عورت اور اسلام

عورت اور اسلام

مولانا خالد سیف الله رحمانی

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ذات یوں تو سوکھی ہوئی خزاں رسیدہ انسانیت کے تمام طبقوں پر ابر بہار بن کر برسی، لیکن خاص طور پر دو طبقہ اس وقت سب سے زیادہ مظلوم ، ستم رسیدہ اور قابل رحم تھے اور نہ صرف عرب بلکہ ایشیا ، یورپ اور افریقہ کے تمام علاقوں میں ان کی حالت نہایت قابل رحم تھی ، روم اور ایران کے لوگ اس زمانے میں تہذیب و تمدن، علم و ہنر اور شائستگی میں ممتاز سمجھے جاتے تھے، مگر وہاں بھی ان کی حالت بہتر نہ تھی ۔ یہ دو طبقے تھے غلاموں کے اور خواتین کے ، اس لیے فطری بات ہے کہ اسلام نے سب سے زیادہ انہیں دونوں طبقوں کی دست گیری اور غم گساری کی ، ان کو اونچا اٹھایا اور سماج میں عزت و احترام کا مقام دیا ۔ یہ اسلامی تعلیمات ہی کا اثر تھا کہ غلامی کا جو رواج ہزاروں سال سے چلا آ رہا تھا، چند سو سالوں میں اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا اور اسلام ہی کے اثر سے یورپ اور دنیا کے مختلف علاقوں میں عورتوں پر ظلم کے خلاف تحریکیں اٹھیں اور اس کو ایک اہم سماجی مسئلہ کی حیثیت حاصل ہوئی۔

اسلام سے پہلے عورت کو جائیداد کی حیثیت دی جاتی تھی۔ قرآن مجید نے یہ تصور دیا کہ عورت مرد ہی کی طرح انسانیت کا مستقل حصہ ہیں (الحجرات :13 ، نساء:124) چوں کہ تو رات میں یہ بات کہی گئی ہے کہ حضرت آدم اللہ کے جنت سے نکلنے کے باعث حضرت حو اہی تھیں، اس لیے یہودی اور عیسائی مذہب میں عورت کو گناہ کا دروازہ تصور کیا جاتا تھا۔قرآن مجید نے اس لغزش میں حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام دونوں کو ذمہ دار قرار دیا، بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کو زیادہ ذمہ دار قرار دیا، اور فرمایا آدم نے (بھول کر ) اپنے رب کے حکم کے خلاف کیا اور وہ پھسل گئے۔ ﴿وَعَصَیٰ آدَمُ رَبَّہُ فَغَوَیٰ﴾ (طہ:121 )یہ فکر و عقیدہ کے اعتبار سے بہت بڑا انقلاب تھا، جس کے ذریعہ ہزار ہا ہزار سال سے جاری غلط فہمی کو دور کیا گیا، اسلام سے پہلے عام طور پر عورتوں کو جائیداد کے مالک بننے اور اس میں کسی قسم کا تصرف کرنے وغیرہ کا حق نہیں تھا۔ اسلام نے عورتوں کو جائیداد میں مالک بننے اور اپنی مرضی سے اس میں عمل کرنے کا پورا اختیار دیا۔ (نساء:4،19 )

حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو جتنے حقوق دیے ہیں اور ان کی لطافت و نزاکت کی جتنی رعایت کی ہے، اس سے زیادہ بہتر طور پر کوئی اور مذہبی یا انسانی قانون عورتوں کی مشکلات کو حل نہیں کرتا ۔ عورتیں عام طور پر تین مرحلوں سے گزرتی ہیں، بیٹی ، بیوی اور ماں۔ بعض دفعہ نا خوش گوار حالات میں ایسی صورت بھی پیش آجاتی ہے کہ ایک عورت بیوہ یا مطلقہ ہو جاتی ہے۔ اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ اسلام نے ان مختلف مرحلوں میں عورتوں کو کیا حقوق دیے ہیں اور ان کے مسائل کس طرح حل کییہیں؟

بیٹی:رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بیٹی کی پرورش پر پورا اجر و ثواب بتایا ہے۔ فرمایا کہ جس کو دو یا ایک لڑکی ہو اور وہ ان کی اس طرح پرورش کرے کہ تعلیم دے ، بہتر طور پر تربیت کرے ، تو جنت میں اس کو میرا ساتھ اسی طرح حاصل ہوگا ، جیسے یہ دونوں (شہادت اور بیچ کی انگلیاں۔ (ترمذی , ابوب البر والصلة ) اس طرح کی خوش خبری آپ صلی الله علیہ وسلم نے لڑکوں کی پرورش پر بھی نہیں دی ہے۔ لوگ لڑکیوں کی پیدائش پر افسردہ اورغمگین ہو جایا کرتے تھے اور بد قسمتی سے بے دینی اور جہالت کی وجہ سے آج کل بھی بعض مرد اور اس کے خاندان کے لوگ بچیوں کی پیدائش پر آزردگی کا اظہار کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس طرح کی سوچ کی مذمت فرمائی گئی ہے۔ (الزخرف :2)

شریعت میں لڑکیوں کی پرورش اور ان کی تمام ضروریات کی تکمیل اس وقت تک باپ کے ذمہ رکھی ہے جب تک کہ اس کی شادی نہ ہو جائے ۔ لڑکے بالغ ہو جائیں ، تو والدین اکثر حالات میں اس کے اخراجات کا ذمہ دار نہیں رہتے، لیکن لڑکیوں کے بالغ ہونے کے بعد بھی ان کے اخراجات اس وقت تک باپ پر واجب ہیں جب تک کہ شادی نہ ہو جائے اور وہ سسرال نہ چلی جائے ۔ (عالمگیری :1/563) پھر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی پرورش میں والدین کے لیے جائز نہیں کہ وہ لڑکوں کے ساتھ ترجیحی سلوک کریں اور لڑکیوں کے ساتھ کم تر درجہ کا سلوک۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:جن کولڑ کی ہو، وہ اس کو زندہ باقی رکھے، اس کے ساتھ حقارت کا معاملہ نہ کرے اور لڑکوں کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا ۔ ( ابودا ود:2/70)

بالغ ہونے کے بعد ماں باپ اور خاندان کے بڑوں کو اس بات کی اجازت نہیں کہ لڑکی کی رضا مندی کے بغیر، اس کا نکاح کر دیں اور اس پر اپنی پسند کو تھوپیں ۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس بات کو ضروری قرار دیا کہ نکاح میں لڑکیوں کی رضا مندی دریافت کی جائے۔ (بخاری:2/771) ایک خاتون نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی کہ ان کے والد نے ان کی اجازت کے بغیر ان کا نکاح کر دیا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس نکاح کو رد فرما دیا۔ ( بخاری :2/71 ) اگر نا بالغی کی حالت میں باپ دادا کے علاوہ کسی اور سر پرست نے نکاح کر دیا ہو یا باپ دادی ہی نے کیا ہو ،لیکن وہ معاملات کی ناتجربہ کاری میں معروف ہوں، تو بالغ ہونے کے بعد لڑکی کو اس نکاح کے رد کر دینے کا حق حاصل ہے۔

زندگی میں اگر والدین اپنی جائیداد بچوں میں تقسیم کر کے ان کے حوالہ کر دینا چاہیں، تو واجب ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو برابر حصہ دیں ، اسی طرح اگر والدین کے زیر پرورش رہتے ہوئے کوئی شخص رقم یا جائیداد ہبہ کرے ، تو لڑکی خود اس کی مالک ہو گی اور والدین وغیرہ کو لڑکی کی اجازت کے بغیر اس میں تصرف کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔ والدین کی وفات کے بعد جائیداد میں شریعت نے لڑکیوں کا بھی حصہ رکھا ہے اور یہ حصہ لڑکوں کے مقابلے آدھا ہے۔ چوں کہ ماں باپ ، بال بچے ، نا بالغ بھائی بہن ، مطلقہ اور بیوہ بہنیں اور خاندان کے دوسرے نادار و محتاج رشتہ دار ، مثلاً چچا، پھوپھی ، بھتیجے، بھتیجیاں، بھانجے، بھانجیاں وغیرہ کی پرورش کی ذمہ داریاں عام طور پر مردوں ہی پر رکھی گئی ہیں ، اس لیے بیٹے کا حصہ بہ مقابلہ بیٹی کے دوگنا رکھا گیا ہے۔

اگر بھائی کا انتقال ہوا، جو لا ولد تھا اور اس نے تنہا ایک بہن کو چھوڑا ، تو وہ نصف جائیداد کی حقدار ہوگی ، اگر صرف دو بہنیں تھیں، تو ایک ایک تہائی دونوں کا حصہ ہوگا اور اگر اس کے بھائی بھی ہیں، تو بھائی کے مقابلہ نصف حصہ بہنوں کو ملے گا ، اس طرح مختلف رشتہ داروں سے بہت حصہ وراثت پاتی ہے۔

بیوی: شریعت میں بیوی کو کافی حقوق دیے گئے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ نے بیوی کے ساتھ بہتر سلوک کو کسی مرد کے بہتر ہونے کا معیار قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: تم میں بہترین شخص وہ ہے جس کا سلوک اپنی بیوی کے ساتھ بہترہو اور میں اپنی بیوی کے ساتھ تم سب کے مقابلہ بہتر سلوک رکھتا ہوں۔(ترمذی، ابن ماجہ ، دارمی، مشکوة :2/281)

بیوی اپنی تمام جائیداد اور سامان کی خود ہی مالک ہے، اس کو اپنے والدین کی طرف سے میراث یا تحفہ کے طور پر جو کچھ ملے ، وہ اس کی ملکیت ہے ، اسی طرح شادی کے وقت یا اس سے پہلے اور اس کے بعد شوہر یا اس کے اہلِ خاندان نے تحفتا عورت کو جو کچھ دیا ہو ، وہ سب اس کی ملک ہے، شوہر اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ ان تمام چیزوں میں عورت ہر طرح کا تصرف کر سکتی ہے، شوہر یا دوسرے اہل خاندان اس کو روک نہیں سکتے ۔ بیوی کا نفقہ یعنی کھانے پینے ، دوا علاج اور کپڑے وغیرہ کی تمام ضروریات شوہر کے ذمہ ہے، چاہے بیوی بذات خود خوش حال ہو اور مرد تنگ دست ہو، پھر بھی نفقہ شوہر پر واجب ہوگا۔ (البحر الرائق:4/188) اگر بیوی شوہر کے بے جا ظلم سے بچنے کے لیے یا اپنے کسی جائز حق کے مطالبہ کے لیے اپنے میکہ میں رہے، تو میکہ میں رہنے کے باوجود اس کے اخراجات شوہر پر واجب ہوں گے ۔ (عالمگیری :1/545) کھانے ، پینے ، رہائش اور لباس و پوشاک میں شوہر پر واجب ہوگا کہ بیوی کے اہل خاندان کی رعایت کرے:مثلا اگر کسی شخص کے یہاں رہنے سہنے کا معیار کمتر ہے اور اس کے سسرال میں معیار زندگی اونچا ہے تو وہ عورت کے لیے درمیانی درجہ کا معیار فراہم کرے ۔ ( ہدایہ:2/417 ) بیوی اگر صاحب جائیداد بھی ہو، تب بھی بال بچوں کے اخراجات شوہر پر ہی واجب ہوں گے۔ اگر شوہر معاشی اعتبار سے خوش حال ہو تو اس پر یہ بھی واجب ہے کہ بیوی کی امور خانہ داری میں مدد کے لیے نوکر یا نوکرانی کا انتظام کرے ۔ ( ہدایہ:2/419) اگر شوہر بیوی کے اخراجات نہیں ادا کر سکتا ہو یا صلاحیت رکھنے کے باوجود ادا نہیں کرتا ہو تو عورت کو حق ہے کہ وہ قاضی شریعت سے رجوع کر کے اپنا نکاح تو ڑ والے۔

اگر بیوی سسرال کے لوگوں کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہ ہو، تو اس کو علاحدہ مکان کے مطالبہ کا حق حاصل ہے اور اگر ایسا کرنا مصلحت کے خلاف نہ ہو تو شوہر کو اس کا پورا کرنا واجب ہے۔ (ہدایہ:2/421) شوہر کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بیوی کے والدین یا اس کے محرم رشتہ داروں کو آنے سے منع کرے ۔ (ہدایہ:2/421) اگر وہ خود والدین یا دوسرے محرم رشتہ داروں سے ملنا چاہے تو اس کو اس کا حق حاصل ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ اگر اس کا میکہ شہر میں ہے، تو ہفتہ میں ایک دن والدین کے یہاں اور مہینہ میں ایک دن دوسرے محرم رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے جا سکتی ہے اور شوہر کو کسی معقول عذر کے بغیر اس سے نہیں روکنا چاہیے ۔ (عالمگیری:2/148) البتہ غیر محرم مردوں سے ملنا سخت منع اور گناہ ہے۔

بیوی کو گالی گلوچ کرنا ، اس کی صورت یا کسی اور بات پر طنز کرنا حرام اور سخت گناہ ہے۔ قرآن مجید نے بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی خاص تاکید کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر تم کو اس میں کوئی خامی نظر آئے تو یہ سمجھ کر نظر انداز کرو کہ اللہ تعالی تمہارے لیے اس میں کوئی بڑی بہتری بھی پیدا کر سکتا ہے۔ (النساء:19) شریعت میں والدین کی طرح شوہر سے بیوی کو بھی میراث ملتی ہے۔ اگر شوہر صاحب اولاد ہو تو بیوی کو اس کی چھوڑی ہوئی جائیداد کاآٹھواں (1/8) حصہ ملے گا اور وہ لا ولد ہو تو چوتھائی حصہ (1/4)۔ (نساء:12)

بیوی کا ایک نہایت اہم حق” مہر“ ہے ، یہ اتنا اہم حق ہے کہ ا گر نکاح مہر نہ دینے کی شرط پر ہوا ہو، تب بھی مہر واجب ہو کر ہی رہے گا ۔ قرآن مجید نے مہر ادا کرنے کی خصوصی تاکید کی ہے۔ (نساء:4) اور رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نکاح کیا اور مہر ادا کرنے کا ارادہ نہیں تھا، تو ایسا شخص زانی ہے۔ ( مجمع الزوائد :4/284)

بیوی کے حقوق میں یہ بھی ہے کہ اگر کسی جائز شرعی ضرورت کی بنا پر مرد دوسرا نکاح کرے، تو دونوں بیویوں کے درمیان مکمل عدل و انصاف سے کام لیا کرے ، لباس و پوشاک ، کھانے پینے کے سامان اور رات گزارنے کے اعتبار سے پوری طرح برابری برتی جائے ۔ بیویوں کے درمیان انصاف نہ کرنا حرام اور سخت گناہ ہے۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلمنے ایسے شخص کی بڑی مذمت فرمائی ہے۔ قرآن مجید نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص دو بیویوں کے درمیان انصاف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہو تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائزنہیں۔ (نساء :3)

بیوہ و مطلقہ:بیوہ اور مطلقہ عورتوں کو شریعت نے نہ صرف نکاح کی اجازت دی ہے، بلکہ اس کی ترغیب بھی دی ہے، خود قرآن مجید نے اس کی طرف متوجہ کیا ہے ( نور:4) اور اس سے بھی منع کیا گیا ہے کہ اگر وہ خود نکاح کرنا چاہیں، تو اس میں رکاوٹ بنا جائے۔ (بقرہ:232) خود رسول اللہصلی الله علیہ وسلمنے کل گیارہ نکاح فرمائے ، جن میں سے دس نکاح بیوہ اورمطلقہ خواتین سے کیے ۔

ایسی خواتین کو شریعت نے بے سہارا نہیں چھوڑا ہے، بلکہ والدین اور دوسرے محرم رشتہ داروں پر ان کی کفالت واجب قرار دی ہے ۔ (ہدایہ:2/426) اور یہ کوئی احسان اور اخلاقی حق نہیں، بلکہ ایسی عورتوں کا قانونی حق اور محرم رشتہ داروں پر شرعی فریضہ ہے ۔ یہ بات خاص طور پر پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اگر بیوی کا مہر ادا نہ کیا ہو اور شوہر کا انتقال ہو جائے ، تو شوہر کے متروکہ میں سے اولاً بیوی کا مہر ادا کرنا واجب ہے اور شوہر کے انتقال کے بعد جنازہ کے سامنے بیوی سے مہر معاف کروانا نہ جائز ہے اور نہ اس کا اعتبار ہے۔ ورثہ کو چاہیے کہ اولاً بیوہ کا مہر ادا کریں، پھر جو بچ رہے، اس کو حکم شرعی کے مطابق تمام ورثہ میں تقسیم کریں۔

مطلقہ عورت کو شریعت نے یہ خصوصی حق دیا ہے کہ لڑکیاں جب تک بالغ نہ ہو جائیں اور لڑ کے سات آٹھ سال کی عمر کو نہ پہنچ جائیں اور اپنی ضروریات ( یعنی کھانے ،پینے استنجاو غیرہ )خود پوری کرنے کے لائق نہ ہو جائیں ، ماں ان کی پرورش کرے گی اور ماں کا نکاح ہو جائے تو نانی کو حق پرورش حاصل ہو گا اور جب تک بچے زیر پرورش رہیں گے، ان بچوں کا نفقہ تو باپ کے ذمہ رہے گا ہی، پرورش کرنے والی خاتون کی اجرت بھی اس کے ذمہ واجب ہوگی ۔ اس طرح جو مطلقہ عورتیں صاحب اولاد ہوں ، طلاق کے بعد عرصہ تک اس ذریعہ سے ان کی ضروریات کی تکمیل ہو سکتی ہے۔

ماں:قرآن و حدیث میں سب سے زیادہ جن لوگوں کے حقوق کی تاکید زیادہ وارد ہوئی ہے، وہ والدین ہیں اور والدین میں بھی ماں کا درجہ زیادہ رکھا گیا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔ ( مشکوة:2/421) ایک شخص نے دریافت کیا : ہمارے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:ماں ، وہ تین بار یہ سوال دہراتے رہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے تین دفعہ ماں اور چوتھی دفعہ باپ کا ذکر فرمایا۔ (ابوداؤد:2/700،799) قرآن مجید نے بھی ماں کے حقوق و احسانات کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔ (لقمان:13 احقاف :2) اگر ماں حاجت مند ہو تو اس کی کفالت اولاد پر واجب ہے ۔(ہدایہ:1/266) یہاں تک کہ اگر ماں مسلمان نہ ہو تب بھی اس کا نفقہ ادا کرنا واجب ہے اور اگر وہ خود صاحب جائیداد اور مالی اعتبار سے خود کفیل ہو، تب بھی اولاد کو چاہیے کہ اس کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے کچھ اس کی خدمت میں پیش کیا کرے۔ یہ بھی اولاد کا فریضہ ہے کہ نہ ماں کی طرف سے بیوی پر ظلم ہونے دے اور نہ بیوی کی طرف سے ماں پر۔ ماں کے اخراجات کی کفالت کے علاوہ ان کا اکرام، ان کی خدمت اور جائز باتوں میں ان کی اطاعت واجب ہے۔ اگر ماں کسی نا جائز بات کا حکم دے، تو اس کا ماننا جائز نہیں، بلکہ خوش اسلوبی سے ماں کو سمجھا دینا چاہیے، مثلاً جہیز لینے کا مطالبہ کرے، بلا وجہ بیوی کو طلاق دینے کامطالبہ کرے تو ایسی باتوں کا ماننا جائز نہیں۔

اگر زندگی میں اولاد کا انتقال ہو جائے تو اس کی چھوڑی ہوئی جائیداد یا حادثاتی موت کی صورت میں سرکار سے ملنے والی امداد میں ماں کا بھی حصہ ہوگا۔ اگر مرنے والے کے بال بچے ہیں تو چھٹا حصہ اور اگر بال بچے نہیں ہیں، لیکن بھائی ہیں، تو بھی چھٹا حصہ ملے گا اور مرنے والے کے بچے بھی نہ ہوں اور بھائی بھی نہ ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ ہوگا۔

ان وضاحتوں سے انداز کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے سماجی زندگی میں عورتوں کے حقوق کی کس درجہ رعایت کی ہے کہ ایک طرف ان کو تمام مالی ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے اور دوسری طرف خود ان کی مالی ذمہ داریاں باپ ، شوہر ، بیٹے اور بھائی کے ذمہ رکھی گئی ہیں اور ان رعایتوں کے ساتھ ساتھ ان کو قریب قریب ان تمام رشتہ داروں کا وارث بھی مانا گیا ہے، جن سے مردوں کو میراث ملتی ہے اور مہر کی ایک خطیر رقم بھی شوہر سے دلائی گئی ہے، مغربی معاشرہ کی طرح عورتوں کو کمانے اور ملازمت کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا ہے، بلکہ اس کی لطافت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کو گھر کی ملکہ کا درجہ دیا گیا ہے ۔ افسوس کہ بعض حقیقت نا آشنا لوگ عورتوں کے لیے اس کو قید سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ قید نہیں، بلکہ ان کا تحفظ ہے اور مردوں کو قوام (النساء:34) قرار دیے جانے کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ خاندان کی ضروریات کا ذمہ دار اور اس کا محافظ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے سماجی قوانین میں عدل بھی ہے، انصاف بھی ہے ، اعتدال بھی ہے اور توازن بھی اور انسانی فطرت سے ہم آہنگی اور مرد و عورت کی صلاحیت کی پوری پوری رعایت بھی ۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی اس سے انحراف اور بغاوت کا راستہ اختیار کیا گیا ہے، وہاں عدل و انصاف کے تقاضے مجروح ہوئے ، خاندان بکھر گئے اور عورتوں کو آزادی کے نام پر سر بازار رسوا کرنے کا اور سامان لذت و ہوس بنانے کی ایک مکارانہ تدبیر کی گئی ہے۔

”إِنَّ الدَّیْنِ عِندَ اللَّہِ الْإِسْلَامُ “