؟ قال: کنت أبایع الناس، فأتجوَّز عن الموسر، وأخفف عن المعسر، فغفر لہ. (بخاری، باب حسن التقاضی، 2261) ترجمہ: ایک شخص کا انتقال ہوا، اس سے پوچھا گیا کہ دنیا میں تو کیا کہتا تھا؟ اس نے جواب دیا:میں لوگوں سے تجارت کرتا تھا اور مال دار سے چشم پوشی کرتا تھا اور تنگ دست پر تخفیف کرتا تھا۔ چناں چہ اس کی مغفرت کردی گئی۔
قرض کی جلد واپسی کی فکر کرنا
قرض لینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اس فکر میں رہے کہ کس طرح جلد از جلد قرض واپس کرسکے، تاکہ اس کی ذمہ داری فارغ ہوسکے اور خدا نخواستہ اگر اسے موت آجائے تو اللہ کے پاس یہ قرض اس کے لیے وبال جان نہ بن جائے، رسول اللہ ا اس حوالے سے اتنی سخت تاکید فرماتے تھے کہ شروع میں جب کوئی جنازہ آتا، تو پہلے معلوم کرتے کہ کیا مرنے والے کے ذمہ میں قرض ہے یا نہیں؟ اگر معلوم ہوتا کہ قرض ہے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم اس کا جنازہ نہیں پڑھاتے تھے۔(سنن أبی داوود، باب التشدید فی الدین، 3343)
حضرت جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ا ایسے شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھاتے تھے جس کے اوپر قرض ہو، چناں چہ ایک میت کو لایا گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلمنے دریافت فرمایا کہ کیا اس کے ذمہ قرض ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ جی!دو دینار ہیں۔ تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:تم اس کا جنازہ پڑھو۔ پھر جب حضرت ابوقتادة نے عرض کیا:یا رسول اللہ!اس کا قرض میں اپنے ذمہ لیتا ہوں، تب آپ صلی الله علیہ وسلمنے اس کا جنازہ پڑھایا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک اس کے ذمہ میں قرض رہتا ہے، اللہ تعالی کے پاس بھی اس کا معاملہ لٹکا رہتا ہے، اس کے حق میں کوئی خیر کا فیصلہ نہیں کیا جاتا، جیسا کہ ذیل کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے :
قال النبی - صلی اللہ علیہ وسلم:”نفس المؤمن معلقة بدَیْنِہِ حتی یُقضی عنہ“
ترجمہ: مومن کا نفس اس کے قرض کی وجہ سے لٹکا رہتا ہے؛ جب تک کہ اس کا قرض نہ ادا کردیا جائے۔ (سنن الترمذی، 1078)
بعد میں جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کچھ کشادگی عطا فرمائی تو آپ صلی الله علیہ وسلم مرنے والے کا قرض اپنی طرف سے ادا کرکے، پھر اس کی نماز جنازہ پڑھاتے تھے۔
قرض کی واپسی میں ٹال مٹول کرنا
قرض کامعاملہ کرتے وقت اسلام کی ہدایت ہے کہ جانبین کی موجودگی میں قرض کی مقدار، واپسی کی تاریخ وغیرہ تمام تفصیلات لکھ لی جائیں، تاکہ بعد میں کوئی اختلاف پیدا نہ ہو؛ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ إِلَی أَجَلٍ مُسَمًّی فَاکْتُبُوہ﴾․
ترجمہ:اے ایمان والو!جب تم کسی معینہ وقت تک کے لیے قرض کا معاملہ کروتو اسے لکھ لیا کرو۔(البقرة: 282)
پھر اس کے بعد قرض لینے والے کو اسلام نے یہ ہدایت دی ہے کہ وہ قرض کی واپسی کو ممکن بنائے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤَدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا﴾․ (النساء:58)
ترجمہ:بے شک اللہ تعالی تمہیں حکم دیتے ہیں کہ امانتیں ان کے مالکوں کی طرف لوٹاؤ۔
اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے رسول اللہاتنبیہ فرماتے ہیں کہ اگر قرض لینے والے کے پاس قرض کی واپسی کا انتظام ہے، اس کے باوجود وہ ٹال مٹول کر رہا ہے، قرض واپس نہیں کر رہا ہے، تو وہ ظالم ہے۔
(مَطل الغنی ظلم)
ترجمہ:غنی اور مال دار کا ٹال مٹول ظلم ہے۔ (بخاری، باب مطل الغنی ظلم، 2270)
قرض کی واپسی کے اسباب مہیا نہ کرنا گناہ کبیرہ
بعض حضرات اس سلسلہ میں بہت لاپرواہی سے کام لیتے ہیں، قرض لینے کے بعد ادائیگی کی کوئی فکر ان کو نہیں رہتی؛ایسے لوگوں کے بارے میں نبی مصطفی صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات بہت سخت ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:
”مَن أخذ أموال الناس یرید أدائہا أدَّی اللہ عنہ، ومَن أخذہا یرید إتلافہا أتلفہ اللہ“.(بخاری، 2257)
ترجمہ:جس نے لوگوں کا مال لیا اور وہ ادا کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالی اس کی طرف سے ادا کردیتے ہیں۔ اور جو دوسرے کا مال ہلاک کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کردیتے ہیں۔یعنی اس شخص کو اور اس کے مال کو ہلاک کر دیتے ہیں۔
اگر کسی شخص نے اپنی پوری زندگی قرض واپس نہیں کیا اور نہ اس کی واپسی کے اسباب مہیا کیے کہ اتنے میں دنیا سے اس کے جانے کا وقت آگیا، تو ایسے شخص کے بارے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا۔
قال رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم:”إنَّ أعظم الذنوب عند اللہ یلقاہ بہا عبدہ بعد الکبائر التی نہی عنہا: أن یموت رجل وعلیہ دَین لا یدع لہ قضاء“.(سنن أبی داود، 3342)
ترجمہ:اللہ کے نزدیک کبیرہ گناہوں کے بعد سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انسان ایسی حالت میں انتقال کرے کہ اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کوئی مال نہ چھوڑا ہو۔
قرض کی واپسی کا ارادہ نہ رکھنے والے کا اللہ کے یہاں چور وں میں شمار
بعض لوگ قرض لے کر واپس نہیں کرتے، بلکہ واپس نہ کرنے کی نیت کرلیتے ہیں، ایسے لوگ بہت بد ترین اور بد نصیب ہوتے ہیں، ان کے بارے میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے لوگ اللہ کے یہاں چوروں کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں۔
قال رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم -: أیما رجل یدین دینًا، وہو مجمع ألَّا یوفیہ إیاہ، لقی اللہ سارقًا.(جامع المسانید والسنن، 5362)
ترجمہ:جس شخص نے قرض لیا اور واپس نہ کرنے کا ارادہ کیا تو وہ اللہ سے چور ہونے کی حالت میں ملے گا۔
ہماری بے راہ روی اور سودی قرض کی لعنت
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرض کے لین دین اور اس کی واپسی میں ہماری اس بے راہ روی، نیت کی خرابی اورظلم وزیادتی کی وجہ سے ہی ہم پر سودی قرض (Loan)کی لعنت مسلط کی گئی ہے، جس میں ہمارا معاشرہ بری طرح سے جکڑا ہوا ہے، چناں چہ کہیں بینک کا سود ہے، تو کہیں رہن کا سود ہے اور کہیں فائننسر کا سود ہے، ہر چہار طرف سے سود کی لعنت میں میں ہمارا معاشرہ ڈوبا ہواہے، جس کی وجہ سے اس معاشرہ میں کوئی ڈپریشن کا شکار ہو رہا ہے، تو کوئی اقدام خود کشی کر رہا ہے۔ اللہ تعالی اس لعنت سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
آخری گزارش
لہٰذا ہمیں جہاں معاشرے میں پریشان حال لوگوں کی مدد کرنی چاہیے، ضرورت کے موقع پر قرض یا کسی صورت سے ان کا تعاون کرنا چاہیے، انتظام نہ ہونے کی شکل میں قرض کی واپسی میں سختی سے کام نہیں لینا چاہیے، وہیں قرض لینے والے کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد قرض واپس کرنے کی فکر میں رہے، بلا ضرورت ٹال مٹول نہ کرے؛بلکہ اچھے انداز سے قرض واپس کرے، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے غزوہٴ حنین کے موقع پر عبد اللہ بن ابی ربیعہ مخزومی سے تیس یا چالیس ہزار قرض لیے تھے، پھر جب حنین سے واپس تشریف لائے توقرض واپس فرمایا اور انہیں دعائیں بھی دیں اور فرمایا کہ قرض کا بدلہ یہ ہے کہ پورے طور پر اسے ادا کیا جائے اور قرض دینے والے کی تعریف بھی کی جائے۔ ایک اور موقع پر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے قرض دینے والے کو اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ واپس دیتے ہوئے فرمایا:تم میں بہتر وہ شخص ہے جو اچھے انداز سے قرض ادا کرے۔اے کاش کہ ہم بھی ان بہترین تعلیمات پر عمل کر کے ایک پرسکون معاشرہ کی تشکیل میں اپنے حصہ کا کردار ادا کرتے!