
اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں اس وقت تقریبا 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو بھوک کا سامنا ہے اور غذائی قلت سے ہونے والی اموات میں روز بروز اضافہ سامنے آرہا ہے۔ بھوک اور غذائی قلت کے باعث شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد تقریبًا 200سے متجاوز ہوچکی ہے، جس میں غالب اکثریت بچوں کی ہے۔یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے جاری نسل کشی نے کس قدر خوف ناک صورت اختیار کر لی ہے، معصوم بچے بھوک سے بلک رہے ہیں اور اسرائیلی جارحیت نے ان کے جسم وجان کو مضمحل کردیا ہے۔
عالمی ریلیف ایجنسیوں کی طرف سے انتباہ جاری کیا جا رہا ہے کہ مارچ سے اب تک اس بگڑتی صورت حال کی وجہ اسرائیلی محاصرہ اور امدادی قافلوں کے پہنچنے میں دیدہ ودانستہ تا خیر ہے۔ عالمی ادارہٴ صحت بھی اس انسانیت سوز تباہی پرگہری تشویش کا اظہار کرچکا ہے، صورتِ حال کو مزید سنگین بنانے کے لیے اسرائیل نے غیر ملکی امدادی تنظیموں کو غزہ میں امدادی سر گرمیاں جاری رکھنے سے روک دیا ہے ۔
اسرائیلی وزیر خزانہ نے نہایت سنگدلی اور ہٹ دھرمی کے ساتھ یہ دھمکی دی ہے کہ غزہ کی پٹی میں گندم کا ایک دانہ بھی داخل ہونے نہیں دیا جائے گا، غزہ میں خوراک کے انتظار میں کھڑے سینکڑوں فلسطینی اسرائیلی حملے میں شہید کر دیئے گئے ہیں، امدادی اور رفاہی اداروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کئی ماہ کے لیے خوراک کا ذخیرہ موجود ہے جو غزہ کی مکمل آبادی کی ضرورت کے لیے کافی ہوسکتا ہے، لیکن اسرائیل ان اداروں کو غزہ میں داخلے کی اجازت نہیں دے رہا۔
ان حالات میں 57 اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا کردار شرمناک اور مجرمانہ حد تک مداہنت اور خود غرضی کا آئینہ دار ہے، امریکی سرپرستی میں ہونے والے شرم ناک اسرائیلی مظالم موجودہ زمانے کے جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے دنیا کے چپے چپے میں عوام وخواص تک با تصویر پہنچ رہے ہیں، ایمانی غیرت رکھنے والے اہل اسلام دل گرفتہ وآبدیدہ ہیں، لیکن مسلم ممالک کے حکمران اپنی عارضی بادشاہت کے نشے میں مخمور ،دوام ِاقتدار کی بے معنی خواہش دل میں لیے چند محدود الفاظ میں زبانی مذمت سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں،امدادی سر گرمیاں اگر ہیں بھی تو امریکہ اور طاغوتی قوتوں کی ما تحتی میں، گویا مظلوم کی مدد کرنے کے لیے ظالم سے اجازت طلب کی جارہی ہے اور مقتول کی داد رسی کے لیے قاتِل ہی کے اشارہٴ ابرو کا انتظار ہے، جب کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق امارت وحکمرانی کی مسند نہ تو پھولوں کی سیج ہے اور نہ ہی عیاشی کا تخت، متعدد احادیث میں حکمرانی کے فرض منصبی میں کوتاہی پر سخت وعیدیں سنائی گئیں ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”ما من عبد استرعاہ اللّٰہ رعیةً فلم یحطھا بنُصحہ لم یجد رائحة الجنة“․ ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیر خواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔ (صحیح بخاری)
نیز ایک اور حدیث میں ہے : ”ما من أمیر یلی أمر المسلمین ثم لا یجھد لھم وینصح إلا لم یدخل معھم الجنة“․
جو کوئی امیر مسلمانوں کی حکومت کا والی بنے، پھر ان کے حق میں پوری کوشش اور خیر خواہی نہ کرے تو وہ ان کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا (صحیح مسلم)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ”لو أن شاة ھلکت بشطّ الفرات لخشیت أن اللّٰہ سیَسأَلُنِی عنہا“․ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک بکری بھی ہلاک ہوجائے تو مجھے اندیشہ ہے کہ مجھ سے اس کے بارے میں باز پُرس ہوگی ۔ کیا موجودہ اسلامی ممالک کے فرماں رواوٴں کا کردار ان مقدس فرامین کے مقتضا سے ادنی سی مناسبت بھی رکھتا ہے؟! اور حلال وحرام کی تمیز سے محروم یہ عیاش طبقہ ان والدین کی کیفیت کا اندازہ کر سکتا ہے جن کے لختِ جگر ہفتہ عشرہ تک خوراک سے محروم رہنے کے بعد ان کے سامنے ایڑیاں رگڑتے شہید ہوجاتے ہیں؟! بہر حال بہت تاخیر ہو جانے کے باوجود اب بھی وقت ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے دینی حمیت وغیرت کا ثبوت دیں اور ظالم کا ہاتھ روکیں قبل اس کے کہ وقت گزر جائے اور دنیا وآخرت کی رسوائی ان کا مقدر بن جائے، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!