عہد نبوی میں نوجوانوں کا کردار

idara letterhead universal2c

عہد نبوی میں نوجوانوں کا کردار

محترمعصمت اللہ نظامانی

معاشرے میں نوجوانوں کی اہمیت کسی سے مخفی نہیں ہو گی کہ نوجوان ہی معاشرے کے عملی اعتبار سے اہم افراد ہوتے ہیں، دینی ودنیاوی ہرمحاذ میں پیش پیش رہتے ہیں، قرآن پاک واحادیث مبارکہ میں بھی کئی نوجوانوں کا تذکرہ موجود ہے، چناں چہ قرآن مجید میں اصحاب کہف کا ذکر کرتے ہوئے صراحت کے ساتھ لفظ ”فتیة“یعنی نوجوان ذکر کیا گیا ہے۔ چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِذْ أَوَی الْفِتْیَةُ إِلَی الْکَہْفِ﴾․ (الکہف:10)

ترجمہ:یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ان نوجوانوں نے غار میں پناہ لی تھی۔

اسی طرح ایک دوسری آیت میں ہے:
﴿إِنَّہُمْ فِتْیَةٌ آمَنُوا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنَاہُمْ ہُدًی﴾․ (الکہف:13)

ترجمہ :یہ کچھ نوجوان تھے جو اپنے پر ور دگار پر ایمان لائے تھے، اور ہم نے ان کو ہدایت میں خوب ترقی دی تھی۔ اسی طرح احادیث میں بھی نوجوانوں اور ان کی جد وجہد ، مجاہدات اور مناقب کا بکثرت ذکر موجود ہے، اور نوجوانی کو غنیمت سمجھنے کا حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:

”اغتنم خمسا قبل خمس:شبابک قبل ہرمک “․ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، 341/4، رقم الحدیث:7846، الناشر:دار الکتب العلمیة،بیروت، ط: 1411ہ 1990م)

ترجمہ :پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو، اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے… ۔

بلکہ نوجوان طبقے کو مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقوام کی نظر میں بھی بلند مقام حاصل ہے، چناں چہ نوجوان طبقہ ہر معاشرے میں احسن طریقے سے اپنی ذمہ داری اور مفوضہ امور سر انجام دیتا ہے اور بخوبی اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

سیاسی میدان ہو،ر فاہی و فلاحی خدمات ہوں، ملی و سماجی کاموں کی انجام دہی ہو یاد ینی اور مذہبی اعمال کی بجا آوری ہو، نو جوان ہر کام میں صف اول میں نظر آئیں گے۔

نو جو ان کی اہمیت سے متعلق ایک عمدہ انگریزی مقولہ ہے:
We cannot always build the future for our youth, but we can build our youth for the future. (The power of youth, by Mubashir Majid baba, page:1, printed from Greater Kashmir, 2015)

ترجمہ:ہم اپنے نوجوانوں کے لیے ہمیشہ مستقبل تعمیر نہیں کر سکتے، لیکن مستقبل کے لیے نوجوانوں کی تعمیر کر سکتے ہیں۔

اس لیے ہر دور میں نوجوان طبقے کی اصلاح کی طرف خصوصی توجہ التفات کی ضرورت رہی ہے، تا کہ وہ معاشرے کے لیے بوجھ اور ضرر رساں نہ بن جائیں اور یہ بات بالکل عیاں ہے کہ بگڑا ہوا ایک نوجوان معاشرے اور دین، بلکہ انسانیت کے لیے اتنازیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے کہ جتنا کئی عمر رسیدہ افراد یا بچے بھی نہیں ہو سکتے۔ اور چوں کہ :”الجنس یمیل إلی الجنس“یعنی ہر فرد اپنے ہم جنس کی طرف مائل ہوتا ہے ، اس لیے نوجوانوں کے سامنے عہد نبوی کے ان نوجوانوں کا ذکر اور ان کے بے مثال کردار کا تذکرہ ضروری ہوگا؛ کیوں کہ ان کا ذکر خیر ہر دور کے نوجوانوں، بلکہ ہر عمر اور طبقے کے انسانوں کی ہدایت کے لیے مشعل راہ ہے۔

عہد نبوی میں نوجوانوں نے دینی، معاشرتی و سماجی ، رفاہی اور جنگی۔ الغرض ہر قسم کے امور اور خدمات میں اپنا کر دار نبھایا، چناں چہ زیر نظر مضمون میں اختصار کے ساتھ ان کا تذکرہ قلم بندکیا جائے گا۔

عہد نبوی کے نوجوانوں کی کردار سازی

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نوجوان طبقے کی اصلاح اور ان کی تربیت و کردار سازی پر خصوصی توجہ دیتے تھے، چناں چہ سب سے پہلے بچپن سے ہی یہ تربیت شروع ہو جاتی۔ سات سال کی عمر میں نماز پڑ ھنے اور دس سال کی عمر میں اس اہم ترین فرض یعنی نماز میں کوتاہی کرنے پر سختی اور تادیبی کارروائی کا حکم دیا، اسی طرح بچوں کے بستر علیحدہ کرنے کا حکم دینا ان کی دینی و اخلاقی تربیت اور مضبوط کردار سازی کا بہترین نمونہ ہے۔

جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”مروا أولادکم بالصلاة وہم أبناء سبع سنین، واضربوہم علیہا وہم أبناء عشر سنین وفرقوا بینہم فی المضاجع․“ (سنن أبی داود، کتاب الصلاة، باب متی یؤمر الغلام بالصلاة185/1، رقم الحدیث:495، الناشر:دار الکتاب العربی، بیروت)

ترجمہ:اپنے بچوں کو نماز کا حکم وہ جب کہ وہ سات سال کے ہوں اور ان کو اسے چھوڑنے پر تاد یباً مارو، جب کہ وہ دس سال کے ہوں اور ان کے بستر بھی علیحدہ کردو۔

اور جب نوجوانی میں قدم رکھنے کے بعد جنسی خیالات آتے ہوں اور خواہش نفسانی کا ہیجان ہو تو نوجوانوں کی ایسی حالت کے لیے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی آسان اور عمدہ جسمانی و نفسیاتی تربیت پیش کی ہے، تا کہ ان کی مضبوط وبے لچک کردار سازی ہو۔ درج ذیل چند واقعات ذکر کیے جاتے ہیں جن سے معلوم ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نو جوانوں کی کردار سازی کرتے تھے اور عہد نبوی کے نوجوان کس طرح مضبوط کردار کے مالک بنے۔

حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی اور ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے۔ (أسد الغابة فی معرفة الصحابة لابن الأثیر الجزری 349/4، رقم الترجمة: 4237، الناشر:دار الکتب العلمیة - بیروت، ط: 1415ہ 1994م) حجة الوداع کے موقعے پر حضرت فضل بن عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ سواری پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جگہ کچھ خواتین کا گزر ہوا، تو حضرت فضل بن عباس ان کی طرف دیکھنے لگے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو آپ نے اپنے ہاتھ مبارک سے حضرت فضل کا چہرہ پھیر دیا، حضرت فضل اپنا چہرہ دوسری طرف کر کے دوبارہ دیکھنے لگے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اپنے ہاتھ مبارک سے ان کا چہرہ دوسری جانب پھیر دیا۔(صحیح البخاری، کتاب الحج، باب وجوب الحج وفضلہ، 132/2، رقم الحدیث:1513، الناشر:دار طوق النجاة، ط:1422ہ وصحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجة النبی صلی اللہ علیہ وسلم 891/2، رقم الحدیث : 1218، الناشر:دار إحیاء التراث العربی، بیروت )

حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ جب نوجوانی کے ہاتھوں مجبور ہو کر عورتوں کی طرف بار بار دیکھ رہے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی سخت سرزنش نہیں کی، بلکہ اپنے ہاتھ مبارک سے ان کا چہرہ پھیر کرہلکی سی تنبیہ کر دی۔

حضرت عباس کی مالی حالت سازگار نہیں تھی اور یہی حال ان کے بھتیجے حضرت ربیعہ بن حارث کا بھی تھا، دوسری طرف ان دونوں حضرات کے فرزند، یعنی فضل بن عباس اور عبد المطلب بن ربیعہ بالغ ہو چکے تھے اور شادی کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ اس لیے ان کے والدین کو ان کی فکر رہتی تھی۔ چناں چہ ایک دن دونوں چچا، بھتیجے یعنی حضرت عباس اور حضرت ربیعہ بن حارث نے اپنے بیٹوں، فضل بن عباس اور عبد المطلب بن ربیعہ سے کہا کہ جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے تمام حالات بیان کرو اور اپنی شادی اور زکوة وصدقات کی وصولی پر ملازمت کے بارے میں عرض کرو، تا کہ دیگر عاملین کی طرح تم کو ان میں سے کچھ حصہ ملے۔ وہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے دروازے تک آئے، نماز ظہر کی اقامت ہو رہی تھی ، ان دونوں نے نماز پڑھی اور پھر جلدی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر کے دروازے پر آکر کھڑے ہو گئے، حضورصلی الله علیہ وسلم آئے اور فضل بن عباس اور عبد المطلب بن ربیعہ دونوں کو کان سے پکڑا اور فرمایا:”أخرجا ما تصوران“یعنی جو بات دل میں ہے، کہہ ڈالو۔

بہر حال جب انہوں نے حضورصلی الله علیہ وسلم کے سامنے اپنے والدین کی تلقین کردہ تمام باتیں بیان کر دیں تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں نرمی سے سمجھایا کہ زکوٰة و غیر ہ پر عامل مقرر کر کے اس میں سے کچھ مال ان کو نہیں دیا جا سکتا، کیوں کہ زکوة حضورصلی الله علیہ وسلم کے آل اور خاندان کے لیے حرام ہے، اور وہ دونوں بھی آپ کے خاندان میں سے تھے۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے دوسرے طریقے سے ان کی حاجت روائی اور خواہش پوری کی۔ وہ اس طرح کہ نوفل بن حارث کو بلا کر فرمایا کہ :”اے نوفل!عبد المطلب سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دو “ اور خمس پر مقرر ایک عامل محمیة بن جزء کو بلا کر فرمایا:فضل کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کر دواور خمس میں سے ان دونوں کا مہر ادا کر دو ۔(سنن أبی داود، کتاب الخراج، باب فی بیان مواضع قسم الخمس وسہم ذی القربی 108/3، رقم الحدیث: 2987 - وصحیح ابن خزیمة، کتاب الزکاة، باب الزجر عن استعمال موالی النبی علی الصدقة إذا طلبوا العمالة 55/4، رقم الحدیث:2342،الناشر:المکتب الإسلامی بیروت، ط 1390ہ - 1970م)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ان دونوں نوجوانوں سے نرمی اورملاطفت سے سلوک کرنا، ان کے ذاتی نوعیت کا مطالبہ اور سوال سننا اوربہتر انداز میں انہیں اس مطالبے کا نا جائز ہونا بتا کر، دوسرے طریقے سے ان کی حاجت روائی کرنا۔الغرض عہد نبوی کے نوجوانوں کے مالی معاملات اور جنسی حالات وغیرہ جیسے امور میں ان کی بہترین کردار سازی کی گئی تھی۔

ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک نوجوان حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ :اے اللہ کے رسول!مجھے زنا کرنے کی اجازت دیجیے، وہاں موجود لوگوں نے اس کو ڈانٹا، بلکہ اس کے نزدیک بیٹھے لوگوں نے اس کو مار نا چاہا توحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روکا اور اس نوجوان کو اپنے قریب بُلا فرمایا کیا تم چاہو گے کہ لوگ تمہاری ماں کے ساتھ اس طرح کریں ؟ اس نے کہا:میں آپ پر فدا جاؤں، اللہ کی قسم!ہر گز نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسی طرح دوسرے لوگ بھی اپنی ماؤں کے لیے یہ نہیں چاہیں گے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم اپنی بیٹی کے لیے یہ پسند کروگے ؟ اس نے عرض کیا :آپ پر قربان جاؤں، اللہ کی قسم!ہرگز نہیں، حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے بارے میں نہیں چاہیں گے ۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا:کیا تم اپنی بہن کے لیے یہ چاہو گے ؟ اس نے عرض کیا:نہیں۔ اسی طرح حضور صلی الله علیہ وسلم اس کی رشتہ دار خواتین کے بارے میں پوچھتے رہے اوروہ انکار کرتارہا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم فرمایا: جو چیز اللہ نے ناپسند قرار دی ہے، تم بھی اسے ناپسند کرو اور جو چیز اپنے لیے پسند کرتے ہو اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرو۔ نیز آپ صلی الله علیہ وسلم اس کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھا اور دعا کی ، جس کی بدولت اس کو پھر کبھی برائی کے خیالات نہیں آئے۔( السنن الکبری للبیہقی، جماع أبواب السیر، باب فی فضل الجہاد فی سبیل اللہ 264/9، رقم الحدیث:18507، الناشر:دار الکتب العلمیة - بیروت، ط: 1424ہ - 2003 م مسند أحمد، 545/36، رقم الحدیث: 22211، الناشر:مؤسسة الرسالة بیروت، ط: 1320ہ 1999م)

خلاصہ یہ کہ کتب احادیث وتاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بخوبی معلوم ہو گی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کی کردار سازی، ان کی اصلاح و تربیت پر خاص التفات فرمایا تھا، جس کی بدولت عہد نبوی کے نوجوانوں نے دین و دنیا کے ہر شعبے میں نہایت احسن طریقے سے اپنا کردار ادا کیا۔ جس کی وضاحت درج ذیل تحریر سے ہو جائے گی۔

عہد نبوی میں نوجوانوں کا تدریسی خدمات سر انجام دینا

حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کی بدولت صحابہ کرام کو علم سے لگاؤ اور اس کی نشر و اشاعت میں شغف حاصل ہو گیا تھا، چناں چہ ان میں بعض حضرات کو تدریس و تعلیم کے شعبہ سے وابستہ کیا گیا، جن میں عام طور پر نوجوان صحابہ ہی تھے۔ ان کا مختلف مقامات پر تقرر کیا گیا ، جہاں انہوں نے تدریسی خدمات سر انجام دیں اور علم کی روشنی لوگوں میں پھیلا کر، جہالت کے اندھیروں سے انہیں نکالا۔ ایسے نوجو ان صحابہ میں سے چند ایک کاذکرحسب ذیل ہے، جنہوں نے دین اور علم دین کی نشر و اشاعت میں اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔

نوجوان صحابی حضرت مصعب بن عمیر بطور معلم مشہور تھے، ہجرت سے قبل ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے مسلمانوں کی تعلیم کی غرض سے حضرت مصعب بن عمیر کو بھیجا، تا کہ وہاں کے مسلمانوں کو قرآن پاک سکھائیں اور دینی تعلیم دیں، چناں چہ اس کی وجہ سے آپ ”مقری “یعنی معلم و استاد کے لقب سے مشہور ہوئے، جیسا کہ مشہور محدث ابو نعیم اصفہانی ان کے حالات میں لکھتے ہیں:

”بعثہ النبی إلی المدینة بعد أن بایع الأنصار البیعة الأولی، لیعلمہم القرآن، ویدعوہم إلی توحید اللہ ودینہ، وکان یدعی المقریٴ“․ (معرفة الصحابة لأبی نعیم الأصفہانی 2556/5، الناشر:دار الوطن للنشر - الریاض، ط:1419ہ - 1998م)

ترجمہ:انصار کی پہلی بیعت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مدینے کی جانب بھیجا، تا کہ وہ انہیں قرآن پاک سکھائیں اور اللہ کی توحید اور دین کی طرف دعوت دیں، ان کو ”مقری“( استاد، پڑھانے والا، معلم)کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ اور جس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم و تدریس کے لیے ان کا انتخاب کیا تھا، اس وقت وہ نوجوان تھے، کیوں کہ غزوہ احد میں ان کی شہادت ہوئی تو اس وقت ان کی عمر تقریباً چالیس سال تھی۔(الاستیعاب فی معرفة الأصحاب لابن عبد البر 1474/4، رقم الترجمة: 2553 الناشر:دار الجیل - بیروت، ط:1412ہ - 1992م)

حضرت مصعب بن عمیر اور ایک دوسرے نوجوان صحابی حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم کی کوشش و کاوش، دانش مندی اور معلمانہ بصیرت کی وجہ سے قبیلے کے دونوں سردار حضرت سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر مشرف بہ اسلام ہوئے اور اسی دن ایک شخص اصیرم کے علاوہ پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد لابن القیم 42/3الناشر: مؤسسة الرسالة - بیروت، ط:1415ہ 1994م) اور اصیرم نامی شخص نے بھی غزوہ احد کے موقعہ پر اسلام قبول کیا اور نماز کا وقت آنے سے پہلے ہی شہید ہو گیا، گویا کہ انہوں نے اسلام لانے کے بعد نماز نہیں پڑھی۔ (المصدر السابق)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ایک نوجوان صحابی تھے اور جوانی میں ہی ان کا انتقال ہوا،کیوں کہ بوقت وفات ان کی عمر تقریباً تینتیس، چونیتیس سال یا اس سے کچھ اوپر تھی۔ (معرفة الصحابة لابي نعیم:5/2431) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کی طرف قاضی، امیر اور معلم بنا کر بھیجا اور ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ تمہارے ذریعے وہاں دین پھیلائے گا۔(أسد الغابة في معرفة الصحابة لابن الأثیر الجزری:5/187، رقم الترجمة:4960) بلکہ علامہ ابن کثیر نے نے لکھا ہے کہ حضرت معاذ کو دو علاقوں میں معلم واستاد بنا کر بھیجا، جیسا کہ وہ لکھتے ہیں :

”وبعث معاذ بن جبل معلما لاہل البلدین : الیمن وحضرموت․“(البدایة والنھایة لابن کثیر:6/338، الناشر: دار إحیاء التراث العربي بیروت،ط:1408ھ1998م)

ترجمہ:اور معاذ بن جبل کو دو شہروں یعنی یمن اور حضر موت کی طرف معلم بنا کر بھیجا۔

اور بعد میں آنے والوں نے دیکھا کہ حضرت معاذ نے کس طرح عمدہ طریقے سے یمن اور اس کے قرب وجوار کے علاقوں میں اسلام اور قرآنی تعلیمات کو عام کیا۔ ان کی وفات حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ہوئی تھی، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جب حضور صلی الله علیہ وسلمنے ان کے ذمہ تعلیم و تدریس کی خدمت سپرد کی تھی تو اس وقت وہ کتنے کم عمر نوجوان ہوں گے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور نوجوان صحابی حضرت عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ کو سترہ سال کی عمر میں دین اسلام کی تعلیم اور قرآن پاک سکھانے وغیرہ کی غرض سے نجران کے علاقے پر والی بنا کر بھیجا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میراث ،دیت ،صدقات وزکوة وغیرہ کے مسائل لکھ کر ایک صحیفہ ان کے سپرد کیا تھا۔ چناں چہ علامہ ابن عبد البر ان کے حالات میں ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں:

”واستعملہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم علی أہل نجران، وہم بنو الحارث بن کعب، وہو ابن سبع عشرة سنة، لیفقہہم فی الدین، ویعلم القرآن… وکتب لہ کتابا فیہ الفرائض والسنن والصدقات والدیات․ “(الاستیعاب في معرفة الأصحاب لابن عبدالبر:3/1173، رقم الترجمة:1907)

ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اہل نجران (وہ بنو حارث بن کعب ہیں )پر والی بنایا تھا، اس حال میں کہ ان کی عمر سترہ سال تھی، تاکہ انہیں دین سکھائیں اور قرآن پاک کی تعلیمدیں… اور ان کو ایک کتاب بھی لکھ کر دی تھی، جس میں میراث ، سنتوں ، صدقات وزکوة اوردیت کے مسائل تھے۔

اصل یہ کہ عہد نبوی میں نوجوانوں کو دینی علوم کی تعلیم و تدریس کے مواقع بکثرت فراہم کیے جاتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنی کامل بصیرت و فراست سے یہ اہم ذمہ داری انجام دینے کے لیے عموما نو جوانوں کا انتخاب کرتے تھے۔ اور تاریخ گواہ ہے کہعہد نبوی کے نوجوانوں نے تعلیم وتدریس کے میدان میں اس عمدہ طریقے سے اپنا کر دار ادا کیا کہ بعد میں آنے والوں میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔

دین کی سر بلندی اور ملک و قوم کے تحفظ کے لیے عہد نبوی میں نوجوانوں کا کردار

عہد نبوی میں نوجوان اعلائے کلمة اللہ، دین حق کی سربلندی اور ملک وملت کے تحفظ کے سلسلے میں بھی اپنا کر دار عمدہ طریقے سے نبھاتے تھے، چناں چہ لڑائی و جنگ کے کار زار، میدان جدال و قتال اور معرکہ ایمان وکفر میں ”وہ بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی دیوار بن جاتے تھے ، مظلوم مسلمانوں کی مدد اور ان کو ظلم وجور سے بچانے کی خاطر ذرہ برابر کوتاہی نہیں کرتے تھے اور جہاں اپنے ملک اور قوم کی بقا خطرے میں محسوس ہوتی یا کفار اور غیروں کی یلغار کا سامنا کرنا پڑتا، وہاں وہ فولاد کے مانند دشمن کے مد مقابل ڈٹ جاتے تھے اور مجال ہے کہ ان کے قدم متزلزل ہوں۔ چناں چہ اس سلسلے میں عہد نبوی کے چند نوجوانوں کے واقعات مندرجہ ذیل ہیں:

ایک نوجوان صحابی حضرت مصعب کا علمی اعتبار سے ذکر خیر اوپر آچکا ہے، انہوں نے غزوہ احد میں بہادری و جواں مردی، مسلمانوں کے تحفظ کی خاطر قربانی، اپنے ملک کے دفاع اور دین اسلام کی سربلندی کے سلسلے میں ایسے انمٹ نقوش چھوڑے کہ تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ وہ اس طرح کہ مسلمانوں کا جھنڈاان کے ہاتھ میں تھا، جب دشمن نے ان کے دائیں ہاتھ پر حملہ کرکے اسے کاٹ ڈالا تو حضرت مصعب نے جھنڈا اپنے بائیں ہاتھ میں لے لیا، پھر حملہ آورنے ان کا دایاں ہاتھ کاٹ ڈالاتوانہوں نے پرچم اپنے سینے سے لگالیا، لیکن تیسری بار دشمن نے ان کے سینے میں نیزہ گاڑھ دیا، جس سے ان کی شہادت واقع ہو گئی اور جھنڈا گر گیا، مگر اسی وقت دوسرے صحابہ نے اسے اٹھا لیا۔ (الطبقات الکبری لابن سعد:3/89، الناشر: دارالکتب العلمیة، بیروت، ط:1410ھ 1990م)

عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کم عمر نوجوان صحابی تھے۔ غزوہ بدر میں کفار جب اپنے لاؤ لشکر سمیت مسلمانوں کو ختم کرنے اور اسلام کو مغلوب کرنے آئے تھے تو حضرت عمیر بن ابی وقاص یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے لڑنے اور اس کی خاطر میں شہادت حاصل کرنے کے بجائے، گھرمیں آرام سے بیٹھے رہیں۔ اس لیے وہ مسلمانوں کے پیچھے چھپتے ہوئے مقام بدرکی طرف آنے لگے۔ ان کے بھائی سعد بن ابی وقاص نے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا:

”إنی أخاف أن یرانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیستصغرنی فیردنی، وأنا أحب الخروج․“(الإصابة في تمییز الصحابة:4/603، رقم الترجمة:6072)

ترجمہ:”مجھے ڈر ہے کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ کر چھوٹا سمجھتے ہوئے واپس لوٹا نہ دیں، حالاں کہ میں جنگ کے لیے نکلنا چاہتا ہوں۔“

چناں چہ وہی ہوا جس کا انہیں ڈر تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹا ہونے کی وجہ سے واپس لوٹنے کا کہہ دیا، یہ سن کر وہ رو نے لگے، بالآخر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، چناں چہ غزوہ بدر میں اسلام کی سربلندی کے لیے لڑتے ہوئے سولہ 16سال کی عمر میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ (اسد الغابة للجزري:4/287، رقم الترجمة:4095)

حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو کہجعفر طیار سے مشہور ہوئے، جنگ موتہ میں نوجوانی کی حالت میں مقام شہادت سے سرفراز ہوئے۔ ایک طرف کفار اور نصاری کا حد نگاہ پھیلا ہوا لشکر اور دوسری طرف مسلمانوں کے صرف تین ہزار کے قریب جانباز مجاہدین ۔حضرت زید بن حارثہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے لشکر کے امیر اور سپہ سالا حضرت جعفر بن گئے تھے، لیکن اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کو غیروں کے ظلم وستم سے بچانے کے لیے حضرت جعفر نہایت بہادری اور جرات مندی سے لڑے۔ مسلمانوں کا علم ان کے دائیں ہاتھ میں تھا، حملہ آور نے دایاں ہاتھ کاٹ کر اسے گرانا چاہا تو انہوں نے پر چم اپنے بائیں ہاتھ میں تھام لیا، جب بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو اسے سینے سے لگالیا اور اپنی زندگی میں اسے زمین پر گرنے نہیں دیا ۔(أسد الغابة للجزری:1/541، رقم الترجمة:759)

جنگ بدر میں کفار و مشرکین مکہ اپنی پوری تیاری اور ایک بڑے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور دین اسلام کو مغلوب کرنے آئے تھے ۔ مسلمان تعداد اور لڑائی کے ہتھیار وغیرہ کے اعتبار سے کسمپرسی کی حالت میں تھے، بلکہ جنگ جیتنے کے ظاہری اسباب ان کے پاس بہت ہی کم تھے ، لیکن ان کے پاس مضبوط ایمان، قوت ارادی اور قوی عزائم کے مالک افراد تھے۔ دوسری طرف اس امت کا فرعون ابو جہل اپنی فرعونیت دکھلانے میدان کارزار میں خود موجود تھا، جس سے کفار کی ہمت اور حوصلہ بلند ہو گیا تھا۔

ابو جہل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو جتنی تکلیف واذیت پہنچائی تھی ، وہ کسی سے مخفی نہیں ہوگی، اس نے دین اسلام کا روشن چراغ گل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ چناں چہ جب فریقین کے لشکر مد مقابل ہوئے، مسلمانوں میں صف بندی ہوئی، تو پہلی صف میں دو کم عمر نوجوان معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن جموح بھی موجود تھے۔(صحیح بخاری کی روایت میں ان کے ناموں کی تصریح موجود ہے ۔ملاحظہ ہو، صحیح البخاری، کتاب فرض الخمس، باب من لم یخمس الأسلاب: 4/91، رقم الحدیث:3141)

ان دونوں نے اپنی جان پر کھیل کر کفار کے بڑے سردار ابو جہل پر حملہ کر کے اس کو ملک عدم روانہ کیا اور مشرکین کے لشکر کے حوصلے پست کیے ؛ کیوں کہ لشکر کے سردار و قائد کی ہلاکت سے پورے لشکر پر جو منفی اثر ہوتا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں تو ابو جہل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی سعادت عہد نبوی کے دو کم عمر نوجوانوں کو حاصل ہوئی۔ اس سلسلے میں عینی شاہد حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا درج ِ ذیل بیان دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔

قال عبد الرحمن بن عوف :”إنی لفی الصف یوم بدر إذ التفت فإذا عن یمینی وعن یساری فتیان حدیثا السن، فکأنی لم آمن بمکانہما، إذ قال لی أحدہما سرا من صاحبہ: یا عم أرنی أبا جہل، فقلت:یا ابن أخی، وما تصنع بہ؟ قال:عاہدت اللہ إن رأیتہ أن أقتلہ أو أموت دونہ، فقال لی الآخر سرا من صاحبہ مثلہ، قال: فما سرنی أنی بین رجلین مکانہما، فأشرت لہما إلیہ، فشدا علیہ مثل الصقرین حتی ضرباہ “․

ترجمہ:حضرت عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ میں غزوہ بدر کے دن صف میں موجود تھا، جب میں نے اپنے دائیں اور بائیں جانب دیکھا تووہاں دو کم عمر نوجوان کھڑے تھے۔ مجھے ان کے وہاں کھڑے ہونے سے اطمینان نہیں تھا، (کیوں کہ اگر بڑے ہوتے تو مشکل وقت میں مدد کرتے ) تب اچانک ان میں سے ایک نے سر گوشی کرتے ہوئے مجھ سے پو چھا(تاکہ دوسرا نوجوان نہ سن لے ) اے چچا جان!مجھے ابو جہل دکھلائیے، میں نے کہا کہ اے بھتیجے!اس کا کیا کرو گے ؟ اس نے جواب دیا:میں نے اللہ کی قسم اٹھائی ہے کہ اگر میں اس کو دیکھوں گا تو اس کو قتل کروں گا یا اس سے لڑتے ہوئے خود شہید ہو جاؤں گا۔ اتنے میں دوسرے نوجوان نے بھی سرگوشی میں اس قسم کی بات کی۔

حضرت عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ ان دونوں کی جگہ اگر دو بڑے مرد ہوتے تب بھی مجھے اتنی زیادہ خوشی نہ ہوتی۔ تو میں نے ان دونوں کو ابو جہل کی طرف اشارہ کر کے بتایا، وہ دونوں باز کی طرح اس پر جھپٹے اوراس کو مار دیا۔

حضرت حنظلہ بن ابی عامر رضی اللہ عنہ غز وہ احد کے وقت نوجوان تھے اور تازہ شادی ہوئی تھی، بیوی سے جماع کیا، لیکن ابھی غسل کرنے ہی لگے تھے کہ اعلائے کلمة اللہ اور مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کفار کے خلاف جہاد کا اعلان ہوا ، ان سے یہ برداشت نہیں ہوا کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو لڑتے اور شہید ہوتے دیکھیں اور خود آرام سے گھر میں موجود ہوں، چناں چہ اسی حالت میں میدان جنگ کی طرف چل پڑے ، اور اللہ کے دین کی سربلندی اور اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرتے ہوئے مقام شہادت سے سرفراز ہوئے۔

شہادت کے بعد ان کو فرشتوں نے غسل دیا اور ان کی زوجہ محترمہ سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ حالت جنابت میں ہی جہاد کے لیے نکل پڑے تھے، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:”إن صاحبکم تغسلہ الملائکة فاسئلوا صاحبتہ، فقالت:إنہ خرج لما سمع الجائعة وہو جنب، فقال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: لذلک غسلتہ الملائکة․“ (المستدرک:3/225، رقم(4917)

ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے اس ساتھی کو فرشتوں نے غسل دیا ہے، تو اس بارے میں ان کی شریک حیات سے پوچھو، اس نے یہ جواب دیا کہ وہ جنگ و لڑائی کا اعلان سنتے ہی نکل پڑے ، اس حال میں کہ وہ جنبی تھے، تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی وجہ سے فرشتوں نے اس کو غسل دیا تھا۔

الغرض اعلائے کلمة اللہ، دین کی سربلندی ، ملک و قوم کے تحفظ اور مظلوم مسلمانوں کی حفاظت کے سلسلے میں عہد نبوی کے نوجوانوں نے بھر پور کردار ادا کیا اور بعد والوں کو بتلایا کہ دین حق اور ملک وملت کے تحفظ کی خاطر حاصل ہونے والی شہادت سے انسان مرتا نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے ”بقا“اور حیات جاودانی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔(جاری)

تعمیر حیات سے متعلق