غذائی اجناس میں ملاوٹ…، اشیاءِ خوردنی میں ملاوٹ کے خلاف جگہ جگہ چھاپے…کھوئے میں آلو کے چھلکے اور شکر قند کا انکشاف …، ہری سبزیوں کے نام پر لوگوں کی صحت سے مذاق…، مٹھائی کی دوکان پر ایس- ڈی- ایم کا چھاپہ…
اخباروں میں ایسی سرخیاں آئے دن دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں، اللہ جل مجدہ نے اس رنگارنگ دنیا میں، ہم انسانوں کی خاطر، اَن گنت اشیاء پیدا کی ہیں، جو ہماری صحت کی بقا اور استحکام کے لیے ضروری ہیں، جو در آنے والی کم زوریوں اور بیماریوں کی مدافعت کرتی ہیں۔ صحت خدا کی بہت بڑی نعمت ہے۔ چہرے پر خوب صورت رنگ اور رونق اسی وقت ابھرتی ہے جب ہمارے پاس صحت جیسی عظیم دولت ہوتی ہے۔ بقول شخصے: کسی بھی فرد یا جماعت کی کام یابی تین چیزوں میں مضمر ہے: صحت ، صالحیت اور صلاحیت ، ان میں صحت سر فہرست ہے۔ اگر انسان صحت مند نہ ہو تو زندگی بے لطف معلوم ہوتی ہے۔ حیات وکائنات کی رعنائیاں بے کیف لگتی ہیں، دنیا اپنی تمام تر رنگینیوں اور جلوہ سامانیوں کے باوجود وحشت ناک نظر آتی ہے۔ انگریزی کا مشہور مقولہ ہے ”ہیلتھ از ویلتھ“ (صحت ہی دولت ہے) ہندوستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک میں عام آدمی صحت کے حوالے سے بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔ اس کے لیے ہم سبھی براہ راست نہ سہی، لیکن بالواسطہ طور پر ذمہ دار ضرور ہیں۔ تشویش میں اضافہ اس وقت ہوتا ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے کھانے پینے کے سامان اصلی اور قدرتی شکل میں دست یاب نہیں ہیں، جب کہ اچھی صحت کے لیے اشیاءِ خورد ونوش کا اپنی قدرتی حالت میں ہونا نا گزیر ہے۔ اگر اچھی اور صاف ستھری غذائیں انسان کو فراہم ہوں تو صحت کے کیا کہنے، لیکن آج اچھی اور اصلی چیزیں انسانیت سوز حرکتوں کی وجہ سے اپنی اصلیت ومعنویت کھوچکی ہیں۔ خصوصا غذائی اجناس میں ملاوٹ کا مسئلہ جس طرح خطرناک شکل اختیار کر رہا ہے یہ بڑا ہی تشویش ناک امر ہے۔ اشیاءِ خوردنی میں شاید ہی کوئی چیز ہو جو ملاوٹ سے پاک ہو، اشیاءِ خورد ونوش کے پیک ڈبوں پر لیبل اصلی(Pure) کا چسپاں ہوتا ہے، لیکن اندر اس کا عُشر عَشیر بھی ہو تو غنیمت ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مضر صحت اشیاء، کھانے پینے کی چیزوں میں مل کر انسان کے جسم میں پہنچ رہی ہیں اور صحت کو گلا رہی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہوا اور پانی جیسی انسان کی بنیادی ضرورت کی چیزیں بھی اندھی ترقی کی دوڑ میں آلودگی کی زد میں آگئی ہیں، کہا جاتا ہے کہ صحت مند جسم میں ہی صحت مند دماغ ہوتا ہے، لیکن نقلی اور ملاوٹی اشیاء کے سبب نہ جسم صحت مند رہا اور نہ ہی دماغ۔ ڈپریشن، بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کا بڑھنا اس کا بیّن ثبوت ہے۔
دودھ اور گھی اور ان سے بننے والی اشیاء میں ملاوٹ تو عروج پر ہے، ہر ضلع میں سینتھٹک دودھ بڑے پیمانے پر تیار کیا جا رہا ہے، جن میں گلو کوز پاوٴڈر، گلو کوز ہائیڈروجن وغیرہ ملائے جاتے ہیں، بلکہ بعض رپورٹوں کو صحیح مانیں تو ”یوریا“ کھاد کا استعمال ہوتا ہے۔ گھی میں چربی اور ہڈی ملائے جانے کا انکشاف بھی ہوا ہے، کھوئے میں آلو کے چھلکے اور شکرقند کا استعمال ہو رہا ہے، ڈاکٹروں کے مطابق یہ چیزیں، جگر، آنتوں اور گردے کے لیے انتہائی مضر ہیں۔
ہری سبزیاں صحت کے لیے اَن مول ہوتی ہیں، لیکن اب ان میں بھی اصلیت برائے نام ہے۔ کیمیکل کی مدد سے ان کی پیداوار بڑھائی جارہی ہے۔ اتنا ہی نہیں کریلا، بھنڈی، بیگن، ہری مرچ، ترئی اور مٹر سمیت دیگر ہری سبزیوں کو ہرا اور تازہ دکھانے کے لیے سینتھٹک رنگ کا بھی استعمال کیا جارہا ہے، یہی حال پھلوں کا بھی ہے، پھلوں کو تازہ، میٹھا اور چمک دار بنانے کے لیے کیمیکل کا استعمال بے روک ٹوک ہورہا ہے،ہری سبزیوں کی قدرتی پیداوار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے۔
بیل والی سبزیوں کو کیمیکل کی مدد سے ایک ہی رات میں کافی بڑا کردیا جاتا ہے، ان میں لوکی، کریلا، تربوز، خربوزہ، کھیرا ککڑی سمیت دیگر سبزیاں شامل ہیں۔ عام آدمی کو معلوم ہی نہیں ہے کہ جس کھیرے اور ککڑی کو وہ سلاد میں استعمال کر کے کھا رہے ہیں وہ صرف ایک ہی رات میں ۔ محض ۱۰/سے ۱۲/ گھنٹے میں پوری طرح تیار ہوجاتے ہیں۔
اخبار کی خصوصی رپورٹ کے مطابق منافع خوری کرنے والے ۵۰ پیسے والے آکسی ٹوسن نامی انجکشن سے یہ کارنامہ انجام دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق قدرتی طور سے سبزیوں اور پھلوں کو لائق استعمال ہونے میں تقریبا دس سے پندرہ دن لگ جاتے ہیں۔ پھلوں میں سیکرین نامی کیمیکل ڈالا جارہا ہے، اس سے پھل کا ذایقہ زیادہ میٹھا ہوجاتا ہے، لیکن سیکرین کے استعمال سے یہ پھل صحت کے لیے نقصان دہ بن جاتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آ کسی ٹوسن کا استعمال عام طور پر بوقت حمل ڈلیوری میں پریشانی کے وقت کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس دوا کا کوئی استعمال معروف نہیں۔ ڈاکٹروں کی رائے ہے کہ اس سے تیار کی جانے والی سبزیوں سے لوگ پیٹ اور دیگر خطرناک بیماریوں کی زد میں آسکتے ہیں۔ بلکہ کینسر تک کی بیماری ہوسکتی ہے۔
روز مرہ استعمال میں آنے والے مسالوں سے لے کر تیل، وناسپتی گھی اور دیگر نقلی غذائی اشیاء لوگوں کو بیمار بنا رہی ہیں۔ انسان اگر حالات وموسم کی ناساز گاری وناموافقت کی وجہ سے بیمار ہوتا ہے تو کبھی دواوٴں کی بھی ضرورت پڑتی ہے، مگر افسوس یہ دوائیں بھی ملاوٹ ونقل سے محفوظ نہیں، آپ حصول صحت کی غرض سے جو دوا استعمال کر رہے ہیں ممکن ہے کہ وہ بہ شکل کیپسل کوئی ٹافی اور بہ شکل ٹانک کوئی شربت ہو، یا کچھ بھی نہ ہو، بلکہ نقصان دہ ہو۔ ایکسپائری ڈیٹ دوائیں بھی بھولے بھالے عوام کو دے دی جاتی ہیں، جو بعض دفعہ مرض میں اضافہ کا باعث ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں ایک طرف، دوسری طرف کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے لوگ پہلے ہی کم پریشان نہیں ہیں۔ اس تناظر میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ جہاں لوگوں کے پسینے کی کمائی برباد ہو رہی ہے وہیں صحت بھی خراب ہو رہی ہے۔
ان سب ناجائز کاموں کے پیچھے کون سا مقصد کار فرما ہے، ہر آدمی اسے بخوبی سمجھتا ہے، آج دنیا جہاں ایک طرف ترقی کے سارے ریکارڈ توڑ رہی ہے، روز نت نئے انکشافات ہو رہے ہیں، وہیں دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان دونوں ہاتھوں ناجائز دولت سمیٹنے کے لیے ہر وہ قدم اٹھانے کے لیے کوشاں ہے جس کی منزل ”حصول زر“ کے علاوہ کچھ نہیں، لمبی کمائی کی لالچ اور انسان کی لاپروائی نے اسے لالچی بنا دیا ہے، جس سے وہ تمام حدیں پار کر رہے ہیں، دولت کی ہوس اور شارٹ کرٹ راستے سے جلد امیر ترین بننے کی تمنانے، آدمی سے آدمیت کا لبادہ چھین لیا ہے، انسان پیغام انسانیت سے نا آشنا ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے ملاوٹ اور نقلی اشیاء تیار کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ کم پونجی میں زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کریں، انسان کی صحت خراب ہو تو ہو، شریعت وسماج سے بھی کچھ سروکار نہیں۔ یہ ساری چیزیں اور موجودہ حالات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ دولت کی ناجائز ہوس نے انسان کو انسانی جذبے اور حقیقی اقدار سے عاری کردیا ہے۔
بے روز گاری اور غریبی بھی ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ تاہم اس کی وجہ سے اس عمل کو کبھی جواز کی سند نہیں دے سکتے۔ ملاوٹ خوروں اور منافع خوروں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لیے غیر ایمان دارانہ راستہ اختیار کرنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے؟ ترقی اور مال داری کی معراج کے لیے تو شب وروز محنت ہونی چاہیے۔ ملاوٹ ایک غیر انسانی عمل ہے، افسوس اور تعجب تو اس وقت اور بڑھ جاتے ہیں، جب اپنے کچھ مسلمان بھائی بھی ایسی سرگرمیوں اور بد عنوانیوں میں ملوث نظر آتے ہیں، ارے! ہم تو امت محمدیہ میں ہیں، ہماری پاک صاف شریعت انسانیت نوازی اور حقوق العباد کی پاس داری کا پاک درس دیتی ہے اور ان ناجائز کاموں سے منع کرتی ہے جن میں بندوں کے حقوق کازیاں ہے۔ حرام غذا سے عبادات پر منفی اثر پڑتا ہے، بلکہ ناجائز آمدنی اور ناجائز رزق سے عبادت کی توفیق سلب ہونے کا خطرہ رہتا ہے، مشہور عالم دین، مفسر قرآن حضرت مولانا اخلاق حسین قاسمی کی بات نقل کرنے کو جی چاہتا ہے۔ فرماتے ہیں: ”آج دودھ میں ملاوٹ عام جرم ہے، پانی کی ملاوٹ، مکھن نکال کر سپریٹا دودھ بنانا، دودھ میں پاوڈر ملانا، یہی وہ ناپاک کمائی ہے جس کے ذریعے کی گئی عبادت کو خدا قبول نہیں کرتا۔ حج پر حج کرو یا مذہبی دورے کرو، سب بے اثر ہیں، کسب حلال سے کی گئی عبادت ہی آخرت میں کام آئے گی، اس کے علاوہ سب نفس کا دھوکہ ہے۔ آج خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کو جس گناہ کی سزا مل رہی ہے وہ گناہ ترک صلاة، ترک صوم اور ترک تہجد کا گناہ نہیں ہے: بلکہ حقوق اللہ میں دھوکہ دھڑی کا گناہ ہے“۔
سرکار نے اس کے خلاف قانون بنایا ہے؛ مگر طبیعت میں جب خباثت ہو تو قانون کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے؟! یہ بات طے ہے کہ اپنے اندر بے ایمانی کو ختم کیے بغیر، بد عنوانی کا ازالہ ناممکن ہے، کسی بھی برائی کو روکنے کے لیے ضروری چیز قوت ارادی ہے، جس کا فقدان جگ ظاہر ہے۔ اس بابت سماج کی فکر اور سوچ میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ وقت مثبت فیصلہ لینے کا متقاضی ہے۔ پورے سماج کو اس کے لیے کوشاں ہونا چاہیے، انقلابی پیش رفت کے لیے، ذاتی مفادات کو ختم کر کے، آپسی تعاون کے فروغ میں حصہ لینا ضروری ہوگیا ہے۔ اچھے ہیں وہ لوگ جو دیہات میں رہتے ہیں اور خالص قدرتی غذا استعمال کرتے ہیں۔