فلسفہ ٴ موت

idara letterhead universal2c

فلسفہ ٴ موت

حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قاسمی

الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لہ - ونشہد أن لا إلہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشہد أن سیدنا و سندنا و مولنا محمدا عبدہ ورسولہ - ارسلہ اللہ إلی کافة للناس بشیرا ونذیرا - وداعیا الیہ باذنہ وسراجاً منیرا اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِلَی قَوْلِہِ تَعَالَی ہُمُ الْمُہْتَدُونَ﴾ صدق اللہ العلی العظیم (بقرة ع :19)

تمہید

بزرگان محترم !

میری اس وقت حاضری کا مقصد ملتان میں نہ کوئی جلسہ تھا، نہ کوئی مجلس تھی، نہ کوئی تقریب اور وعظ کا تخیل ذہن میں تھا۔ میری حاضری کا مقصد حضرت مولانا خیر محمد صاحب رحمہ اللہ علیہ (بانی مدرسہ خیر المدارس ملتان)کی وفات کے بعد یہ پہلی حاضری تھی، تا کہ تعزیت ادا کروں ۔ تعزیت کے لیے ہجوم اور مجمع نہیں ہوتا ، اگر مجھے پہلے سے علم ہوتا کہ جلسہ کا اعلان کیا گیا ، تو میں روک دیتا اور مجھے امید تھی کہ مولانا محمد شریفصاحب (مہتمممدرسہ خیر المدارس ، فرزند ارجمند حضرت مولانا خیر محمد صاحب) مان بھی لیتے ، لیکن اچانک آکر معلوم ہوا کہ کوئی جلسہ بھی ہے اور اجتماع بھی۔ جلسہ اور تقریر میں ان سب کے لیے ضرورت پڑتی ہے نشاط کی ، طبیعت میں انشراح ہو، نشاط ہو۔ یہ ساری چیزیں مل جاتی ہیں، مگر میں اس وقت حاضر ہوا ہوں ایک بجھے ہوئے دل کے ساتھ۔ مولانا رحمہ اللہ کا غم سامنے ہے ، یہاں آکر تازہ ہو گیا۔ حالاں کہ ان کی وفات کو ایک عرصہ گزر چکا ہے، مگر میرا تعلق اتنا قوی تھا ان سے اور قلبی رابطہ برسہا برس سے تھا۔

مولانا مرحوم جب جالندھر میں مقیم تھے ۔ پنجاب کا جو بھی میرا سفر ہوا دو جگہ اترنا لازمی ہوتا تھا۔ جالندھر میں مولانامرحوم کی وجہ سے اور امرتسر میں مولانامفتی محمد حسن صاحب مرحوم کی وجہ سے ۔ پاکستان بننے کے بعد مولانا مرحوم کا قیام ملتان میں ہوا۔ یہاں بھی ایک آدھ مرتبہ ان کی حیات میں حاضری ہوئی ۔ اس وقت ان کی وفات کے بعد یہ پہلا موقع ہے حاضری کا ۔ تو وہ سارے تعلقات سامنے آگئے ، وہ ساری تاریخ سامنے آگئی ۔ اس وجہ سے دل پر غم کا ایک بوجھ ہے تو اس بجھے ہوئے دل سے میں کیا تقریر کروں اور کیا جلسے کا حق ادا کروں ؟ اور اوپر خود میرا بھی اب ضعیفی کا عالم ہے، قوت بھی وہ نہیں ہے جو پہلے تھی ۔ جذبات بھی سرد پڑ چکے ہیں۔ایسی حالت میں تقریر ہو تو کیا ہو ؟

بہر حال جب ہو گیا ایک اجتماع اور حضرات جمع ہو گئے ان کا احترام بھی ضروری ہے۔ اس کا تقاضا یہی ہے کہ کچھ نہ کچھ عرض کیا جائے۔ اس لیے غم کے سلسلے میں تعزیتی تقریر ہوگی ۔ کوئی خاص وعظ و نصیحت اس میں نہ ہوگا۔
عالم کی بقارروحانیت کی بقا سے ممکن ہے

حقیقت یہ ہے کہ مولانا مرحوم کی ذات ایک مقناطیسی ذات تھی، جو قلوب کا رجحان تھا اور دل کھینچتے تھے اور ان کی وفات جیسا کہ مقولہ مشہور ہے موت العالم موت العالم عالم کی موت فی الحقیقت عالم کی موت ہے، اس لیے عالم کے ذریعے سے حیات پھیلتی ہے۔ وہ حیات یہ نہیں ہے جو کھانے پینے کی ہے ، وہ حیات روحانی ہوتی ہے اور وہی حقیقی حیات بھی ہے اور وہی حقیقی روح بھی ہے، اس لیے حق تعالیٰ شانہ نے قرآن کریم کو اپنی روح فرمایا ہے ۔ اسی روح سے اقوام زندہ ہوں گی اور اسی روح کے نکل جانے سے پژمردگی طاری ہو گی۔

فرمایا ایک موقع پر کہ:﴿وَکَذَٰلِکَ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا﴾․(سورہ شوریٰ،آیت:52 )

اے پیغمبر! ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے یعنی اپنی روح آپ کے اندر ڈالی ہے ،وہ عالم کی روح ہے اور وہ کتاب اللہ اور قرآن کریم ہے جس کو روح بتلایا گیا ہے۔ فی الحقیقت یہ زندگی ہے سارے عالم کی ۔ یہ روح ایک فرد سے نکل جائے تو وہ مردہ ہو جائے گا۔ پوری کائنات سے نکل جائے تو کائنات بھی مردہ ہو جائے گی۔

حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
” لا تقوم الساعة حتی یقال فی الارض: اللہ اللہ“․

قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جس وقت اس عالم میں ایک بھی اللہ اللہ کہنے والا موجود ہو گا۔ جب ایک بھی باقی نہیں رہے گا تو قیامت آجائے گی۔ تو قیامت اس پورے عالم کی موت ہے ۔ اس حدیث سے واضح ہے کہ اس عالم کی زندگی اور اس کی روح اللہ اللہ ہے ۔ جب یہ روح نکل جائے گی، عالم مردہ ہو جائے گا۔ اس کا ریزہ ریزہ بکھر جائے گا۔ آسمان وزمین ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے اور ساری کائنات کا شیرازہ منتشر ہو جائے گا۔ غرض عالم کی روح وہ فی الحقیقت ذکر اللہ اور یاد خداوندی ہے ، نہ صرف پورے عالم کی ،بلکہ ایک ایک جز کی روح بھی یہی ہے۔

ہر چیز تسبیح خواں ہے

حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ درخت کی ہر ہر ٹہنی بھی اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔ تسبیح بند ہو جاتی ہے اس پر زردی چھا جاتی ہے ، وہ اس کی موت کا وقت ہوتا ہے ۔ روح نکل گئی ، موت طاری ہو گئی ۔
حدیث شریف میں فرمایا گیاہے کہ چلتا ہوا پانی اللہ کی تسبیح کرتا ہے ،تسبیح بند ہوجاتی ہے،جب کہ وہ ٹھہرجاتا ہے ،تسبیح بند ہو جانے کے بعد ٹھہرا ہوا پانی سڑتا بھی ہے، بد بو دار بھی ہوتا ہے۔ یہ اس کی موت کا وقت ہوتا ہے ۔ تو پانی کی زندگی بھی تسبیح و تہلیل سے ہے۔
حدیث میں ارشاد فرمایا گیاہے کہ امام کے لیے مکروہ تحریمی ہے کہ ایسے کپڑے پہن کر امامت کرائے کہ پسینے میں زرد ہوئے ہوں، پسینے کی بو آر ہی ہو۔ اس کو فقہا ء نے مکروہ لکھا ہے ۔ ظاہری وجہ تو یہی ہے کہ جب بد بو دار کپڑے ہوں گے اور تعضن ہوگا تو مقتدیوں کو اقتدا کرتے ہوئے کراہت پیدا ہوگی ۔ نشاط باقی نہیں رہے گا۔ جو ایک رابطہ ہے بندہ اور خدا کے درمیان میں وہ پورا قائم نہیں رہ سکے گا ۔اسی لیے فقہاء لکھتے ہیں کہ امام کے لیے صاف ستھرے کپڑے پہننا ضروری ہیں، اتنے میلے نہ ہوں کہ ان میں سے بدبو آنے لگے ۔ رنگ بدل جائے ، ظاہری وجہ تو یہی ہے کہ بد بو سے مقتدیوں کو عار پیدا ہوگی۔
حقیقی وجہ یہ ہے کہ پرا گندا ہو کر اس کی تسبیح بند ہو جاتی ہے ۔ ذکر اللہ منقطع ہو جاتا ہے ، وہ بھی ختم ہو جاتا ہے ، انقباض پیدا ہوتا ہے روح میں ۔ تو در حقیقت سارے عالم کی روح ذکر اللہ ہے ، یہ قائم ہے تو عالم قائم ہے۔ یہ نہیں رہے گی توعالم قائم نہیں رہے گا۔ علم کی جزئیات ختم ہو جائیں گی ۔تو ہر ہر چیز الله کی تسبیح میں مشغول ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے ۔
﴿وَإِن مِّن شَیْء ٍ إِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلَٰکِن لَّا تَفْقَہُونَ تَسْبِیحَہُمْ﴾․(سورہ الاسراء، آیت:44) کوئی چیز دنیا کی ایسی نہیں ہے جو حق تعالیٰ کی تسبیح میں مصروف نہ ہو۔ تم ان کی زبان نہیں سمجھتے یا آواز کو نہیں سنتے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہاتھی چنگھاڑ رہا ہے اور در حقیقت وہ اللہ کی تسبیح میں مصروف ہے، اپنی زبان میں ہم دیکھتے ہیں کہ شیر دھاڑ رہا ہے، فی الحقیقت وہ اللہ کی تسبیح کر رہا ہے۔ پرندے سیٹیاں بجاتے ہیں ، ہم دیکھتے ہیں کہ وہ چہچہا رہے ہیں۔ حقیقت میں وہ ذکر الہٰی میں مصروف ہیں اپنی زبان میں #
تو ہر یکے را اصطلاحے دادہ ایم
ہر ایک کو اللہ نے ایک زبان دی ہے ۔ وہ اپنی زبان میں اللہ کی حمد و ثناء اور تسبیح و تہلیل میں مصروف ہے۔ ہم اس کی زبان کو نہیں سمجھتے اور ہم ان کی زبان کو اگر نہیں سمجھتے تو تعجب کی بات نہیں ہے۔ ہم اپنے ہی بھائی بندوں کی سب زبانیں کب سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی پشتونی آدمی پشتو میں اللہ کو پکارنے لگے، دعائیں مانگنے لگے،ہم کیاکریں گے بیٹھے ہوئے دیکھتے رہیں گے۔ ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آئے گا۔ ٹھیٹھ پنجابی میں آپ بولیں تو میں کیا سمجھ لوں گا؟ کوئی انگریزی میں اللہ کو پکارے تو ہم کیاسمجھیں گے ؟ توہزاروں زبانیں دنیا میں رائج ہیں انسانوں میں۔ ہم اپنے بھائی بندوں کی زبانیں نہیں جانتے۔ اگر پرندوں کی زبان بھی نہ جانیں تو اس میں حیرت کی کونسی بات ہے ؟ہر ایک کی ان کی ایک تسبیح ہے۔ اپنی زبان میں وہ اللہ کو یاد کر رہا ہے ۔ آپ نہیں سمجھتے نہ سمجھیں ۔ تو فرمایا گیا:
﴿وَلَٰکِن لَّا تَفْقَہُونَ تَسْبِیحَہُمِْ﴾
تم ان کی تسبیح کو نہیں پہچانتے۔ باقی معجزے کے طور پر اگر اللہ کسی کو بتلا دے پرندوں کی بولیاں تو اس کی قدرت ہے،جیسے سلیمان علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ :
﴿یَا أَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّیْرِ﴾
اے لوگو!ہمیں پرندوں کی بولیاں بتلا دی گئی ہیں ۔
جب پرندے بولتے تو سلیمان علیہ السلام فرماتے کہ یہ فلاں بات کہہ رہا ہے ۔ وہ سمجھتے تھے ان کی بولیوں کو ۔ یہ آواز کبھی آسکتی ہے ہم لوگوں کے کان میں بھی معجزانہ طریق پر، جیسے کہ حدیث میں ارشاد فرمایا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے مٹھی بھر کے کنکریاں اٹھائیں تو کنکریوں میں سے زور زور سے آواز آرہی تھی سُبحان اللہ سبحان اللہ، تمام صحابہ سن رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کنکریاں دے دیں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں، تسبیح برابر جاری رہی ۔ انہوں نے وہ کنکریاں دیں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تسبیح برابر جاری رہی ۔ جب اور صحابہ کو منتقل کی گئیں تو تسبیح کی آواز سننا بند ہو گئی، تسبیح جاری رہی ہو گی، مگر سنائی نہیں دی۔ اعجازی طور پر ہم سُن بھی سکتے ہیں ۔ پرندوں کی بولیاں تو ان کانوں سے سنتے ہیں ۔ کنکریوں کی آواز بھی معجزانہ طریق سے سن سکتے ہیں ۔ جب اللہ کا کوئی معجزہ کسی پیغمبر کے ہاتھ ظاہر ہونا چاہیے ۔
اور یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ ٹیلیگراف آفس میں جائیں اور جا کر کہیں کہ بھائی یہ تار دے دو کہ میں فلاں گاڑی سے پہنچ رہا ہوں ۔ اس نے پیتل کی ٹلی پر ہاتھ رکھ کر کھٹ کھٹ شروع کی ۔ تو آپ کہیں گے کہ احمق آدمی! میں نے یہ کہا ہے کہ میرے آنے کی اطلاع دے دو! تم نے کھٹ کھٹ شروع کر دی ، وہ کہے گا احمق تو تو ہے ۔ اسی کھٹ کھٹ میں یہ سارا علم پہنچ رہا ہے دوسرے ملک میں۔ باقی تو اس کھٹ کھٹ کی آواز سے واقف نہیں ہے ۔ میں نے اس کی مشق کی ہے،اس کا فن حاصل کیا ہے ۔ اس لیے میں جانتا ہوں کہ ایک دفعہ کھٹ ہو گی تو الف مراد ہو گا۔ دو دفعہ ہوگی تو ”ب“مراد ہوگی ۔ تین دفعہ ہوگی توج مراد ہوگا ۔ تو کھٹا کھٹ سن رہا ہے ۔ اور حقیقت میں یہ علم ہے، جو ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل ہو رہا ہے، تو اس فن کو حاصل کرلے گا تو تجھے بھی معلوم ہو جائے گا۔ نہیں حاصل کرے گا، تو نہیں پتہ چلے گا۔
تو جس طرح ہم اس کھٹا کھٹ سے علم نہیں سن سکتے، نہیں سمجھ سکتے، اسی طرح جانوروں کی آوازوں کو ہم سنتے ہیں، مگر تسبیح ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ وہ ان کی زبان میں تسبیح ہے ، ذکر ہے اپنی زبان میں ، وہ کر رہے ہیں ۔
ملائکہعلیہم السلام کو بھی مختلف تسبیحات دی گئی ہیں، وہ اپنی زبان میں تسبیح کرتے ہیں ،ممکن ہے ان کی زبانیں بھی متعدد ہوں،اپنی اپنی زبان میں وہ الله کویاد کرتے ہوں ۔ بعض روایات میں ان کی تسبیحات بھی آئی ہیں۔ جیسے فرمایا گیا ہے کہ بعض ملائکہ کی تسبیح ہے کہ: ”سبحان من زین الرجال باللحیٰ و زین النساء بالذوائب“․ ”پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو زینت دی ہے ڈاڑھیوں سے اور عورتوں کو زینت دی ہے مینڈیوں اور چوٹیوں سے“۔
یہ ان کی زبان میں تسبیح ہے ان کی ۔ وہ اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں ۔ تو مختلف تسبیحات ملائکہ بھی کرتے ہیں ، جنات بھی کرتے ہیں۔ آسمان بھی تسبیح میں مصروف ہیں، زمین بھی تسبیح میں مصروف ہے۔ ستارے بھی تسبیح میں مصروف ہیں۔
﴿أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یَسْجُدُ لَہُ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَمَن فِی الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَکَثِیرٌ مِّنَ النَّاسِ﴾․(سورہ حج، آیت:18)
قرآن کریم نے خطاب فرمایا ہے کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ آسمانوں میں جو ہیں وہ بھی مصروف ، پہاڑ بھی ۔ اور یہ تو ہے تسبیح۔
ہر چیز نمازی بھی ہے
قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز نمازی بھی ہے، اپنے اپنے انداز سے نماز بھی ادا کرتی ہے ۔ فقط ذکر ہی میں مصروف نہیں ہے۔ دعوی کیا ہے قرآن کریم نے:
﴿کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہُ وَتَسْبِیحَہُ﴾ ہر چیز نے اپنی نماز کو بھی پہچان لیا ہے اور اپنی تسبیح کو بھی جان لیا ہے ۔ تو ہر ایک مخلوق نماز پڑھ رہی ہے ، باقی اس کی نماز اسی انداز کی ہے جیسے اللہ نے اس کی ساخت بنائی ہے ، جیسے اس کی ہیئت بنائی ہے، اسی ڈھنگ کی اس کی نماز بھی ہے۔ شاہ رفیع الدین صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ درختوں کی نماز میں قیام ہے، رکوع اور سجدہ نہیں ہے ۔ وہ ایک پیر پر کھڑے ہوئے اللہ کے ذکر میں مصروف ہیں کہ جس قانون پر لگا دیا، اس سے ایک انچ نہیں ہٹ سکتے ۔ اطاعت خداوندی میں لگے ہوئے ہیں۔ چو پائیوں کی نماز میں رکوع ہے۔ ان کیہیئتہی ایسی بنائی گئی ہے کہ وہ ہر وقت سر کو جھکائے ہوئے رکوع میں ہیں۔ حشرات الارض ہیں ، سانپ ، بچھو کیڑے مکوڑے ، ان کی نماز سجدہ سے ہے۔ قیام اور رکوع نہیں ہے۔ ان کی ہیئت اللہ نے ایسی بنائی ہے کہ وہ ہر وقت اوندھے پڑے ہوئے سجدہ میں ہیں۔ اسی طرح پہاڑوں کی نماز میں تشہد ہے ۔ جیسے انسان زمین پر گھٹنے ٹیکے ہوئے بیٹھے ہیں، ان کی نماز تشہد کے ساتھ ادا ہو رہی ہے، تسبیح میں مصروف ہیں۔ جنت اور دوزخ کی نماز دعا مانگنا ہے ۔ جنت بھی دعا کر رہا ہے کہ اے اللہ! مجھے بھر دے اور وعدہ خدا وندی ہے کہ ہم بھر دیں گے۔ جہنم کی بھی یہی صدا ہے کہ مجھے دیجیے ، میری غذا مجھے پہنچائیے۔ قیامت کے دن دوزخ کو بھر دیاجائے گا، اہلجہنم، جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ مگر دونوں کی آواز بند نہیں ہوگی۔ جہنم کہے گا ھل من مزید؟ اور لائیے ابھی تو میں خالی ہوں، جنت کہے گا میرے ہزاروں شہر خالی پڑے ہیں۔ آباد کاری فرمائیے ، آپ کا وعدہ ہے کہ بھر دیں گے ، تو جنت کے لیے حق تعالے ایک مستقل مخلوق پیدا فرمائیں گے، جس سے آباد کاری ہو گی جنتوں کی۔ جہنم کے لیے مستقل مخلوق نہیں بنائیں گے ،یہ حدیث میں ہے کہ آپ قدم رکھ دیں گے اس پر ، جیسا قدم ان کی جناب کے لائق ہے ، تو وہ کہے گا قط قط بس بس ۔ اب مجھ میں ہمت نہیں ہے، میں بھر گیا۔ اس کی دعا قبول ہو جائے گی ۔ تو جنت اور جہنم کی نماز دعا مانگنے سے ہے۔
ملائکہ علیہم السلام کی نماز ہے صف بندی ، لاکھوں ، کروڑوں ملائکہ صفیں باندھے ہوئے ہیں ، ہزار ہزار برس سے ، کوئی جماعت رکوع میں ہے۔ کوئی جماعت سجدہ میں ہے۔ کوئی قیام میں ہے۔ صفیں بنی ہوئی ہیں ۔ صف بندی ان کی نماز ہے۔ سیارے ہیں جو گھومتے ہیں ، ان کی نماز حرکت دوراں ہے کہ جہاں سے چلے تھے پھر وہیں لوٹ آئیں ۔ گھومنا ہی ان کی نماز ہے۔
اسلام کی نماز کی عظمت اور جامعیت
یہ حق تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اسلام کی نماز میں ساری کائنات کی نمازیں اللہ نے جمع کر دی ہیں ۔ درختوں کا سا قیام بھی ہے ، چوپایوں جیسا رکوع بھی ہے، حشرات الارض جیسا سجدہ بھی ہے ۔ پہاڑوں کا سا تشہد بھی ہے۔ جنت و دوخ کا سا سوال و دعا بھی ہے اور سیارات کا سا دوران بھی ہے ۔ اس واسطے کہ ایک رکعت پڑھنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے ۔ کم سے کم دو رکعت ہوں ۔ دو ہوں ، تین ہوں ، چار ہوں ، اگر نفل نماز ہے تو آٹھ ہوں ، پڑھے جائیں۔ غرض تنہا نماز ایک رکعت پڑھنا اس کی ممانعت ہے ۔ اس کے ساتھ ایک اور ملاؤ، تا کہ شفعہ بن جائے تو دو یا چار رکعت کی نماز میں آپ کیا کرتے ہیں؟ جو کام پہلی رکعت میں کیا الحمد پڑھی ، سورت پڑھی، تسبیح پڑھی ،دوسری رکعت میں پھر وہیں سے شروع کر دیتے ہیں وہی الحمد ، وہی سورت ، وہی تسبیح ، وہی تحمید۔ تو جہاں سے چلے تھے وہیں پھر آگئے۔ ایک دور ہے تمہاری نماز میں ۔ تو سیارات جیسی گردش بھی آپ کی نماز میں۔ تو جامع ترین نماز ہے کہ جتنی ہیئتیں ممکن ہیں عقلاً وہ سب دی گئی ہیں ، تاکہ بندہ عبادت اور تذلل کے ساتھ پیش ہو ، کھڑا ہو تو تذلل ، بیٹھے تو اپنی ذلت کا اظہار، جھکے تب ذلت کا اظہار۔
عبادت میں مفہوم
غرض عبادت نام ہے اظہار تذلل کا۔ انتہائی درجہ کی ذلت اپنی پیش کی جائے۔ اس لیے کہ جس ذات کے سامنے آدمی کھڑا ہوتا ہے وہ انتہائی عزت کے مقام پر ہے کہ اس کے بعد کوئی درجہ نہیں عزت کا۔ اس کے سامنے اتنی ذلت پیش کی جائے کہ اس کے بعد ذلت کا کوئی درجہ باقی نہ رہے۔ تو ذلیل محض بن کر آدمی اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہو گا ۔ اس لیے کہ وہ عزت کے انتہائی مقام پر ہے، اس کا فرض ہے کہ ذلت کے انتہائی مقام کو پیش کرے ۔ کھڑے ہوتے ہیں آپ جامد و ساکت ۔ یہ ایک درجہ ہے اظہار ذلت کا ۔ رکوع کیا تو گردن جھکا دی ، یہ دوسرا درجہ ہے اظہار ذلت کا ۔ اس کے بعد ناک پیشانی زمین پر ٹیک دی۔ یہ آخری درجہ ہے اظہار ذلت کا۔ اس کے بعد ہاتھ اٹھائے ، دعائیں مانگیں ، تو بھیک مانگنا، سب سے زیادہ انتہائی درجہ ہے ذلت کا۔ تو جتنی ہیئتیں ہیں وہ سب اظہار تذلل کی ہیں۔ جتنے اذکار ہیں نماز میں یا عظمت خداوندی کا اظہا رہے یا اپنی نیاز مندی کا اظہار ہے۔ انہی دو چیزوں پر مشتمل ہیں تمام اذکار ، تو ذکر بھی ، افعال بھی ، ہیئت بھی، سب اظہار ذلت کے ہیں نماز میں۔
صرف نماز اپنی ذات میں عبادت ہے
اس لیے یوں کہنا چاہیے کہ حقیقی معنوں میں اگر عبادت ہے تو صرف نماز ہے ۔ دوسری عبادات اور وجوہ سے عبادت بنی ہیں ، اپنی ذات سے عبادت نہیں ۔ نماز اپنی ذات سے عبادت ہے ۔
روزہ
اس کا معنی یہ ہے کہ کھانے پینے سے آدمی مستغنی ہو جائے ، تو کھانے سے ، پینے سے ، بیوی سے غنی ہونا ، یہ اللہ کی صفت ہے۔ اس میں ذلت تھوڑا ہی ہے۔ یہ مشابہت ہے حق تعالیٰ کے ساتھ کہ کھانے سے بھی بری ، پینے سے بھی بری ، بیوی سے بھی بری ، تو یہ اظہار ذلت تھوڑا ہی ہے۔ یہ تو اظہار عزت ہے۔ یہ عبادت تعمیل حکم کی وجہ سے ہے۔ حکم دیا تعمیل کرو تو بن گئی عبادت ۔
زکوٰة
اپنی ذات سے عبادت نہیں ہے۔ اس کے معنی عطا کرنے کے ہیں کہ فقیروں کو دو ، عطا کرنا تو اللہ کی شان ہے ۔ یہ تشبیہ ہے حق تعالیٰ کے ساتھ ۔ اس میں ذلت تھوڑا ہی ہے۔ یہ تو عین عزت ہے ۔ زکوٰة عبادت بنی اس لیے کہ حکم ہے کہ زکوة دو ، تو تعمیل ارشاد نے اس میں پیدا کر دیے معنی عبادت کے ۔
اس طرح سچ بولنے کو عبادت کہتے ہیں اور وہ عبادت ہے لیکن سچ بولنا اپنی ذات سے عبادت نہیں ،یہ تو اللہ کی صفت ہے ۔
﴿وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّہِ قِیلًا﴾․ اللہ سے زیادہ کس کا قول سچا۔
﴿وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّہِ حَدِیثًا﴾․ اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی ۔
تو یہ کہنا اور سچ بولنا حق تعالے کی شان ہے ،بندہ اگر سچ بولے گا تو مشابہتپیدا کر لے گا کمالات خداوندی کے ساتھ۔ اس میں ذلت تھوڑا ہے، یہ تو عین عزت ہے۔ پھر بھی وہ عبادت ہے کہ حکم کی تعمیل کی جاتی ہے۔ اللہ کا کہنا ہے سچ بولو۔ تعمیل کے لیے گردن جھکا دی کہ سچ بولوں گا ۔ سچ کو عبادت بنا دیا تعمیل حکم نے۔ اپنی ذات سے عبادت نہیں تھی۔ ورنہ اللہ کی صفت نہ ہوتی ۔
صرف نماز پوری کائنات پر فرض ہے
لیکن نماز کی ہر ہیئت اظہار ذلت کے لیے ہے۔ ہر ذکر بھی اپنی ذلت کے اظہار پر مشتمل ہے ،اس واسطے نماز اپنی ذات سے عبادت ہے، محض تعمیل حکم سے عبادت نہیں ، اس کے اندر خاصیت ہی اظہار تذلل کی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ساری کائنات پر فرض کی گئی ہے۔ زکوة ، حج اور سچ بولنا فرض نہیں کیا گیا ، فرمایا گیا:﴿کل قد علم صلوتہ و تسبیحہ﴾ ہر چیز نے اپنی نماز کو پہچان لیا ۔ یہ نہیں فرمایا:”کل قد علم حجہ ، کل قد علم زکوتہ“ تو نماز کائنات کی ہر چیز پر فرض کی گئی ہے ۔ انسان ، جن، فرشتہ، درخت پہاڑ… اور پھر سب کے لیے عبادت اور نماز لازمی قرار دی گئی ہے تو اصل معنی کے لحاظ سے نماز ہی عبادت ہے۔ بقیہ عبادتیں تعمیل حکم کی وجہ سے عبادتیں بنی ہیں۔
ربط مع الحق بدوں نماز ممکن نہیں
یہی وجہ ہے کہ بندے کا حقیقی رابطہ اللہ سے بغیر نماز کے قائم نہیں ہو سکتا۔ آپ زکوٰة دیں گے، تعلق مع الخلق درست ہو جائے گا۔ غریب کی خبر گیری ہوگی ، وہ آپ کا ممنون ہوگا۔ تعلقات استوار ہو جائیں گے اس تعمیل کی وجہ سے اللہ سے بھی تعلق پیدا ہوگا ، مگر حقیقتاً وہ تعلق ہے مخلوق کے ساتھ۔ اس واسطے رابطہ بندے کا الله سے بغیر نماز کے قائم نہیں ہوسکتا۔ اگر نماز میں قصور ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا رابطہ حق تعالے سے قائم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر (نماز میں)دوسرا خیال لاتا ہے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں میرے ہوتے ہوئے غیر کی طرف توجہ کرتا ہے، تجھے حیا نہیں آتی ۔ اگر متنبہ ہو گیا بندہ ، پھر تعلق قائم ہو جاتا ہے ۔ نہ ہوا تو پھر خود بے رُخ بن جاتے ہیں۔ توجہ ہٹا لیتے ہیں۔ اٹھک بیٹھک رہ جاتی ہے۔ تو نماز سے ہی فی الحقیقت رابطہ قائم ہوتا ہے ۔
نماز سے دیدار خداوندی کی استعداد
اس لیے حدیث میں فرمایا گیا تمام نمازوں کے بارے میں اور خصوصیت سے صبح اور عصر کی نمازوں میں کہ ان دونوں سے استعداد پیدا ہوتی ہے دیدار خداوندی کی۔ نماز ہی سے اللہ کو دیکھنے کی صلاحیت بندہ میں آتی ہے۔ عمر بھر نماز پڑھتا رہے گا تو ابتدا میں عقیدے کی آنکھ سے دیکھے گا ، پھر کشف کی آنکھ سے دیکھے گا ۔ اور پھر ایک وقت آئے گا کہ آخرت میں اس آنکھ سے بھی دیکھ سکے گا۔ تو مقصود اصلی عبادت سے معبود کو دیکھنا اور اس کا قرب حاصل کرنا ہے اور یہ صرف نماز سے ممکن ہے ۔ تو حقیقی عبادت نماز ہی ہے۔
روح خداوندی ہر چیز میں موجود ہے
میں یہ عرض کر رہا تھا کہ حق تعالے نے قرآن کریم کو اپنی روح فرمایا ۔ اس روح کے اندر یہ عبادات بھی شامل ہیں ،تعمیل ارشاد ہی اس کی روح ہے، فی الحقیقت بندے میں اللہ نے قرآن کی روح ڈال دی، تا کہ اس میں بندگی پیدا ہو اور اللہ کی معبودیت ظاہر ہو۔ ﴿وَکَذَٰلِکَ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا﴾․اے پیغمبر!عالم امر کی روح ہم نے آپ میں ڈال دی ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوتیوں کے صدقے سے وہ روح ہم تک پہنچ گئی، ہمارے اندر بھی وہ روح ہے، ہم اس روح کو داخل رکھیں گے تو قوی رہیں گے۔ قوت کی علامت اس روح کی برقراری ہے اور ضعف کی علامت اس روح کا نکل جاناہے ۔
مسلم اقوام کی پریشانی کا علاج
دنیا میں مسلمان شکایت کرتے ہیں کہ فلاں قوم نے ہمیں تباہ کردیا، فلاں قوم نے اپنی مکاریوں سے ہمیں پریشان کر دیا۔ ہماری جائیدادیں ختم کر دیں، ہمارے جان مال کو ختم کر دیا۔ میں کہتا ہوں کہ یہ شکایت بالکل غلط ہے ۔ شکایت تو کفار کو ہونی چاہیے کہ تمہاری ناہنجاری سے ہم بدعنوان بن گئے۔ اگر تم صحیح معنوں میں اپنے دین پر قائم رہتے، ہم تمہاری ٹھوکروں کے نیچے رہتے، ہم تمہاری اتباع کرتے، لیکن جب تم اپنے نہج پر نہیں ہو تو ہم سے کیا توقع رکھتے ہو کہ ہم تمہاری پیروی کریں یا پابندی کریں ؟
تو حقیقت میں شکوہ ہے مسلمانوں کا۔ مسلمانوں کا حق نہیں ہے غیر اقوام سے شکوہ کرنے کا ۔مسلمان آیا تھا دنیا کی اقوام کو درست کرنے کے لیے۔ اس کو امام اقوام بنایا گیا ، امام ہی کا وضو نہ ہو تو کیا مقتدیوں کی نماز ہو جائے گی؟ جب امام میں ہی حدث پیدا ہوگیا ، ظاہر و باطن میں ناپاکی پیدا ہوگئی ، اقوام کیوں اس کی اقتدا کریں گی۔ اور کیوں کر اس کی پیروی کریں گی؟
اس لیے کہ وہ قوت اس نے ختم کردی جو غالب اور ظاہر تھی، اقوام پر وہ روحہوا کی طرح بھری ہوئی تھی ۔ جب تک وہ ہے مسلمان قوی ہے ، وہ نکل گئی مسلمانضعیف ہے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ گیند ہے، اس میں ہوا بھری ہوئی ہے، اگر آپ اسے زمین پر پٹخ دیں تو گردا کھا کے دس گز اوپر جاتی ہے، اس لیے کہ ہوا بھری ہوئی ہے اس میں۔ اور اگر اس میں سوئی چبھو دی جائے تو ہوا نکل جائے گی ، تو جہاں ڈالیں گے ، وہیں پڑی رہ جائے گی ۔ اس کو آپ پیروں سے پامال کر دیں ، وہ اٹھنے کا نام نہیں لے گی ، اس لیے کہ روح نکل گئی ۔
روح اسلامی نکلنے سے مسلمانوں کا انجام
مسلمانوں کی روح قرآن پاک ہے ۔ اقوام کی یہ مجال نہیں کہ اس کو دبائیں ۔ دبائیں گے پٹخ دیں گے نیچے تو یہ دس گز اوپر جائے گا اور اوپر ہی جائے گا، الحق یعلو ولا یعلی (حق غالب ہوتا ہے ،مغلوب نہیں ہوتا ) لیکن یہ روح نہیں ہوگی تو جہاں ڈالیں گے وہیں پڑا رہے گا۔ آج اگر مسلمان پامال ہو رہے ہیں۔ نہ اس لیے کہ کفار میں جان ہے ۔ اس لیے کہ تم بے جان ہو گئے ، جو روح تھی وہ نکال باہر کی ، تو روح نکل جانے کے بعد آدمی لاشہ بن جاتا ہے۔ لاشہ کے لیے ہر انسان کا پہلا فرض ہوتا ہے: دبائے ، جلائے یا اسے دفن کر دے (الغرض آنکھوں سے اوجھل کرنا سب کے نزدیک ضروری ہے ، اس دنیا میں اب اس کا کوئی مقام نہیں ) اس کو گھر نہیں چھوڑتے ، باہر نہیں چھوڑتے۔ اس کے تعفن سے دنیا کی صحت خراب ہوگی ۔ پہلا کام یہ کرتے ہیں، اسے دفن کرتے ہیں، کوئی جلاتا ہے، کوئی پانی میں بہا دیتا ہے اور کوئی برانہیں مناتا۔ لیکن اگر زندہ آدمی کو کوئی جلائے ، تو گورنمنٹ ہی مدعی ہو جائے گی کہ اسے پھانسی دو، قوم بھی مدعی بنے گی کہ یہ بدکار ہے ، مجرم ہے ، روح کے ہوتے ہوئے کسی کی مجال نہیں ہے کہ دبائے ، دبائے گا تو مجرم ثابت ہوگا۔ لیکن جب روح نکل جائے گی، جس کا جی چاہے جلا دے ، دفن کر دے ، تو مسلمانوں کا یہ شکوہ کرنا کہ فلاں قوم نے ہمیں جلا دیا یا فلاں نے گرا دیا۔ میں کہتا ہوں غلط ہے۔ اس نے خود اپنے کو گرا دیا ہے ، جب روح نکال دی، زندگی ختم ہو گئی۔ زندہ آدمی کو کوئی نہیں جلا سکتا ۔
عالم کی روح فی الحقیقت ذکر اللہ ہے
میں عرض یہ کر رہا تھا کہ حقیقی معنی میں حق تعالے نے دینی روح (مسلمان میں) ڈال دی ۔ اور وہ ہے قرآن مجید:﴿وَکَذَٰلِکَ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا﴾تو اس عالم کی روح فی الحقیقت ذکر اللہ ہے۔ جب یہ نکل جائے گی ، تو عالم لاشہ کی مانند ہوجائے گا اور لاشہ کا انجام پھولنا، پھٹنا ، سڑنا ، گلنا اور ریزہ ریزہ ہو جانا ہے۔ ایک ایک چیز کا ذرہ ذرہ پھٹ جائے گا قیامت کے دن ۔ یہ عالم کی موت ہوگی اور یہ اس لیے واقع ہوگی کہ روح نکل جائے گی۔
روح کا حسّی مرکز
اس روح کا سب سے بڑا حسی مرکز بیت اللہ شریف ہے، جس کے ذریعے چلتی ہے ،اسی میں تجلی خدا وندی ہے ، جس کے سامنے ہم جھکتے ہیں ۔ یہیں سے بہ طفیل نبی کریم صلی الله علیہ وسلم انوار وبرکات چلتے ہیں۔ تو یہ مرکزِ روح ہے فی الحقیقت ،قیامت کا جب قرب ہو گا اور روح اٹھنے والی ہو گی تو حدیث شریف میں ہے کہ بیت اللہ کو ایک حبشی غلام ریزہ ریزہ کر دے گا۔ ایک ایک پتھر اس کا جدا کر دے گا۔ تو سب سے پہلے بیت اللہ ختم ہوگا ۔ پھر عالم پر قیامت طاری ہو جائے گی ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے با دشاہ کا لشکر چلتا ہے تو سب سے پہلے شاہی خیمہ نصب کیا جاتا ہے، تاکہ بادشاہ آکر ٹھہرے، ان کے ارد گردان کے دربار کے امراء کے خیمے لگتے ہیں ، پھر فوجیوں کے خیمے لگتے ہیں ، جب بادشاہ آتے ہیں تو بڑا شہر بن جاتا ہے لیکن جب کیمپ اجڑتا ہے تو سب سے پہلے شاہی خیمہ اکھاڑا جاتا ہے، بعد میں اور امراء کیخیمے اکھڑتے ہیں اور پھر میدان خالی ہو جاتا ہے ، یہی صورت یہاں بھی ہے وہ خیمہ خداوندی کہ تجلیات الہٰیہ اس میں مقیم ہیں، سب سے پہلے اس کو عالم میں قائم کیا گیا۔ فرمایا گیا:﴿إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِی بِبَکَّةَ مُبَارَکًا وَہُدًی لِّلْعَالَمِینَ﴾ ․سب سے پہلا گھر جو اللہ نے عبادت کے لیے قائم کیا وہ وہ ہے مکہ شہر میں ہے، اس کا نام کعبہ مقدس ہے۔ یہ گویا خیمہ شاہی ہے ،جب عالم کو آباد کرنا ہوا تو پہلے یہ شاہی نصب کیا گیا اور جب عالم کا خیمہ اکھڑے گا اور یہ دنیا ختم ہوگی تو سب سے پہلے شاہی خیمہ اکھاڑا جائے گا۔ جب بیت اللہ کی ایک حبشی غلام اینٹ سے اینٹ بجا دے گا اور تجلی خداوندی اسے چھوڑ دے گی۔ اس کے بعد عام مساجد بھی ویران ہوں گی۔ تمام اہل اللہ کے ذکر خانے (خیمے) بھی ویران ہوں گے اور ساری دنیا ویران ہو جائے گی۔ تو اولین چیز وہ شاہی خیمہ ہے جو سب سے پہلے نصب ہوتاہے کیمپ میں اور اکھڑنے کے وقت سب سے پہلے شاہی خیمہ اکھڑتا ہے ، تو اولین چیز جو قائم کی گئی وہ بیت اللہ ہے اور ابتدا میں قیامت کے قرب میں وہ سب سے پہلے اکھاڑا جائے گا ۔ بہر حال وہ روح ذکر اللہ ہے جو اس کے اندر موجود ہے ۔ اسی کی بقا سے عالم باقی ہے ۔
فلسفہ موت اور علماء ربانی کی شان
تو موت فی الحقیقت نام ہوا ذکر اللہ کے منقطع ہو جانے کا۔ یہ منقطع نہ ہو تو آدمی مرتا نہیں ۔ اسی لیے حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ:”مثل الذاکر فی الغافلین کمثل الحی فی الاموات “غافلوں کے اندر ایک بھی ذکر اللہ کرنے والا موجود ہے تو وہ مثل زندہ ہے ، وہ غافلوں میں سے نہیں، اس لیے مردوں کے اندر وہ زندہ ہوتا ہے ۔
تو علماء ربانی کی شان یہی بتائی گئی ہے کہ ان کا دل ، روح اور دماغ ہر وقت الله تعالیٰ کی یاد میں مصروف رہتا ہے ۔ یہ اثر ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کا اور ان کا صدقہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یہ فر مایا گیا ہے :’’کان یذکر اللہ علی کل احیانہ“کوئی لمحہ آپ کا ذکر اللہ سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ زبان سے ذکر کریں ۔ قلب سے ذکر کریں، جس کو فکر کہتے ہیں۔ روح سے ذکر کریں ،جس کو توجہ کہتے ہیں اور معرفت کہتے ہیں ۔ غرض کسی نہ کسی طریق پر ذکر میں مصروف رہتے ہیں۔ جب کوئی عالم ربانی اٹھتا ہے جس کے لیے کہا گیا ہے کہ:” موت العالم موت العالم“ تو ایسے عالم کا اٹھ جانا پورے عالم کا اُٹھ جانا ہے، کیوں کہ روح نکل جاتی ہے تو پورے عالم پر ایک پژمردگی چھا جاتا ہے۔ تو میں نے (ابتدا میں) عرض کیا تھا کہ مولانا خیر محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ جیسے ان کے نام میں خیر ہے ان کے مسمیٰ میں اللہ نے خیریت ہی رکھی تھی ۔ اور واقعةً خیر ہی خیر تھے ۔ حدیث کا پڑھنا پڑھانا ، قرآن پاک کا پہنچانا ، مواعظ سے تبلیغ و تلقین کرنا۔ اپنے پروردوں کی تربیت کرنا ، غرض ذکر اللہ ہی ان کا مشغلہ تھا ۔کسی بھی انداز سے ہو۔
ایسے عالم ربانی کا اٹھ جانا یقینا پورے عالم کے لیے موت کا بھی اور علامات موت کا یقینا اشارہ ہے ۔ جب کوئی عالم ربانی اٹھتا ہے تو قلوب محسوس کرتے ہیں کہ ایک قسم کی ظلمت طاری ہو گئی ہے۔ پورے عالم میں روحانیت میں کمی آگئی۔ ہر شخص محسوس نہیں کرتا ، صاحب دل جانتا ہے کہ نورانیت میں کتنی کمی آتی ہے ، اسی واسطے فرمایا گیا کہ:”الموت الفزع الاکبر“موت سب سے زیادہ گھبرا دینے والی چیز ہے۔ ۔ مگر مجھے ساتھ یہ بھی عرض کرنا ہے کہ موت جہاں گھبرا دینے والی چیز ہے ، وہاں ایک تحفہ بھی ہے ۔ ایک نعمت بھی ہے ، یہ نعمت بھی اللہ کی طرف سے ہے ۔ اگر موت نہ ہو عالم کی آباد کاری نہیں ہوسکتی۔
اللہ اور فرشتوں کے درمیان مکالمہ
ایک حدیث میں فرمایا گیا حق تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی ساری اولاد کو ملائکہعلہیم السلام کے سامنے پیش کیا۔ اربوں کھربوں انسان جو قیامت تک آنے والے ہیں ۔ ملائکہ نے انہیں دیکھ کرعرض کیا۔ یا الله! یہ زمین میں سمائیں گے کیسے ؟ یہ تو تین ارب ہو جائیں گے تو اسی وقت کہیں گے کہ نس بندی کراؤ اور فیملی پلانگ کرو۔ ایک طوفان برپا ہے۔ اگر وہ پچاس ارب ہو جائیں تو زمین کا کیا حشر ہوگا ؟ تو ملائکہ کو یہ خلجان گزرا کہ زمین میں یہ کیسے سمائیں گے ؟
حق تعالیٰ نے کہا کہ موت مسلط کر دوں گا۔ آئیں گے بھی، جائیں گے بھی، زمین خالی ہوتی رہے گی ۔ اگلے آتے رہیں گے ، پچھلے جاتے رہیں گے۔ تو میں نے موت کا سلسلہ قائم کیا ،تا کہ جانے والے جائیں اور آنے والے خالی جگہ آکربستے جائیں ۔
اس پر ملائکہ نے عرض کیا جب موت مسلط ہو گی تو ہر وقت موت کی فکر لاحق ہو گی ، ان کی زندگی تلخ ہو جائے گی ۔ نظام دنیا کیسے چلے گا ؟ ہر وقت موت کی فکر میں غرق رہیں گے۔ فرمایا حق تعالیٰ نے کہ اُمیدیں مسلط کر دوں گا ان کے قلوب پر۔ اُمیدوں میں لگے رہیں گے ۔ موت کا دھیان بھی نہیں ہوگا ، نظام دنیا چلتا رہے گا ۔
بہر حال موت جہاں فزع اکبر ہے ،گھبرا دینے والی چیز ہے ۔ وہاں آباد کار ی کا بھی ذریعہ ہے ،اگر موت نہ ہوتی تو اس زمین پر آباد کاری ممکن نہ ہوتی۔تو مسافروں کی طرح آتے ہیں انسان اور چلے جاتے ہیں۔ جگہ خالی کر دیتے ہیں۔
موت دنیوی تحفہ بھی ہے
اور اگر دنیوی لحاظ سے دیکھا جائے تو بھی موت ایک عجیب نعمت ہے۔ حدیث میں فرمایا گیا کہ: ”الموت تحفة المومن“ (موت سب سے بڑا تحفہ ہے مومن کے لیے ) ۔ اس سے بڑھ کہ اللہ کی طرف سے کوئی نعمت نہیں دی گئی اور کیوں ہے وہ تحفہ ؟ اس کی وجہ بھی حدیث میں ہے: ”الموت جسر یصل الحبیب الی الحبیب (موت ایک پل ہے جس سے گزر کر آدمی اپنے حبیب سے جا ملتا ہے ) ۔ تو محبوب حقیقی سے مل جانا ، یہ کوئی گھبرانے کی چیز ہے ؟ یہ کوئی مصیبت ہے ؟ یہ تو عین خوشی کی چیز ہوئی ۔ بندہ اپنے خدا سے جاملے ۔ تو جس طرح کسی بندے کی پیدائش پر خوشیاں مناتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں موت بھی خوشی کی چیز ہے۔ (اس پر بھی خوشیاں منانے کا اہتمام ہوا کرے)مگر لوگ تو یوں کہیں گے کہ یہ تو بالکل الٹی بات ہے عقل کے بالکل خلاف ، لوگ رونے لگتے ہیں ،خوشی کیسے منائیں گے ؟ میں کہتا ہوں وہ رنج موت پر نہیں۔ وہ فراق پر رنج ہوتا ہے۔ موت کی خوشی ہوتی ہے کہ بندہ اپنے خدا سے جا ملا۔ اس لیے کہا کرتے ہیں کہ کسی کی اگر اچھی موت ہو کہ خدا ایسی موت تو سب کو نصیب کرے ۔ اگر موت خوشی کی چیز نہ ہوتی توکیوں کہتے لوگ ؟ معلوم ہوا موت گھبرانے کی چیز نہیں ہے ، جو روتے ہیں ، وہ موت پر نہیں روتے ۔ جدائی پرروتے ہیں کہ ایک نعمت ہم سے چھن گئی ۔ ایک چیز ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ تو صدمہ فراق پر ہے، موت پر نہیں ۔ موت خوشی کی چیز ہے۔
اس لیے کہ یہ مصیبت تو نہیں ہے کہ بندہ اپنے اللہ سے جا ملے۔ یہ تو عین خوشی کی چیز ہے کہ بندہ محبوب حقیقی تک پہنچ گیا ۔
موت کی تمنا کرنا علامت ولایت ہے
اسی واسطے موت کی تمنا یہ فی الحقیقت ولایت کی علامت بتلائی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ یہود نے دعوی کیا تھا کہ ہم اولیاء اللہ ہیں ، تو قرآن نے دعوی کیا کہ:
﴿قُلْ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ ہَادُوا إِن زَعَمْتُمْ أَنَّکُمْ أَوْلِیَاء ُ لِلَّہِ مِن دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِن کُنتُمْ صَادِقِینَ﴾․(سورہ جمعہ، آیت:6)
تو خود موت کی تمنا بھی ایک نعمت ہے۔ اسی واسطے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ہے :”اللہم حبب الموت الی من یعلم إنی رسولک“اے اللہ!ہر اس شخص کے دل میں موت کی محبت ڈال دے جو میرے نبی ہونے کا قائل ہے۔ اس لیے کہ موت ہی واسطہ ہے اللہ تک پہنچنے کا ۔ موت نہ ہو تو بندہ اللہ تک کیسے پہنچے ؟ تو موت ذریعہ ہے وصول الی اللہ کا۔ اس لیے موت تحفہ بھی ہے ، نعمت بھی ہے اور واسطہ بھی ہے بندہ کا اللہ سے ۔ اس لیے فرمایا کہ موت کی تمنا کرنا ولایت کی علامت ہے ۔
اولیاء اللہ رات دن موت کی تمنا میں رہتے ہیں ۔ ان کی زبان پر
تو یہ رہتا ہے #
خرم آن روز کزیں منزلِ ویراں بردیم
راحت جان طلبم دزپئے جاناں بردیم
نذر کردم کہ اگر آید بسر زیں غم روزے
تا در میکدہ، شاداں غزل خواں بردیم
وہ کون سا مبارک دن ہوگا کہ اس اجڑے ہوئے دیار کو ہم چھوڑیں گے اور شہر مطلوب میں پہنچیں گے، جہاں الله سے ہمارا رابطہ قائم ہوگا۔ خدا کرے کہ وہ ساعت جلد آئے تو اولیاء اللہ کے دل میں تو (موت کی) تڑپ رہتی ہے ۔
حضرت مولانا شاہ محمد یعقوب صاحب رحمة اللہ علیہ بھوپالی نقشبندی خاندان میں سے ہیں اور ہمارے عزیزوں میں سے تھے ، ان سے بہت فیضان اور (مخلوق کو) فائدہ ہوا ۔ مرض وفات جب شروع ہوا اور موت بالکل قریب آئی تو لوگوں نے جا کر تسلی دی کہ حضرت فکر نہ کریں ، ان شاء اللہ صحت ہو جائے گی۔ غصہ آگیامولانا کو ، فر مایا:
”عمر بھر اس وقت کی تمنا میں تھے اور تم اس کو ہٹانے آئے ہو ، خدا خدا کر کے وقت آیا کہ موت قریب آئی اور تم موت سے تسلی دیتے ہو کہ اور زندہ رہوں ۔ خبردار! اس کے بعد یہ جملہ نہ کہیں ، دعا کر و حسن خاتمہ ہو جائے ۔تسلیاں مت دو کہ میری عمر زیادہ ہو۔ عمر بھر میں اس وقت کی تمنا میں تھا ۔ وقت آیا تو تم ہٹانے آگئے ۔“
طالب علمانہ شبہ
یہاں یہممکن ہے کہ کوئی طالب علم طالب علمانہ طریق سے شبہ کرے کہ ایک حدیث میں تو موت کی تمنا کرنے سے ممانعت فرمائی گئی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ:”لا یتمنین أحدکم الموت“ دیکھو !تم میں کوئی موت کی تمنا نہ کرے۔
یہاں تو فرمایا جا رہا ہے کہ موت کی تمنا نہ کرو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم دعا دیتے ہیں کہ موت کی محبت ہر قلب مسلم میں ڈال دی جائے تو بظاہر تعارض ہے۔
جواب میں کہتا ہوں تعارض نہیں ۔ جس حدیث میں فرمایا گیا کہ دیکھوموت کی تمنا نہ کرو اسی روایت میں یہ لفظ بھی ہیں۔ بضر نزل بہ۔موت کی تمنا مت کرو دنیا کی کسی مصیبت سے گھبرا کر ۔ بیماری سخت ہو گئی کہ موت کیوں نہیں آجاتی ؟ افلاس بڑھ گیا ، تمنا کرو، اس کی ممانعت ہے کہ دنیا کے مصائب سے گھبرا کر موت کی تمنا مت کرو ، یہ بے اعتمادی ہے حق تعالیٰ پر، بندگی کے خلاف ہے۔ باقی اللہ سے ملاقات کے شوق میں تمنا کرنا یہ ولایت کی علامت ہے ۔ تو ہرولی کامل دل میں شوق رکھے گا اللہ سے ملاقات کا اور چاہے گا کہ جلد اللہ تک پہنچ جاؤں ۔بہر حال موت جہاں گھبرا دینے والی چیز ہے وہاں ایک عظیم تحفہ اور نعمت بھی ہے۔
موت ۔ چھوٹوں کے جوھر کھلنے کا ذریعہ ہے
میں کہتا ہوں کہ اس لحاظ سے بھی ایک بڑی نعمت ہے کہ اگر قیامت تک سارے بڑے بیٹھے رہا کرتے تو چھوٹوں کے جو ہر کھلنے کی کوئی صورت نہ ہوتی ۔ چھوٹوں کا نہ علم سامنے آتا نہ کمال، مگر بڑوں کا کمال سامنے رہتا ، سب اسی میں لگے رہتے، اگر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم قیامت تک دنیا میں تشریف رکھتے تو صحابہ کے جوہر نہیں کھل سکتے تھے ۔ وہ ہر وقت اطاعت اور اطاعت گزاری میں رہتے، مستقل ہو کر آگے آکر اپنی طبیعت اور قلب کے جو ہر نہ دکھلاتے ۔ نہ صدیق اکبر کے جوہر کھلتے، نہ فاروق عظم کے جو ہر کھلتے ۔ یہ جبھی ہوا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور یہ قائم مقام بنے، قائم مقامی کاکام انجام دیا، اس میں تمام جوہر کھلے تومیں کہتا ہوں کہ اس لحاظ سے بھی موت نعمت ہے کہ چھوٹوں کے جو ہر کھلنے کا ذریعہ ہے ۔
اگر آج مولانا خیر محمد صاحب رحمہ اللہ علیہ نہیں ہیں۔ بے شک غم کی چیز ہے، لیکن ان کے خلف صالح موجود ہیں ۔ ان کی ذریت صالح موجود ہے ، ان کے تلامذہ موجود ہیں جو اس کام کو جاری رکھیں گے اور ان کی طبیعت میں جو جو ہر موجود ہیں وہ کھلیں گے۔
اگر مولنا ہی رہتے تو یہ چیزیں کبھی نہ کھلتیں ۔ تو یہ بھی ایک فائدہ کی چیز ہے ۔ اگلوں کے جوہر کھلنے کا ذریعہ ہے ۔ اگلے دنیا کو آباد کریں گے ، وہی کلمہ پہنچائیں گے۔
موت اصلاح و تربیت تو کے تعدد و تفنن کا ذریعہ ہے
موت نہ ہو تو نئی نسل کے دین سمجھنے میں دشواری پیش آتی، کیوں کہ ہر زمانے کی نفسیات الگ الگ ہوتی ہیں ۔ ہر سو برس بعد نفسیات بدل جاتی ہیں ۔ اسی واسطے حدیث میں وعدہ کیا گیا:”ان اللہ یبعث لہذہ الامة علی رأس کل مائة سنة من یجدد لہا دینہا“ہر قرن پر مجدد کا وعدہ کیا گیا ہے کہ جاہلانہ طریق پر جو لوگ تاویلیں کر کے دین میں خلط پیدا کر دیں گے ۔ اللہ سوبرس کے بعد پھر مجدد پیدا کر دیں گے ۔ وہ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی کر دے گا ، پھر دین کونکھار دے گا ۔ اس لیے کہ سو برس میں ایک نسل ختم ہو کر دوسری نسل کا آغاز ہو جاتا ہے اور ہر آئندہ آنے والی نسل کے نظریات الگ ہوتے ہیں ، افکار الگ ہوتے ہیں، نفسیات الگ ہوتی ہیں ۔ اس لیے ضرورت پڑتی ہے کہ اس دور کے اہل علم اپنی نفسیات میں ان کو دین سمجھانے والے ہوں ۔ پرانے لوگ اگر ہوتے تو اپنی نفسیات میں سمجھاتے تو وہ لوگ تو دین کو نہ سمجھ سکتے ۔ اس لیے اللہ نے موت کو رکھا، تا کہ نئے لوگ جب آئیں تو نئے مجدد بھی پیدا ہوں ۔ اسی زمانے کی اصطلاح میں، اسی زبان میں ، اسی ڈھنگ سے دین کو پیش کریں اور سمجھائیں ، تو موت اس لحاظ سے بھی بڑی نعمت ثابت ہوتی ہے کہ وہ ذریعہ ہے تربیت اور اصلاح کے تفنن اور تعدد کا، تاکہ مختلف الوان سے تربیت خداوندی میں داخل ہوں ۔
ہر دور کے تقاضوں کے مطابق علما ئے وقت نے اسلام پیش کیا
ایک زمانہ تھا کہ روایت کا غلبہ تھا۔ عوام میں سے کوئی اس وقت تک دین کی بات نہیں مانتا تھا جب تک کہ سند پڑھ کر کوئی حدیث نہ سنادی جائے۔ تو یہ روایت کا دور تھا۔ روایتی طور پر دین کو قائم کیا جاتا تھا۔ اس کے بعدعقل پسندی کا دور آیا۔ یہ معتزلہ کا دور تھا۔ کوئی شخص دینی مسئلہ نہیں جانتا تھا جب تک کہ عقل کے پیرائے میں نہ سمجھائیں تو ایسے علماء اللہ نے کھڑے کیے۔ امام رازی ، امام غزالی کہ انہیں کی زبان میں دین سمجھایا ان کو تائب کیا۔ پھر ایک زمانہ تصوف پسندی کا آیا ، جب تک صوفیانہ رنگ میں کوئی نہ سمجھائے لوگ نہیں سمجھتے تھے۔ تو اللہ نے ایسے صوفیائے کرام کھڑے کیے کہ ہر مسئلہ کو صوفیانہ رنگ میں ڈھالتے کہ لوگ ماننے پر مجبو رہو گئے۔
آج حسیات کا دور ہے ۔ فلسفہ قدیم کا دور ختم ہو گیاجو محض نظریاتی طور پر فلسفہ تھا ۔ اب حسیات کا دور ہے ، مشاہدات کا دور ہے ، جب تک ایسے علما نہ ہوں کہ مشاہدات کے انداز میں سائنس کے انداز میں حسی مثالوں سے دین کو نہ سمجھائیں گے۔ لوگ نہیں سمجھیں گے ۔ اگر بڑے ہی لوگ بیٹھے رہتے ، آج کی اصطلاحات سے نا واقف ہوتے تو دین نہ سمجھا سکتے ۔ اللہ نے انہیں اٹھا لیا ، ان کے خلف صالح پیدا کر دیے کہ وہ اس دور کے مطابق اسی رنگ میں سمجھائیں ، تو بہر حال موت جیسے فزع اکبر ہے ، جیسے عظیم ترین مصیبت ہے ، ویسے ہی عظیم ترین نعمت بھی ہے ،عظیم ترین انعام خداوندی بھی ہے ۔ موت کے بارے میں صرف ایک پہلو ہی سامنے نہ رہنا چاہیے ۔ ہائے افسوس ، ہائے افسوس کا، بلکہ خوشی کا بھی ایک پہلو ہے کہ یہ تحفہ مومن بھی ہے ۔ یہ طریقہ ہے ، راستہ ہے اللہ تعالے کوملنے کا۔ یہ طریقہ ہے دنیا کی آباد کاری کا۔ یہ طریقہ ہے نئے نئے علوم پیدا ہونے کا اور نئے نئے مربیوں کے پیدا ہونے کا ۔ اس لیے موت کا ایک پہلو نہیں کہ اس سے ڈریں، بلکہ موت میں پہلوخوشی کا بھی ہے کہ اس کا انتظار بھی کرے ، اس کی تمنا بھی دل میں رکھے ، تو اس لیے میں نے عرض کیا کہ لوگ موت کو ہر وقت وحشت ناک سمجھتے ہیں ، حالانکہ وہ وحشت کی چیز نہیں ہے، اگر تعلق مع اللہ مضبوط ہے تو اس سے بڑھ کر نعمت کوئی چیز نہیں ،اگر غفلت ہے تو بے شک موت عظیم ترین مصیبت بھی ہے ، اسی واسطے وہ کفار کے حق میں مصیبت ہے ، مومن کے حق میں مصیبت نہیں ۔
کافر کی تمنا
اور فرمایاگیا کہ کافر تمنا کرتا ہے کہ زندگی بڑھتی ہی رہے: ﴿وَلَتَجِدَنَّہُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَیٰ حَیَاةٍ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَکُوا یَوَدُّ أَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:96)
تم ان کفار کو دیکھو گے سب سے زیادہ حریص ہیں دنیا کی زندگی پر موت کے نام سے بھی موت آتی ہے انہیں اور مشرکین کو اگرہم ہزار برس کیعمر بھی دے دیں تو اسی کی تمنا کریں گے کہ ایک ہزار برس اور ہو، یہ حال اور خاصہ کفار کا ہے ۔ اور مومن کا یہ ہے کہ لمبی عمر ہو جائے تو اکتا جاتا ہے کہ اللہ جلدی بلا لیجیے کہ آپ سے مل لوں ۔
تو بالکل برعکس ہے قصہ، تو موت سے فقط ڈرتے رہنا ، گھبراتے رہنا غفلت کی علامت ہے اور یہ غفلت (عن الحق)کفر کا سرا ہے، اللہ بچائے ہر ایک کو ۔ اور حق تعالیٰ سے موت کی تمنا کرنا یہ بیداری اور تعلق مع اللہ کی علامت ہے۔ اس لیے موت کا ایک ہی پہلو نہیں کہ آدمی رنج کرتا ہے، بلکہ رنج کرنے سے روکا بھی ہے۔ طبعی رنج جتنا ہو اس کا مضائقہ نہیں، لیکن اس رنج کو پالنا، تازہ کرتے رہنا، اس کو شریعت نے پسند نہیں کیا اور فرمایا:
”لیس منا من ضرب الخدود وشق الجیوب․“
وہ ہم میں سے نہیں ہے جو موت کے غم میں بال نوچ ڈالے ، رخسارے پیٹ ڈالے ، چھاتی پیٹ ڈالے۔ اس لیے کہ موت آتی ہے بیدار کرنے کے لیے، نہ کہ غافل بنانے کے لیے کہ آدمی اسی میں الجھ کر رہ جائے۔ موت آئی ، انا للہ پڑھا ۔ اس کے بعد مرنے والے کے عمل کو جاری کیا ۔ اپنے عمل کو جاری کیا ۔ اپنی تیاری شروع کردی ، تو موت بیداری پیدا کرنے والی چیز ہے، نہ کہ غافل بنانے والی ۔ بیداری جس سے پیدا ہو وہ تو نعمت ہے ، مصیبت تھوڑا ہی ہے۔ مصیبت بنی ہے اس کے لیے جس پر غفلت طاری ہو۔
غفلت عن الحق کے بُرے آثار
غافل عن الحق کو موت کے نام سے بھی موت آتی ہے ، جو اللہ سے غافل ہو موت کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرے گا ، ہر وقت اسی مور میں رہے گا۔ پھر اس میں سرکشی ، تمرد اور بغاوت پیدا ہوگی ۔ مورخین لکھتے ہیں کہ فرعون کی عمر چار سو برس کی ہوئی ، اس عمر میں کبھی بھی بیمار نہیں ہوا، کبھی بھی کوئی مصیبت نہیں دیکھی ، تو کبر اور نخوت میں اپنے آپے سے باہر ہو گیا اور کہا : أَنا رَبُّکُمُ الْأَعلی – یعنی میں سب سے بڑا رب ہوں اور موسیٰ علیہ السلام کی تحقیر و تذلیل کے درپے ہو اور کہا:
﴿أَلَیْسَ لِی مُلْکُ مِصْرَ وَہَٰذِہِ الْأَنْہَارُ تَجْرِی مِن تَحْتِی أَفَلَا تُبْصِرُونَ، أَمْ أَنَا خَیْرٌ مِّنْ ہَٰذَا الَّذِی ہُوَ مَہِینٌ وَلَا یَکَادُ یُبِینُ﴾․(سورہٴ زخرف،آیت:52-51)
کیا تم نہیں دیکھتے کہ میرے پاؤں کے نیچے نہریں جاری ہیں ، مصر کی حکومت میرے ہاتھ میں ہے ۔ کرسیاں میری مضبوط ہیں اور میرے مخالفین کو تم عزت دار سمجھتے ہو، جس کے کپڑے بھی ٹھیک نہیں، یعنی موسیٰ علیہ السلام ، تو تو ہین کے درپے ہوا۔
یہ کیوں ہوا تو ہین کے در پے ؟ اس لیے کہ غفلت تھی اللہ سے ، تو غفلت والے کو موت کے نام سے موت آتی ہے ۔ اور ( فرعون کی ) جب واقعی موت آنے لگی اور لگا ڈوبنے تو بآواز بلند کہا میں ایمان لایا موسی علیہ السلام پر اور ان کے پروردگار پر، جس کو فرمایا گیا:
﴿آلْآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِینَ﴾․ (سورہ یونس، آیت:91)
اب ایمان لایا جب کہ عالم غیب منکشف ہو گیا۔ اور اب تک دنیا میں فساد برپا کرتا رہا ۔
بعض روایات میں ہے کہ جبرئیل علیہ السلام اس کے منھ میں ریت ٹھوس رہے تھے کہ ایسا نہ ہو یہ ایسے کلمات کہے، کہیں نجات ہی نہ ہو جائے۔ بدبخت بخشا جائے۔ ساری عمر تو مخلوق خدا کو پریشان کیا اور اب نجات پا جائے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ علیہم السلام پر غلبہ حال کا ہوتا۔ محبت کا یا غلبہ عداوت کا۔ بہر حال جب غفلت طاری رہتی ہے ، اللہ سے بری رہتا ہے۔ جب بری رہے گا، موت کو نا پسند کرے گا اور اگر غفلت کی بجائے بیداری اور قلب میں ذکر اللہ ہے تو اللہ سے قریب ہوگا اور موت کی تمنا بھی کرے گا۔ اور وہ ذریعہ بنے گا قرب خداوندی کا ۔ تو موت کا جہاں پہلو غم کا ہے وہاں خوشی کا بھی ہے ۔ جہاں دل بیٹھنے کا ذریعہ ہے، وہاں دل کے ابھرنے کا بھی ذریعہ ہے، اس واسطے دونوں پہلوؤں کی موت کے اندر رعایت رکھنی چاہیے۔ کوئی میت ہوگئی تو یہ نہیں کہ آدمی غم میں ڈوب کر آپے سے باہر نکل جائے۔ عقل سے بھی کام لے ، جو اس کے لیے نفع بخش ثابت ہو۔
میت پر جزع فزع
اگرغم میں بیٹھ کر آدمی نے بین کرنا شروع کیا تومیت کو کیا فائدہ پہنچا، بلکہ میت کو تکلیف پہنچتی ہے ۔ حدیث شریف میں ہے کہ:
”ان المیت لیعذب ببکاء اہلہ علیہ“جب بین کر کے لوگ روتے ہیں تو میت کو تکلیف پہنچتی ہے اور ایذا پہنچتی ہے۔ یوں کر کے رویا جائے کہ واجبلاہ ہائے تو تو پہاڑ تھا ، تو ملائکہ چوکا لگاتے ہیں کہ کیا واقعی آپ پہاڑ تھے؟ وہ کہتے ہیں و اشمساہ کہ تو تو سورج تھا ، ملائکہ چھوتے ہیں کہ کیا واقعی آپ سورج تھے ؟ اس سے اذیت پہنچتی ہے میت کو تو رونا ، بکا، نوحہ ، جزع ، فزع یہ میت کے لیے تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔
اسی واسطے حق تعالیٰ شانہ نے فرمایا کہ میت ہونے پر پہلا کام تو یہ ہے کہ صبر کرو اور انا للہ پڑھو ،دوسرا کام یہ ہے کہ اس کو نفع پہنچانے کی کوشش کرو، تو وہ رونے سے نہیں پہنچتا، ثواب پہنچانے سے پہنچتا ہے ۔ جس کے لیے ایصال ثواب ہو گا۔ اس کے لیے باعث خیر و برکت ہوگا۔ تو میت کے لیے ہمیں نافع ہونا چاہیے اور میت کا نام آئے تو اس کے لیے فائدہ کا سامان پہنچانا چاہیے۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے:” اذکروا محاسن موتاکم“ اپنے مرنے والوں کی خوبیاں یاد کرو اور لوگوں کے سامنے بیان کرو ، مرنے والوں کی برائیاں مت ذکر کرو ۔ اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔اگر الله نے بخش دیا ہے، تم اگربرائیاں کرتے ہو اس سے کیا ہوتا ہے؟ تمہاری زبان گندی ہو گی، وہ تو مغفور ہو گیا۔ جتنا ممکن ہو خو بیوں اور اچھائیوں کا ذکر کرو۔ تاکہ لوگوں کواچھا کام کرنے کی رغبت پیدا ہو۔ بہر حال میت ہونے کے بعد دوسرا کام یہی ہے کہ طبعی رنج ہوتا ہے ۔ اس سے اللہ نے نہیں روکا۔ لیکن عقلا روک دیا ہے کہ غم کو پالنے کے لیے مت بڑھاؤ ۔
میت پر ضرورت سے زیادہ غم کر نا رسمی ہوتا ہے، حقیقی نہیں ۔ وہ رسمی غم ہوتا ہے جس کا زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ جب کوئی بڑا آدمی مر جاتا تو وصیت کر کے جاتا تھا کہ مجھے چھ مہینے رویا جائے ، مجھے برس تک رویا جائے تو باندیاں کرائے پر رکھتے کہ انہیں رونے کی مشق ہوتی ہے ، جہاں گردن جھکائی اور ٹپ ٹپ آنسو گرنے شروع ہو گئے ۔ تو کرایہ پر جہاں رونے والی رکھی جاتی ہوں، جہاں انہوں نے دیکھا کہ کوئی تعزیت کے لیے آیا یا کوئی نیا آدمی آیا وہاں انہوں نے گھیرا بنایا اور ہا ہا شروع کی کہ واجبلاہ – واشمساہ و اقمراہ – ہائے تو تو پہاڑ جیساتھاوغیرہ، بیٹھی رو رہی ہیں ۔ تو راہ گیر کہتے تھے کہ کوئی بڑا آدمی مر گیا ہے ،جو چھ مہینے گزر گئے اور اب تک رویا جا رہا ہے ، تو یہ علامت تھیبڑے ہونے کی۔
ظاہر بات ہے کہ یہ رونا کوئی حقیقی رونا تھوڑا ہی تھا۔ یہ تورسمی اور بناوٹی رونا تھا۔ اسلام نے تصنع اور بناوٹ نہیں سکھلائی ۔ حقیقت بتلائی ہے ، کہ محض تصنع اور بناوٹ سے کوئی کام کرنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا طبعی غم ہو، اس کا مضائقہ نہیں، لیکن عقلی طور پرغم کو پالنا اور بڑھاتے رہنا زمانہ جاہلیت کی رسم تھی۔ اسلام نے یہ رسم نہیں رکھی۔ اس نے تو یہ سیدھی بات بتلادی کہ جب کوئی انتقال کرے تو صبر جس سے آئے وہ پڑھو :﴿إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ﴾․
آیت ِاسترجاع میں عقلاً وطبعاً صبر کی تعلیم ہے
اس آیت میں صبر اور تسلی کا پورا سامان موجود ہے۔ جب آدمی نے یوں کہا انا للہ ہم سب اللہ کی ملک ہیں۔ اس سے عقلی طور پر صبر آگیا کہ جب ہم اللہ کی ملک ہیں تو اپنی مملوک میں وہ جو چاہے تصرف کرے۔ چاہے اٹھائے ، چاہے دنیا میں زندہ رکھے، ہم کون ہیں اس میں دخل دینے والے؟ اس سے صبر آجائے گا عقلی طور پر کہ ہم مملوک ہیں اور مالک کو اختیار ہے ، اپنی مملوک میں جو چاہے کرے۔ مگرطبعاًابھی تک گھٹن موجو دتھی، طبعی رنج بھی ہوا تھا ، تو دوسرے جملے میں اس کا علاج بتلایا ،فرمایا:﴿وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ﴾کہ جب رَاجِعُونَ جب ہم بھی وہیں جائیں گے۔ ملاقات ہو جائے گی۔ ہمیشہ کے لیے تھوڑا ہی جدائی ہوتی ہے ، توإِنَّا لِلَّہِ کے لفظ سے عقلاً اور ﴿وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ﴾ سے طبعاً بھی صبر آجاتا ہے ۔ دعا اس لیے بتلائی گئی، تاکہ صبر و تحمل کے ساتھ اپنے عمل میں لگیں ، فکر آخرت میں لگیں ، غم میں نہ گھلیں بیٹھ کر …(فارسی میں عرفی کا ایک شعر جس کا ترجمہ یہ ہے)
اگر رونے سے مرنے والا واپس آجایا کرتا تو ہم ہزار برس رو لیا کرتے ،مگروہ واپس آنے والا نہیں ہے۔ جو گیا سو گیا ۔ اب اس جہان میں دوبارہ آنے والا نہیں ہے، اب ملاقات ہوگی تواس جہان میں ہوگی۔ یہ جہاں بھی ختم ہوجائے گا۔
مومن اور کافر کی موت کا موازنہ
مومن کو تو ہر وقت آس لگی ہوتی ہے کہ اپنے عزیزوں سے ملوں گا ، دوستوں سے ملوں گا اور فلاں فلاں سے ملاقات ہو گی۔ کا فر جس نے ساری زندگی اسی دنیا کو سمجھا ہے، مایوس وہ ہے مسلمان نہیں۔ اس لیے کہ اسے کوئی تمنا نہیں ہے تو بہر حال اسی حکم ﴿إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ﴾سے صبر آجاتا ہے۔ تو میں نے عرض کیا تھا کہ اس وقت نہ کوئی جلسہ تھا، نہ کوئی وعظ کہنا مقصود تھا، نہ کوئی تقریب مقصود تھی ، تعزیت مقصود تھی اور تعزیت ہنگاموں کو نہیں چاہتی۔ یہ ہمارے مولانا( محمد شریف صاحب مہتمم مدرسہ خیر المدارس ملتان ) نے بیٹھے بٹھائے، خواہ مخواہ آپ لوگوں کو تکلیف دی ۔ میں تعزیت کے لیے حاضر ہوا تھا تو تعزیت کر کے واپس ہو جاتا۔ لیکن خیر بہر حال جب آپ حضرات تشریف لے آئے اور آپ کا کرم ہوا اور ہماری سعادت ہوئی کہ اتنے بھائیوں کی زیارت نصیب ہوگئی ، اتنے بھائیوں سے ملنا ہو گیا ۔تو مجمع کی ہیت ایسی بن گئی کہ آپ سامنے بیٹھ گئے، مجھے اس کرسی پربٹھلا دیا اور سامنے لاؤڈ اسپیکر رکھ دیا، تو خواہ مخواہ بولنا ہی پڑتا ہے۔ یہ ہیئت مقتضی ہوئی کہ کچھ نہ کچھ کہا جائے۔ اس لیے میں نے وہی چند کلمے کہے جو آنے کے مقصد سے متعلق تھے اور وہ مقصد تھا تعزیت ۔ تو تعزیت ہی کے سلسلے میں کچھ موت کا ذکر ، کچھ موت کے پہلوؤں کا ذکر ، کچھ مولانا( خیر محمد صاحب) مرحوم کی خیرو خوبی کا ذکر ، کچھ ان کے پس ماندگان کا ذکر اور ان کے خلفاء کا ذکر ، یہی چیزیں تعزیت میں آسکتی تھیں، اس لیے چند جملے عرض کیے گئے، حق تعالیٰ شانہ صبر کی توفیق دے اور مولانا مرحوم کا نعم البدل ہمیں زیادہ سے زیادہ عطافرمادے، اور ان کا جو کام تھا حق تعالیٰ اس کو جاری وساری رکھے۔
اللَّہُمَّ رَبَّنَا رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّکَ أَنتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ
ضروری نوٹ
ہمارے ہاں یہ بات ہمارے قومی مزاج میں داخل ہو چکی ہے کہ ہر نو واردسے مصافحہ کو ضروری خیال کرتے ہیں اور اس میں دوسرے کی راحت کا خیال پیش نظر نہیں رکھا جاتا ، حالاں کہ نظم وضبط مسلمان کا امتیازی نشان تھا۔ حضرت حکیم الاسلام رحمة الله علیہ تقریر فرما چکے تو ایک اژدہام اسٹیج کی طرف امڈ آیا اور مصافحہ کی کوشش میں ادب واحترام او رایذاء مسلم کابھی بالکل پاس نہ رہا، بلکہ ایک دھینگامشتی کا عالم تھا ،جو نہایت قابل افسوس تھا اورخصوصاً ایسے مجمع میں جہاں علمائے کرام اور مدارس عربیہ کے طلبائے کرام کی کثیر تعداد تھی، لیکن بایں ہمہ وہ سب کچھ ہوا جس کی توقع کم از کم دینی تعلیم یافتہ اصحاب سے نہ تھی ۔ حضرت قاری صاحب مدظلہ العالی نے مجمع کی اس پراگندہ حالت کو دیکھ کر نظم وضبط کی تعلیم فرمائی۔ اس کے باوجود حضرت قاری صاحب مدظلہ العالی کو اسٹیج سے اپنی رہائش تک رسائی میں انتہائی دقت اوردشواری پیش آئی۔ جلسہ کے منتظمین مجمع عام ہونے کی وجہ سے اپنی اپنی جگہ معذور تھے۔ یہ چند کلمات بھی جو کہ ہمارے قومی مزاج کی اصلاح کے لیے آپ نے ارشاد فرمائے تھے ، ذیل میں رقم کیے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کو عمل کی توفیق بخشے ۔ (از مرتب غفر لہ)
بحیثیت مسلمان ہونے کے آداب شرعیہ اختیار کریں ۔ آپ کے اندر نظم وضبط ہونا چاہیے ۔ مصافحہ باعث برکت چیز ہے اور بہت خیر کی چیز ہے۔ اس پر اجر کے وعدے کیے گئے ہیں۔ فرمایا گیا ہے کہ دو مسلمان جب مصافحہ کرتے ہیں اور دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ آجائے تو ہاتھ جدا نہیں کر پاتے کہ دونوں کے گناہوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ تو مصافحہ بڑی باعث برکت چیز ہے، مگر ہر اطاعت کے اندر یہ شرط ہے کہ دوسرے کو اذیت نہ پہنچے، تکلیف کا سامان نہ ہو ، ایذاء رسانی حرام ہے اور مصافحہ کر نا فرض نہیں۔ ایک مستحب کے لیے ایک مکروہ چیز کا ارتکاب کرے یہ غلط بات ہے۔ لوگ جو مصافحہ کے لیے دوڑتے ہیں، یہ طریقہ آداب اسلامیہ کا نہیں ہے۔ اسے بالکل ترک کر دیا جائے اور پھر اس طریق سے ہاتھا دھاپی ، جس سے مصافحہ کرتے ہیں وہ بھی عاجز آجاتے ہیں ۔ یہاں ہم پاکستان میں عاجز ہوتے ، تو قاعدے سے تو ہم پولیس کی حراست میں تھے اور ان کی نگرانی میں تھے اور اب قوم کی حراست میں ہو گئے کہ جب تک حلقہ نہ بنے بھگڑ ڈھیر نہیں کی جا سکتی ۔ یہ کیا واہیات بات ہے ؟ یہ مصافحہ ہے؟ یہ تو ایذاء پہنچانا ہے ۔ اس لیے کوئی صاحب مصافحہ کی تکلیف کریں، جب میں اٹھوں تو راستہ دے دیں۔ یہ مصافحہ خیر و برکت نہیں ہو گا، جس میں اذیت پہنچے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے:”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ․“ مسلمان وہ ہے جس کی زبان سے ، جس کے ہاتھ سے دوسرے مسلمان کو تکلیف نہ ہو ۔ تو یہ ہاتھ سے تکلیف پہنچانا ہے ۔
آپ حج کو جاتے ہیں ۔ حجر اسود کا بوسہ یا تو مستحب ہے یا واجبات میں سے ہے، مگر جب دوسرے کو تکلیف پہنچے تو شریعت نے اجازت دی ہے کہ اس کی طرف ہا تھ اٹھاکر اس کوچوم لے ، یہ مصافحہ ہوگیا۔ ہاتھ بھی نہ اٹھاسکو وکڑی سے اشارہ کرو یہ کافی ہو گیا۔ وہاں تو مصافحہ واجب تھا، اس کے لیے بدل رکھا اور یہاں تو واجب بھی نہیں ہے۔ اس واسطے خواہ مخواہ دوسروں کو اذیت پہنچانا ، آپا دھاپی اختیار کرنا ، اجر تو اجر اس پر تو وبال ہوگا۔ اس لیے کوئی صاحب مصافحہ کا ارادہ نہ کریں۔ اور میں ویسے بھی کم زور ہوں، ضعیف اور بیمار ہوں ، خود کو تحمل نہیں کہ ایک ہزارہ آدمیوں سے مصافحہ کروں۔ ہر ایک تو ایک دفعہ کرے گا، مجھے ایک ہزار مرتبہ ہاتھ اٹھانے پڑیں گے۔ مجھ میں یہ طاقت نہیں ہے، لہٰذا بیٹھیں رہیں اور جب اٹھوں تو راستہ دے دیجیے۔