فرضیت حج

idara letterhead universal2c

فرضیت حج

مولانا قاری سعید احمد صاحب

الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، وَالصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَیّدِ الْمُرْسَلِیْنَ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ وَأَصْحَابِہ أَجْمَعِیْنَ

حج مثل نماز، روزہ اور زکوة کے اسلام کا ایک اہم رکن اور فرض عین ہے، تمام عمر میں ایک مرتبہ ہر اس شخص پر فرض ہے جس کو حق تعالی نے اتنا مال دیا ہو کہ اپنے وطن سے مکہ مکرمہ تک آنے جانے پر قادر ہو اور اپنے اہل و عیال کے مصارف واپسی تک برداشت کر سکتا ہو اور جو شرائط حج کی ہیں وہ سب اس میں موجود ہوں، جن کا بیان آئندہ آئے گا، حج کی فرضیت، قرآن، حدیث،اجماع اور عقل سے ثابت ہے۔

حج کی فرضیت قرآن سے

﴿وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ﴾(آل عمران: 97)

حج کے فرض ہونے کا ذکر مختلف آیات (قولہ تعالی: ﴿وَ أذِّنَ فِی النَّاسِ بِالْحَج﴾ حج: 27، اور ﴿الیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ﴾ مائدہ:3) میں موجود ہے، مگر آیت ذیل سب سے صاف صریح ہے:

”اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہے، جس شخص کو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو اور جس نے انکار کیا تو اللہ تعالی بے شک تمام جہانوں سے بے نیاز ہے“۔

اس آیت شریفہ میں حج کی فرضیت کے ساتھ خلوص نیت اور شرطِ فرضیت، یعنی استطاعت کو بھی بیان کیا گیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس پر بھی تنبیہ کی گئی ہے کہ جو حج کی فرضیت کا انکار کرے وہ کافر ہے یا با وجود حج پر قدرت رکھنے کے حج نہ کرے اور مر جائے تو وہ کفار کے مشابہ ہے، چناں چہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص ایسی سواری اور زادِراہ کا مالک ہے کہ اس کو بیت اللہ تک پہنچا سکتی ہے اور اس نے پھر بھی حج نہیں کیا تو اس کے یہودی یا نصرانی ہو کر مرجانے میں کچھ فرق نہیں۔ اور یہ اس لیے کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیلًا﴾․(آل عمران:79)

حج کی فرضیت حدیث شریف سے

بہت سی احادیث میں حج کی فرضیت کا ذکر ہے، لیکن ہم صرف تین روایتوں پر اکتفا کرتے ہیں:

2- عَنْ أَبِی سَعِیدٍ رَضِی اللّٰہ عَنہ خَطَبَنَا رَسُولُ اللہِ صلی اللّٰہ فَقَالَ: إِنَّ اللّٰہَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْکُمُ الْحَجَّ، فَحُجُّوا․ (رواہ مسلم)

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے وعظ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے، پس تم حج کرو۔

2- عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِی اللّٰہ عَنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ: بُنِیَ الْإِسْلَامِ عَلَی خَمْسٍ: شَہَادَةِ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ وَإِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَإِیتَاءِ الزَّکَاةِ وَحَجّ الْبَیْتِ وَصَوْمِ رَمَضَانَ․ (رواہ مسلم والبخاري)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: (1) اس امر کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں اور (2) نماز پڑھنا اور (3) زکوة دینا اور (4) بیت اللہ کا حج کرنا (5) رمضان کے روزے رکھنا۔

اس روایت میں تصریح ہے کہ اسلام کے پانچ رکن ہیں تو جو شخص ان میں سے کسی رکن کو ترک کرتا ہے وہ قصر اسلام کی عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے۔

3- عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ رَضِی اللّٰہ عنہما، قَالَ: إِنَّ امْرَأَةً مِّنْ خَثْعَمَ قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إِنَّ فَرِیضَةَ اللّٰہِ علی عبادِہِ فِي الْحَجِ أدرکتْ أبي شیخًا کبیرًا لا یثبت علی الراحلة، أفأحج عنہ؟ قال: نَعَمْ، وَذَلِکَ فِي حَجَّةِ الْوِدَاع․ (بخاري، مسلم)

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ کا فریضہ حج جو بندوں پر ہے وہ میرے باپ پر بڑھاپے کی حالت میں فرض ہو گیا، وہ سواری پر نہیں بیٹھ سکتا، تو کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ اور یہ حجة الوداع کا واقعہ ہے۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حج فرض ہے اور جس پر حج فرض ہو اگر وہ کسی عذر کی وجہ سے خود نہ کر سکے تو کسی شخص سے اپنی طرف سے حج کرائے۔

حج کی فرضیت اجماع سے

ملک العلماء علامہ کا سانی رحمة اللہ علیہ نے ”بدائع“ میں اور شیخ سندھی رحمة اللہ علیہ نے ”لباب المناسک“ میں حج کی فرضیت پر اجماع نقل کیا ہے:

وأما الإجماع فلأن الأمة أجمعت علی فرضیتہ․ (بدائع:2/18)

تمام امت نے حج کی فرضیت پر اجماع کیا ہے۔

الحج فرض مرة بالإجماع کل من استجمعت فیہ الشرائط․ (لباب: 6)

حج ایک مرتبہ بالا جماع ہر اس شخص پر فرض کیا گیا ہے جس میں حج کی شرائط پائی جاتی ہیں۔

حج کی فرضیت عقلی طریق سے

جس قدر عبادات ہیں سب کا مقصد اظہار عبودیت اور شکر نعمت ہے اور حج میں یہ دونوں باتیں پوری طرح سے پائی جاتی ہیں، کیوں کہ اظہار عبودیت سے مقصود اپنی عاجزی اور انکساری کا اظہار ہے اور حاجی کی حالت پر، بالخصوص احرام کے وقت اگر غور کیا جائے تو انتہائی تذلل ظاہر ہوتا ہے، اس کی ہر حرکت اور سکون سے عاجزی ظاہر ہوتی ہے۔ گھر بار، عزیز، قریب، مال و دولت سب کو چھوڑ کر، بحری اور بری سفر کی تکالیف، بھوک و پیاس اور دوران رأس (سر چکرانا) وامتلا (متلی کی کیفیت ہونا) کی مصیبت کو برداشت کرتا ہوا، پراگندہ حال دیارِ محبوب کی طرف مجنونانہ وار دوڑا چلا جاتا ہے۔ آرائش و زیبائش کے لباس کو چھوڑ کر صرف ایک لنگی اور چادر لپیٹتا ہے، گویا کفن ساتھ لے لیا ہے اور درِمحبوب پر جان دینے کے لیے بے تاب ہے۔
چو رسی بکوئے دلبر بسیار جان مضطر
کہ مبادا بارِ دیگر نہ رسی بدیں تمنا

بال و ناخن بڑھے ہوئے ہیں، میل و کچیل بدن پر جما ہوا ہے اور زبان پر لبیک لبیک(حاضر ہوں، حاضر ہوں) ہے۔ گویا محبوب آواز دے رہا ہے اور یہ نہایت محویت اور شوق کے ساتھ زبان حال وقال سے جواب دے رہا ہے۔

جب محبوب کے دربار میں پہنچتا ہے تو کبھی اس کے در و دیوار کو چومتا ہے (یعنی حجر اسود کو بوسہ دیتا ہے) کبھی اس کے چاروں طرف گھومتا ہے، طواف کرتا ہے اور کہتا ہے:

اَمُرَّ عَلَی الدِّیَارِ دِیَارِ لَیْلَی
أُقَبِّلُ ذَا الْجِدَارَ وَذَا الْجِدَارَا
وَمَا حُبُّ الدِّیَارِ شغفْنَ قَلْبِی
وَلَکِن حُبُّ مَنْ سَکَن الدِّیَارَا

(جب دیار لیلیٰ پر گزرتا ہوں تو کبھی اس دیوار کو چومتا ہوں کبھی اس دیوار کو، یہ نہ سمجھو کہ یہ میرے دل کو اس دیار کی محبت نے بے چین وبیتاب بنا دیا ہے، بل کہ میرے دل کو اس کے رہنے والے کی محبت نے بے چین کیا ہے۔)

جب یہ دیکھتا ہے کہ اس ناچیز کو اس سعادت عظمی سے مشرف فرمایا گیا تو فوراً سجدہ شکر بجا لاتا ہے، (یعنی دوگانہ طواف ادا کرتا ہے اور اپنی غلامی کا اظہار اور خدا کی معبودیت کا اقرار کرتا ہے) پس جب کہ حج اظہار عبودیت کا اعلیٰ ذریعہ ہے اور اظہار عبودیت واجب ہے تو حج بھی واجب ہے۔

نیز حج میں شکر نعمت بھی ہے، کیوں کہ عبادت کی دو قسمیں ہیں: مالی، جس میں مال خرچ کرنا پڑتا ہے، جیسے زکوة اور بدنی مشقت ہو، جیسے نماز روزہ۔ مگرحج میں دونوں باتیں جمع ہیں، مال بھی صرف کرنا پڑتا ہے اور مصائب و متاعب بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں، اسی واسطے وجوبِ حج کے لیے مال اور صحت شرط ہے، گویا حج میں دونوں نعمتوں کا شکر ادا کیا جاتا ہے، کیوں کہ شکرِ نعمت یہ ہے کہ اس کو منعم کی اطاعت میں صرف کیا جائے اور شکرِ نعمت عقلاً، شرعاً، عرفاً ہر طرح فرض ہے تو حج بھی فرض ہے۔(بدائع)

حج کی تاکید اور تارک کے لیے وعید

جب حج فرض ہو جائے تو جہاں تک ممکن ہو بہت جلد ادا کیا جائے اور تاخیر نہ کی جائے، جو شخص با وجود قدرت واستطاعت اور شرائط کے پائے جانے کے حج نہ کرے اس کے لیے حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔

زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، اس لیے فرض ہوتے ہی ادا کرنا چاہیے۔

1- عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ رضی اللّٰہ عنہما قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْیَتَعَجَّلْ․ (أبوداود)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہے اس کو جلدی کرنی چاہیے۔

اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کرنے والوں کو، جن پر حج فرض ہوچکا ہے جلد حج کرنے کی ہدایت فرمائی ہے، کیوں کہ بعض اوقات تاخیر کرنے سے موانع اور عوارض پیش آ جاتے ہیں اور انسان اس سعادتِ کبریٰ سے محروم رہ جاتا ہے۔

2- عَنْ أَبِيْ أُمَامَةَرضی اللّٰہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مَنْ لَمْ یَمْنَعْہُ مِنَ الحَجِّ حَاجَةٌ ظَاہِرَةٌ وَسُلْطَانٌ جَائِرٌ أَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ فَمَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَاءَ یَہُودِیًا أَوْ نَصْرَانِیًا․ (رواہ الدارمي)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو کسی ضروری حاجت یا ظالم بادشاہ یا مرض شدید نے حج سے نہیں روکا اور اس نے حج نہیں کیا اور مر گیا تو وہ چاہے یہودی ہو کر مرنے یا نصرانی ہو کر مرے۔

خدا کی پناہ! کس قدر سخت وعید ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو جن پر حج فرض ہو چکا ہے اور دنیوی اغراض یا سستی کی وجہ سے بلاشرعی مجبوری کے حج ادا نہیں کرتے سوءِ خاتمہ کی تنبیہ فرما رہے ہیں، کیوں کہ باوجود شرائط کے پائے جانے کے حج نہ کرنا، اگر حج کو فرض نہ ماننے کی وجہ سے ہے تو اس کا کفر ہونا ظاہر ہے اور اگر عقیدہ فرضیت کا ہے اور کوئی شرعی عذر نہیں ہے لیکن سستی اور دنیوی ضروریات کی وجہ سے حج کو نہیں جاتا تو پھر یہ شخص یہود ونصاریٰ کے مشابہ ہے اور حج نہ کرنے کے لحاظ سے انہی جیسا ہے۔

اللَّہُمَّ احْفَظْنَا مِنْ سُوءِ الْخَاتِمَةِ وَوَفِّقْنَا لِأَدَاءِ فَرَائِضِکَ کَمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی․

فضائل حج

حج کی خوبیاں اور فضیلتیں بے شمار ہیں، اس جگہ صرف چند احادیث، جن میں اجمالی طور پر حج کی فضیلت کا ذکر ہے، بیان کی جاتی ہیں، تاکہ حج کے فضائل سے آگاہی ہو اور ان فضائل کو دیکھ کر قلب میں حج کا داعیہ پیدا ہو اور ادائے فریضہ میں اعانت کا باعث ہو، کیوں کہ کسی چیز کی فضیلت اور فائدہ جب تک معلوم نہ ہو اس وقت تک اس کام میں پوری رغبت نہیں ہوتی اور کام کرنا مشکل ہوتا ہے اور جب اس کا فائدہ معلوم ہو جاتا ہے تو اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور مشکل سے مشکل کام سہل ہو جاتا ہے۔

1- عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أَيُّ الْعَمَلِ أفضَلُ؟ قَالَ: الْإِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ، قِیلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: الْجِہَادُ فِي سَبِیْلِ اللّٰہِ، قِیْلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: حَجٌّ مُبْرُورٌ․ (بخاري ومسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا، (پھر) عرض کیا گیا: اس کے بعد کونسا؟ فرمایا: اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا، (پھر) عرض کیا گیا: اس کے بعد کون سا؟ فرمایا: حج مقبول۔

2- وعنہ قال: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: العمرة إلی العمرة کفارة لما بینہما، والحج المبرور لیس لہ جزاء إلا الجنة․ (بخاري ومسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو ان کے درمیان میں سرزد ہوں اور حج مبرور کی جزا نہیں ہے مگر جنت۔

ان دونوں حدیثوں سے حج کی فضیلت ظاہر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاجی کو جنت کی خوش خبری دی ہے۔

حج مبرور

وہ حج ہے جس میں کوئی گناہ نہ ہو اور بعض کا قول ہے کہ مقبول حج کا نام حج مبرور ہے اور بعض علما کہتے ہیں کہ جس میں ریا اور نام و نمود نہ ہو وہ حج مبرور ہے اور بعض کہتے ہیں کہ جس کے بعد گناہ نہ ہو۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حج مبرور یہ ہے کہ حج کرنے کے بعد دنیا سے بے توجہی اور آخرت کی طرف رغبت پیدا ہو جائے۔

3- وَعَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِ وَلَدَتْہُ أُمُّہُ․ (بخاري ومسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے محض اللہ کی خوش نودی کے لیے حج کیا اور جماع اور اس کے تذکرے اور گناہ سے محفوظ رہا تو وہ (پاک ہو کر) ایسا لوٹتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز (پاک) تھا۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر حج خلوص کے ساتھ کیا جائے اور احرام باندھنے کے وقت سے حج کے ممنوعات سے اجتناب کیا جائے اور کوئی گناہ نہ کیا جائے تو اس سے انسان کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں، مگر کبیرہ گناہ کے معاف ہونے میں اختلاف ہے۔

(الحج یہدم ما کان قبلہ من الصغائر وکذا الکبائر دون الحقوق کالدَّین والمغصوب وقضاء الصلاة ونحوہا، نعم، ما یتعلق بہا من الکبائر کالمطل وفعل الغصب وتاخیر الصلاة تسقط، وأما نفس الحقوق فلا قائل بسقوطہا عند القدرة علیہا بعد الحج، وتمام تحقیق المسألة في الغنیة، وفي ”اللباب“: الحج یہدم ما کان قبلہ من الصغائر واختلف في الکبائر․ ص 282․)

حج ایک فریضہ ہے اور اس کی ادائیگی ہمارے ذمہ ہے لیکن یہ حق اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ نہ صرف ہم کو فریضہ سے فارغ الذمہ قرار دے دیا جاتا ہے، بلکہ ساتھ ساتھ ہمارے گناہ بھی بخش دیے جاتے ہیں اور دائمی سرور وراحت سے نوازا جاتا ہے اور جنت کی خوش خبری صادق وصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے دی جاتی ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو حاجی سوار ہو کر حج کرتا ہے اس کی سواری کے ہر قدم پر ستر نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جو حج پیدل کرتا ہے اس کے ہر قدم پر سات سو نیکیاں حرم کی نیکیوں سے لکھی جاتی ہیں۔ آپ سے دریافت کیا گیا کہ حرم کی نیکیاں کتنی ہوتی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔( جمع الفوائد بحوالہ بزار و کبیر واوسط)

اللہ اکبر! باری تعالی کا کس قدر فضل واحسان ہے کہ اس قدر نیکیاں اور ثواب عطا فرماتے ہیں، صحابہ اور تابعین باوجود اپنی مشغولیت کے کثرت سے حج کرتے تھے، بعض تو ہر سال حج کرتے تھے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ نے پچپن حج کیے ہیں۔(در مختار)

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس شخص کو میں نے بدن کی صحت اور رزق میں فراخی دی اور ہر چار سال میں اس نے میرے پاس حاضری نہ دی تو وہ محروم ہے۔(جمع الفوائد)

معلوم ہوا کہ مال داروں کو حج نفل بھی کثرت سے کرنا چاہیے بشرطیکہ کہ دوسرے فرائض میں کوتاہی نہ ہو۔

حج کی مصالح اور حکمتیں

موجودہ زمانہ میں باوجود کثرت جہل کے علم کا دعویٰ ہے اور ہر شخص اپنی عقل پر نازاں ہے، جو چیز سمجھ میں نہ آئے وہ غلط، جس چیز میں ہم کو کوئی مصلحت معلوم نہ ہو وہ لغو اور بیکار اور تو اور احکامِ شرعیہ قطعیہ میں بھی رائے زنی کی جاتی ہے، نہ صرف ان کی مصالح پر بس کیا جاتا ہے بلکہ عِلَلْ دریافت کی جاتی ہیں اور یہ مرض ایسا عام ہو گیا ہے کہ ہر شخص احکام شرعیہ کی علت دریافت کرتا ہے، بلکہ اس کے بغیر تسلی ہی نہیں ہوتی۔ یہ سب بددینی اور خدائی احکام کی عظمت سے نا واقفیت کی بنا پر ہے، ورنہ ہمارا کیا منھ ہے کہ ہم اس خالق و مالک کے احکام کی علل دریافت کریں، وہ مالک ہے جو چاہے حکم کرے، ہم کو یہ حق نہیں کہ ہم لفظ ”کیوں“ زباں پر لائیں، ارشاد خداوندی ہے کہ:

﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یَسْئَلُونَ﴾ (انبیاء:23) (حق تعالیٰ کے فعل سے سوال نہیں کیا جاسکتا اور لوگ جو کچھ کریں گے ان سے سوال کیا جائے گا۔)

ہمارا تو یہ کام ہونا چاہیے:
زبان تازہ کردن باقرارِ تو
نے انگیختن علت ازکارِ تو

اس کے علاوہ یہ سوال کہ اس حکم میں کیا مصلحت اور اس کی کیا علت ہے؟ خود مقنّن سے ہو سکتا ہے، علما سے نہیں ہو سکتا، کیوں کہ علما قوانین کے ناقل ہیں، خود مقنّن(قانون بنانے والا) نہیں، لیکن بایں ہمہ یہ نہیں کہ احکام شرعیہ حکمت اور مصلحت سے خالی ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص ان کو سمجھ جائے۔

حکمائے اسلام نے سب احکام کی مصالح بیان کی ہیں اور اس موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، لیکن یہ خوب ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ یہ سب مصالح مدارِا حکام نہیں۔ اگر یہ مصالح نہ بھی ہوں تب بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم خدائی حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں اور سمجھیں کہ حق تعالیٰ حکیم ہیں اور فِعْلُ الْحَکِیمِ لَا یَخْلُو عَنِ الْحِکْمَة ،(حکیم کا فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔(حجة اللہ البالغہ)) یہ ہماری عقل کی کوتاہی ہے کہ ہم ان کے اسرار غامضہ (گہرے راز) تک نہیں پہنچ سکتے۔ چوں کہ ہماری عقل اور علم دونوں ناقص ہیں اور رہ نمائی کے لیے کافی نہیں، اسی لیے انبیاء کو بھیجا گیا، کتابیں نازل کی گئیں، تاکہ احکام الہی بندوں کو معلوم ہوں۔ حکمائے اسلام نے حج میں بہت سی حکمتیں بیان کی ہیں اور ہر فعل کے اسرار علیحدہ ذکر کیے ہیں، جو اپنے مقام پر مذکور ہیں۔ ہم صرف اجمالی طریق سے حج کی چند حکمتیں ذکر کرتے ہیں، ممکن ہے کہ ہر چیز کا فلسفہ تلاش کرنے والوں کے لیے کچھ موجب تسکین ہو:

1۔ ہر زمانہ، ہر قوم اور ہر ملت میں یہ دستور رہا ہے اور ہے کہ اس کے پیرو کسی خاص مقدس مقام پر مجتمع ہو کر تبادلہٴ خیالات کرتے ہیں، ہر ایک دوسرے سے استفادہ کرتا ہے، اپنی قوت و شوکت کا اظہار کیا جاتا ہے اور اپنے شعائر کی تعظیم کی جاتی ہے، اس لیے امت محمدیہ کے لیے بھی بیت اللہ کو (جو معظم شعائر اسلام سے ہے) مقرر کیا گیا، تا کہ ہر سال اطرافِ عالم سے مسلمان وہاں اکٹھے ہوں اور باہمی استفادے کے ساتھ اسلامی شان وشوکت اور بیت اللہ کی عظمت کا مظاہرہ کیا جائے۔

2۔ حج باہمی تعارف اور اتفاق و اتحاد کے لیے ایک بہترین ذریعہ ہے، کیوں کہ حج کے موقع پر ملتِ اسلامیہ کا ایک عظیم الشان اور بے نظیر اجتماع ہوتا ہے۔ مشرق، مغرب، جنوب، شمال سے لوگ آتے ہیں اور باہمی الفت و محبت و تعارف حاصل کرتے ہیں، جس کو آج کل کی اصطلاح میں تمام عالم کی اسلامی کانفرنس کہنا چاہیے، یہ ایسا عظیم الشان اجتماع ہے کہ دنیا میں کہیں اس کی نظیر نہیں ہے۔

3۔ حج کوئی نئی چیز نہیں ہے، قدیم زمانے سے حج ہوتا چلا آیا ہے۔ سب سے پہلے جب حضرت آدم علیہ السلام نے ہندوستان سے جا کر حج کیا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ فرشتے اس بیت اللہ کا طواف تم سے سات ہزار سال پہلے سے کرتے ہیں۔ تمام عالم میں ہندوستان کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ پہلا حج ہندوستان سے کیا گیا ہے۔ نقل کیا جاتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ہندوستان سے پیدل چل کر چالیس حج کیے، تمام انبیاء علیہم السلام نے حج کیا ہے۔

زمانہٴ جاہلیت میں بھی لوگ حج کرتے تھے، مگر بہت سی چیزیں تکبر، نخوت اور جہالت کی اپنے قیاسات فاسدہ سے اختراع کر کے شامل کر لی تھیں۔ شریعت محمدیہ میں ان کی اصلاح کی گئی ہے اور اصل عبادت کو باقی رکھا گیا ہے، تاکہ یہ قدیم عبادت باقی رہے اور شعائر الہیہ کی عظمت اور شوکت کا اظہار ہوتا رہے۔

4۔ جن مقامات پر حج کے افعال ادا کیے جاتے ہیں وہ خاص مقاماتِ مقدسہ ہیں، جہاں انبیا اور رسولوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت بے کراں اور فیوض غیر متناہیہ (لامحدود احسانات) کا افاضہ ہوا تھا۔ جب حاجی وہاں جائے گا تو وہ سب حالات یاد آئیں گے اور ان کے واقعات کی یاد تازہ ہو جائے گی اور دل میں ان کے اتباع کا شوق اور ولولہ پیدا ہو گا اور جب ان کا اتباع کرے گا اور ان افعال کو ادا کرے گا تو اس پر بھی باری تعالیٰ کی رحمت نازل ہوگی۔

5۔ انبیائے کرام کے واقعات کا استحضار اور ان کے اخلاق واوصاف اور صبر ورضا کا نقشہ جب سامنے ہوگا تو بے اختیار ان کی اتباع کا داعیہ پیدا ہوگا، اس لیے حج تزکیہٴ نفس اور تہذیب اخلاق کا بہترین ذریعہ ہے۔

6۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کرنے والوں کے لیے حج ایک امتحان ہے، جو سچے عاشق ہیں وہ سب چیزوں کو خیر باد کہہ کر مستانہ وار نکل کھڑے ہوتے ہیں اور تکالیف ومصائب کی پرواہ نہیں کرتے اور جو محض نام کے مسلمان اور اغراض نفسانی کے بندے ہیں وہ سینکڑوں بہانے بنا کر حج جیسی دولت سے محروم رہ جاتے ہیں۔

7۔ سفر دینی اور دنیوی لحاظ سے ایک بہترین چیز ہے۔ اس سے اقوام کے اخلاق وعادات کا پتہ چلتا ہے، مختلف تجربات اور دینی ودنیوی منافع حاصل ہوتے ہیں۔ موجودہ اور سابقہ امتوں کے حالات اور مقامات کو دیکھ کر خاص عبرت حاصل ہوتی ہے۔ سفر حج کے کرنے والے جانتے ہیں کہ اس سفر سے بہتر کوئی دوسرا سفر نہیں، یہ سب چیزوں کے لیے جامع ہے۔

8۔ امت محمدیہ کے لیے ان مقامات کی زیارت اس وجہ سے بھی خاص طور سے قابل اہتمام اور حق تعالیٰ شانہ کی رضا حاصل ہونے کا ذریعہ ہے کہ سردارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مولد ومسکن ہیں اور دینی حیثیت سے اس جگہ کو مرکزی شان حاصل ہے۔ بیت اللہ مسلمانوں کا قبلہ ہے، اس کی زیارت اور طواف اور وہاں نماز کا ادا کرنا گویا دربارِ خداوندی میں حاضر ہونا ہے۔

9۔ سفرِ حج سفرِ آخرت کا نمونہ ہے، جس وقت حاجی گھر سے چلتا ہے اور احباب و اقارب سے رخصت ہوتا ہے تو جنازے کا سماں نظر آتا ہے کہ ایک روز اس عالم سے سب عزیز واقارب کو چھوڑ کر سفر آخرت کرنا ہوگا۔ جب احرام کا لباس پہنتا ہے تو کفن کا وقت یاد آتا ہے اور میقات حج گویا میقات قیامت کی نظیر ہے اور عرفات کے میدان میں ہزاروں آدمیوں کا اجتماع اور حرارت کی تمازت روز محشر کا نمونہ ہے۔ اسی طرح اور تمام افعال میں اگر غور کرو گے تو سفر آخرت کا نمونہ نظر آئے گا۔

10۔ حج میں تو حید اور اطاعتِ خالق وحدہ لاشریک لہ کا مظاہرہ ہے، کیوں کہ افعال حج سے مقصود اطاعت رب البیت ہے، نہ کہ درودیوار اور میدان عرفات، جب ہم کو وہاں کی حاضری کا حکم کیا گیا تو ہم محض اظہار عبودیت اور کامل انقیاد (تابع داری) ظاہر کرنے کے لیے اپنے مالک وخالق کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے حاضر ہو گئے۔(حجة اللہ البالغة)

سفر حج کے آداب

جب حج فرض ہو جائے تو تاخیر نہ کی جائے اور خدا پر بھروسہ کر کے سفر کا انتظام شروع کر دیا جائے اور جو آدابِ سفر ذکر کیے جاتے ہیں ان کا خیال رکھا جائے۔

1- نیت

محض اللہ تعالیٰ کی خوش نودی اور ادائے فریضہ وتعمیل ارشاد کی نیت سے حج کرو، نام کے لیے یا سیر و سیاحت، تفریح و تبدیلِ آب وہوا کے لیے سفر نہ ہو، بہت سے لوگ محض سیاحی اور حاجی کا لقب حاصل کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں، حق تعالیٰ مسلمانوں کو اس بلا سے محفوظ رکھے۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

1- إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ․ (رواہ البخاري ومسلم)

اعمال کا ثواب صرف نیتوں پر موقوف ہے۔

2- یَأْتِی عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَحُجُّ أَغْنِیَاءُ النَّاسِ لِلنَّزَاہَةِ، وَأَوْسَاطُہُمْ لِلّتِجَارَةِ، وَفُقَرَاوٴُہُمْ لِلْمَسْألَةِ، وَقُرَّاؤُہُمْ لِلسُّمْعَةِ وَالرِّیَاءِ․ (الدیلمی عن أنس ”کنز العمال“ 2:26)

لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان میں سے مال دار لوگ صرف سیر و سیاحت اور تفریح کے لیے حج کریں گے اور متوسط طبقہ کے لوگ تجارت کے لیے اور فقرا سوال کرنے کے لیے اور قر أو علما نام و نمود کے لیے۔
بہتر یہ ہے کہ تجارت کی نیت بھی اس سفر میں نہ کی جائے۔

2- توبہ

سفر شروع کرنے سے پہلے صدق دل سے توبہ کرو اور اگر کسی کا حق مالی یا بدنی ہو تو جہاں تک ممکن ہو اس کو ادا کر دو یا معاف کراؤ۔ معاملات کی صفائی کرو، خطا و قصور کی معافی کراؤ۔ اگر اہل حقوق مر چکے ہوں تو ان کے ورثا کو ان کا مال دے دو اگر مال موجود ہو، اگر موجود نہ ہو تو اس کا معاوضہ ادا کرو۔ اگر صاحب حق یا اس کے وارثوں کا پتہ نہ چلے تو وہ مال صدقہ کر دو، لیکن صاحب مال کی طرف سے صدقہ کرو، خود اس سے ثواب کی امید نہ رکھو۔ عبادت میں جو کوتاہی اور قصور ہوا ہو اس کی قضا اور تلافی کرو اور آئندہ کے لیے پختہ ارادہ کرو کہ پھر ایسا نہ کروں گا۔

توبہ کا مستحب طریقہ

توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ اول غسل کرو، اگر غسل نہ کر سکو تو وضو کرو اور دو رکعت نماز تو بہ کی نیت سے پڑھو، اس کے بعد درود شریف پڑھو، پھر استغفار کرو اور نہایت خضوع و خشوع سے دعا مانگو، جس قدر عاجزی، رونا گڑگڑانا ممکن ہو کمی نہ کرو اور اپنے گناہ قصور سے تو بہ کرو اور بار بار یہ دعا پڑھو۔

اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَتُوبُ إلَیْکَ مِنْہَا، لا أَرْجِعُ إِلَیْہَا أَبَداً، اللّٰہُمَّ مَغْفِرَتُکَ أَوْسَعُ مِنْ ذَنْبِيْ، وَرَحْمَتُکَ أَرْجٰی عِنْدِيْ مِنْ عَمَلِيْ․
اے اللہ! میں اپنے تمام گناہوں سے تو بہ کرتا ہوں اور اس کا پختہ اقرار کرتا ہوں کہ پھر گناہ کبھی نہ کروں گا، مجھ کو آپ کی رحمت پر زیادہ اعتماد ہے اپنے عمل کی بہ نسبت، تیری رحمت میرے گناہ سے بدرجہا وسیع ہے۔

والدین وغیرہ کی اجازت

والدین اگر زندہ ہوں تو ان سے سفر کی اجازت لینی چاہیے، اگر ان کو خدمت کی ضرورت ہے تو بلا ان کی اجازت کے جانا مکروہ ہے۔ اگر ان کو خدمت کی ضرورت نہیں تو بلا اجازت جانا مکروہ نہیں ہے، بشرطیکہ راستہ مامون ہو اور سلامتی غالب ہو۔ اگر راستہ مامون نہ ہو تو بلا ان کی اجازت کے جانا مکروہ ہے، گو ان کی خدمت کی حاجت نہ ہو۔ یہ سب تفصیل حج فرض میں ہے۔ اگر حج نفل کے لیے جانا ہے تو والدین کی اطاعت بہر صورت اولیٰ ہے، خواہ وہ خدمت کے محتاج ہوں یا نہ ہوں، راستہ مامون ہو یا نہ ہو۔ اگر لڑکا خوب صورت ہے اور بالغ ہو چکا ہے، مگر داڑھی نہیں نکلی اور سفر میں فتنہ کا اندیشہ ہے تو والدین اس کو داڑھی نکلنے تک روک سکتے ہیں اور دادا دادی، نانا نانی، ماں باپ کی عدم موجودگی میں ماں باپ کا حکم رکھتے ہیں۔

بیوی بچے اور وہ لوگ جن کا نفقہ شرعاً اس کے ذمہ واجب ہے، اگر ان کو واپسی تک نفقہ دے دیا ہے اور اس کی عدم موجودگی سے ان کی ہلاکت وغیرہ کا اندیشہ نہیں ہے تو ان کی اجازت کی ضرورت نہیں، ورنہ ان کی بلا اجازت بھی جانا مکروہ ہے۔ اسی طرح اگر کسی کا قرضہ فی الحال ادا کرنا ہے تو بلا اس کی اجازت کے جانا مکروہ ہے۔ ہاں! اگر کسی کو ضامن بنادیا ہے یا وہ اجازت دیتا ہے یا فی الحال قرضہ ادا کرنا ضروری نہیں ہے، کچھ مدت مقرر ہے اور مدت سے پیشتر واپس آ جائے گا تو بلا اجازت جانے میں مضائقہ نہیں۔

امانت و وصیت

اگر امانت یا کسی کی مانگی ہوئی چیز پاس ہے تو اس کو واپس کرے اور سب ضروریات کے متعلق ایک وصیت نامہ لکھ دے۔ اگر کسی کا قرضہ چاہتا ہے یا اپنا قرضہ کسی پر ہے سب کو مفصل طریق سے لکھ دے اور کسی دین دار عادل شخص کو وصی (قائم مقام) بنادے۔

استخارہ اور مشورہ

سفر سے پہلے کسی ہوشیار تجربہ کار دین دار شخص سے ضروریات سفر سے متعلق مشورہ کرے اور استخارہ بھی کرے، لیکن حج اگر فرض ہے تو نفس حج کے لیے استخارہ کی ضرورت نہیں، بلکہ راستہ وقت جہاز وغیرہ دیگر امور کے لیے استخارہ کیا جائے۔ البتہ اگر حج نفل ہے تو نفس حج کے لیے بھی استخارہ کرے، قرآن شریف وغیرہ سے فال نہ لے۔

استخارہ کا طریقہ

یہ ہے کہ دورکعت نماز پڑھو۔ اول رکعت میں سورہٴ کافرون اور دوسری میں قل ھو اللہ پڑھو اور سلام کے بعد حق تعالیٰ کی حمد وثنا کرو۔ درود شریف پڑھو اور یہ دعا نہایت خشوع وخضوع سے پڑھو:

اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْتَخِیرُکَ بِعِلْمِکَ، وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَأسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أُقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ، اللّٰہُمَّ إِن کُنتَ تَعْلَمُ أَنْ ہَذَا الْأمْرَ خَیْرٌ لِّيْ فِيْ دِیْنِيْ وَدُنْیَايَ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ فَاقْدِرْہُ وَیَسِّرْہُ لِيْ، ثُمَّ بَارِکْ لِيْ فِیہِ، وَإِنْ کُنتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِّي فِيْ دِینِيْ وَدُنْیَايَ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ فَاصْرِفْہُ عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْہُ، وَاقْدِرْ لِي الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ أَرْضِنِي بِہ“․

اور جب ھٰذَا الْأَمْرَپر پہنچے تو اس چیز کا خیال دل میں کرے جس کے لیے استخارہ کرتا ہے۔ اس کے بعد جس جانب دل کا رجحان ہو وہی بہتر ہے، اسی کے موافق عمل کرنا چاہیے۔ ایک دفعہ میں اطمینان نہ ہو تو پھر کرو، سات دفعہ تک ان شاء اللہ رجحان اور اطمینان حاصل ہو جائے گا، استخارہ میں اصل چیز یہی ہے کہ تردد رفع ہو جائے اور ایک جانب کو ترجیح ہو جائے، خواب کا دیکھنا وغیرہ ضروری نہیں ہے۔

سفر حج کے مصارف

جہاں تک ممکن ہو روپیہ حلال ہونا چاہیے۔ حرام مال سے حج قبول نہیں ہوتا، گو فرض ساقط ہو جاتا ہے۔ اگر کسی کا مال مشتبہ ہو تو کسی غیر مسلم سے بقدر ضرورت بلاسود قرض لے لو اور پھر اس مال مشتبہ سے اس کا قرضہ ادا کرو۔

رفیق سفر

کوئی رفیق صالح تلاش کرو کہ جو تم کو ضرورت کے وقت کام آئے اور پریشانی کے وقت اعانت کرے اور ہمت بندھائے، اگر عالم باعمل مل جائے تو بہت اچھا ہے کہ ہر قسم کے مسائل بالخصوص احکام حج میں مدد ملے گی۔

رفیق اگر اجنبی ہو تو اچھا ہے، کیوں کہ سفر میں بسا اوقات کشیدگی ہو جاتی ہے اور قطع تعلق کی نوبت آجاتی ہے۔ اگر رشتہ دار ہوگا تو اس سے قطع تعلقی میں صلہ رحمی کا قطع کرنا لازم آئے گا، جو سخت گناہ ہے، بخلاف اجنبی کے کہ اس سے سہولت سے علیحدگی ہوسکتی ہے۔

حج کے مسائل سیکھنا

حج کرنے والے کے لیے وقت سے پیشتر مسائلِ حج کا سیکھنا واجب ہے، اس لیے جب ارادہ ہو جائے یا سفر شروع کرو تو اسی وقت سے مسائل معلوم کرو یا کسی معتبر عالم سے دریافت کرتے رہو یا کوئی معتبر کتاب ساتھ رکھو اور اس کو بار بار مطالعہ کرتے رہو اور جو بات سمجھ میں نہ آئے اس کو کسی عالم سے سمجھ لو۔ عام لوگوں کی تقلید مت کرو اور معمولی لکھے پڑھوں پر بھی بھروسہ مت رکھو، بلکہ جو معلّم لوگ مکہ مکرمہ کے حج کرانے والے ہوتے ہیں ان پر بھی اعتماد مت کرو، یہ لوگ اکثر ناواقف ہوتے ہیں اور اگر ان کو مسائل معلوم ہوتے بھی ہیں تو اہتمام نہیں کرتے، اس لیے تحقیقِ مسائل جہاں تک ممکن ہو کسی معتبر عالم سے کرو اور ایسے ہی کسی شخص کی رفاقت کی کوشش کرو۔

ابتدائے سفر

سفر کی ابتدا شروع مہینہ میں جمعرات کو کی جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعرات کے روز حج کا سفر شروع کیا تھا اور اکثر آپ جمعرات ہی کو سفر کرتے تھے۔ اگر جمعرات کو نہ ہو سکے تو پیر کی صبح سے سفر شروع کیا جائے یا جمعہ کو نماز جمعہ کے بعد شروع کیا جائے، مگر اب سفر حج اپنے اختیار کا نہیں رہا، حکومت جب اور جس روز چاہے بھیج سکتی ہے۔

سواری کا جانور

سواری قوی اور مضبوط تلاش کرو، سامان کرائے والے کو دکھلا دو۔ بلا اجازت زیادہ سامان رکھنا جائز نہیں۔ بعض فقہا نے لکھا ہے کہ پیدل سفر کرنے والے سے سوار ہو کر سفر کرنا افضل ہے، کیوں کہ جب پیدل چلے گا تو مشقت اور تکلیف کی وجہ سے پریشان ہوگا۔ اور اخلاق پر اس کا برا اثر پڑے گا، جس کی وجہ سے رفقا سے لڑائی جھگڑا کرے گا۔ لیکن محض لطف اور تفریحِ طبع کے لیے سوار نہ ہونا چاہیے، ضرورت کا لحاظ اور نیت خیر ہونی چاہیے۔ گدھے پر حج کرنا مکروہ ہے، اونٹ پر افضل ہے، سعودی عرب میں اب اونٹ کا طریقہ ختم کر دیا گیا ہے۔

فضول خرچی اور کنجوسی

حج کے سامان اور زاد راہ میں کنجوسی مت کرو۔ جو روپیہ حج میں خرچ ہوتا ہے اس کا ثواب سات گنا یا اس سے بھی زیادہ ملتا ہے، ہاں! اگر روپیہ کم ہو تو احتیاط سے خرچ کرنا چاہیے فضول خرچی سے بچنا چاہیے، لیکن جو صاحب وسعت ہیں ان کو تنگ دستی نہ کرنی چاہیے، توشہ عمدہ لذیذ اور زیادہ ساتھ لو۔ زیادہ پیٹ بھر کر نہ کھاؤ، مختلف قسم کے کھانے بھی زیادہ نہ پکاؤ اور بناؤ سنگار بھی نہ کرو، اپنے توشہ میں کسی کو شریک نہ کرو، اس سے اکثر نزاع (جھگڑا) پیدا ہو جاتا ہے۔ اور مستحب بھی ہے کہ کسی کو شریک نہ کیا جائے، کیوں کہ اس میں تنگی ہو جاتی ہے۔ صدقہ خیرات بلا اجازتِ شرکا نہیں کر سکتا، لیکن اگر رفقا بامروّت اور باہم مسامحت(چشم پوشی) کرنے والے ہوں تو شرکت کا مضائقہ نہیں۔ شرکت کی صورت میں مستحب یہ ہے کہ اپنے حق سے کم پر اکتفا کیا جائے۔

ایک دستر خوان پر مجتمع ہو کر کھانا جائز بلکہ مستحسن ہے۔ اگر ساتھیوں میں کسی کو زیادہ کھانا کھانا ناگوار ہو تو اپنے حصے سے زیادہ نہ کھائے۔ ہاں! اگر کسی کو ناگوار نہیں تو حصہ سے زیادہ کھانے کا مضائقہ نہیں، اسی طرح بہتر یہ ہے کہ سواری میں بھی کسی کی شرکت نہ ہو۔

گھر سے نکلنا

چلتے وقت گھر سے نہایت خوش و خرم ہو کر نکلے، غمگین اور پژمردہ ہو کر نہ نکلے، گھر سے نکلنے سے پیشتر اور بعد میں کچھ صدقہ کرنا چاہیے اور گھر میں دو رکعت نفل پڑھے۔ اسی طرح محلہ کی مسجد میں بھی دور کعت پڑھے، پہلی رکعت میں سورہٴ کافرون اور دوسری میں قُلْ ہُوَ اللّٰہ پڑھے اور سلام کے بعد آیة الکرسی اور لِاِیْلاَفِ پڑھے اور حق تعالیٰ سے سفر میں اعانت اور سہولت کی دعا مانگے۔ اگر یاد ہو تو یہ دعا پڑھے:

اَللّٰہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِيْ السَّفَرِ وَأَنْتَ الْخَلِیْفَةُ فِيْ الْأَھْلِ وَالْمَالِ، اَللّٰہُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ فِي مَسِیرِنَا ہَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی، اللّٰہُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ أَنْ تَطْوِيَ لَنَا الْأَرْضَ وَتُہَوِّنَ عَلَیْنَا السَّفَرَ وَتَرْزُقَنَا فِی سَفَرِنَا ہَذَا السَّلَامَةَ فِی الْعَقْلِ وَالدِّینِ وَالْبَدَن وَالْمَالِ وَالْوَلَدِ، وَتُبَلِّغَنَا حَجَّ بَیْتِکَ الْحَرَامِ وَزِیَارَةَ نَبِیِّکَ عَلَیْہِ أَفَضَلُ الصَّلاةِ وَالسَّلَامِ، اللّہُمَّ إِنِّيْ لَمُ أَخْرُجْ أَشَرًا وَلا بَطَراً وَلَا رِیَآءً وَلَا سُمْعَةً بَلْ خَرَجْتُ اتِّقَاءَ سَخَطِکَ وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِکَ وَقَضَاءً لِفَرْضِکَ وَاتِّبَاعًا لِسُنَّةِ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالَی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَشَوْقًا إِلَی لِقَائِکَ․

اللَّہُمَّ فَتَقَبَّلْ ذَلِکَ وَصَلِّ عَلَی أَشْرَفِ عِبَادِکَ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہِ وَصَحْبِہٰ الطَّیِّبِینَ الطّاہِرِینَ أَجْمَعِینَ․

جب وہاں سے اٹھے تو یہ دعا پڑھے۔

اللّٰہُمَّ إِلَیْکَ تَوَجَّہْتُ وَبِکَ اعْتَصَمْتُ، اللّہُمَّ اکْفِنِيْ مَا أَہَمَّنِيْ وَمَا لَا أَھْتَمُّ بِہ، اللّٰہُمَّ زَوِّدْنِيْ التَّقْوٰی وَاغْفِرْ لِيْ ذَنْبِيْ․
جب گھر کے دروازہ کے قریب آئے تو سورہٴ إنَّآ اَنْزَلْنَا پڑھے۔

گھر سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھے۔

بِسْمِ اللّٰہِ، اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ، تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ، لَا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰہِ، التُّکْلاَنُ عَلَی اللّٰہِ، اللّٰہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ أَنْ أَضِلَّ أَوْ أُضَلَّ، أو أَزِلَّ أَوْ أُزَلَّ، أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ، أَوْ أَجْہَلَ أَوْ یُجْہَلَ عَلَيَّ․

عزیز واقارب و احباب، پڑوسیوں وغیرہ سے چلتے وقت معافی چاہو، دعا کی درخواست کرو اور مصافحہ کرو (روی الترمذي وأبوداود وابن ماجہ عن ابن عمر قال: کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا أودع رجلا أخذ بیدہ، فلا یدعھا حتی یکون الرجل ھو یدع ید النبي صلی اللہ علیہ وسلم ویقول: أستودع اللہ دینک وأمانتک واٰخر عملک․ وفي ”الحصن الحصین“ عن ابن السني وابن حبان في أدعیة السفر: وإن کان سفرا صافح وقال…الخ وفي شرعة الإسلام: کان أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا تلاقوا تعانقوا، وإذا تفرقوا تصافحوا وحمدوا اللہ واستغفروا عند ذلک․ وفي ”الغنیة“: ویفارقوا بالمصافحة․ فھذہ الروایات حجة علی من أنکر المصافحة عند الوداع․ (سعید أحمد غفر لہ)) اور رخصت کے وقت یہ دعا پڑھو۔

أَسْتَودِعُ اللّٰہَ دِینَکَ وَأَمَانَتَکَ وَآخِرَ عَمَلِکَ، وَزَوَّدَکَ اللّٰہُ التَّقْوٰی، وَیَسَّرَلَکَ الْخَیْرَ حَیْثُ کُنْتَ․

اور رخصت کرنے والا یہ الفاظ اور کہے:

اللّٰہُمُ اطْوِلَہُ الْبُعْدَ وَہَوِّنْ عَلَیْہِ السَّفَرَ․

جاتے وقت جانے والے کو ان لوگوں سے مل کر جانا چاہیے اور واپسی پر ان لوگوں کو ملنے کے لیے آنا چاہیے۔ جب سواری میں سوار ہو تو بِسْمِ اللّٰہ پڑھ کر دایاں پیر پہلے رکھو اور دا ہنی جانب بیٹھو اور سوار ہو کر یہ دعا پڑھو:

الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ ہَدَانَا لِلإِسْلَامِ وَمَنَّ عَلَیْنَا بِمُحَمَّدٍ عَلَیْہِ أَفْضَلُ الصَّلَاةِ وَالسَّلَامِ، سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہَذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِینَ وَإِنَّا إِلَی رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الحَمدُ لِلّٰہِ اَللّٰہُ أَکْبَرُ اَللّٰہُ أَکْبَرُ اَللّٰہُ أَکْبَرُ، سُبْحَانَکَ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنتَ․

بلند زمین یا پہاڑ پراگر چڑھو تو اَللّٰہُ أَکْبَرُ کہو اور پست زمین پر چلو تو سُبحَانَ اللّٰہِ کہو اور جنگل میں گزر ہو تو لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَر پڑھو اور جب کوئی شہر نظر آئے تو یہ دعا پڑھو۔

اللّٰہُمَّ رَبَّ السَّمٰوٰاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظْلَلْنَ، وَرَبَّ الْأَرْضِینَ السَّبْعِ وَمَا أَقْلَلْنَ، وَرَبَّ الشَّیَاطِینِ وَمَا أَضْلَلْنَ، وَرَبَّ الرِّیَاحِ وَمَا ذَرَیْنَ، فَإِنَّا نَسْأَلُکَ خَیْرَ ہَذِہِ الْقَرْیَةِ وَ خَیْرَ أَہْلِہَا وَنَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِہَا وَشَرِّمَا فِیْہَا․

اور جب کسی شہر میں داخل ہو تو یہ پڑھو۔

اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیہَا (تین مرتبہ) اللّٰہُمَّ ارْزُقْنَا جَنَاہَا وَحَبِّبْنَا صالحی أَھْلِھَا إِلَیْنَا․

کسی جگہ منزل کرنا

جب کسی جگہ منزل کرے: أَعُوْذ بکلمات اللّٰہِ التَّامَّاتِ کُلِّھَا مِنْ شر ما خلق وذرأ وبرأ، سلام علی نوح في العلمین پڑھے۔

ان شاء اللہ تعالی اس جگہ کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی۔

اور جب رات ہو جائے تو یہ دعا پڑھے:
یَا أَرْضُ رَبِّيْ وَرَبُّکِ اللّٰہُ، أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ شَرِّکِ وَشَرِّ مَا خُلِقَ فِیْکِ وَشَرِّ مَا یَدُبُّ عَلَیْکِ، وَأَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ أَسَدٍ وَأَسْوَدَ، وَمِنَ الْحَیَّةِ وَالْعَقْرَبِ وَمِنْ شَرِّ سَاکِنِي الْبَلَدِ وَمِنْ وَّالِدٍ وَمَا وَلَدَ․

اور صبح کو کہے:
سَمِعَ سَامِعٌ بِحَمْدِ اللّٰہِ وَحُسْنِ بِلَائہ عَلَیْنَا، رَبَّنَا صَاحِبْنَا وَأَفْضِلْ عَلَیْنَا عَائِذًا بِاللّٰہِ مِنَ النَّارِ․

اگر کسی جگہ خوف یا وحشت ہو یا کوئی خطرہ ہو تو لِاِیْلَافِ اور آیة الکرسی اور معوذتَین تین مرتبہ پڑھو۔ راستہ میں حق تعالیٰ سے ڈرو اور کثرت سے ذکر اللہ اور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہو اور والدین، اپنے اقارب، عامہ مسلمین کے لیے دعا کرو۔ مسافر کی دعا قبول ہوتی ہے، بالخصوص حجاج کی۔

جب کسی جگہ منزل پر اتر و یا کوچ کرو تو دورکعت نفل پڑھو۔ رفقا اور خدام اور کرایہ دار سے سختی اور لڑائی جھگڑ ا مت کرو۔ اگر کوئی سائل سوال کرے یا کوئی بلا خرچ سفر کرنے والا کچھ مانگے تو اس کو برا بھلا مت کہو، اگر ہو سکے تو اس کی امداد کر دو، ورنہ بہترین طریق سے اس کو جواب دے دو اور اس کے لیے دعا کرو۔ راستہ میں نہایت وقار اور سکون سے رہنا چاہیے اور بیہودہ باتوں سے پر ہیز کرنا چاہیے، کیوں کہ بیہودہ باتیں ہر اعتبار سے مضر ہیں۔ تنہا سفر کرنا مکروہ ہے، اس لیے تنہا سفر نہ کرو، سب کے ساتھ چلو۔

امیر قافلہ

قافلہ میں جو شخص ہوشیار، صائب الرائے، دین دار اور تجربہ کار اور بردبار ہو اس کو امیر بنالینا چاہیے اور سب کو اس کی اطاعت کرنی چاہیے۔

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِيْ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قَالَ: إِذَا کَانَ ثَلَاثَة فِيْ سَفَرٍ فَلْیومرُوْا أحدَھُمْ․ (رواہ أبوداود)

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین آدمی سفر میں ہوں تو ایک کو اپنا امیر بنالیں۔

احکام شرعی کا ہر معاملہ میں اتباع ضروری سمجھو اور نہایت اہتمام سے ہر کام کو کرنے سے پہلے معلوم کر لو کہ جائز ہے یا نہیں۔ ساتھیوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آؤ۔ ان کی ہر کام میں اعانت کرو اور دوسرے لوگوں کی بھی جہاں تک ہو سکے خدا واسطے خدمت کرو، اس کا بڑا اجر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

سَیِّدُ الْقَوْمِ فِي السَّفَرِ خَادِمُہُمْ

یعنی قوم کا سردار سفر میں قوم کی خدمت کرنے والا ہے۔

اسلامی زندگی سے متعلق