قارئین کرام!علم ایک ایسی دولت ہے جس کو پانے کے بعد آدمی کو کسی اور دولت کی ضرورت نہیں پڑتی، علم وہ زیور ہے جس سے آراستہ ہونے کے بعد انسان خوب صورت سے خوب صورت تر ہوتا چلا جاتا ہے، یہ ایک ایسی دولت ہے جس کو حاصل کرنے کے بعد انسان کا گم راہی کو پہچان کر، اس سے دوری اختیار کرنا آسان ہو جاتا ہے، علم ایک ایسی نعمت ہے جس کے حصول کے بعد ایک عالم کے لیے ہدایت اور گم راہی، علم اور جہل، نیک بختی اور بدبختی میں فرق کرنا نہایت ہی آسان ہوجاتا ہے اور علم کی بدولت اچھے اور برے، کھرے اور کھوٹے میں کی پہچان آجاتی ہے۔
عزیزانِ من ! علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود رب ذوالجلال نے کلام مقدس میں کئی مقامات پر علم کی فضیلت بیان کی ہے۔
رب العالمین فرماتے ہیں:﴿ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِینَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ﴾․(سورة الزمر، آیت:9)
ترجمہ:کیا عالم اور جاہل آپس میں برابر ہوسکتے ہیں ؟
ہرگز نہیں!اس آیت کریمہ میں عالم ِدین کا مقام بلند بتلایا گیا ہے، اس وجہ سے کہ عالم ِدین علم جیسی عظیم دولت کو اپنے سینے میں محفوظ کیے ہوئے ہے۔
علم کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رب تعالیٰ نے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے سینہٴِ اطہر پر نازل ہونے والی کتاب، یعنی قرآن کریم کا سب سے پہلا لفظ جو نازل فرمایا وہ اقرأ تھا (اپنے رب کے نام سے پڑھو)۔(تفسیر حقانی)
گویا وحی الہٰی جیسی پاک اور باعزت شئے کی ابتدا ہی میں جس چیز کو ذکر کیا گیا وہ لکھنا پڑھنا اور تعلیم و تربیت تھا، جس کی بدولت انسان پستی سے بلندی اور ناکامی سے کام یابی کی تمام منازل کو با آسانی طے کرسکتا ہے۔
بسببِ علم، عابد اور زاہد سے عالم اور فقیہ کا مقام و مرتبہ بلند بتلایا گیا ہے۔
عابد جو کثرتِ نوافل کا اہتمام کرتا ہو اس سے اس عالم کی جو تعلیم وتعلّم اور درس و تدریس میں مشغول رہتا ہو، نیند بھی بہتر ہے، یہ مقام صرف علم کی وجہ سے ہے۔
رسولِ خدا صلی الله علیہ وسلم کے بے شمار فرامین مبارکہ میں بھی علم اور اہل علم کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، چناں چہ ارشاد مبارک ہے:
عن ابن مسعود رضی الله عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم:” من خرج یطلب باباً من العلم لیرد بہ باطلا من حق او ضلالاً من ھدی کان کعبادة متعبد اربعین عاما“․ (کنزالعمال، رقم الحدیث: 28918)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہسے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص علم کا کوئی ایک باب حاصل کرنے کے لیے نکلا، تاکہ حق سے باطل کو اور ہدایت سے گم راہی کو دور کردے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جو چالیس سال تک عبادت کرنے والا ہو۔
قارئین کرام!جنت ایک ایسی چیز ہے جس کی تلاش ہر انسان کو ہوتی ہے کہ وہ جنت کی نعمتوں کو حاصل کرلے، کسی طرح نیک اعمال کرلے، تاکہ جنت میں پہنچ جائے، مگر ایک عالم کی شان یہ ہے کہ خود جنت عالم دین کی تلاش میں رہتی ہے۔
چناں چہ ارشاد ہے:
عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہما:” من کان فی طلب العلم کانت الجنة فی طلبہ…“․(کنز العمال، رقم الحدیث: 28842)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے، جو علم کی طلب میں مشغول رہتا ہے جنت اس کی تلاش میں رہتی ہے۔
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اپنے کئی فرامین میں عالم و فقیہ کے فضائل کو بیان فرمایا ہے، چناں چہ ارشاد فرمایا:”من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین“․
جس کے ساتھ الله تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔
اس سے سمجھ میں آیا کہ ایک عالم دین کے ساتھ ہمیشہ الله تعالیٰ کی بھلائی کا معاملہ ہوتا رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ عالم دین کی نیند کو بھی عبادت کہا گیا ہے۔
علم و حکمت ،دین و دانائی اور علم والوں کا درجہ کس قدر بلند ہے اس کا اندازہ مندرجہ ذیل آیت مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے
رب تعالیٰ شانہ فرماتے ہیں:
﴿یُؤْتِی الْحِکْمَةَ مَن یَشَاء ُ وَمَن یُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْرًا کَثِیرًا وَمَا یَذَّکَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ﴾․(سورة البقرة، آیت:269)
ترجمہ:وہ جسے چاہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جسے حکمت دی گئی تو بے شک اسے خیر کثیر دی گئی اور صرف عقل والے ہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔
اس لیے علم کو حاصل کرنے کی رغبت اور کوشش جاری رکھنی چاہیے، اس طلب و جستجو کی اہمیت ہے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف مقامات پر علم دین کی طرف رغبت دلائی ہے، اس سے متعلق چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں:
”طَلَبُ العِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ“․
یعنی علم کی طلب ہر مسلمان پر فرض ہے۔
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:”سارعوا فی طلب العلم“․(کنز العمال، رقم الحدیث: 28788)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا طلب علم میں جلدی کیا کرو ۔
قال رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم: ”من غدا أو راح وھو فی تعلیم دینہ فھو فی الجنة“․ (کنز العمال، رقم الحدیث: 28706)
ترجمہ: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص کی صبح شام دین کی تعلیم میں گزرے وہ جنت میں جائے گا۔
ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ عالم دین کی کتنی بڑی فضیلت ہے ،جسے خود سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔
کتب احادیث میں ایک حدیث پاک مذکور ہے، پیارے محمد صلی الله علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ:
”العُلَماء وَرَثةُ الأنْبیاء، إنَّ الأنْبیاءَ، لم یُورِّثوا دِینارًا ولا دِرہَمًا، وإنّما وَرَّثوا العِلمَ؛ فَمنْ أَخَذَہ أَخَذَ بِحظٍّ وافِرٍ“․ (الترغیب والترہیب)
ترجمہ علماء انبیائے کرام کے وارث ہیں اور انبیاء کا کوئی دینار و درہم کے اعتبار سے وارث نہیں، بلکہ ان کے علمی وارث بنائے گئے ہیں، اس لیے جس نے اس علم کو حاصل کرلیا اس نے (علم نبوی سے) پورا پورا حصہ پالیا۔
عزیزانِ گرامی!جماعتِ انبیائے کرام علیہم السلام، اللہ رب العزت کی ایک ایسی جماعت ہے جسے نوع انسانی کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے زمین پر بھیجا گیا ہے ،تاکہ انسان اپنی ظاہری و باطنی تربیت حاصل کر سکے، اپنے رب کو پہچان سکے اور صحیح معنی میں اپنے پروردگار کی عبادت کر سکے۔
انبیائے کرام کو جس دولت سے مالامال کیا گیا وہ دنیوی دولت: سونا چاندی، دینار و درہم نہیں!بلکہ سب سے اہم دولت، علم کی دولت ہے۔
جو سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم پر ختم ہوا ،جن کے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ ان کے وارث علمائے کرام ضرور موجود ہوں گے، جو انہیں انبیاء کے مشن و کاز کولے کر آگے چلیں گے اور یہی فضیلت علم اور علماء کے لیے کافی ہے۔
ہاں!اس علم کے فضائل حاصل کرنے کے لیے ایک چیز بہت اہم ہے اور وہ ہے اخلاص،اکثر علماء فرماتے ہیں کہ علماء اور طلباء کے لیے علم کی راہ میں اخلاص کو ضروری قرار دیا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ علم کی راہ میں جو بھی کوشش اور محنت کریں وہ صرف اللہ کی رضا اور اس کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے ہو، حصول علم اور اشاعت علم کا مقصد حصولِ دنیا نہ ہو۔ اگر کوئی حصول دنیا کی غرض سے علم کی راہ میں لگا ہوا ہے، تو اس کے لیے حضرت محمد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے فرامین مقدس میں سخت وعیدیں موجود ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ہم علم نبوت حاصل کررہے ہیں، یہ کوئی مادی علم نہیں، بلکہ روحانی علم ہے اورروحانیت کے حصول کے لیے ہمارا ظاہری وباطنی طور پر ،ہر قسم کی گندگیوں اورغلاظتوں سے پاک صاف ہونا ضروری ہے، کیوں کہ میلے کچیلے، گندے اور گدلے برتن اس لائق نہیں ہوتے کہ ان میں کوئی صاف ستھری چیز ڈالی جائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ علماء و طلباء کے علوم میں پختگی اور کام یابی کا بڑا کردار نیت میں مخلص ہونا ہے۔