ادب و طاعت
قرآن کریم میں ”حسن ادب“ کے جو نمونے ملتے ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی ضرورت نہیں کہ ہم اس لفظ کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم بیان کریں۔ یوں تو ایک محاضرہ کا فنی تجزیہ کرنے کے لیے ہم اخیر میں اس کی طرف بھی اشارہ کریں گے، لیکن دراصل ادب وہی ہے جس کی تعلیم ہمیں قرآن کریم سے ملتی ہے،اس کے چند نمونے آپ اس طرح ملاحظہ فرما سکتے ہیں:
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ادب کی تین قسمیں ہیں:
1.. اللہ کا ادب
2.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی شریعت کا ادب
3.. اللہ کی مخلوق کا ادب
اول: اللہ عز وجل کا ادب
اس کی تین قسمیں ہیں:
1…حکم الہٰی کو ہر وقت تازہ اور پائدار سمجھنا اور اس کی مخالف چیزوں سے بچنا۔
2…دل کو پاک رکھنا ،اس کو دوسری طرف متوجہ نہ ہونے دینا۔
3…ارادہ کو پاک رکھنا، تاکہ وہ اس چیز میں ملوث نہ ہو جو معیوب ہے۔
اللہ کے ساتھ ادب، اس کے دین کی خدمت ، اس کی ذات پاک کی طرف یکسو ہو کر متوجہ ہونا، اس طرح کہ کوئی ظاہری اور باطنی حرکت تعظیم ، اجلال اور شرم وحیا کے خلاف نہ ہو۔
ادب کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے اندر خدمت کا جذبہ پیدا کرنے اور کام کرنے پر آمادگی اختیار کرنا،جو حصول ادب اور حصول کمال کے لیے ضروری ہے۔ اللہ نے انسان کے دل میں کمال کی طلب رکھی ہے اور اس کو استعداد اور اہلیت عطا فرمائی ہے کہ وہ کمال حاصل کرے یہ صلاحیت اس کے اندر چھپی ہوئی ہے، جیسے کہچقماق کے پتھر میں آگ ۔
حصول کمال کی طلب اللہ اس کے دل میں ڈالتا ہے اور اس کو اس کی صلاحیت عطا کرتا ہے، وہی منزل تک پہنچاتا ہے اور وہی راستہ بھی بتاتا ہے، اور اس کی طرف اپنے رسول بھیجتا ہے اور اس کی طرف اپنی کتاب بھیجتا ہے،تا کہ وہ قوت جو اس کے اندر ہے وہ بروئے کار لائے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ،ارشاد ہے:
﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَا، فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا،قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا، وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا﴾․(الشمس :10-7)
ترجمہ:”اور( قسم ہے انسان کی ) جان کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو درست بنایا، پھر اس کی بدکرداری اور پر ہیز گاری (دونوں باتوں ) کا اس کو القاء کیا ، یقیناً وہ مراد کو پہنچا جس نے اس (جان )کو پاک کر لیا اور نامراد ہوا جس نے اس کو ( فجور میں ) دبا دیا“۔
اس آیت میں نفس کو پیدا کرنے اور اس کو کار آمد کرنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،جو اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مقصود اعتدال اور تکمیل ہے، پھر مطلع کرتا ہے کہ اس کے اندر یہ صلاحیت دی کہ معصیت یا تقویٰ میں سے جس کو چاہے اپنا لے اور اس کو امتحان کی منزل تک پہنچاتا ہے، پھر اس کو مانجھ کر پاک کرنے والے (تزکیہ )کو فلاح کی بشارت دی اور ان آداب سے بہرہ مند فرمایا کہ بد قسمتی مقدر ہے اس شخص کے لیے جو اس کو دبا دے، چھپا دے، ایسے شخص کی تحقیر کی گئی اور اس کو پست بتایا گیا اور معصیت کے ذریعہ فنا کرنے کا اشارہ کیا گیا۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
اللہ عز وجل کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب
اس جگہ پر مفسرین اس آیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو ملاتے ہیں جب کہ اللہ نے اپنی نبی کوجو چاہا دکھلا یا:﴿مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَیٰ﴾آنکھ اپنی جگہ سے ٹلی نہیں اور دیدوں نے حرکت نہیں کی ، ادب کا تقاضا تھا کہ سر جھکائے تسلیم و رضا کا اظہار کرتا رہے، علمائے ادب نے یہی تعریف کی ہے اور بہترین مثال ان کو سمجھا ہے ،ابن تیمیہ نے اسی مفہوم پر زور دیا ہے۔
اس آیت میں عجیب و غریب اسرار پوشیدہ ہیں اور وہ ادب جو افضل بشر سید نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان تھا اس کا بہترین نمونہ ان الفاظ میں ہے۔
﴿مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَیٰ، أَفَتُمَارُونَہُ عَلَیٰ مَا یَرَیٰ﴾․ (النجم:12-11)
”قلب نے دیکھی ہوئی چیز میں کوئی غلطی نہیں کی تو کیا ان (پیغمبر) سے ان کی دیکھی ہوئی چیز میں نزاع کرتے ہو“۔
یعنی جو آنکھوں نے دیکھا اس کی دل نے تکذیب نہیں کی اور یہ اللہ جل شانہ کے حضور غایت ادب اورکمال اطاعت کی تصویر ہے ،جو اس ذات سے صادر ہوئی جس کے لیے فرمایا گیا ہے۔
﴿وَإِنَّکَ لَعَلَیٰ خُلُقٍ عَظِیمٍ﴾
”اور بے شک آپ اخلاق ( حسنہ ) کے اعلی پیمانہ پر ہیں“۔
انبیاء اور پیغمبروں کا اللہ عز وجل کے ساتھ ادب
انبیا علیہم السلام نے اللہ سے کس طرح مکالمہ کیا اور کس طرح اپنی عرض داشت پیش کیں، ہر بات ادب واحترام کی روح سے بھری ہوئی ہے۔
مسیح علیہ السلام نے فرمایا:
﴿إِن کُنتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ﴾․(المائدہ:116)
”اگر ہم نے کہا ہوتا تو آپ نے جانا ہوتا“۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک انھوں نے تردیدی یا انکاری جملہ نہیں کہا کہ” لم أقلہ“
جب ان سے پوچھا گیاکہ:﴿ یعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ، أَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخَذُونِی وَأَمَّی الہَیْنِ مِنْ دُونِ اللَّہِ﴾․(المائدہ:116 )
اے عیسی ابن مریم!کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ خداکے دو معبود قراردے لو؟“
تو اس کے جواب میں انکاری جملہ بھی کہہ سکتے تھے کہ میں نے نہیں کہا، مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور حسن ادب کا یہ تقاضا تھا کہ لفظ نفی زبان سے نہ نکلے اور بات بھی پوری ہو جائے اور ادب بھی باقی رہے اوراحترام کا تقاضا اپنی جگہ پر قائم رہے:﴿إِن کُنتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ ﴾
بات اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کی طرف لوٹا دی اور عبدیت کا اظہار اس طرح کیا کہ:﴿تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی ﴾
کہ تو جانتا ہے کہ میرے دل میں کیا ہے پھر علم غیب سے اپنی نا واقفیت اور اپنی کوتاہی علم وفہم کا اعتراف بارگاہ رب العزت میں کرنا ضروری تھا کہ﴿وَلَا أَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِکَ﴾
․ پھر حق تعالیٰ جل شانہ کی عظمت و کبریائی کا اعتراف واظہار بھی ضروری تھا، تو فرمایا کہ: ﴿إِنَّکَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُیُوبِ﴾
اور پھر اس بات کی تردید کی کہ انھوں نے احکام ربانی کے خلاف کوئی حرف زبان سے نکالا ہو، فرمایا:﴿مَا قُلْتُ لَہُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِی بِہِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّہَ رَبِّی وَرَبَّکُمْ﴾
اور پھر اپنی گواہی کا ذکر کیا کہ اے اللہ! جب تک تو نے مجھے ان لوگوں کے درمیان رکھا اور جو کچھ بھی زبان سے نکالا اور جو لفظ بھی کہا اس سے تو خوب واقف ہے اور یہ کہ جب تک تو نے مجھے زندہ رکھا میں نے دیکھا کہ یہ لوگ کیا کرتے ہیں اورآپ نے اٹھا لیا تو ان کے اعمال اور عقیدے کی نگہبانی فرمانے والا صرف تو ہی تھا:
﴿وَکُنتُ عَلَیْہِمْ شَہِیدًا مَّا دُمْتُ فِیہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی کُنتَ أَنتَ الرَّقِیبَ عَلَیْہِمْ﴾․(المائدہ: 117)
”اور میں ان پر مطلع رہا جب تک ان میں رہا اور پھر جب آپ نے مجھ کو اٹھا لیا تو آپ ان پر مطلع رہے“۔
اور حق تعالیٰ شانہ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے یہ کہا:
﴿ وَأَنتَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْء ٍ شَہِیدٌ﴾․ (المائدة:117)
اور آپ ہر چیز کی پوری خبر رکھتے ہیں۔
اور اخیر میں وہ بات فرمائی جس کو پڑھ کر آج بھی اہل ایمان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جس آیت کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رورو کر رات بھر تلاوت فرماتے رہے:
﴿إِن تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُک وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ﴾․(المائدة:118)
اگر آپ ان کو سزاد یں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ زبردست حکمت والے ہیں۔
یعنی اگر تو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں، سر اٹھانے کی ہمت نہیں کر سکتے ، تیری بندگی پر راضی اور تیرے حکم پر خوش ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو یہ بھی تیری شان ہے کہ اتنی معصیت اور شرک کے باوجودجب کوئی عقلی وظاہری قانون ان کی رعایت نہیں کر سکتا تھا تو نے اپنے فضل وکرم سے ان کو بخش دیا اور اس حال میں بخشناایک صاحب قوت و عظمت کا ہی کام ہو سکتا ہے اور وہ جو قانون کے سامنے لاچار ہو اور وہ کسی کے سامنے جواب دہ ہو اس کی مجال نہیں ہو سکتی کہ جس کو چاہے بخش دے۔
یہ آیتیں ادب و احترام، اللہ کی معرفت اور اس کے جلال کے آگے سر جھکانے کی بہترین مثال ہیں، بعض مفسرین نے ،جن میں طبری بھی ہیں، ان کا خیال ہے کہ سیاق آیت کا تقاضا تھا کہ :﴿ وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ﴾
کے بجائے ”فَإِنَّکَ أَنتَ الغفور الرحیم“
ہوتا، مگر قرآن کریم نے:﴿ إِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیزُالحکیم﴾
کہا ،کیوں کہ یہ موقع جلال و غضب کا ہے، یہاں مالک حقیقی کے حکم کی تائید ہی کی جاسکتی تھی ، غایت اب واحترام میں بندہ نے کہا کہ اللہ! تو صاحب سطوت و غلبہ ہے ،تیرا فیصلہ سب سے بڑا فیصلہ ہے۔
انبیائے کرام کی طرف جن اقوال کی نسبت ہے اور جن کی صحت کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے، کیوں کہ وہ الله تعالیٰ نے خود قرآن میں نازل فرمایا ہے، ان میں ایک یہ ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا: ﴿الَّذِی خَلَقَنِی فَہُوَ یَہْدِینِ، وَالَّذِی ہُوَ یُطْعِمُنِی وَیَسْقِینِ، وَإِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِینِ﴾․(الشعراء :80-78)
”جس نے مجھ کو (اور اسی طرح سب کو ) پیدا کیا، پھر وہی مجھ کو (میری مصلحتوں کی طرف)راہ نمائی کرتا ہے اور جو کہ مجھ کو کھلاتا پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہو جاتا ہوں وہی مجھ کو شفا دیتا ہے“۔
اس آیت میں مرض کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی اور یہ نہیں کہا کہ:”وَإِذَا أمْرضَنی فَہُوَ یَشْفِینِ“․
اسی طرح حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ کشتی کے بارے میں ان کا یہ کہنا:﴿فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِیبَہَا﴾
میں نے ارادہ کیا کہ اس میں عیب پیدا کر دوں، یہ نہیں کہا کہ:”فَأَرَادَ رَبُّکَ أَن یعیبہا“
اور ان دونوں لڑکوں کے بارے میں جن کی دیوار حضرت خضر نے از سر نو تعمیر کی وہاں فرمایا:
﴿فَأَرَادَ رَبُّکَ أَن یَبْلُغَا أَشُدَّہُمَا﴾․ ( الکیف:82 )
”سو آپ کے رب نے اپنی مہربانی سے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی (کی عمر )کو پہنچ جائیں۔
یہ واقعہ قرآن کے الفاظ میں اس طرح وارد ہوا ہے:﴿أَمَّا السَّفِینَةُ فَکَانَتْ لِمَسَاکِینَ یَعْمَلُونَ فِی الْبَحْرِ فَأَرَدتُّ أَنْ أَعِیبَہَا وَکَانَ وَرَاء َہُم مَّلِکٌ یَأْخُذُ کُلَّ سَفِینَةٍ غَصْبًا، وَأَمَّا الْغُلَامُ فَکَانَ أَبَوَاہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِینَا أَن یُرْہِقَہُمَا طُغْیَانًا وَکُفْرًا،فَأَرَدْنَا أَن یُبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْرًا مِّنْہُ زَکَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا، وَأَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلَامَیْنِ یَتِیمَیْنِ فِی الْمَدِینَةِ وَکَانَ تَحْتَہُ کَنزٌ لَّہُمَا وَکَانَ أَبُوہُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّکَ أَن یَبْلُغَا أَشُدَّہُمَا وَیَسْتَخْرِجَا کَنزَہُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّکَ وَمَا فَعَلْتُہُ عَنْ أَمْرِی ذَٰلِکَ تَأْوِیلُ مَالَمْ تَسْطِع عَّلَیْہِ صَبْرًا﴾․(سورہ الکہف:82-79)
”وہ جوکشتی تھی وہ چند آدمیوں کی تھی جو (اس کے ذریعہ سے ) دریا میں محنت (مزدوری )کرتے تھے،سومیں نے چاہا کہ اس میں عیب ڈال دوں ، (اور وجہ اس کی یہ تھی کہ ) ان لوگوں سے آگے کی طرف ایک (ظالم) بادشاہ تھا ،جو ہر (اچھی)کشتی کو زبردستی پکڑ رہاتھا اور رہاوہ لڑکا، سو اس کے ماں باپ ایمان دار تھے سو ہم کو اندیشہ( یعنی تحقیق ) ہوا کہ یہ ان دونوں پر سرکشی اور کفر کا اثر نہ ڈال دے ،پس ہم کو یہ منظور ہوا کہ بجائے اس کے کہ پروردگار ان کو ایسی اولاد دے، جو پاکیزگی (یعنی دین) میں اس سے بہتر ہو، اور (ماں باپ کے ساتھ) محبتکرنے میں اس سے بڑھ کر ہو اور رہی دیوار ،سو وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی، جو اس شہر میں (رہتے) ہیں اور اس(دیوار) کے نیچے ان کا کچھ مال مدفون تھا (جوان کے باپ سے میراث سے پہنچا ہے) اور ان کا باپ (جومرا گیا وہ ) ایک نیک آدمی تھا ، سو آپ کے رب نے اپنی مہربانی سے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی ( کی عمر )کو پہنچ جاویں اور اپنا دفینہ نکال لیں ،آپ کے رب کی رحمت سے اور (یہ سارے کام میں نے یہ الہام الہٰی کیے ہیں، ان میں سے)کوئی کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کیا۔ (لیجیے ) یہ ہے حقیقت ان ( باتوں )کی جن پر آپ سے صبر نہ ہو سکا“۔
ان آیات میں شر کی نسبت، توڑنے اور منہدم کرنے کی نسبت، کسی بنی بنائی چیز کو خراب کرنے کی نسبت انسان کی طرف ہے اور جہاں خیر کا معاملہ ہے اس کی نسبت اللہ کی طرف راجع ہے، یہی بات آپ کو سورہ فاتحہ میں بھی نظر آتی ہے کہ:﴿غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ﴾
کہا، کیوں کہ غضب میں ڈالنا ایک جابرانہ طاقت کا مظہر ہے اور اس سے پہلے ﴿أَنْعَمْتَ عَلَیْہِم ﴾
میں جہاں عطا کرنے کا ذکر ہے، اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے، اسی طرح ما قبل کی آیت میں جنوں کا یہ کہنا:﴿وَأَنَّا لَا نَدْرِی أَشَرٌّ أُرِیدَ بِمَن فِی الْأَرْضِ أَمْ أَرَادَ بِہِمْ رَبُّہُمْ رَشَدًا﴾․ (الجن:10)
”اور ہم نہیں جانتے کہ (ان جدید پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث فرمانے سے )زمین والوں کو کوئی تکلیف پہنچانا مقصود ہے یا ان کے رب نے ان کی ہدایت کرنے کا قصد فرمایا ہے“ ۔
اس میں شر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں کی گئی، یہ نہیں کہا گیا کہ: آَشَرَ أَرَدْتَ یَا أَرَادَ رَبُّکَ
بلکہ أشرّ ارید
کہا گیا، مجہول کا صیغہ ہے، حالاں کہ یہ بات واضح ہے کہ:﴿ الْقَدْرُ خَیْرُہُ وَشَرُّہ﴾
جو مقدرات ہیں ،اچھیہوں یا برے، دونوں اللہ کی طرف سے ہیں، مگر یہاں شر کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی گئی۔ اسی کو حسن ادب کہتے ہیں۔
ایک مثال اور لیجیے ،جو بہت لطیف ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھو کے تھے، ان کو غذا اور پانی کی ضرورت تھی تو انھوں نے دعا کے صیغہ میں جوامر کے مشابہ ہے :﴿أطعمنی ﴾نہیں کہا ،بلکہ یہ فرمایا:
﴿رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ﴾․(القصص:24)
”اے میرے پروردگار! (اس وقت ) جو نعمت بھی آپ مجھ کو بھیج دیں میں اس کا (سخت)حاجت مند ہوں “۔
اسی طرح حضرت آدم علیہ السلام کا کہنا:
﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسُنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِینَ﴾․ (الاعراف:23)
”اے ہمارے رب! ہم نے بڑا نقصان کیا اور اگر آپ ہماری مغفرت نہ کریں گے اور ہم پر رحم نہ کریں گے تو واقعی ہمارا بڑانقصان ہو جائے گا“۔
یہاں یہ نہیں کہا کہ اللہ تو نے جو میرے لیے مقدر کیا ہے اور جس کا تو نے فیصلہ فرمایا ہے، بلکہ ظلم کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی، جو ادب کا تقاضا تھا۔
اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام کا یہ فرمانا:
﴿ُ أَنِّی مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ﴾․ (الانبیاء :83)
ترجمہ:”مجھ کو یہ تکلیف پہنچ رہی ہے اور آپ سب مہربانوں سے زیاہ مہربان ہیں “۔
اس سے پہلے یہ نہیں کہا: فَعَافِنی وَاشْفِنِی
”یعنی مجھ کو عافیت اور شفادے“۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائیوں اور والد سے کہنا: ﴿ہَٰذَا تَأْوِیلُ رُؤْیَایَ مِن قَبْلُ قَدْ جَعَلَہَا رَبِّی حَقًّا وَقَدْ أَحْسَنَ بِی إِذْ أَخْرَجَنِی مِنَ السِّجْنُِ﴾․ (یوسف:100)
”یہ ہے میرے خواب کی تعبیر جو پہلے زمانہ میں دیکھا تھا، جس کو میرے رب نے سچا کر دیا اور اس نے (یعنی خدا نے ) میرے ساتھ احسان کیا کہ (ایک تو ) اس نے مجھے قید سے نکالا“ ۔
اپنے بھائیوں کا لحاظ اور احترام کرتے ہوئے یہ نہیں فرمایا:”إِذْ أَخْرَجَنِی مِنَ الْجُبِّ“
اور جب حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو یاد دلایا کہ وہ لوگ بھو کے اور خشک سالی سے مجبور ہو کر اپنے گاؤں سے نکل کر آئے تھے ان کو یہ بات یا دد لائی بھی تو اس طرح کہ جب تم کو گاؤں سے نکال لایا تھا:﴿ وجاء بکم من البدوِ ﴾
یہ بھی احترام کا طریقہ تھا اور فرمایا:
﴿مِن بَعْدِ أَن نَّزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی﴾․ (یوسف:100)
”بعد اس کے شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈلوایا تھا“۔
تو انھوں نے عزت نفس اور سخاوت اور ادب کا حق ادا کیا اور یہ اخلاق کا بلند مقام صرف انبیاء ا ور پیغمبروں میں دیکھا جاتا ہے۔
قرآن کریم میں آپس کی گفت گو کا ادب و احترام، حیا اور شرم کا جو تقاضا ہے اس کے مطابق عمل کرنا اور ایسی گفت گو کرنا جو حسن ادب کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے، ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں ملتا ہے، جب وہ فرعون کے قصر حکومت سے نکل کر باہر آئے، جس کی تفصیل سورہ قصص میں ہے کہ جب انھوں نے” ماء مدین“ کی طرف آکر پناہ لی اور کہا:
﴿عَسَی رَبِّی أَنْ یَہْدِیَنِی سَوَاء َ السَّبِیلِ﴾․( القصص:22)
”امید ہے کہ میرا رب مجھ کو( کسی مقام امن کا )سیدھا راستہ چلا دے گا“۔
تو وہاں دو صاحب زادیاں ، پیغمبر زادیاں، اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے لیے کھڑی تھیں ، اس موقع کیمکالمہ پر غورکیجیے کہ ادب کے نمونے کس آسمانی کتاب میں اس سے بہتر ملیں گے، حضرت موسیٰ ان سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیا چاہتی ہیں؟ آپ کی کیا ضرورت ہے؟ انھوں نے کہا کہ میرے والد بوڑھے ہیں، مجھے ان بکریوں کو پانی پلانا ہے، انتظار کر رہی ہوں کہ یہ چرواہے ہٹ جائیں تو میں پانی پلاؤں ۔ یہاں پر ان صاحب زادیوں نے یہ فرمائش نہیں کہ وہ ان کی بکریوں کو پانی پلا دیں، ایک اجنبی مرد سے اجنبی خاتون کا بات کرنا غایت درجہ مجبوری کی بات تھی، لیکن ان سے فرمائش بھی نہیں کی اور خود حضرت موسیٰ کا یہ کہنا ما خطبکما؟آپ کی کیا حاجت اور آپ کی کیا ضرورت ہے؟ ایک بہترین طرز ادا اور طریقہ کلام ہے، یہ پانیپلانے کیبعد ایک درخت کے سایہ کے نیچے کھڑے ہو جاتے ہیں ، فرعون کے شہر سے بھاگے ہوئے آئے تھے ،بھوکیتھے، بھٹکے ہوئے تھے، وہاں جو دعا کرتے ہیں وہ بھی حسن ادب کی ایک مثال ہے، کہتے ہیں:
﴿رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ﴾ (القصص:24)
”اے میرے پروردگار!جو نعمت بھی آپ مجھ کو بھیج دیں میں اس کا حاجت مند ہوں“۔
یہ نہیں کہتے ہیں کہ اللہ! ہمیں روٹی دے یا کسی کے دل میں ڈال دے کہ آکر ہمیں کوئی کھانا کھلا دے، بلکہ کہتے ہیں اے اللہ! میں اس سے محتاج ہوں جو تو نے ہمارے لیے اتارا ہے، خیر کے معنی یہاں پر روزی کے ہیں، جیسے سورہ عادیات میں خیر مال کے معنی میں ہے:﴿إِنَّہُ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیدٌ﴾ کا ترجمہ مفسرین نے یہی کیا ہے کہ انسان مال کی محبت میں دیوانہ ہو جاتا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کنایہ سے کام لیا اور کہا کہ اے اللہ تو نے جو رزق ہمارے لیے اتارا ہے ہم اس کے طلب گار ہیں۔
پھر ان دونوں لڑکیوں میں سے جس کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پانی بھرا تھا، شرماتی اور لجاتی ہوئی آتی ہیں، ظاہر ہے کہ ایک اجنبی مرد کے سامنے بے باکی سے بات نہیں کر سکتی تھیں، جو کچھ کہا وہ سر جھکا کر شرمیلے انداز میں بیان کیا کہ میرے والد آپ کو بلاتے ہیں ،تا کہ آپ نے میری بکریوں کو جو پانی پلایا ہے اس کا بدلہ دیں، جب حضرت موسیٰ وہاں پہنچے اور پوری کہانی سنائی تو حضرت شعیب علیہ السلام نے کہا کہ آپ ڈریں نہیں، اللہ نے آپ کو ظالم لوگوں سے نجات دی، یہاں پر ان آیات میں ادب واحترام ، شرم و حیا، اخلاق انسانیت، پیغمبرانہ اخلاق سب یکجا نظر آتا ہے، یہ قصہ جن آیتوں میں ہے وہ یہ ہیں:
﴿وَلَمَّا وَرَدَ مَاء َ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْہِ أُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُونَ وَوَجَدَ مِن دُونِہِمُ امْرَأَتَیْنِ تَذُودَانِ قَالَ مَا خَطْبُکُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِی حَتَّیٰ یُصْدِرَ الرِّعَاء ُ وَأَبُونَا شَیْخٌ کَبِیرٌ ، فَسَقَیٰ لَہُمَا ثُمَّ تَوَلَّیٰ إِلَی الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّی لِمَا أَنزَلْتَ إِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیرٌ، فَجَاء َتْہُ إِحْدَاہُمَا تَمْشِی عَلَی اسْتِحْیَاء ٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِی یَدْعُوکَ لِیَجْزِیَکَ أَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا فَلَمَّا جَاء َہُ وَقَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِینَ﴾․ (القصص:25-23)
”اور جب مدین کے پانی (یعنی کنویں)پر پہنچے تو اس پر (مختلف) آدمیوں کا ایک مجمع دیکھا ،جو پانی پلا ر ہے تھے اور ان لوگوں سے ایک طرف (الگ) کو دو عورتیں دیکھیں کہ وہ (اپنی بکریاں )رو کے کھڑی ہیں، موسیٰ علیہ السلام نے (ان سے) پوچھا تمہارا کیا مطلب ہے؟ وہ دونوں بولیں کہ ( ہمارا معمول یہ ہے کہ )ہم( اپنے جانوروں کو ) اس وقت تک پانی نہیں پلاتے جب تک یہ چرواہے پانی پلا کر (جانوروں کو )ہٹا کر نہ لے جاویں اور ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں، پس (یہ سن کر )موسیٰ علیہ السلام نے ان کے لیے پانی(کھینچ کر ان کے جانوروں کو ) پلایا، پھر (وہاں سے ہٹ کر سایہ میں جا بیٹھے، پھر (جناب باری میں ) دعا کی کہ اے میرے پروردگار! (اس وقت) جو نعمت بھی آپ مجھ کو بھیج دیں میں اس کا (سخت) حاجت مند ہوں،موسی علیہ السلام کے پاس ایک لڑکی آئی، شرماتی ہوئی چلتی تھی (اور آکر ) کہنے لگی کہ میرے والد تم کو بلاتے ہیں تاکہ تم کو اس کا صلہ دیں جو تم نے ہماری خاطر (ہمارے جانوروں کو) پانی پلا دیا تھا، سو جب ان کے پاس پہنچے اور ان سے تمام حال بیان کیا تو انھوں نے (تسلی کی اور )کہا کہ (اب)اندیشہ نہ کرو، تم ظالم لوگوں سے بچ آئے۔“ صلوات اللہ وسلامہ علیہم.