حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول الله سب سے زیادہ آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ رسول الله ا نے ارشاد فرمایا: انبیاء علیہم السلام کی، پھر جوان سے قریب تر ہو، پھر جو ان سے قریب تر ہو، آدمی کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے، پس اگر وہ اپنے دین میں پختہ ہو تو اس کی آزمائش بھی کڑی ہوتی ہے، اگر اس کے دین میں کم زوری ہو تو اس کو اس کے دین کے بقدر آزمایا جاتا ہے، پس آزمائش بندے کے ساتھ ہمیشہ لگی رہتی ہے، یہاں تک کہ اس کو ایسا کرکے چھوڑتی ہے کہ وہ زمین پر ایسی حالت میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔(جامع ترمذی)
اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کا معاہدہ توڑے جانے کے بعد اہل غزہ پر یہود بے بہبود کا بدترین تاریخی ظلم وستم اس وقت اپنے عروج پر ہے یا یوں کہیے کہ دائرہ انسانیت سے خارج ہو کر پستی اور گراوٹ کی انتہا کو پہنچ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہر اہل ایمان شخص بلکہ ذرہ برابر شعور رکھنے والا ہر انسان، اگرچہ نعمت اسلام سے محروم ہو ،غم واضطراب اور صدمہ سے دو چار ہے ۔
ساری دنیا میں مسلمان او رغیر مسلم اقوام کی عوام کی جانب سے اسرائیلی درندگی کی مذمت کی جارہی ہے، حتی کہ بہت سی یہودی جماعتوں کی طرف سے بھی غالباً دنیوی مکافات عمل کے اندیشہ سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جار ی ہے۔ ادہراہل غزہ ایمان واتقان کی پختگی کی جس کیفیت میں ہیں اس کی مثال گزشتہ زمانے میں صدیوں تک نہیں ملتی، ان صاحب عزیمت لوگوں کے حالات دیکھ کر صحابہٴ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کی دین کی خاطر قربانیوں کے واقعات پر یقین میں اضافہ ہوتا ہے اور حضرت حرام بن ملحان رضی الله عنہ کا گردن میں تیر لگنے پر ” فزت ورب الکعبہ“کہنا عین الیقین بن چکا ہے ،نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد مبارک:”اشد الناس بلاء الأنبیاء، ثم الامثل فالامثل“ کی تصویر سامنے آرہی ہے۔ حتی کہ اس اولو العزم اور قوی الایمان قوم کے معصوم بچوں کی زبانوں پر بھی ان کٹھن حالات میں لا الہ الا الله اور حسبنا الله ونعم الوکیل جیسے عزم ویقین سے پُر ایمان افروز کلمات ہیں۔
دوسری طرف دیگر مسلمان ممالک کے ارباب اقتدار عملی طور پر”حب الدنیا وکراہیة الموت“ کا پیکر بنے دکھائی دے رہے ہیں، دنیوی مفادات اور ریاست وسرداری کے دوام کی خواہش نے ان کے دل ودماغ کو اسلامی غیرت سے محروم او ران کی زبانوں کو گونگا کر دیا ہے، ان حالات میں ایک عام مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ اہل غزہ کی تکلیف کو اپنی تکلیف اور ان کے غم کو اپنا غم سمجھتے ہوئے، اپنے دائرہ استطاعت میں موجود تمام اسباب اختیار کرے۔ اس سلسلے میں لازم ہے کہ ہر شخص تمام ظاہری وباطنی چھوٹے بڑے گناہوں سے توبہ اور اجتناب کا اہتمام کرے، استغفار کو اپنا معمول بنایا جائے ، خوراک وپوشاک، رہن سہن اور نشست وبرخاست، غرض زندگی کے تمام شعبوں میں مسنون طریقہٴ عمل اختیار کرنے کا اہتمام کیا جائے اور کفار وفساق کی مشابہت سے بالکلیہ اجتناب کیا جائے ،جس قدر ہو سکے معتبر ومستند ذرائع سے مالی امداد کی کوشش کی جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی نسل کشی کے مرتکب ان مجرموں سے بیزاری کا اظہار کیا جائے اوراسرائیل اور اس کے معاون ممالک کی مصنوعات کا مقاطعہ (بائیکاٹ) کیا جائے، مقاومتی اعمال میں بالفعل شرکت کی دلی نیت اور خواہش رکھی جائے اور ان اعمال کی اجارہ داری کے مدعی اہل اقتدار کو اب اس ذمے داری کی ادائیگی پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے،دعاؤں کا دورانیہ بڑھا دیا جائے او رامتِ مسلمہ کے لیے بالعموم او راہل غزہ کی حفاظت اور فتح ونصرت کے لیے بالخصوص خوب خوب دعائیں کی جائیں۔امید ہے کہ ان اعمال کی وجہ سے الله تعالیٰ کی جانب سے دنیوی واخروی وبال اور مؤاخذہ سے محفوظ رہ سکیں گے،الله تعالیٰ اہل غزہ کا حامی وناصر ہو۔