الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرورأنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد:فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
(فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾․ (سورة آل عمران، آیت:185(
صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبي الکریم․
میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! الله جل جلالہ کا ارشاد ہے﴿فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ﴾
پس جو کوئی شخص جہنم کی آگ سے دور کر دیا گیا، بچا لیا گیا ﴿َ فَقَدْ فَاز﴾
پس تحقیق وہ کام یاب ہو گیا﴿وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾
اور نہیں ہے دنیا کی زندگانی، مگردھوکے کا سامان۔
یہ دنیا ہے اور دنیا کا سامان ہے، جوآدمی کو دھوکے میں ڈالتا ہے اور وہ یہ خیال کرتا او رسمجھتا ہے کہ اسے یہاں ہمیشہ رہنا ہے، ایسا ہر گز نہیں، یہ حقیقت اتنی بڑی حقیقت ہے ،اتنی سچی حقیقت ہے کہ ہر آدمی، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، کسی بھی مذہب اور دین سے اس کا تعلق ہو یا لا دین ہو، مگر موت سب کو آنی ہے، اس سے کسی کو بھی چارہ کار نہیں، کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکتا۔ یہاں جو بڑی عمروں کے لوگ بیٹھے ہیں، ان سے آپ پوچھیں کہ کتنوں کو انہوں نے اپنے کندھوں پہ اٹھایا، قبرستان لے گئے، قبر کے گڑھے میں اتارا اور پھر واپس آگئے۔کتنوں کی ہم نے نماز جنازہ ادا کی، بالکل ایسا ہی ہم سب کے ساتھ بھی ہو گا اور ہر انسان کے ساتھ ہو گا، کسی کو مفر نہیں، کوئی اس سے بچ نہیں سکتا، چاہے وہ بڑے بڑے محلات میں رہتا ہو، چاہے وہ بڑے بڑے حفاظتی نظام میں رہتا ہو، چاہے وہ بڑے بڑے معالج، ڈاکٹر اور اطباء اپنے ارد گرد رکھتا ہو ،موت سے کوئی نہیں بچ سکتا، موت بہرحال آئے گی۔
چناں چہ سمجھ دار آدمی وہ ہے جو موت سے پہلے موت کی تیاری کر لے، اسی کو الله تعالیٰ فرمار ہے ہیں ﴿فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ﴾
جو آدمی آگ سے بچا لیا گیا﴿ فَقَدْ فَازَ﴾
پس تحقیق وہ کام یاب ہو گیا۔
حضرت عثمان ذوالنورین رضی الله عنہ جب بھی قبر کا تذکرہ ہوتا تو بہت زیادہ روتے تھے، اتنے زیادہ روتے کہ لوگ ان کو چپ کراتے اوران سے پوچھتے کہ امیر المومنین! اور بہت ساری چیزوں کا تذکرہ ہوتا ہے، آپ اتنا نہیں روتے، لیکن جہاں قبر کا تذکرہ ہوتا ہے توآپ بہت زیادہ روتے ہیں۔
تو فرمایا کہ یہ آخرت کی منزلوں میں سے سب سے پہلی منزل ہے، اگر اس منزل سے خیریت سے گزر گئے تو آخرت کی تمام منزلیں آسان ہیں اور اگر خدا نخواستہ خدانخواستہ اس منزل میں پھنس گئے تو پھر آخرت کی تمام منزلیں پریشانی کی ہیں:”عن ھانیٴ مولی عثمان قال:کان عثمان بن عفان، إذا وقف علی قبر یبکی حتی یبل لحیتہ، فقیل لہ: تذکر الجنة والنار، ولا تبکی وتبکی من ھذہ؟ قال: إن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: إن القبر أول منازل الآخرة فإن نجا منہ فما بعدہ أیسر منہ، وإن لم ینج منہ فما بعدہ أشد منہ‘‘․(سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب ذکر القبر، رقم الحدیث:4267، ومسند احمد، رقم الحدیث:454، والمستدرک علی الصحیحین، کتاب الجنائز، رقم الحدیث:1373)
ہر وقت موت کو یاد کریں، موت کا خیال کریں اور اس کے لیے جو طریقہ ہے میں نے تو کئی دفعہ عرض کیا کہ ایک گھنٹہ نہیں، آدھا گھنٹہ بھی نہیں، پانچ منٹ بھی نہیں، بلکہ ایک سے دو منٹ، گردن نیچی کریں اور موت کا مراقبہ کریں کہ میں مر گیا ہوں، اب مجھے غسل دیا جارہے، اب کفن دیا جارہا ہے، اب جنازے کی چارپائی پر رکھا جارہا ہے، اب چار پائی کو جنازہ گاہ کی طرف لے جایا جارہا ہے، اب آپ کی نماز جنازہ ادا کی جارہی ہے او رپھر آپ کو اٹھا کر قبرستان لے جایا جارہا ہے اور قبرستان میں قبر کے پاس چارپائی رکھ دی گئی ہے او راب لوگ آپ کو چار پائی سے اُ ٹھا کر قبر میں اتار رہے ہیں اور قبر میں اتارنے کے بعد اب قبر کو اوپر سے بند کیا جارہا ہے، اب اس پر مٹی ڈالی جارہی ہے اور جو آپ کو قبر تک پہنچانے آئے تھے وہ سب چلے گئے، بیٹا بھی چلا گیا، شوہر بھی چلا گیا، بھائی بھی چلا گیا۔
آپ تجربہ کر لیں کہ اس میں ایک ڈیڑھ منٹ سے زیادہ نہیں لگے گا، روزانہ چاہے آپ گھر پر ہوں، چاہے دفتر میں ہوں، چاہے مسجد میں ہوں، آپ روزانہ موت کا مراقبہ کریں۔
الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’اکثروا ذکر ھازم اللذات الموت“․ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب الرقاق، رقم الحدیث:7909، وسنن الترمذی، ابواب الزھد، باب ماجاء فی ذکر الموت، رقم الحدیث:2307، وسنن ابن ماجہ کتاب الزھد، باب ذکر الموت ، رقم الحدیث:4258)
خوب کثرت کے ساتھ موت کو، جو لذتوں کو توڑنے والی ہے، یاد کیا کرو، چناں چہ اس موت سے جو غفلت ہے وہ دنیا او راسباب دنیا کی وجہ سے ہے، الله تعالیٰ فرمارہے ہیں:﴿وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾
اور نہیں ہے یہ دنیا کی زندگی، مگر دھوکے کا سامان، دھوکہ کسے کہتے ہیں؟ دھوکہ کہتے ہیں مثلاً ایک آدمی کہے کہ کل میرے پاس آنا، میں آپ کو ایک لاکھ روپے دوں گا، آپ گئے، لیکن آپ کو پیسے نہیں ملے، تو آپ کیا کہتے ہیں کہ اس آدمی نے مجھے دھوکہ دیا، بالکل یہی صورت حال ہے، آپ کے پاس گھر ہے، آپ کے پاس جائیدادیں ہیں، آپ کے پاس دنیا کا سامان ہے، نقدی ہے، بینک بیلنس ہے، لیکن ذرا ساغور کریں کہ کیا وہ آپ کا ہے؟ موت اگر آگئی تو کیا یہ ساری چیزیں آپ کی ہیں؟ کس بات کے مالک ہیں آپ؟! اسی کا نام دھوکہ ہے﴿وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ﴾
اورنہیں ہے دنیا کی زندگی ،مگر دھوکے کا سامان، آدمی سمجھ رہا ہے کہ میرا ہے ۔لیکن موت اتنی کڑوی حقیقت ہے کہ جب اس کی ضرب لگتی ہے تو سب ختم، نہ بیوی پاس ہے، نہ بچے پاس ہیں، نہ عزیز واقارب پاس ہیں، نہ دنیا کا سازوسامان پاس ہے۔
چناں چہ اس دھوکے سے نکلنے کا راستہ کہ اس دھوکے سے نکلیں کیسے؟ وہ یہ ہے کہ موت جو ایک اٹل حقیقت ہے اور جوہر ایک کو آنی ہے، جس میں بچے، جوان، بوڑھے کی شرط اور قید نہیں، کوئی یہ کہے کہ میں تو ابھی بارہ سال کا ہوں، میں تو ابھی سترہ، بیس سال کا ہوں، مجھے موت نہیں آئے گی ،موت تو بوڑھوں کو آتی ہے، ایسا نہیں صبح شام کے واقعات ہیں، ہر آدمی اپنے اپنے دائرے کے اندر غور کرے، کیا اس کے خاندان میں بچے نہیں مرے؟! نوجوان نہیں مرے؟! جوان نہیں مرے؟! مرے، سب کو موت آنی ہے، اب یہ کہ موت کا وقت الله تعالیٰ نے ظاہر نہیں فرمایا اور یہ بھی الله تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بہت بڑا انعام ہے کہ الله تعالیٰ نے موت کا وقت ظاہر نہیں کیا۔
آپ مجھے بتائیں کہ اگر الله تعالیٰ یہ ظاہر کر دیں کہ 20 جنوری دوپہر ایک بجے آپ کی موت کا وقت ہے، کیا حال ہوگا؟
ہاں! یہ حقیقت الله تعالیٰ نے بتا دی کہ موت آئے گی، سب کو آئے گی، کوئی اس سے نہیں بچا۔
چناں چہ سمجھ داری کا تقاضا ہے کہ وہ جو متاع الغرور ہے، جو دھوکے کا سامان ہے، اس میں اپنے آپ کو نہ اُلجھائے، ضرورت کے بقدر دنیا کا استعمال بالکل جائز ہے، آپ کے پاس لباس ہے، آپ کی ضرورت ہے، آپ پہنیں، لیکن اگر آپ کا کام تین، پانچ جوڑوں سے ہو سکتا ہے تو بھائی! بیس جوڑوں کی کیا ضرورت ہے؟! آخر آپ کا کام ایک گھر سے ہو سکتا ہے تو پھر چار، پانچ، چھ گھروں کی کیا ضرورت؟! جتنا متاع الغرور بڑھے گا اتنی آپ کی توجہ اور انہماک دنیا میں بڑھے گا او رجتنا آپ کا معاملہ ہلکا پھلکا رہے گا اتنا آسان ہو گا، بہت سے لوگ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ موت سامنے کھڑی ہے، انہیں چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ہلکا او راپنے آپ کو کم وزن کریں، ورنہ یہ ساری کی ساری دنیا اور یہ ساری چیزیں، آپ تو اس دنیا سے چلے جائیں گے، آپ کی ملکیت تو ایک لمحے میں ختم ہو جائے گی، لیکن آپ کی یہ ساری کی ساری چیزیں اگر آپ نے اپنی زندگی میں اس کا بندوبست اورانتظام نہیں کیا تو یہ بہت بڑے فساد کا سبب بنے گا۔
اولاد میں فساد، بیوی بچوں میں فساد، بھائی بھائی میں فساد، لڑائیاں، جھگڑے، خدانخواستہ پھر جانی دشمنیاں، قتل ۔زن، زر، زمین ان چیزوں میں لڑائی، دشمنیاں ہوتی ہیں ،اس کا حل کیا ہے؟ حل یہ ہے کہ سب سے پہلے آدمی اپنے لیے سوچے کہ اپنا ذخیرہ آخرت میں جمع کرے، جو مرتے وقت اس کے کام آئے، آپ نے کہیں مسجد بنادی، آپ نے کہیں کنواں کھدوا دیا،آپ نے کہیں کوئی اور رفاہی کام کروا دیا، آپ نے کسی دینی مدرسے کے اندر تعاون کر دیا تو یہ اب آپ کا ایک اثاثہ ہے، جو آپ کے کام آئے گا۔’’عن أبي ھریرة رضی الله عنہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: إذا مات الإنسان انقطع عنہ عملہ إلا من ثلاثة: إلا من صدقة جاریة، أو علم ینتفع بہ، أو ولد صالح یدعو لہ‘‘․( الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الوصیة، باب مایلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ، رقم الحدیث:4223، وسنن أبی داؤد، ابواب الوصایا، باب ماجاء فی الصدقة عن المیت، رقم:2882)
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا مال وہ ہے جسے تم نے خرچ کر دیا، تمہارا مال وہ ہے جسے تم نے الله کی راہ میں خرچ کر دیا، وہ تمہارے کام آئے گا او راس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ تمہارا نہیں ہے، اس کے مالک تم نہیں ہو۔صحیح مسلم کی روایت ہے:’’یقول العبد: مالی، مالی، انما لہ من مالہ ثلاث: ما أکل فأفنی، أولبس فأبلی، أو أعطی فاقتنی، وماسوی ذلک فھو ذاھب وتارکہ للناس․“ (الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الزھد، باب الدنیا سجن للمؤمن وجنة الکافر ، رقم:7422)
تو سمجھ داری کا تقاضا یہ ہے کہ انفاق فی سبیل الله کرے، یہ جو متاع الغرور ہے، یہ جو دھوکے کا سامان ہے، اسے الله کے لیے الله کی راہ میں خرچ کرے، خوب خرچ کرے اور اس کے بعد بھی جو بچے وہ اپنی زندگی کے اندر اپنے بچوں کو انصاف کے ساتھ تقسیم کر دے۔ اس حوالے سے ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ والد اگر اپنی حیات میں اپنی اولاد میں جائیداد تقسیم کرنا چاہتا ہے تو وہ ہبہ ہو گا، میراث نہیں ،بعض جاہل لوگ والد کی حیات میں والد کے مال، جائیداد میں اپنا حصہ ضروری سمجھتے ہیں، بلکہ بعض دفعہ تواپنے والد سے بھی اس کا مطالبہ کرتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے، والد کی حیات میں وہ سارا مال، جائیداد والد کی ہے، اس میں کسی کا کوئی حصہ اور تصرف کا اختیار نہیں، والد جیسے چاہے اپنی زندگی میں اس میں تصرف کرسکتا ہے۔
البتہ اگر والد اپنی حیات میں، اپنی جائیداد، اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہے تو وہ والد کی طرف سے اولاد کو ہبہ ہو گا اور ایسی صورت میں والد کے لیے بہتر یہ ہے کہ اپنی سب اولاد میں برابری کرے، سب کو برابر برابر مال دے، اس طرح اگر بیٹیاں ہیں تو ان کو بھی بیٹوں کے برابر حصہ دے۔
بغیر کسی وجہ کے بعض اولا دکو کم اور بعض کو زیادہ دینا بہتر نہیں، چناں چہ ”صحیح بخاری“ کی روایت ہے:
ایک صحابی نعمان بن بشیر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے ایک غلام دیا، اس پر میری والدہ نے کہا کہ میں اس وقت تک راضی نہیں ہوں گی جب تک آپ رسول الله صلی الله علیہ و سلم کو اس ہبہ کا گواہ نہ بنا دیں، یہ سن کر میرے والد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے بیٹے کو (غلام) دیا ہے، اس (بیوی) نے مجھے کہا ہے کہ میں آپ کو گواہ بناؤں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا بقیہ اولاد کو بھی اس کے برابر دیا ہے؟، انہوں نے کہا نہیں، تو آپ صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا:’’فاتقوا الله، واعدلوا بین أولادکم‘‘
الله سے ڈرو اوراپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔
چناں چہ میرے والد واپس لوٹے اور وہ عطیہ واپس لے لیا۔(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الھبة، باب الإشھاد فی البھة، رقم:2587)
البتہ اگر والد بعض اولاد کو کم او ربعض کو زیادہ دینا چاہتا ہے تو اس میں کچھ تفصیل ہے:
۱۔ اگر والد اپنی بعض اولاد کو زیادہ اس لیے دینا چاہتا ہے کہ دیگر اولاد کو نقصان ہو اور ان کو میرے مرنے کے بعد میری جائیداد میں سے حصہ نہ ملے یا کم ملے ، تو اس نیت سے تو بعض اولاد کو زیادہ دینا مکروہ تحریمی ہے اور اگر اضرار مقصود نہیں، لیکن بغیر کسی وجہ ترجیح کے بعض اولا دکو زیادہ دینا چاہتا ہے تو یہ بھی مکروہ تنزیہی ہے۔
بہتر یہ ہے کہ سب اولاد میں، چاہے بیٹے ہوں یا بیٹیاں، سب میں برابر تقسیم کر دے، البتہ اگر بعض اولاد دین دار ہیں ، فرماں بردار ہیں، دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں یا بعض اولاد غریب ہے،، تو ایسی صورت میں ایسی اولاد کو زیادہ دینا مستحب ہے۔ بے دین اولاد کے لیے زیادہ مال نہیں چھوڑنا چاہیے، بلکہ بقدر ضرورت دے کر زائد مال الله کے راستے میں خرچ کرنا مستحب ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے:(خلاصة الفتاوی، کتاب الھبة:400/4، والفتاوی العالمکیریة، کتاب الھبة، الباب السادس فی الھبة للصغیر:391/4)
’’فتاوی محمودیہ“ میں ایک سوال کے جواب میں ہے: اپنی زندگی میں آپ پوری طرح مالک ہیں، آپ کو حق ہے کہ جس لڑکے لڑکی کو یا کسی غیر کو اپنی جائیداد وغیرہ کل یا جز جس طرح چاہیں دے دیں، مگر اس کا خیال رہے کہ کسی ہونے والے وارث کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہ ہو، یہ ظلم او رگناہ ہے ،اس کا خطرہ ہو تو سب لڑکے اور لڑکیوں کو برابر دیا جائے، کیوں کہ وہ اولاد ہونے میں سب برابر ہیں، قصداً ضرر نہ ہونے کی صورت میں کسی کے ضرورت مند ہونے یا کمانے سے عاجز ہونے یا زیادہ دین دار ہونے کی وجہ سے اس کو زیادہ دیا جائے تو یہ ممنوع نہیں۔ (فتاوی محمودیہ:16/497)
اور اولاد کو اگر زمین یا پیسے وغیرہ ہبہ کیے ہیں تو ان کو مالک بھی بنا دے، یہ بھی یاد رکھیں کہ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم وکیل صاحب سے دستاویز لکھوا دیتے ہیں کہ یہ فلاں کا ہے یہ فلاں کا ہے، اتنا کافی نہیں ہوتا، اس کے لیے تخلیہ ضروری ہوتا ہے، اگر آپ کے چار مکان ہیں اور آپ نے صرف بچوں کے نام کر دیے ہیں، لیکن عملی قبضہ بچوں کو نہیں دیا تو اس طرح وہ مالک نہیں بنیں گے۔
فتاوی محمودیہ میں ہے:
سوال، ایک شخص نے اپنا مکان دوسرے کو ہبہ کر دیا، لیکن ہبہ کرنے والا اس مکان میں رہتا ہے اور اس مکان میں سے اپنا سامان نکالا نہیں ہے، ایسی صورت میں یہ ہبہ کرنا صحیح ہوا یا نہیں؟
جواب: ہبہ نامہ مکمل ہونے کے لیے موہوب لہ کا قبضہ ضروری ہے ،صورت مسئولہ میں قبضہ بدستور واہب کا رہا، اس لیے ہبہ تام نہیں ہوا۔ (فتاو ی محمودیہ:470/16)
چناں چہ اس طرح آپ کا بوجھ کم ہو جائے گا، ایک تو سب سے پہلے انفاق فی سبیل الله، الله کے راستے میں خرچ کرنا، یتیموں پر خرچ کریں، بیواؤں پر خرچ کریں، ضرورت مندوں پر خرچ کریں، الله کی راہ میں جتنے مواقع ہیں ان کے اوپر خرچ کریں اور یاد رکھیں،تجربہ کر لیں، آپ سو روپے خرچ کریں، آپ کے دل کو تسلی ہوگی ، آپ کو راحت ملے گی اور آپ جمع کریں ، خرچ نہ کریں ،آپ کی پریشانی بڑھے گی آپ کی فکر بڑھے گی، تشویش بڑھے گی اور میں نے کئی دفعہ یہ بات کہی ہے کہ جب ہم خرچ کرنے کی بات کرتے ہیں تو عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو مال داروں کا کام ہے، نہیں، نہیں ہر آدمی خرچ کر سکتا ہے، آپ ایک روپیہ خرچ کرسکتے ہیں ،کریں، آپ پانچ روپے خرچ کرسکتے ہیں، کریں، آپ دس، پچاس، سو روپے خرچ کرسکتے ہیں، کریں، قرآن بھرا پڑا ہے، احادیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھری پڑی ہیں، انفقوا، انفقوا․
خرچ کرو، خرچ کرو، الله کے رسول فرما رہے ہیں، چناں چہ جب خرچ کرنے کی جگہ خرچ کیا تویہ اسراف نہیں، ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ یتیموں کو نہیں دیں گے، بیواؤں کو نہیں دیں گے، مسکینوں کو نہیں دیں گے، ضرورت مندوں کو نہیں دیں گے، دینی مدارس میں نہیں دیں گے۔
ہم کیا کریں گے؟! ہم بیٹے کی شادی پر پچاس پچاس لاکھ خرچ کریں گے، جب کہ حاصل اس سے کچھ بھی نہیں، سوائے تباہی اور بربادی کے کچھ بھی نہیں، اس لیے کہ ہمارا دین ہمیں یہ نہیں سکھاتا، ہمارا مذہب ہمیں یہ نہیں سکھاتا، اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ آپ کی شادی سادگی سے ہونی چاہیے۔
امام الانبیاء سید الرسل صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’ان اعظم النکاح برکة أیسرہ مؤونة‘‘.
سب سے زیادہ باباکت نکاح وہ ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے زیادہ کم مشقت والا ہو، وہ سب سے زیادہ بابرکت ہے اور اس کا الٹ کیا ہے؟ کہ سب سے زیادہ بے برکت ، سب سے زیادہ منحوس نکاح وہ ہے جس میں مشقت زیادہ ہو، بھاگ رہے ہیں، دوڑ رہے ہیں، کارڈ چھپ رہے ہیں، یہ ہو رہا ہے وہ ہو رہا ہے۔
میرے دوستو! تجربے کی بات ہے، آپ کو مجھ سے زیادہ تجربہ ہو گا کہ جتنا چاہیں خرچ کر لیں لوگ خوش نہیں ہوں گے، جس پر خرچ کیا ہے، وہ بھی خوش نہیں، خوش کریں الله تعالیٰ کو، میرے ہر عمل سے الله خوش ہو، میرا ہر عمل آخرت کے لیے ذخیرہ بنے، میرے ہر عمل سے آخرت بن جائے۔
چناں چہ الله تعالیٰ کا فرمان کیا ہے؟﴿فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ﴾
جو آدمی جہنم سے دور کر دیا گیا﴿ِوَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ﴾
او رجنت میں داخل کر دیا گیا﴿فَقَدْ فَازَ﴾
پس تحقیق وہ کام یاب ہوا﴿ وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُور﴾
اور دنیا کی زندگانی دھوکے کا سامان ہے۔
میرے دوستو! آج ہر آدمی دنیا کی دوڑ میں لگا ہوا ہے، میں نے عرض کیا کہ بقدر ضرورت دنیا کا حاصل کرنا ضروری ہے،آپ کے پاس ایسا گھر ہو، جس میں آپ گرمی سردی سے بچ سکیں، جس میں آپ بیوی بچوں کے ساتھ راحت اور سکون کے ساتھ رہ سکیں، شریعت منع نہیں کرتی، اسلام منع نہیں کرتا، آپ کے پاس اتنا مال ہو جو آپ کی ضرورتوں میں کام آسکے، کوئی منع نہیں ہے۔ لیکن میں عرض کر رہا ہوں کہ وہ مال جو آپ کے لیے فتنہ بنے، وہ دنیا جو آدمی کے لیے فتنہ بنے، اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
اور اس سے بچنے کا مؤثر طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دین کے قریب کرے، الله تعالیٰ سے قریب کرے، الله والوں کی صحبت میں اٹھنا، بیٹھنا، آنا، جانا، مسجد میں وقت گزارنا، ذکر واذکار کرنا، دعوت وتبلیغ کے کام میں نکلنا، یہ سارے کے سارے کام وہ ہیں جو معاون اور مدد گار ہیں، اس سے آدمی کا رخ درست اور صحیح ہوتا ہے۔ پرانی بات ہے ،میں رائیونڈ میں تھا، شدید گرمی کا زمانہ تھا، موجودہ جو رائیونڈ کی تعمیرات ہیں، یہ کچھ بھی نہیں تھا، مسجد تھی اور صحن تھا اور صحن بھی لال اینٹوں کا تھا، رات 10 بجے عشاء کی نماز ہوتی تھی، اس کے بعد پھر حیاة الصحابہ کی تعلیم ہوتی تھی اور اس کے بعد لوگ اپنے اپنے بستروں پر آتے تھے اور بستروں سے مراد وہ ، صحن میں سوتے تھے اور سونے سے پہلے پانی کی بالٹیاں فرش پر ڈالتے تھے اورجب پانی ڈالتے تھے تو بھاپ نکلتی تھی، اتنا گرم او راس کے اوپر چٹائی اورچٹائی پر کوئی چادر وغیرہ۔
تو ہم بھی وہاں تھے، میرے برابر میں ایک صاحب لیٹے ہوئے تھے، ایسے ہی سلام دعا ہوئی، کون ہیں؟ تعارف ہوا، تو آپ حیران ہوں گے کہ وہ لاہو رکے رہنے والے تھے، انہوں نے کہا میرا گھر یہاں سے ساٹھ ستر میل کے فاصلے پر ہے اور میرا فلاں اور فلاں کام ہے، اتنی صنعتیں، اتنے کارخانے ،اتنی ملیں ہیں، اتنا بڑا میرا گھر ہے، اتنی گاڑیاں ہیں، اب میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ آدمی جس کے پاس سب کچھ ہے، یہ یہاں اس لال اینٹ کے فرش کے اوپر کیسے لیٹا ہوا ہے؟! یہ تو اگر ابھی ایک فون کرے ڈرائیور گاڑی لے آئے گا، ائیر کنڈیشن میں آرام سے سوئے، لیکن میرے دوستو! یہی وہ بات ہے کہ دین کی فہم، دین کی سمجھ… دین کی سمجھ نے اسے بتایا کہ میرا یہاں لیٹنا گھر میں ائر کنڈیشن میں لیٹنے سے زیادہ قیمتی ہے، یہ ہے دین۔
افریقہ کے جنگلات جہاں زرد بخار، کتنے ساتھی وہاں گئے اورزرد بخار کا شکار ہو کر الله کے پاس چلے گئے، لیکن کیا چیز ہے جو ان کو لے جاتی ہے؟! کتنے واقعات ایسے ہیں کہ پیسے نہیں، انہوں نے بیوی کا زیور بیچا، انہوں نے اپنی بھینس بیچی، سامان بیچا اور الله کی راہ میں نکل گئے کیوں؟ اس لیے کہ ان کو الله تعالیٰ نے یہ سمجھ عطا فرمائی کہ یہ سب کچھ جو دنیا میں نظر آرہا ہے یہ سب متاع الغرور ہے، یہ سب دھوکے کا سامان ہے، یہ جو میں قربانی دے رہا ہوں یہ جو میں الله کی راہ میں نکل رہا ہوں، یہ جو میں الله کی راہ میں خرچ کر رہا ہوں، یہ میرا اثاثہ ہے، یہ طلباء سب کے گھر میں، ماں باپ ہیں، خاندان ہیں ، رشتہ دار ہیں سب کچھ ہے، وہ اگر چاہتے تو محنت مزدوری بھی کرسکتے تھے، اپنے علاقوں میں اپنے والدین کے کاموں میں بھی شریک ہو سکتے تھے، لیکن وہ دین کے علوم حاصل کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں۔ دس دس سال قرآن وحدیث کے علوم حاصل کرتے ہیں تو ظاہر ہے الله تعالیٰ نے ان کو یہ سمجھ عطا فرمائی ہے کہ اس کے نتیجے میں الله تعالیٰ راضی ہوں گے، یہ میرا اثاثہ ہے، جس کے ذریعے سے میں بھی او رمیرے ذریعے سے خلق خدا کی بھی، ہم سب کی آخرت بنے گی اور اگر خدانخواستہ یہ سب کچھ نہ ہو تو پھر دنیا اندھیری ہے، دنیا کے اندر پھر سوائے کفر وشرک کے کچھ نہیں، اس کے لیے جدوجہد کرنا، اس کے لیے کوشش کرنا۔ اس کے لیے علماء کی، اہل دین کے حلقوں میں بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر تھوڑی تھوڑی دل میں بات آنا شروع ہو جاتی ہے، آخرت اس کے سامنے کھلنا شروع ہو جاتی ہے، قبر اس کے سامنے کھلنا شروع ہو جاتی ہے، موت کی حقیقت اس کے سامنے کھلنا شروع ہو جاتی ہے کہ یہ میں کیا کر رہا ہوں، ہو سکتا ہے آج کی رات میری قبر میں گزرے، تو میں نے کیا قبر کی تیاری کی ہے…۔
چناں چہ وہاں جو سوال ہو گا وہ الله کے بارے میں ہو گا، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں ہو گا، تو جس نے تیاری نہیں کی وہ کیا کہے گاھاہ ہاہ لا ادری ہائے افسوس مجھے کچھ نہیں معلوم، چناں چہ جہنم کی کھڑکیاں اس کے لیے کھول دی جاتی ہیں۔’’عن البراء بن عازب قال: خرجنا مع رسول الله صلی الله علیہ وسلم فی جنازة رجل من الأنصار… فقال استعیذوا بالله من عذاب القبر… ویأتیہ ملکان فیجلسانہ… قال:وإن الکافرفذکر موتہ قال: وتعاد روحہ فی جسدہ، ویأتیہ ملکان فیجلسانہ فیقولان: من ربک؟ فیقول: ہاہ ہاہ لا أدری، فیقولان لہ: مادینک؟ فیقول: ھاہ ہاہ لا أدری، فیقولان:ما ھذا الرجل الذی یعث فیکم؟ فیقول: ھاہ ہاہ لا ادری فینادی منادٍمن السماء ان کذّب، فأفرشوہ من الناروألسبوہ من النار وافتحوالہ بابا إلی النار‘‘․(سنن أبی داود، کتاب السنة، باب فی المسألة فی القبر، رقم:4755)
اور جس نے تیاری کی ہے وہ خوش ہو گا، وہ الله کو بھی پہچانے گا، الله کے رسول صلی الله علیہ و سلم بھی بھی پہچانے گا، ساری باتوں کا وہ جواب دے گا، اور الله تعالیٰ اس کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے گا۔’’عن البراء بن عازب قال خرجنا مع رسول الله صلی الله علیہ وسلم فی جنازة رجل من الأنصار… فقال استعیذوا بالله من عذاب القبر… قال ویاتیہ ملکان فیجلسانہ فیقولان لہ: من ربک؟ فیقول: ربی الله․ فیقولان لہ: مادینک فیقول: دینی الإسلام، فیقولان لہ: ما ھذا الرجل الذی بعث فیکم؟ قال: فیقول: ھو رسول الله صلی الله علیہ وسلم، … فینادی مناد من السماء: أن قد صدق عبدی، فأفرشوہ من الجنة وافتحوا لہ بابا إلی الجنة وألبسوہ من الجنة‘‘.(سنن أبی داود، کتاب السنة، باب فی المسألة فی القبر، رقم:4755)
تو بھائی! الله تعالیٰ ہم سب کو آخرت کی تیاری کی توفیق عطا فرمائے اور یہ متاع الغرور، یہ جو دھوکے کا سامان دنیا ہے الله تعالیٰ اس سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔