قرآن کا تصور عدل اور معاشرتی امن و امان

idara letterhead universal2c

قرآن کا تصور عدل اور معاشرتی امن و امان

ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب اصلاحی

بلا شبہ قرآن کریم تمام انسانوں کے لیے صحیفہ ہدایت ہے۔ وہ انسان کو وہ راہ دکھاتا ہے جو اس دنیا میں اور آنے والی زندگی میں کام یابی تک پہنچانے والی ہے۔ یہ کتاب الہٰی پیغام انسانیت کا مجموعہ ہے۔ اس میں تمام لوگوں کے دکھوں کا درماں ہے اور یہ سب کے لیے نسخہ کیمیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَیٰ وَالْفُرْقَانِ﴾․(سورة البقرة،آیت:185)
 
ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کی اورحق وباطل میں تمیز کی نشانیاں ہیں۔﴿إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعَالَمِینَ﴾(التکویر:27) یہ تو بس تمام دنیا والوں کے لیییاددہانی ہے ۔﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء َتْکُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ وَہُدًی وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِینَ﴾ (یونس:57)اے لوگو!تمہارے پاس رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے، یہ دلوں کے امراض کی دوا ہے اور مومنین کے لیے راہ نمائی و رحمت ہے ۔
 
قرآن کریم کی تعلیمات اور ہدایات کو اگر دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اللہ کے حقوق اور اللہ کے بندوں کے حقوق سے تعلق رکھتی ہیں، دوسرے لفظوں میں یہ کتاب الہی یا تو اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ ایک انسان کا اپنے خالق و مالک اور پروردگار و پالنہار سے کس نوع کا تعلق ہونا چاہیے اور اس کے تعلق کو کیسے مضبوط کرنا چاہیے یا اس باب میں راہ نمائی فراہم کرتی ہے کہ ایک انسان کا اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے کس طرح کا سلوک و برتاؤ ہونا چاہیے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر دونوں تعلقات کو درست و مضبوط کرنے کی ہدایت ساتھ ساتھ دی گئی ہے اور اس سے یہ نکتہ بھی ابھرتا ہے کہ جو شخص اپنے خالق و مالک کو اچھی طرح پہنچان لے گا، اس کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کر لے گا، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اللہ کے بندوں کے حقوق سے بے پرواہو جائے ، ان سے اپنا رشتہ توڑ لے اور ان کے ساتھ زیادتی و نا انصافی کرے۔ اس لیے کہ ایسا کرنا اپنے مالک کو ناراض کرنا ہو گا، جسے وہ کبھی نہیں پسند کرے گا۔
 
قرآن کریم میں انسانی حقوق میں جس پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے وہ ہے عدل کے اصولوں کو اپنانا اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ۔ قرآن کی نگاہ میں انصاف کے بغیر نہ تو سماجی نظام مضبوط ہو سکتا ہے اور نہ سماج میں رہنے والوں کی زندگی خوش گوار اور پر سکون بن سکتی ہے۔ قرآن میں جس پر زور انداز میں انصاف برتنے کی تعلیم ملتی ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ محض اخلاقی تعلیم نہیں ،بلکہ یہ فرائض میں داخل ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کا حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
 
﴿إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِیتَاء ِ ذِی الْقُرْبَیٰ وَیَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاء ِ وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ﴾․(النحل:90)
 
بے شک اللہ انصاف و نیکی کرنے اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ظلم وزیادتی سے منع کرتا ہے ۔
 
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سب سے پہلے عدل وانصاف کا ذکر کیا ہے ،ایک تو اس سے اس کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے، دوسرے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا حسن عمل اور دوسروں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا وسیلہ بنتا ہے، اس میں دوسروں کے حقوق کی ادائیگی ہے اور ان کے ساتھ ظلم و زیادتی سے حفاظت بھی ہے۔ انصاف کرنا در حقیقت بہت بڑی خوبی ہے، جو خوف الہٰی سے پیدا ہوتی ہے اور یہ بالآخر اللہ سے قربت کا ذریعہ بنتی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:﴿اعْدِلُوا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَیٰ﴾․(المائدہ:8)
 
انصاف کرو یہ خدا ترسی یا تقوی سے زیادہ قربت رکھتا ہے ۔
 
اللہ کی نگاہ میں پسندیدہ ہونا یا مالک حقیقی کا محبوب بن جانا کتنا بڑا اعزاز و انعام کس قدر اہم مقام ہے، جوقرآن کے مطابق دوسروں کے ساتھ منصفانہ برتاؤ سے نصیب ہوتا ہے اور یہ اس لیے کہ یہ عمل انسانوں کے باہمی تعلقات کو مضبوط کرتا ہے، ان کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑتا ہے اور مخالفت و نفرت کے جذبات کو دوستی ومحبت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :﴿إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ﴾․(المائدہ:42)
 
بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔
 
قرآن مجید صرف انفرادی زندگی یا پرائیویٹ لائف میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی تعلیم نہیں دیتا، بلکہ وہ اہل ایمان کو اس بات کی تاکید کرتا ہے کہ وہ سوشل لائف یا سماجی زندگی میں بھی اس کا مظاہرہ کریں، اعلانیہ حق و انصاف کی گواہی دینے والے بن جائیں اور لوگوں سے تعلقات و معاملات میں پوری طرح اس کے تقاضوں کو پورا کریں، تا کہ ان کا کردار دوسروں کے لیے نمونہ بن جائے، اللہ تعالیٰ واضح انداز میں مومنین کو یہ حکم دیتا ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء َ لِلَّہِ وَلَوْ عَلَیٰ أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْأَقْرَبِینَ إِن یَکُنْ غَنِیًّا أَوْ فَقِیرًا فَاللَّہُ أَوْلَیٰ بِہِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوَیٰ أَن تَعْدِلُوا وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرًا﴾․(النساء:135)
 
اے ایمان والو! انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے گواہ بنو،گرچہ تمہارے انصاف و تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں ہی پر کیوں نہ پڑتی ہو (فریق معاملہ )خواہ مال دار یا غریب۔ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ پس خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ عدل سے باز رہو۔ اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان لو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے ۔
 
واقعہ یہ کہ انسان اس وقت بڑی آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے اور نفس کے بہکاوے کا بری طرح شکار ہوتا ہے جب انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں اپنا نقصان نظر آئے یا اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کا یا آج کل کے ماحول میں انصاف کرنا اپنی قوم یا کمیونٹی کے مفاد یا انٹرسٹ کے خلاف دکھائی دے۔ اس صورت حال میں بڑی آسانی سے انصاف کے اصولوں کو توڑ دیا جاتا ہے۔ ذاتی یا اپنے قریبی لوگوں کے فائدہ کے لیے یا مال و دولت کی لالچ میں۔ اسی طرح بعض اوقات کسی دولت مند یا صاحب حیثیت کی رعایت میں قانون انصاف کو پیروں تلے روندا جاتا ہے اور بعض دفعہ کسی غریب و بے کس ولا چار کی دہائی دے کر آئین انصاف کی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور پھر اس انصاف کشی کے نتیجہ میں آپس میں جو اختلاف پیدا ہوتا ہے ، نفرت و دشمنی کا ماحول گرم ہوتا ہے ، لوگوں کے باہمی تعلقات میں دراڑیں پڑتی ہیں اور امن وسکون تباہ و برباد ہو جاتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ اس لیے قرآن بے لاگ انصاف کی تعلیم دیتا ہے اور اس بات کی خاص تاکید کرتا ہے کہ ذاتی ، گھر یلو وگروہی مفاد کی پروا کیے بغیر اورمال یاکسی قسم کے فائدہ کا خیال کیے بغیر سب کے ساتھ منصفانہ برتاؤ کیا جائے اور اس باب میں امیر و غریب ، طاقت وروکم زور ، اپنے وغیر کسی کی رعایت نہ کی جائے ۔ عدل و انصاف کا تصور اس سے بلند اور کیا ہو سکتا ہے کہ مخالفوں ودشمنوں کے ساتھ بھی اس کا پورا پورا حق ادا کیا جائے یا انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کسی دشمنی یا مخالفت کو بیچ میں حائل نہ ہونے دیا جائے ۔سچ یہ کہ قرآن عدل کے اس بلند تصور کا علم بردار ہے اور لوگوں کو اس کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے، جیسا کہ یہ آیت اس کی گواہی دے رہی ہے:﴿وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَیٰ أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَیٰ﴾․ (النساء:58)
 
کسی گروہ کی دشمنی تم کو مشتعل نہ کر دے کہ تم بے انصافی کرو، انصاف کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتاہے۔
 
اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ قرآن کے اس مثالی تصور عدل کو عملی جامہ پہنانے سے مخالفت و نفرت، محبت وہم دردی میں بدل جائے گی اور دشمنی دوستی میں تبدیل ہو جائے گی اور کشیدہ تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ ماحول میں قرآن کی یہ تعلیم جملہ انسانیت کے لیے بڑی اہمیت و معنویت رکھتی ہے۔
 
سماج میں صحیح معنوں میں انصاف کا بول بالا اسی وقت ہو سکتا ہے اور سماجی زندگی کی خوش گواری میں اس کا رول یا کردار اسی صورت میں زیادہ موثر ہو سکتا ہے جب اہل حکومت بھی اس کے لیے سنجیدہ ہو جا ئیں اور بلا کسی تفریق تمام شہریوں کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کریں ۔ جب کوئی کسی کے ظلم وزیادتی کے خلاف ان سے داد وانصاف طلب کرے تو بلا تاخیر اسے انصاف دلائیں ،خواہ فریق مخالف یا ظلم و زیادتی کرنے والا کتنے ہی اثر ورسوخ اور مال و دولت والا کیوں نہ ہو، اسی طرح جب ان کے سامنے کوئی مقدمہ یا معاملہ فیصلہ کے لیے پیش ہو تو بلا کسی رو رعایت انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں ۔ قرآن دوٹوک انداز میں اہل حکومت سے ان الفاظ میں مخاطب ہوتا ہے: ﴿وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ﴾․ (النساء:58)
 
اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو توعدل کے ساتھ کرو۔
 
اس آیت میں بالکل عام انداز میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، یعنی اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ مسلم ہیں یا غیر مسلم، امیر ہیں یا غریب ، کم زور طبقے کے لوگ ہیں یا طاقت ور گروپ کے، اپنے حمایتی ہیں یا مخالف فریق کے لوگ ، اجنبی ہیں یا تعلقات والے لوگ۔ اس سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ قرآن کی نظر میں انصاف کے معاملہ میں تمام انسان برابر ہیں۔ اس سلسلہ میں کسی بھی بنیاد پر ان میں تفریق جائز نہیں ہے اور انصاف کے اسی اعلیٰمعیار کا مظاہرہ حکم رانوں سے مطلوب ہے۔
 
قرآن کریم کی نظر میں اجتماعی شیرازہ بندی اور معاشرتی زندگی کے استحکام کے لیے عدل و انصاف اس قدر ہیں اور خاص طور سے کم زور طبقہ کے لوگوں کے حقوق کی پامالی اور ان کے ساتھ نا انصافی پر سخت وعید آئی ہے ۔ ان سب سے مقصود یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں ، ان کی ادائیگی کے تئیں سنجیدگی و دیانت داری دکھا ئیں، تا کہ عدل وانصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں ، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ معاشرہ میں امن و امان کی فضا برقرار رہے گی اور لوگوں کے آپسی تعلقات بہتر و خوش گوار ہو جائیں گے۔ معاشرہ کے مختلف قسم کے افراد کے حقوق کی ادائیگی سے متعلق قرآن کریم کی چند آیات ملاحظہ ہوں:
 
﴿وَاعْبُدُوا اللَّہَ وَلَا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا﴾․ (النساء:36)
 
اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرو۔
 
﴿وَقُل لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ﴾․ (بنی اسرائیل :24-23) اور دعا کر کہ اے پروردگار! ان دونوں کے حال پر رحم فرما، جس طرح انھوں نے بچپن میں میری پرورش فرمائی تھی۔
 
﴿فَآتِ ذَا الْقُرْبَیٰ حَقَّہُ وَالْمِسْکِینَ وَابْنَ السَّبِیلِ﴾․ (الروم:38)
 
پس رشتہ دار کو اس کا حق دو اور مسکین و مسافر کا بھی حق ادا کرو۔
 
﴿وَآتُوا الْیَتَامَیٰ أَمْوَالَہُمْ ﴾ (النساء :2) اور یتیموں کے مال ان کے حوالہ کر دو۔
 
﴿وَفِی أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ﴾․ (الذاریات:19 ) اور ان کے مال میں مانگنے والوں اور ناداروں کا حق ہے۔
 
﴿وَآتُوا حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ﴾ (الأنعام :141 ) ۔
 
اور اس میں (یعنی کھیتی و باغات میں ) جو حق واجب ہے اسے کٹائی کے دن ادا کرو ۔
 
﴿وَآتُوہُم مِّن مَّالِ اللَّہِ الَّذِی آتَاکُمْ﴾․(النور:33)
 
اور اللہ نے تمہیں جو مال دے رکھا ہے اس میں سے انھیں (غلاموں )کو بھی دو۔
 
﴿وَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ﴾․(النساء:25)
 
اور دستور کے مطابق ان کے مہر انھیں دے دو ۔
 
﴿وَأَنکِحُوا الْأَیَامَیٰ مِنکُمْ﴾(النور:32)
 
اور تم میں جو عورتیں بیوہ ہیں ان کا نکاح کر دو ۔
 
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا یَحِلُّ لَکُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاء َ کَرْہًا وَلَا تَعْضُلُوہُنَّ لِتَذْہَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَیْتُمُوہُنَّ﴾․ (النساء:19)
 
اے ایمان والو! تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ تم (زبردستی) بیوہ عورتوں کو اپنی میراث بنالو اور نہ تمہارے لیے یہ بات جائز ہے کہ انھیں تنگ کر کے ان کا وہ مال ہتھیانے کی کوشش کرو جو تم انھیں دے چکے ہو ۔
 
قرآن کریم عدل بر پا کرنے میں کس قدر حساس ہے اور کس طرح اس کی خلاف ورزی یا نا انصافی کے تمام ذرائع بند کرنا چاہتا ہے اس کا انداز ہ ان آیات سے بھی ہوتا ہے جن میں ان باتوں کی ممانعت کی گئی ہے جو کسی انسان کی جان، مال و آبرو کے حق کو تلف یا مجروح کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں اور بالآخر اس کے ساتھ نا انصافی پر منتج ہوتی ہیں ۔ قرآن کی اس نوع کی ممنوعات میں ان باتوں کو شامل کیا جا سکتا ہے:
 
ناحق کسی کو قتل کرنا (الاعراف :152)، چوری کرنا (المائدہ:38 )، نا جائز طور پر کسی کا مال استعمال کرنا (النساء:29) ، ناپ تول میں کمی کرنا (المطففین :3)، بخل کرنا (بنی اسرائیل :29)، فضول خرچی کرنا ( بنی اسرائیل :26)، خیانت کرنا (الا نفال :58-27 )، زنا کرنا (بنی اسرائیل:32 )، زنا کی تہمت لگانا ( النور:23-4))، مذاق اڑانا (الحجرات:11 ) ،برے لقب سے یاد کرنا (الحجرات)، غیبت کرنا و بدگمانی کرنا (الحجرات :21) ، چغل خوری کرنا ( القلم :11-10)، کسی کے عیب کی ٹوہ میں لگے رہنا ( الحجرات :12)کسی کو حقیر سمجھنا (لقمان :18) اترانا و غرور کرنا (بنی اسرائیل37 ، لقمان :18 ، قصص:76) یتیم و سائل کو جھڑکنا ( الضحیٰ :10-9) اور ظلم و زیادتی میں کسی کی مدد کرنا (المائدہ :2 )۔
 
قرآن مجید کی ان ہدایات سے یہ اچھی طرح واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کے بندے ایک دوسرے کی جان، مال، عزت و آبرو سے متعلق حقوق کا پورا پاس و لحاظ رکھیں اور ان سے کوئی ایسا عمل صادر نہ ہو جو انہیں نقصان پہنچائے یا بالکل ضائع کر دے۔ یہاں ایک خاص نکتہ قابل غور یہ ہے کہ محولہ بالا آیات میں جن باتوں سے منع کیا گیا ہے وہ خود دوسروں کے حقوق پر دست درازی ، سراسر زیادتی، و نا انصافی کی باتیں ہیں۔ دوسرے یہ آپس میں شدید اختلاف پیدا کرنے والی اور بغض ، نفرت و عداوت کے جذبات برا نگیختہ کرنے والی ہیں جو مزید ظلم و زیادتی و نا انصافی کا باعث بنتی ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کس کس طریقہ سے معاشرتی زندگی میں انصاف کے اصولوں کو جاری رکھنا چاہتا ہے اور ان تمام راہوں پر قدغن لگاتا ہے جو نا انصافی و زیادتی تک پہنچاتی ہیں۔
 
اوپر کے مباحث سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قرآن نے عدل کا بہت وسیع و جامع تصور پیش کیا ہے۔اس کتاب عزیز و عظیم کی رو سے گفت گو و طرز عمل ، تعلقات و معاملات ، روز مرہ زندگی میں لوگوں کے ساتھ برتاؤ، معاشرتی معاہدات و مالی لین دین، مقدمات کا تصفیہ …ہر باب میں عدل کے اصولوں پر عمل آوری مطلوب ہے۔
 
دوسری اہم بات یہ واضح ہوتی ہے کہ قرآن نے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی ہدایت معاشرہ کے ہر طبقہ کے افراد کو دی ہے، لیکن اس سلسلہ میں ریاست کے ذمہ داروں یا اہل حکومت کو خصوصی تاکید کی ہے، اس لیے کہ معاشرہ میں نظام عدل نافذ کرنے کے بہت سے امور حکومت یا انتظامیہ سے منسلک ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں نہ صرف عدل کرنے، بلکہ عدل قائم کرنے یا انصاف بر پا کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ دراصل قرآن نے انفرادی و اجتماعی دونوں زندگی میں عدل بر تنے کو خاص اہمیت دی ہے ،اس لیے اسلام میں خانگی و معاشرتی دونوں زندگی میں باہمی تعلقات کی خوش گواری و پائیداری، امن و امان کا قیام اور پرسکون ماحول ہر حال میں مطلوب ہے اور یہ عدل کے تقاضوں کو پورا کیے اور منصفانہ رویہ اختیار کیے بغیر ممکن نہیں ۔
 
واقعہ یہ کہ آج ذاتی ،ملی، قومی و بین الاقوامی ہر سطح پر عدل کے باب میں قرآن کریم کی روشن ہدایات کو پوری سنجیدگی و دیانت داری سے عملی جامہ پہنانے کی اشد ضرورت ہے، انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے اور عالمی امن و سکون اسی پر منحصر ہے۔ اللہ کرے ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے سمجھانے کی توفیق نصیب ہو ۔ و ما توفیقی الا باللہ العلی العظیم.

مقالات و مضامین سے متعلق