ایثار و قربانی اور جذ بہ خیر خواہی میں عہد نبوی میں نوجوانوں کا کردار
اس بات میں کوئیشک نہیں کہ اگر کسی قوم میں جذ بہ ایثار، ہم دردی اور دوسرے انسانوں کے لیے اپنی خواہشات کی قربانی کا ولولہ نہ ہوتو وہ قوم کبھی بھی زندہ قوم کہلانے کی مستحق نہیں ہو گی۔ اپنی زندگی اپنے لیے جینے والے انسان تاریخ میں بے نام ہو کر رہ جاتے ہیں، ان کے کار نامے وقت گزرنے سے قصہ پارینہ سے زیادہ کچھ نہیں رہتے۔
یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی جذبہ ایثار وقربانی کے سلسلے میں خصوصی تربیت اور ان کی کردار سازی کی تھی، جس کی بدولت ایثار و قربانی ان کا وصف خاص بن گیا، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَیُؤْثِرُونَ عَلَیٰ أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَةٌ ﴾․(الحشر:9)
ترجمہ:اوروہ ان (مہاجرین)کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ خود ان پر تنگ دستی کی حالت گزر رہی ہو۔
اور تمام صحابہ کرام نے عموماً اور نوجوانوں نے خصوصاً ایثار اور قربانی کی وہ مثالیں قائم کیں کہ رہتی دنیا تک تاریخ ان کی نظیر لانے سے قاصر ہے۔ جیسا کہ درج ذیل چند واقعات سے عہد نبوی کے نوجوانوں کا ایثار و قربانی اور جذبہ خیر خواہی کے سلسلے میں بے مثال کردار معلوم ہو گا۔
حق وباطل کے درمیان لڑی جانے والی فیصلہ کن جنگ یرموک میں کئی حضرات صحابہ مقام شہادت سے سرفراز ہوئے، اس جنگ کے بارے میں حضرت ابوجہم بن حذیفہ عدوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں دوران جنگ پانی کا ایک مشکیزہ اپنے سے ساتھ لے کر اپنے چچازاد بھائی کی تلاش میں تھا؛ تا کہ اسے پانی پلا سکوں، اچانک میری اس پر نظر پڑی، وہ شدید زخمی تھا، البتہ زندگی کی کچھ رمق باقی تھی، میں لپک کر اس کے پاس پہنچا اور پانی پلانے کا پوچھاتو اس نے اشارے سے ”ہاں“کہا، میں اس کو پانی پلانے ہی لگا تھا کہ ایک آدمی کے کراہنے کی آواز سنی، میرے چچازاد نے اشارے سے مجھے کہا کہ پہلے اس کو جاکر پانی پلاؤ، میں اس زخمی آدمی کے پاس آیا، وہ حضرت عمرو بن عاص کا چھوٹا بھائی ہشام بن عاص رضی اللہ عنہ تھا، میں اس کو پانی پلانے ہی لگا تھا کہ ایک شخص کی ”آہ“ان کے کانوں میں پڑی تو انہوں نے مجھے اس کی طرف بھیج دیا، میں اس تیسرے شخص کے پاس آیا تو وہ فوت ہو چکا تھا، میں حضرت ہشام کے پاس لوٹ کر آیا تو وہ بھی شہید ہو چکے تھے اور پھر جب میں دوبارہ اپنے چچازاد بھائی کے پاس آیا تو وہ بھی اپنے خالق حقیقی سے جاملے تھے۔ (شعب الإیمان للبیھقي:5/142، رقم الحدیث:3208، الناشر: مکتبةالرشد، الریاض، ط:1423ھ 2003م)
حضرت عمرو بن عاص کے چھوٹے بھائی نوجوان تھے ، اسی طرح حضرت ابو جہم کا چچازاد بھائی بھی۔ لیکن ایثار و قربانی کے سلسلے میں کسی سے کم نہ تھے۔ اور آفرین ہو ان پاکیزہ اور مقدس نفوس پر، جو جذبہ ایثار اور دوسرے مسلمان کی خاطر قربانی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ پیاس کی حالت میں شہادت قبول کر لی، لیکن اپنے مسلمان بھائیوں کی ”آہ“سننے کے بعد پانی کا ایک گھونٹ بھرنا بھی گوارا نہیں کیا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرزند حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ بیمار ہوئے اور بیماری کی حالت میں ان کو انگور کھانے کی خواہش ہوئی، ان کی بیوی حضرت صفیہ نے انگور کا ایک خوشہ منگوایا، لیکن جب وہ حضرت ابن عمر کو پیش کیا گیا تو دروازے پر ایک سائل نے آکرصدا لگائی، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے خواہش اور بیماری کے باوجو د انگور کاوہ خوشہ خود نہیں کھایا، بلکہ سائل کو بھجوادیا۔(السنن الکبری للبیھقي:4/310، رقم الحدیث:7803)
عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بیماری اور تکلیف سے انسان کی قوت برداشت، حلم اور بردباری، ایثار اور ہم دردی جیسی صفات میں کمی آجاتی ہے، لیکن عہد نبوی کے نوجوان وہ محترم ہستیاں ہیں جو صحت و تن درستی کی حالت ہو یا مرض اور تکلیف کی ،ہر حالت میں جذبہ ایثار پر عمل پیرا رہتے تھے۔
ام مؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روزے سے تھیں، گھر میں ایک روٹے کے علاوہ کھانے کی اور کوئی چیز نہیں تھی، ایک مسکین نے آکر سوال کیا، حضرت عائشہ نے اپنی خادمہ سے فرمایا کہ وہ روٹی اس سائل کو دے دو، خادمہ نے عرض کیا کہ افطار کے لیے اس کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے، لیکن حضرت عائشہ نے دوبارہ فرمایا کہ روٹی سائل کو دے دو، چناں چہ خادمہ نے روٹی اس کو دے دی، لیکن جب شام ہوئی تو ایسے گھر والوں کی طرف سے بکری کا گوشت آیا، عام طور پر وہ لوگ ہدیہ نہیں دیتے تھے ، اس پر حضرت عائشہ نے خادمہ سے کہا کہ اس میں سے کھاؤ، یہ اس روٹی سے بہترہے۔ (الموطا للإمام مالک، کتاب الصدقة، باب الترغیب فی الصدقة، رقم الحدیث:1810، الناشر: دار إحیاء التراث العربي، بیروت)
حاصل یہ کہ عہد نبوی میں نوجوانوں (خواہ مرد حضرات ہوں یا خواتین ) نے ایثار وہم دردی اور ایک دوسرے کے لیے اپنی خواہشات کی قربانی کے سلسلے میں بہترین کردار ادا کیا ہے اور ایسی تاریخ رقم کی ہے کہ پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اس بات پر کامل یقین آجاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کی خصوصی طور پر کردار سازی کی تھی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے سلسلے میں عہد نبوی میں نوجوانوں کا کردار
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر طبقے اور ہر دور کے مسلمانوں کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کا دفاع اور مخالفین کی جانب سے آپ صلی الله علیہ وسلم پر اٹھائے جانے والے اعتراضات، بہتان تراشی اور افترا پردازی کا عقلی و نقلی، روایةً اور درایتہ غرض ہر طرح سے جواب دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مسلمان ذرہ برابر بھی لاپرواہی برتنا گوارا نہیں کرتے۔ اسی طرح عہد نبوی میں نوجوان بھی اس سلسلے میں پیش پیش نظر آئیں گے، وہ حضرات عاقبت کی پروا کیے بغیر اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور اس میں مداہنت یاتساہل بر تنا جانتے ہی نہیں تھے۔ الغرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لیے انہوں نے قابل تقلید کردارادا کیا تھا اور جسمانی اور کلامی ہر اعتبار سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا دفاع کیا۔ جیسا کہدرج ذیل بعض واقعات سے معلوم ہوگا۔
اس سلسلے میں حضرت حسان بن ثابت نے کیا خوب کہا ہے: فإن أبی ووالدہ وعرضی
لعرض محمد منکم وقاء
ترجمہ:بے شک میرے والد ، دادا اور میری عزت و آبرو محمد (صلی الله علیہ وسلم) کی عزت کے لیے تم لوگوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔
غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کم عمر نوجوان صحابی حضرت زید بن ارقم بھی شریک تھے ، ان کے کم عمر ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ غز وہ احد میں کم سنی کے باعث ان کو شرکت کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ (معرفة الصحابة لأبي نعیم:3/1166)
غزوہ تبوک سے لوٹتے ہوئے رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے اپنے حواریوں سے کہا کہ رسول اللہ( صلی الله علیہ وسلم) کے ساتھیوں پر خرچہ مت کرو،تاکہ وہ چلے جائیں اور اگر ہم مدینہ لوٹے تو عزت والا ، ذلت والے کو نکالے گا، اس نے اپنے آپ کو عزت والا کہا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے نا گفتہ بہ لفظ استعمال کیا، حضرت زید بن ارقم نے یہ بات سن لی، ان سے یہ برداشت نہ ہو سکا کہ ایسے نامناسب و نا گفتہ بہ الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال کیے جائیں، چناں چہ انہوں نے جا کر اپنے چچا کو پوری بات بتلائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تک ایک بات پہنچ سکے۔ حضورصلی اللہ علیہ و سلم کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زید بن ارقم کو بلایا اور مکمل تفصیل سنی، پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا، وہ اس بات سے مکر گئے اور قسم اٹھانے لگے کہ انہوں نے اس قسم کی کوئی بات نہیں کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مان لی اور حضرت زید بن ارقم کی بات رد کر دی۔ اس پر سورت المنافقون نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت زید بن ارقم کی تصدیق کی۔
چناں چہ اس بارے تفصیل بتاتے ہوئے حضرت زید بن ارقم کہتے ہیں:فذکرعمی للنبي صلی الله علیہ وسلم، فدعاني فحدثتہ، فأرسل إلی عبد اللہ بن أبي وأصحابہ، فحلفوا ما قالوا، وکذبنی النبي صلی الله علیہ وسلم وصدقہم، فأصابنی عم لم یصبنی مثلہ قط، فجلست فی بیتی، وقال عمی: ما أردت إلی أن کذبک النبی ومقتک؟ فأنزل اللہ تعالیٰ:﴿إِذَا جَاء َکَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا: نَشْہَدُ إِنَّکَ لَرَسُولُ اللَّہِ ﴾․(المنافقون:1) وأرسل إلی النبي صلی الله علیہ وسلم فقرأہا، وقال: إن اللہ قد صدقک ․(صحیح البخاري، کتاب تفسیر القرآن، باب قولہ:﴿وإذا قیل لھم تعالوا یستغفر لکم رسول الله﴾،6/153، رقم الحدیث:4904)
ترجمہ:میرے چچانے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں ذکر کیا تو آپ نے مجھے بلایا، میں نے پورا ماجرا بیان کیا، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلایا، وہ قسم اٹھانے لگے کہ انہوں نے کچھ نہیں کہا، تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی بات مان لی اور میری تکذیب کی۔ مجھے اتناد کھ اور غم ہوا کہ ایسا غم کبھی نہیں ہوا۔ اور میں گھر میں بیٹھ گیا اور باہر نکلنا چھوڑ دیا) میرے چچا کہنے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری تکذیب کی اور تم سے ناراض ہوئے ! اس پر اللہ تعالیٰ نے سورت المنافقون نازل فرمائی۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے پیغام بھیج کر بلایا اور اسے پڑھا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تصدیق کی ہے۔
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطاب فرمارہے تھے کہ ایک منافق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا:اگر یہ سچا ہے تو گویا کہ ہم گدھے سے بھی بدتر ہیں، حضرت زید بن ارقم کو حضور صلی اللہ وسلم کے لیے اس قسم کے الفاظ نا مناسب لگے، لہٰذا اس منافق سے فرمایا:
”فقد واللہ صدق، ولأنت أشر من الحمار“․
ترجمہ:اللہ کی قسم!حضور صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور تم گدھے سے زیادہ بد تر ہو۔
غزوہٴاحد کے موقعے پر حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ بھر پور جوان تھے، اس وجہ سے انہیں دوران جنگ اپنے جوہر دکھانے کا موقعہ ملا اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع و حفاظت کے سلسلے میں بے مثال کردار ادا کیا۔ وہ اس طرح کہ غزوہٴ احد میں ابتدا میں مسلمانوں کو فتح حاصل رہی، لیکن بعد میں چند وجوہ کی بنا پر یہ فتح ظاہری شکست میں تبدیل ہو گئی۔ اور اکثر حضرات نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے ہٹ گئے ، اس وقت چند صحابہ کرام ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کے ارد گرد تھے، جن میں حضرت ابو طلحہ انصاری کا نام سر فہرست ہے۔
حضرت ابو طلحہ انصاری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھال بن کھڑے ہو جاتے ، تاکہ اگر کہیں تیر آئے تو حضورصلی الله علیہ وسلم کے بجائے انہیں لگے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم محفوظ رہیں۔ (صحیح البخاري، کتاب مناقب الأنصار، باب مناقب أبي طلحة رضی الله عنہ:5/37، رقم الحدیث:3811)
اور علامہ ابن الاثیر جزری نے ان کے حالات ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:
”کان یقی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم بنفسہ، ویرمی بین یدیہ، ویتطاول بصدرہ لیقی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ویقول: نحری دون نحرک، ونفسی دون نفسک․“(أسد الغابة للجزري:6/178، رقم الترجمة:6036)
ترجمہ:وہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی جان کے ذریعے حفاظت کرتے تھے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر تیر اندازی کرتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی خاطر سینہ بلند کرتے اور کہتے کہ میر اسینہ آپ کے سینے اور میری جان آپ کی جان پر قربان ہو۔
عہد نبوی میں نوجوانوں کا علمی میدان میں کردار
عہد نبوی کے نوجوانوں کو علم کے ساتھ خصوصی شغف تھا، تحصیل علم کے لیے ایسی قربانیاں دیں اور اتنی محنت کی کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے اور ان کو دادِ تحسین دینے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔ نیز ان میں متعدد حضرات نے ایسا بلند علمی مقام حاصل کیا کہ اس زمانے کے دیگر افراد انہیں رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے، تو دیگر شعبوں کی طرح علمی میدان میں بھی عہد نبوی کے نوجوانوں کا کردار روشن و منور ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل واقعات سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہو گی:
حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ ایک کم عمر نوجوان تھے ، جنگ بدر میں کم سنی کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے۔ ان کو عربی کے علاوہ عبرانی اور سریانی زبان میں بھی عبور حاصل تھا، بلکہ ان کو یہ زبانیں سیکھنے کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا تھا، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
أمرنی رسول اللہ ا أن أتعلم لہ کتاب یہود، قال: إنی واللہ ما آمن یہود علی کتاب، قال: فما مر بی نصف شہر حتی تعلمتہ لہ، قال: فلما تعلمتہ کان إذا کتب إلی یہود کتبت إلیہم، وإذا کتبوا إلیہ قرأت لہ کتابہم․ (الاستیعاب في معرفة الأصحاب لابن عبدالبر:2/537، رقم الترجمة:840)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو حکم دیا کہ میں یہودیوں کی تحریر (زبان)سیکھوں اور فرمایا:اللہ کی قسم! میں یہود پر خط لکھنے کے سلسلے میں اعتبار نہیں کرتا، تو زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ پندرہ دن بھی نہیں گزرے ہوں گے، یہاں تک میں نے اسے سیکھ لیا، تو میرے سیکھنے کے بعد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہود کی طرف خط لکھنا ہوتا تو میں ان کی طرف لکھ دیتا اور جب وہ لکھتے تو میں ان کا خط پڑھتا۔
اور حافظ ابن ِ حجر فرماتے ہیں کہ یہود کی زبان سریانی کے ساتھ عبرانی بھی تھی، اس لیے عین ممکن ہے کہ حضرت زید بن ثابت نے دونوں زبانیں سیکھی ہوں۔(فتح الباری لابن حجر:13/187، الناشر: دار المعرفة، بیروت،ط:1379ھ)
لہٰذا دو نئی زبانیں سیکھنا اور ان میں مہارت حاصل کرنا اور تقریباً آدھے مہینہ میں ان پر عبور حاصل کرنا، یہ سب باتیں اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ عہد نبوی کے نوجوانوں میں علم حاصل کرنے کی لگن تھی۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ایک نوجوان صحابی تھے۔ علم کے ساتھ شغف اور محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی جو بات سنتے، وہ قلم بند فرمادیتے، ان پر اس سلسلے میں اعتراض بھی کیا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم انسان ہیں، کبھی کوئی ایسی بات فرما سکتے ہیں جسے لکھنا مناسب نہ ہو، لیکن حضرت عبداللہ بن عمرو ان کے اس اعتراض پر راضی نہیں ہوئے، بلکہ حضورصلی الله علیہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو احادیث لکھنے کی اجازت دی، جیسا کہ امام ابوداؤد وغیرہ نے ایک حدیث ذکر کی ہے:
عن عبد اللہ بن عمرو قال:کنت أکتب کل شیء أسمعہ من رسول اللہ- صلی الله علیہ وسلم أرید حفظہ، فنہتنی قریش وقالوا:اُتکتب کل شیء تسمعہ ورسول اللہ - بشر یتکلم فی الغضب والرضا، فأمسکت عن الکتاب، فذکرت ذلک لرسول اللہ- صلی الله علیہ وسلم فأوما بأصبعہ إلی فیہ، فقال:اکتب، فوالذی نفسی بیدہ ما یخرج منہ إلا حق․ (سنن أبي داود، کتاب العلم، باب في کتابة العلم:3/356، رقم الحدیث:3648)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا، حفظ کرنے کے لیے اسے لکھ لیتا تھا۔ پھر قریش نے مجھ کو منع کیا اور کہنے لگے کہ تم جو بات سنتے ہو لکھ لیتے ہو، حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں، غصہ میں بھی کلام فرماتے ہیں اور خوشی میں بھی۔ یہ سن کر میں نے لکھنا چھوڑ دیا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے اپنی انگشت سے اپنے د ہن مبارک کی طرف اشارہ کیا اور فرمانے لگے کہ تم لکھو، قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اس سے حق کے علاوہ اور کچھ نہیں نکلے گا۔
حضرات محد ثین کے نزدیک صحابہ میں سب سے زیادہ احادیث حضرت ابوہریرہ کی ہیں۔(مقدمة ابن الصلاح، النوع التاسع والثلاثون، ص:163، الناشر: دار ابن الجوزي، القاھرة، ط:1433ھ۔2012م)
اور پانچ ہزار تین سو چوہتر(5374) روایات ان سے منقول ہیں۔(توجیہ النظر إلی أصول الأثر للجزائري:1/58، الناشر: مکتب المطبوعات الإسلامیة، حلب، ط: 1416ھ1995م)
تو اس جلیل القدر صحابی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خود حضرت عبد اللہ بن عمرو کو اپنے سے زیادہ احادیث جاننے والا قرار دیا ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری وغیر ہ کی ایک حدیث ہے:
”ما من أصحاب النبی صلی الله علیہ وسلم أحد أکثر حدیثا عنہ منی، إلا ما کان من عبد اللہ بن عمرو، فإنہ کان یکتب ولا أکتب․“ (صحیح البخاري، کتاب العلم، باب کتابة العلم:1/34، رقم الحدیث:113)
ترجمہ:حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ تمام صحابہ کرام میں مجھ سے زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرنے والا کوئی نہیں، سوائے حضرت عبد اللہ بن عمرو کے؛ کیوں کہ وہ لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پابندی سے لکھنا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے اجازت لینا، اسی طرح حضرت ابو ہریرہ کا احادیث روایت کرنے کے سے سلسلے میں ان کو اپنے آپ پر ترجیح دینا، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عہدنبوی کے نوجوانوں کو علمی کمالات حاصل کرنے کا شوق اور لگن تھا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت بالکل نوجوان تھے اور اس وقت ان کی عمر تیرہ سال تھی۔ (الاستیعاب في معرفة الأصحاب لابن عبدالبر:3/933، رقم الترجمة:1588)
کم عمری کی وجہ سے نبی کریم اسے براہ راست زیادہ علم حاصل کرنے کا موقعہ نہ مل سکا، اس لیے انہوں نے دیگر صحابہ کے پاس جاکر علم حاصل کر نا شروع کیا، جس صحابی کے پاس کوئی ایسی حدیث ہوتی جو حضرت عبد اللہ بن عباس کے پاس نہ ہوتی تو وہ ان کے پاس جاپہنچتے، بسا اوقات اس طرح بھی ہوتا کہ کسی صحابی کا انتظار کرنے کے لیے اس کے گھر کے سامنے چادر بچھا کر لیٹ جاتے، جس کی وجہ سے ریت وغیرہ ان کے منھ میں پڑتی تھی، یہ تمام تکالیف صرف تحصیل علم کے لیے تھیں۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب لوگ حضرت عبد اللہ بن عباس کے پاس علم حاصل کرنے کے لیے آنے لگے، چناں چہ حصول علم کے اس سفر کے بارے میں وہ فرماتے ہیں:
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال:لما توفی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، قلت لرجل من الأنصار: یا فلان ہلم فلنسأل أصحاب النبی، فإنہم الیوم کثیر․ فقال واعجبا لک یا ابن عباس أتری الناس یحتاجون إلیک، وفی الناس من أصحاب النبی صلی الله علیہ وسلم من تری فترک ذلک، وأقبلت علی المسألة، فإن کان لیبلغنی الحدیث عن الرجل فآتیہ، وہو قائل، فأتوسد ردائی علی بابہ، فتسفی الریح علی وجہی التراب، فیخرج فیرانی فیقول: یا ابن عم رسول اللہ ما جاء بک؟ ألا أرسلت إلی فآتیک؟ فأقول:لا، أنا أحق أن آتیک فأسألہ عن الحدیث، قال: فبقی الرجل حتی رآنی، وقد اجتمع الناس علي، فقال:کان ہذا الفتی أعقل منی․
ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو میں نے ایک انصاری صحابی سے کہا کہ اے فلاں !آؤ ،ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے (احادیث کے بارے میں)سوال کریں، کیوں کہ آج تو ان کی تعداد زیادہ ہے، تو اس شخص نے کہا:اے ابن عباس!تعجب ہے آپ پر ، کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس بارے میں لوگ آپ کے محتاج ہوں گے ، حالاں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے اتنے زیاد وہ لوگ موجود ہیں، جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ تو اس شخص نے اس پر عمل نہیں کیا اور میں لوگوں سے سوال کرنے اور پوچھنے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ جب بھی مجھے کسی شخص کے بارے میں کسی حدیث کا پتا چلتا تو میں اس کے پاس آتا ،اگر وہ سو رہا ہوتا تو میں اس کے دروازے پر چادر سر کے نیچے رکھ کر لیٹ جاتا۔ ہوا چلتی تومٹی میرے چہرے پر آجاتی۔ جب وہ شخص باہر آتا اور مجھے دیکھتا تو کہتا اے اللہ کے رسول کے چچازاد!آپ کس لیے تشریف لائے ہیں، آپ نے مجھے پیغام کیوں نہیں دیا کہ میں آپ کے پاس آتا؟ تو میں یہ کہتا:نہیں، میں اس بات کا زیادہ حق دار ہوں کہ میں آپ کے پاس آؤں ، پھر میں ان سے حدیث کے بارے میں دریافت کرتا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ پھر ایک وقت آیا کہ اس شخص نے مجھ کو اس حال میں دیکھا کہ لوگ میرے ارد گرد جمع تھے، تو وہ صاحب کہنے لگے کہ یہ نوجوان مجھ سے زیادہ سمجھ دار تھا۔
حاصل یہ کہ کتب احادیث و تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہو گا کہ عہد نبوی کے نوجوانوں کا تحصیل علم، اس کی حفاظت اور نشر و اشاعت کے سلسلے میں کتنا بڑا کردار تھا اور کس لگن، شوق اور محنت سے انہوں علمی میدان میں بلند رتبہ پایا تھا۔
اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے عہد نبوی میں نوجوانوں کا کردار
حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جنہوں نے نوجوانی میں ہی شہادت پائی تھی، انہیں اللہ تعالیٰ نے فصاحت و بلاغت اور اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کا خصوصی ملکہ عطافرمایا تھا، چناں چہ وہ اسلام کی دعوت وتبلیغ میں بھر پور حصہ لیتے اور بہترین کردار ادا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور ملک حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے ان کو طلب کیا تو وہاں دربار میں بادشاہ اور درباریوں کے سامنے حضرت جعفر نے بہترین انداز سے اسلامی تعلیمات اجاگر کیں اورعمدہ اسلوب سے اسلام کی تبلیغ کی، چناں چہ اس کی وجہ سے نجاشی مسلمان ہو گیا، جیسا کہ درج ذیل روایت سے معلوم ہوگا۔
”وقد دعا النجاشی أساقفتہ فنشروا مصاحفہم حولہ سألہم فقال ما ہذا الدین الذی فارقتم فیہ قومکم ولم تدخلوا فی دینی ولا فی دین أحد من ہذہ الأمم؟ قالت فکان الذی کلمہ جعفر بن أبی طالب، فقال لہ: أیہا الملک کنا قوما أہل جاہلیة نعبد الأصنام ونأکل المیتة ونأتی الفواحش ونقطع الأرحام ونسیء الجوار، یأکل القوی منا الضعیف، فکنا علی ذلک حتی بعث اللہ إلینا رسولا منا نعرف نسبہ وصدقہ وأمانتہ وعفافہ، فدعانا إلی اللہ لنوحدہ ونعبدہ ونخلع ما کنا نعبد نحن وآباؤنا من دونہ من الحجارة والأوثان، وأمرنا بصدق الحدیث وأداء الأمانة وصلة الرحم وحسن الجوار والکف عن المحارم والدماء… فقال لہ النجاشی: ہل معک مما جاء بہ عن اللہ من شیء قالت فقال لہ جعفر نعم فقال لہ النجاشی فاقرأہ عليَّ فقرأ علیہ صدرا من کہیعص قالت فبکی واللہ النجاشی حتی أخضل لحیتہ وبکت أساقفتہ حتی أخضلوا مصاحفہم حین سمعوا ما تلا علیہم ثم قال النجاشی: إن ہذا واللہ، والذی جاء بہ موسی․ (مسند أحمد:3/265، رقم الحدیث:1740، الناشر: مؤسسة الرسالة۔ بیروت،ط:1420ھ 1999م
ترجمہ:اے بادشاہ سلامت! ہم جاہل لوگ تھے، بتوں کی پرستش کرتے ، مردار کھاتے، بے حیائی کے کام کرتے ،رشتہ داریاں توڑتے اور پڑوسیوں کے ساتھ بد سلوکی کرتے تھے۔ ہم میں سے طاقتور شخص کم زور کو کھا جاتا تھا، ہم اس طرز پر تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف، ہم ہی میں سے ایک پیغمبر کو بھیجا، جس کے حسب نسب، صدق وامانت اور عفت و پاکیزگی کو ہم جانتے ہیں، تو اس نے ہم کو اللہ کی طرف بلایا ،تا کہ ہم اس کو ایک مانیں، اس کی عبادت کریں اور اس کے علاوہ جن پتھروں اور بتوں کی ہم اور ہمارے آباء واجداد پوجا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں۔ اس نے ہمیں سچائی، امانت کی ادائیگی، صلہ رحمی ،پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے، حرام کاموں اور قتل وغارت گری سے بچنے کا حکم دیا… پھر نجاشی نے ان سے کہا کہ اس نبی پر اللہ کی طرف سے جو وحی آتی ہے کیا اس میں سے کچھ حصہ تمہارے پاس ہے ؟ حضرت جعفر نے فرمایا:جی ہاں!اس نے کہا کہ پھر مجھے وہ پڑھ کر سنائیے ، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے اس کے سامنے سورت مریم کا ابتدائی حصہ تلاوت فرمایا، اسے سن کر نجاشی اتنا رویا کہ اس کی داڑھی اس کے آنسوؤں سے تر ہو گئی، اس کے پادری بھی اتنا روئے کہ ان کے سامنے رکھے ہوئے آسمانی کتابوں کے نسخے بھی ان کے آنسوؤں سے تر ہو گئے، پھر نجاشی نے کہا:اللہ کی قسم! یہ وہی کلام ہے جو موسیٰ پر بھی نازل ہوا تھا۔
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا جوانی میں ہی بیوہ ہوگئی تھیں، چناں چہ حضرت ابو طلحہ انصاری نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا، اس وقت تک حضرت ابو طلحہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ حضرت ام سلیم ان کو اسلام کی دعوت دینے لگیں اور کفر و شرک کے قبائح بیاں کرنے لگیں، جس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو :
”یا أبا طلحة، ألست تعلم أن إلہک الذی تعبد ینبت من الأرض، ینجرہا حبشی بنی فلان؟ قال: بلی قالت: أفلا تستحیی تعبد خشیة․“(أسد الغابة للجزري:7/333، رقم الترجمة:7479)
ترجمہ:اے ابو طلحہ!کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ جس معبود (بت) کی تم عبادت کرتے ہو، اسے فلاں قبیلے کا حبشی تراشتا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، تو حضرت ام سلیم فرمانے لگیں:کیا تم کو لکڑی کی عبادت کرتے ہوئے شرم و حیا نہیں آتی ؟
اس طرح نوجوان صحابیہ حضرت ام سلیم کی تبلیغ سے حضرت ابو طلحہ مسلمان ہوئے اور بعد ازاں ان کا آپس میں نکاح ہوا۔
نوجوان صحابی حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ دین اسلام کی تعلیم اور تبلیغ کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے۔ اس وقت بنو اشہل مانیں قبیلہ کے دونوں سردار سعد بن معاذ اسید بن حضیر مسلمان نہیں ہوئے تھے ، ایک دن سعد بن معاذ نے اسید بن حضیر سے کہا کہ مسلمانوں کا قاصد میرے ماموں زاد اسعد بن زرارہ کے پناہ میں ہے، اس لیے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، تم جا کر اس قاصد کو سمجھاؤ کہ وہ یہاں نیادین نہ پھیلائے۔ چناں چہ اسید بن حضیر اپنا نیزہ اٹھا کر چل پڑے، جب اسعد بن زرارہ نے ان کو دیکھا تو اس کا استقبال کیا اور حضرت مصعب بن عمیر سے کہا کہ یہ قوم کا سردار ہے، لہٰذا اس کو اسلام کی دعوت دو۔
اسید بن حضیر نے آکر انہیں دھمکایا اور کہا کہ اگر تمہیں اپنی جان پیاری ہے تو یہاں سے دور چلے جاؤ۔ اس پر حضرت مصعب نے کہا:
”أو تجلس فتسمع؟ فإن رضیت أمرا قبلتہ، وإن کرہتہ کف عنک ما تکرہ، قال:أنصفت، قال:ثم رکز حربتہ وجلس إلیہما، فکلمہ مصعب بالاسلام وقرأ علیہ القرآن․“
ترجمہ :آپ بیٹھ کر سنیں ، اگر اس پر راضی ہو جائیں تو قبول کر لیجیے گا، اور اگر ناپسند ہو تو اس سے دور رہیے گا، اسید بن حضیر نے کہا کہ بات انصاف کی ہے، پھر اپنا نیز ہ ر کھ کر وہاں اسلام کے بارے میں کلام کیا اور قرآن پاک پڑھا۔
پھر اُسید بن حضیر نے اسلام قبول کیا اور نہایت ہوشیاری سے اپنے ساتھی۔ سعد بن معاذ کے اسلام کا بھی سبب بنا۔ وہ اس طرح کہ جب واپس سعد بن معاذ کے پاس آرہے تھے تو سعد بن معاذ نے دور سے دیکھ کر ہی پہچان لیا کہ وہ بدل چکے ہیں اور اپنے ارد گرد لوگوں سے بھی یہ بات کہہ دی۔اُسید بن حضیر نے آکر اس سے کہا کہ میں نے ان سے بات کی ہے، لیکن میرے خیال میں ان کی موجودگی قابل اعتراض نہیں۔ لیکن پھر بھی میں نے انہیں روک دیا ہے۔
پھر اسید بن حضیر نے کہا کہ بنو حارثہ قبیلے کے کچھ لوگ تمہارے ماموں زاد اسعد بن زرارہ کو قتل کرنے کے لیے نکل پڑے ہیں، تا کہ اس سے تم کو مغلوب کر سکیں۔ سعدبن معاذ نیز ہ اٹھا کر غصہ کی حالت میں دوڑتے ہوئے گئے کہ کہیں بنو حارثہ انہیں نقصان نہ پہنچادے، لیکن وہاں پہنچ کر اسعد بن زرارہ اور مصعب بن عمیر کو اطمینان سے بیٹھے دیکھا تو جان لیا کہ اسید بن حضیر نے حیلہ کر کے اس کو وہاں بھیجا ہے۔ بہر حال حضرت نے اس کے ساتھ بھی وہی طریقہ اپنا یا جو اسید بن حضیر کے ساتھ اپنایا تھا، چناں چہ وہ بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور اسی وقت جا کر اپنی قوم کو اسلام کی تبلیغ کی، جس سے پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ جیسا کہ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:
”فإن کلام رجالکم ونسائکم علیَّ حرام حتی تؤمنوا باللہ ورسولہ، قال فواللہ ما أمسی فی دار بنی عبد الاشہل رجل ولا امرأة إلا مسلما أو مسلمة․“(البدایة والنھایة لابن کثیر:3/187)
ترجمہ:حضرت سعد بن معاذ نے کہا کہ تمہارے مردوں اور عورتوں سے بات کرنا مجھ پر حرام ہے، یہاں تک کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم!بنواشہل قبیلہ کا ایک فرد بھی ایسا نہیں رہا تھا جو مسلمان نہ ہوا ہو۔ یعنی پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔
حضرت سعد بن معاذ کی وفات سن پانچ ہجری کو سینتیس سال کی عمر میں ہوئی۔ (سیر أعلام النبلاء للذھبي:1/290، مؤسسة الرسالة، بیروت، ط:1405ھ 1985م)
اورچوں کہ آپصلی الله علیہ وسلم کے ہجرت کرنے سے قبل اسلام لائے تھے ، اس حساب سے اپنے قبیلے کو تبلیغ کرنے کے وقت ان کی عمر تقریبا بتیس سال تھی، یعنی بھر پور نوجوان تھے۔ اسی طرح دیگر حضرات بھی نوجوان تھے۔ اور کس طرح حضرت مصعب بن عمیر اور سعد بن زرارہ کی دعوت سے دونوں سردار مسلمان ہوئے اور پھر حضرت اسید بن حضیر کے شوق و کاوش سے سعد بن معاذ مسلمان ہوئے اور پھر سعد بن معاذ کی دعوت و تبلیغ سے پورا قبیلہ مسلمان ہوا۔
عہد نبوی میں نوجوانوں کا خدمت خلق اور رفاہی کاموں میں کردار
عبادات، معاملات اور دین ودنیا کے دیگر شعبوں کی طرح عہد نبوی کے نوجوان سماجی ورفاہی کام انجام دینے اور خدمت خلق کے سلسلے میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کرتے تھے، بلکہ عام طور پر ایسے کاموں کے لیے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نوجوانوں کا انتخاب فرماتے تھے ، جیسا کہ حسب ذیل واقعات سے معلوم ہو گا۔
عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ ایک مرتبہ مسلمانوں کی چراگاہ پر حملہ کر کے صدقہ و زکوة وغیر ہ کے اونٹ لے گئے ، ان اونٹوں سے غریب مسلمانوں کا گزر بسر ہوتا تھا، چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو واپس حاصل کرنے کے لیے بعض صحابہ بھیجے اور ان میں نو جوانوں کا انتخاب کیا۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک حدیث کے الفاظ ہیں:”وعندہ شباب من الأنصار قریب من عشرین، فأرسلہم إلیہم․“(صحیح مسلم، کتاب القسامة والمحاربین والقصاص والدیات، باب حکم المحاربین والمرتدین:3/1298، رقم الحدیث:1671)
اہل نجد میں سے کچھ لوگ اسلام لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ وہ چند صحابہ کو ان کے ساتھبھجیں، تاکہ وہ انہیں دین سکھائیں اور تعلیم دیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ستر نوجوان صحابہ کا انتخاب کیا، جنہیں ”قراء“
کہا جاتا تھا، کیوں کہ ان کو قرآن پاک سے خصوصی لگاؤ اور شغف تھا۔ اور عہد نبوی کے یہ نوجوان ذوق و شوق سے رفاہی کاموں اور خدمت خلق میں لگے رہتے تھے، چناں چہ صبح سویرے میٹھا پانی تلاش کر کے لاتے اور لکڑیاں کاٹ کر آتے تھے۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
”کان شباب من الأنصار سبعین رجلا یقال لہم القراء، قال:کانوا یکونون فی المسجد حتی إذا کانوا فی وجہ الصبح استعذبوا من الماء واحتطبوا من الحطب فجاء وا بہ․“(مسند أحمد:21/126، رقم الحدیث:13462)
ترجمہ:انصار کے ستر نوجوان تھے ، جنہوں ”قراء “
کہا جاتا تھا، وہ مسجد میں رہتے تھے… جب صبح ہونے لگتی تو میٹھا پانی تلاش کر کے اور لکڑیاں کاٹ کر لے آتے۔
حضرت ارقم بن ابی الارقم نے نو جوانی میں خدمت خلق اور مسلمانوں کی سماجی ورفاہی کاموں کے سلسلے میں خوب حصہ لیا۔ ابتدائے اسلام میں مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے مکہ مکرمہ میں کسی جگہ کی ضرورت تھی، جہاں مسلمان جمع ہوں اور اپنا دین سیکھیں، چناں چہ حضرت ارقم بن ابی الارقم نے مسلمانوں کی یہ خدمت کی اور اپنا گھر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا، جو دار ار قم کے نام سے جانا جاتا ہے ۔(الإصابة في تمییز الصحابة لابن حجر:1/197، رقم الترجمة:73، الناشر: دارالکتب العلمیةبیروت،1415ھ)
حضرت ارقم کا انتقال پچپن ہجری میں تقریباً اسی 80 سال کی عمر میں ہوا۔ (الاستیعاب في معرفة الأصحابة لابن عبدالبر: 1/132، رقم الترجمة:133)
اس حساب سے ہجرت کے وقت ان کی عمر پچیس سال ہوئی۔ اب یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ جس وقت مسلمانوں کو اپنا گھر پیش کر کے خدمت کی تھی، اس وقت کتنے کم عمر نوجوان ہوں گے۔ الغرض عہدنبوت کے نوجوان نہایت انہماک سے رفاہی خدمات، خدمت خلق اور مسلمانوں کے قومی و ملی کاموں میں اپنا کردار ادا کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم بھی اس قسم کے کاموں کے لیے نوجوانوں کا انتخاب فرماتے تھے۔
عہد نبوی میں نوجوانوں کا کسب معاش اور طلب رزق حلال میں کردار
اسلام ایک دین فطرت ہے ، اس نے اپنے پیرو کاروں کو تعطل ، سستی وکاہلی اور دوسروں پر مالی اعتبار سے بوجھ بننے سے روکا ہے ، بلکہ اس پر نکیر بیان کی ہے، اسلام میں طلب رزق حلال کو عبادت کا سادرجہ دیا گیا، کسب معیشت کی ترغیب دی گئی، تا کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ دوسروں کی مالی طور پر حاجت روائی کی جائے، چناں چہ ایک حدیث میں ہے:
”إن أطیب ما أکلتم من کسبکم․“(سنن الترمذي، کتاب الأحکام، باب ما جاء ان الوالد یأخذ من مال ولدہ:3/239، رقم الحدیث:1358)
ترجمہ:پاکیزہ ترین چیز جو تم کھاؤ، وہ تمہاری اپنی کمائی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ہے:”طلب کسب الحلال فریضة بعد الفریضة․“(السنن الکبری للبیھقي، کتاب الإجارہ، باب کسب الرجل و عملھ بیدیہ:6/211)
ترجمہ:حلال کمائی طلب کر نا فرض ( نماز و غیرہ) کے بعد فرض ہے۔
اسی وجہ سے عہد نبوت میں نوجوان طلب معیشت اور کسب زرق حلال کے سلسلے میں کوشاں رہتے اور تنگ دستی و فقر و فاقہ اور غربت وافلاس کے خاتمے کے لیے بھر پور کردار ادا کرتے۔ احادیث میں آتا ہے کہ مہاجرین وانصار صحابہ کسب رزق حلال کے سلسلے میں سستی یا کوتاہی نہیں برتتے تھے ؛ کیوں کہ کم زور معاشی حالات، افلاس اور غربت سے نہ صرف انسان کا دنیاوی نقصان ہوتا ہے، بلکہ بسا اوقات معاشی بد حالی آدمی کے دین و ایمان کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے، اس بات کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان الفاظ سے بیان کیا ہے۔
”کاد الفقر أن یکون کفرا…“․(شعب الإیمان للبیھقي: 5/267، رقم الحدیث:6612)
ترجمہ:قریب ہے کہ فقرو افلاس آدمی کو کفر تک پہنچادے۔
لہٰذا عام انصار و مہاجرین صحابہ طلب معیشت میں کوشاں رہتے تھے ، چناں چہ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں:
”إن إخوانی من الأنصار کان یشغلہم عمل أرضیہم، وإن إخوانی من المہاجرین کان یشغلہم الصفق بالأسواق․“ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فضائل أبي ھریرة رضی الله عنہ:4/1940، رقم الحدیث:2493)
ترجمہ:میرے انصاری بھائیوں کو زمین میں کھیتی باڑی اور میرے مہاجر بھائیوں کو بازار میں تجارت مشغول رکھتی تھی۔
اس کی مزید وضاحت مندرجہ ذیل چند ایک واقعات سے ہو گی۔
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ان صحابہ کرام میں سے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت نو جوان تھے۔ کم عمری میں ہی مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔ اسلام لانے کے وقت ان کی عمر کے بارے میں اختلاف ہے، بعض نے بار ہ سال کہا ہے، اور بعض نے پندرہ سولہ سال کی عمر بتلائی ہے۔(معرفة الصحابة لأبي نعیم:1/106)
حضرت زبیر بن عوام کا انتقال 36ہجری کو ہوا۔ (أسد الغابة للجزري:2/307، رقم الترجمة:1732)
اور بوقت شہادت ان کی عمر تقریباً چھیاسٹھ66 سال تھی۔(الإصابة في تمییز الصحابة لابن حجر:2/460، رقم الترجمة:2796)
اس حساب سے حضورصلی اللہ علیہ و سلم کے انتقال وقت ان کی عمر تقریبا چالیس سال ہو گی۔
حضرت زبیر بن عوام عہد نبوی میں تجارت اور زراعت و غیرہ سے وابستہ تھے۔ ابتدا میں ان کے پاس زمینیں تو تھیں، لیکن مال و متاع نہیں تھا، جیسا کہ ان کی بیوی حضرت اسماء بنت ابی بکر نے ذکر کیا ہے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد:8/197)
لیکن بعد میں انہوں نے تجارت شروع کر دی اور بڑے تاجروں میں ان کا شمار ہونے گا۔ تذکرہ نگاروں نے ان کے متعلق لکھا ہے :
”کان الزبیر تاجراً مجدوداً فی التجارة“․(الاستیعاب في معرفة الأصحاب لابن عبدالبر:2/514، رقم الترجمة:808)
ترجمہ :حضرت زبیر تاجر تھے اور تجارت میں خوش قسمت تھے۔ اور حضرت زبیر بن عوام کا جب ترکہ تقسیم کیا جانے لگا تو قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد ان کی چار بیویوں میں سے ہر ایک کے حصہ میں بارہ بارہ لاکھ درہم آئے ۔(صحیح البخاري، کتاب فرض الخمس، باب برکة الغازي في مالہ حیاً ومیتاً:4/87، رقم الحدیث:3129)
اور کل ترکہ چھے کروڑ سے بھی زیادہ تھا۔ (انعام الباري، افادات: شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی:7/579، ناشر: مکتبة الحراء، کراچی)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا شمار بھی عہد نبوی کے نوجوان صحابہ میں ہوتا ہے۔ ان کی شہادت چالیس ہجری کو ہوئی۔ (الاستیعاب في معرفة الأصحاب لابن عبدالبر:3/1122، رقم الترجمة:1855)
اور بوقت وفات ان کی عمر تقریباً63 سال تھی۔ (معرفة الصحابة لأبي نعیم:1/81)
اس حساب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے وقت ان کی عمر تینتیس سال ہو گی۔ بہر حال عہد نبوی کے یہ نوجوان بھی طلب رزق حلال کے کے لیے سعی کرتے تھے ، چناں چہ ایک حدیث میں ہے کہ انہوں نے ایک یہودی کے پاس مزدوری کی، جیسا کہ حدیث میں ہے:
”فأتی بستانا لرجل من الیہود ․فاستقی لہ سبعة عشر دلوا، کل دلو بتمرة ․“ (سنن ابن ماجہ، کتاب الرھون، باب الرجل یستقي کل دلو بتمرة:2/818، الناشر:دارالفکر، بیروت)
ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک یہودی کے باغ میں آئے تو اس کے لیے پانی کے سترہ ڈول نکالے ۔ ہر ڈول کے بدلے ایک کھجور پر۔
حضرت عروہ بن جعد بارقی رضی اللہ عنہ عہد نبوی کے نوجوان صحابہ کرام میں سے تھے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی کم و بیش ساٹھ سال حیات رہے، کیوں کہ ان کا انتقال تقریبا ستر 70 ہجری کو ہوا تھا۔ (الوافي بالوفیات للصفدي:19/360، الناشر: دار إحیاء التراث العربي بیروت، ط:1420ھ 2000)
عہد نبوی میں بھی وہ تجارت کرتے تھے، چناں چہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو بکری خریدنے کے لیے ایک درہم دے کر بھیجا، انہوں نے ایک درہم سے دو بکریاں خریدیں، پھر ان میں سے ایک بکری دوبارہ ایک درہم میں فروخت کر دی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بکری اور ایک درہم لے کر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خرید و فروخت میں برکت کی دعادی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو تجارت میں بہت نفع ہوتا تھا، حدیث کے راوی کہتے ہیں :
”فکان لو اشتری ترابا لربح فیہ․“(سنن أبيداود، کتاب البیوع، باب في المضارب یخالف:3/264، رقم الحدیث:3386)
ترجمہ:اگر وہ مٹی بھی خرید تے تو بھی اس میں ان کو نفع ہوتا تھا۔
اور ایک دوسری روایت میں ان کے الفاظ ہیں:
”فإن کنت لأقوم بالکناسة فما أبرح حتی أربح أربعین ألفا“․ (سنن الدار قطني، کتاب البیوع:3/392 ،رقم الحدیث:2824، الناشر: مؤسسة الرسالة بیروت، ط: 1424ھ 2004م)
ترجمہ:اگر میں کوڑا کرکٹ پر کھڑا ہو جاتا تو بھی وہاں سے چالیس ہزار کا نفع حاصل کرکے ہی ہٹتا۔
الغرض احادیث کا مطالعہ کرنے سے ایسی کئی مثالیں مل جائیں گی، جن سے عہد نبوی کے نوجوانوں کا کسب معاش اور طلب رزق حلال کے سلسلے میں بہترین کردار واضح ہو گا۔ اور معلوم ہو گا کہ وہ عبادات کی طرح معاملات اور معاشرت میں بھی اعلیٰ مقام پر تھے۔
متفرق شعبوں میں عہد نبوی کے نوجوانوں کا کردار
فنون حرب کی تعلیم اور ان میں مہارت کے سلسلے میں بھی عہد نبوی کے نوجوانوں کا اہم کردار تھا، چناں چہ عہد نبوی کے ایک کم عمر نوجوان حضرت سلمہ بن اکوع تھے۔ علامہ ابن عبد البر نے ذکر کیا ہے کہ ان کا انتقال چوہتر74ہجری کو ہوا اور بوقت وفات ان کی عمر اسی 80 سال تھی۔ (الاستیعاب في معرفة الأصحاب لابن عبدالبر:2/639، رقم الترجمة:1016)
اس حساب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت ان کی عمر تقریبا سولہ 16 سال تھی۔ فنون حرب، جیسے تیر اندازی وغیر ہ میں ان کو کمال حاصل تھا۔ اسی طرح دوڑنے میں تیز رفتار اتنے تھے کہ کوئی تیز رفتار گھوڑا بھی ان سے آگے نہ بڑھ سکتا تھا، وہ گھوڑے کو دوڑا کر اسے پیادہ ہی پکڑ لیتے تھے۔ (الإصابة في تمییز الصحابة لابن حجر:2/127، رقم الترجمة:3401)
تیراندازی میں اتنے ماہر کہ جب قبیلہغطفان کے لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں لوٹ کر لے جارہے تھے تو سلمہ بن اکوع نے اکیلے ہی ان کا مقابلہ کیا اور اس ماہرانہ انداز میں تیر اندازی کی کہ وہ لوگ سمجھنے لگے کہ کئی افراد حملہ کر رہے ہیں ، اس لیے اونٹنیوں سمیت لوٹا ہوا مال چھوڑ کر بھاگ گئے۔(صحیح البخاري، کتاب المغازي، باب غزوة ذي قرد:5/130، رقم الحدیث:4194)
عہد نبوی کے نوجوانوں کا جنگوں میں قیادت و سپہ سالاری اور مسلمانوں کے لشکر کی امارت کے سے سلسلے میں بھی خصوصی کردار رہا ہے۔ چناں چہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جن کی عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے وقت تقریباً 20سال تھی۔(الاستیعاب في معرفة الأصحاب لابن عبدالبر:1/75، رقم الترجمة:21)
حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جہاد کے لیے آخری لشکر جو تیار کر کے بھیجنا چاہا تھا، اس کم عمر نوجوان حضرت اسامہ کو اس کا امیر و قائد بنایا تھا۔(الإصابة في تممیز الصحابة لابن حجر:1/202، رقم الترجمة:89)
قرآن و حدیث کی نشر واشاعت کے سلسلے میں عہد نبوی کے تو جوانوں کا کردار بھی کسی سے مخفی نہیں ہو گا۔ کم سن صحابی حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص کار سول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات میں احادیث لکھنا مشہور و معروف ہے۔(سنن أبي داود، کتاب العلم، باب في کتابة العلم: 3/356، رقم الحدیث:3648)
اسی طرح قرآن پاک جمع کرنے کے سلسلے میں ایک دوسرے نوجوان صحابی حضرت معاذ بن جبل کا کردار بھی نہایت اہم ہے، چناں چہ حضرت انس کے بقول جن بعض صحابہ نے عہد نبوی میں قرآن جمع کیا تھا، ان میں حضرت زید بن ثابت اور حضرت معاذ بن جبل بھی تھے۔ (سیر أعلام النبلاء للذھبي:1/391)
حضرت زید بن ثابت کی کم سنی سے بارے میں اوپر ذکر آچکا ہے اور معاذ بن جبل کو بھی تذکرہ نگاروں نے کم عمر اور نوجوان لکھا ہے۔ (الإصابة في تمییز الصحابة لابن حجر:6/107، رقم الترجمة:8055)
خاتمہ
عہد نبوی کے نوجوانوں نے علوم وفنون کی نشر و اشاعت، اسلام کی دعوت و تبلیغ، اعلائے کلمہ اللہ، دین حق کی سربلندی، ملکی سلامتی، امن و سلامتی کے قیام ، کسب معاش ،غربت و افلاس کے خاتمے ، خدمت خلق، انفاق فی سبیل اللہ اور مسلمانوں کی رفاہی، ملی اور قومی خدمات انجام دینے کے سلسلے میں جو کردار ادا کیا ہے، کتب احادیث و تاریخ اور تراجم وطبقات کا مطالعہ کرنے والے اس سے نا آشنا نہیں ہوں گے۔ انہوں نے دنیاوی اوراخروی ہر شعبہ میں نہایت اہم کردار ادا کیا، ہر دور کے نوجوانوں کے لیے بہترین اسوہ اور نمونہ چھوڑا۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عہد حاضر کا نوجوان طبقہ ، عہد نبوی کے نوجوانوں کے نقش قدم پر چل کر، ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو ، تاکہ دنیا میں سکون ، ترقی اور کام یابی کے ساتھ آخرت کی دائمی حیات میں بھی سرفرازی اوراللہ تعالیٰ کی رضا و خوش نودی حاصل ہو۔