فیس بک کے نام نہاد مفکرین کے نام

idara letterhead universal2c

فیس بک کے نام نہاد مفکرین کے نام

ڈاکٹر مولانا ظفر دارک قاسمی

فکری اورنظریاتی اختلاف کی گنجائش سے کبھی بھی انحراف نہیں کیا جاسکتاہے، اس طرح ہر ایک کو اپنی رائے دینے کا بھی اختیار ہے۔ لیکن یہ اختلاف اور تنقید اصول وضوابط اور مہذب انداز میں رہے تو یقینا اس کے مفید و موثر اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں ۔ وہیں اگر ہمارے نظریاتی اختلاف میں ذاتی عناد، مسلکی تعصب ، علمی برتری، فخر و مباہات شامل ہو جائے یا نسبت و تعلق کے عمل دخل کی بنیاد پر کسی بھی مسئلہ میں نظریاتی اختلاف کیا جائے گا تو اس کے اثرات یقینی طور پر مایوس کن اور متنفرانہ ہی ہوتے ہیں۔

آج سوشل میڈیا کے صارفین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنہیں نہ تنقید وتحقیق کے آداب پتہ ہیں اور نہ وہ علمی روایات کے پاس دار ہیں اور نہ ہی ان کا سماجی یا سیاسی اثر ورسوخ ہے ۔ جب اس طرح کے لوگ کسی پر تنقید کرتے ہیں تو وہ تنقید نہیں ہوتی ہے، بلکہ وہ تنقیص ہوتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کوکوئی نہیں پوچھتا ہے تو وہ اپنی بوکھلاہٹ کا شکار کسی بھی شخص کو بنا لیتے ہیں ۔ آج سوشل میڈیا پر جو چیزیں دیکھنے کومل رہی ہیں یا سیاسی ، سماجی یا نظریاتی مسئلہ میں اختلاف کا جو رویہ پایا جارہا ہے وہ جاہلوں سے بھی گیا گزرا ہے۔ اس اختلافی کردار میں تنقید کے اسلوب و آداب تو بہت دور کی بات ہے ،فیس بک کے ان نام نہاد مفکرین کی چیزوں کو دیکھ کر ہنسی آتی ہے تو وہیں ایسا لگتا ہے کہ ابھی انہیں اختلاف رائے کی بنیادی باتیں ہی نہیں معلوم ہیں۔

یہ طبقہ جس قدر جاہل اور ان پڑھ معلوم ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ یہ جذباتی اور نفسیاتی طور پر معذور بھی ہے ۔ اس پر بس نہیں، یہ طبقہ خود غور وخوض یا تدبرو تفکر قطعی نہیں کرتا ہے، بلکہ کسی کے تابع ہو کر اول فول بکنے لگتا ہے، بعض فیس بک کے مفکرین کی تحریریں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی کے اشاروں پر رقص کر رہے ہیں، ان سے یہ سب کچھ کروایا جارہا ہے۔ ان کی نہ کوئی اپنی رائے ہے اور نہ سوچ ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فیس بک کے مفکرین کسی کے خلاف تحریر لکھنے کے بعد باقاعدہ اپنے حواریین سے کہہ کر اپنی تحریر وتقریر پر کمینٹ نشر کراتے ہیں۔ اس کے بعد فخریہ کہتے ہیں کہ میری فلاں پوسٹ پر اتنے کمینٹ آگئے اور اتنے شیئر ہو گئے ۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ ان نام نہاد مفکرین کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

اگر واقعی مفکر و دانش ور یا ملت کا بہی خواہ بننے کا اشتیاق ہے تو یہ بات سمجھنی ہو گی کہ فیس بک پر تحریر لکھنے اور کسی کو گالی بکنے یا اس کو ذاتی طور پر عناد و تعصب کا شکار بنانے سے کوئی مفکر نہیں بن جاتا ہے اور نہ سماج کا حساس اور سنجیدہ طبقہ ایسے لوگوں کو اپنا قائد ورہبر سمجھتا ہے ۔ اس لیے جو صلاحیت ہم اس طرح کی لا یعنی باتوں میں صرف کر رہے ہیں ،اس سے بہتر ہے کہ زمینی سطح پر تعمیری اور مثبت کام کریں، تا کہ اس سے معاشرے کا کچھ بھلا ہو سکے ۔ روایتی طرز عمل اختیار کرنا یا جذبات میں آکر اپنے ہوش کھو بیٹھنے کی اہمیت اسلام میں قطعی نہیں ہے۔ جب سماج میں کوئی مسئلہ در پیش ہو تو اس پر کچھ کہنے ، لکھنے اور بولنے سے قبل مخلصانہ طور پر غور وخوض کر کے کوئی رائے دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح کسی کی رائے ، نظریہ اور فکر سے اختلاف کرنے سے پہلے بھی اپنی باتوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ ہمارے اختلاف سے سامنے والے کی دل آزاری بھی نہ ہو اور اس کی اصلاح بھی ہو جائے ۔ یہ رویہ موزوں بھی ہے اور معاشرتی ترقی کے لیے مفید و موثر بھی ہے۔ البتہ کسی نے کچھ کہا اور اس کے خلاف ہنگامہ برپا کر دینے یا تہذیب و تمدن کا لباس اُتار کرنا چنے سے کبھی بھی سامنے والے کی اصلاح نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ہمارا یہ کردار رہا ہے۔ فیس بک کے نام نہاد مفکرین کو اپنے رویہ اور اختلاف رائے کے طریقہ میں علمی وتحقیقی مزاج پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ نرمی بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ تنازع کے تعلق سے بعض فیس بک کے مفکرین کی تحریر یں نظر نواز ہوئیں تو پتہ چلا کہ اختلاف رائے یا کسی کی اصلاح کرنے کا یہ رویہ تو ہرگز نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اس طرح کی کوئی روایت یا اصحاب علم و فضل کا کوئی کردار ایسا نہیں ملتا ہے جو کہ فیس بک کے نام نہاد مفکرین کی حمایت کرتا ہو۔ ہاں! اس رویہ کو نفرت و عداوت پر مبنی کوئی رویہ قرار دینے میں کسی طرح کی قباحت نہیں ہے۔

بات دراصل یہ ہے کہ جب یہ گہما گہمی اور غیر سنجیدہ باتیں نشر ہوتی ہیں تو وہ لوگ ضرور ہنستے ہوں گے جو ہر وقت ہماری کوتاہی تلاش کرنے کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں ۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ جو قوم اختلاف میں علمی روایت کو برقرار نہیں رکھ سکتی اور نظریاتی اختلاف کو ذاتی بنادیتی ہے وہ معاشرے کو کیا دے گی ؟ اس لیے کہیں نہ کہیں ہم اپنی ان خود ساختہ مصلحتوں اور محدود مفادات کی وجہ سے جگ ہنسائی کراتے ہیں۔

آخر میں یہ بات کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا تعلق ایسے مذہب سے ہے جو ہمیں ایک اچھا انسان بننے کی ہدایت کرتا ہے ۔ ہم اچھے انسان اسی وقت ہو سکتے ہیں جب کہ ہماری جملہ مساعی اور افعال و کردار ایسے ہوں جن میں توازن و ہم آہنگی پائی جائے۔ نفع رساں ثابت ہوں ۔ اسی طرح اختلاف رائے بھی ایسا عمل ہے جس میں ہمارے یہاں قطعی توازن نہیں پایا جاتا ہے، کبھی اختلاف کرنے والا اعتدال سے تجاوز کر دیتا ہے، تو کبھی جس سے اختلاف کیا گیا ہے وہ حد پار کر دیتا ہے، اس لیے دونوں گروہوں کو اپنی نفسیات و جذبات پر کنٹرول رکھنے اور اس کے مطابق اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے ،تا کہ جب بھی ہم کسی سے اختلاف کریں تو پورے ہوش و حواس میں کریں ، آداب و اخلاق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی بات کہیں #
            حسن عمل میں برکتیں ہوتی ہیں بے شمار
            پتھر بھی توڑیے تو سلیقے سے توڑیے

عصر حاضر سے متعلق