اس وقت علماء اور تعلیم یافتہ طبقے کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے، جب کسی دعوت یا کوشش کے ساتھ اعلیٰ طبقے کے وہ لوگ جو ذہین اور صاحب فکر سمجھے جاتے ہیں او رجو دین کا گہرا علم رکھتے ہیں، ہوتے ہیں تو اس میں سنجیدگی، گہرائی اور پختگی ہوتی ہے اور اس کے بارے میں یہ امید ہوتی ہے کہ وہ کسی غلط راستے پر نہیں پڑے گی، اس تحریک میں جذباتیت نہیں ہوگی، اس میں عامیانہ اور متبذل انداز نہیں ہو گا، اس وقت عالم اسلام میں علماء کی اور دینی جماعتوں اور قائدین کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے، یہ ذمہ داری ہر زمانے میں زیادہ رہی ہے، لیکن اس زمانے میں وہ خاص طور پر بہت عظیم بن گئی ہے کہ وہ صحیح رہ نمائی کریں گے اور تحریک دعوت اور جدوجد کو سطحیت سے بچائیں گے، اس کے متعلق یہ تصور اور یہ تاثر قائم ہونے نہ دیں گے کہ دریا کا حباب ہے، بلکہ اس کے متعلق یہ تاثر دیں گے کہ اس کی جڑیں گہری اور علم ودین کی زمین میں پیوست ہیں۔
مسلم حکومتوں میں علماء کا کارنامہ
خلافت ِ بنی امیہ وخلافت ِ بنی عباس کی پشت پر اگر علماء ومجتہدین نہ ہوتے تو اسلام بہ حیثیت نظام حیات کے ایک مرتب ومدون قانون کی شکل میں موجود نہ ہوتا۔
تاریخ میں ان لوگوں کی خدمات کو سراہا جاتا ہے جو ملک فتح کرتے ہیں ، ہمارے بڑے بڑے قائدین طارق بن زیاد ،محمد بن قاسم، عقبہ بن نافع، موسی بن نُصیر وغیرہ حضرات کی خدمات روز روشن کی طرح تاب ناک ہیں، لیکن جو لوگ مفتوحہ ممالک میں الله کے قانون کورائج کرتے تھے، اور وہاں کی مشکلات ومسائل کو حل کرتے تھے، وہاں کی پیش آمدہ ضروریات کی تکمیل کرتے تھے، نئے نئے حاجات جو پیدا ہوتے تھے، ان میں راہ نمائی کرتے تھے، ان کی خدمات کو بہت کم لوگ جانتے ہیں، حالاں کہ اگر ائمہ مجتہدین، محدثین عظام اس زمانے میں نہ محنت کرتے اور ان کا دماغ اس تلوار کے پیچھے نہ ہوتا جو ملک کو فتح کرتی تھی اور اس حکومت کے پیچھے نہ ہوتا جو ملک میں نظم ونسق قائم کرتی تھی، تو یہ سب کوششیں، فتوحات اور سلطنتیں بالکل کھوکھلی تھیں۔
مسلمانوں کے فاتح ،اسلام کے مفتوح
مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ تاتاریوں نے عالم اسلام کو زیرو زبر کر ڈالا، عالم اسلام کی چولیں ہلا دیں، اس وقت مسلمانوں سے زیادہ ذلیل کوئی نہیں تھا، آپ اس زمانے کی تصاویر دیکھیں جو آثار قدیمہ میں ملتی ہیں، تو ان سے اندازہ ہو گا کہ کسی مسلمان کی داڑھی کسی گھوڑے کی دم سے بندھی ہے اور ایک تاتاری اسے کھینچے لیے جارہا ہے، دنیا کی ہر قوم ان کی نگاہ میں عزت رکھتی ہے، لیکن مسلمانوں سے زیادہ کوئی ذلیل نہ تھا اور خاص طور پر اس خطہٴ زمین کے مسلمان ،جو مسلمانوں کی تہذیب وثقافت کا مرکز رہ چکا تھا، یعنی ایران اور ماورا النہر کا علاقہ، جو آخر میں فقہ کا ( خاص طور سے فقہ حنفی) کا مرکز رہا ہے، لیکن آپ حضرات اس سے واقف ہیں کہ وہی تا تاری جو مسلمانوں کے فاتح تھے، اسلام کے مفتوح بن گئے او رجن کو مسلمانوں کی تلوار شکست نہ دے سکی، ان کو مسلمانوں کی تہذیب نے، مسلمانوں کی ثقافت نے ، مسلمانوں کے علم نے مسخر کر لیا اور ان کو اپنا بے دام غلام بنا لیا، بات یہ تھی کہ تاتاریوں کے پاس کوئی علمی ذخیرہ، کوئی شائستہ تہذیب اور کوئی مرتب ووسیع قانون نہ تھا، ان کا ایک سیدھا سادہ روایتی قانون تھا، جو قبائلی زندگی میں رائج تھا اور کوہ قرا قرم اور اس کے اطراف میں اس کا عمل دخل تھا، نیم وحشی اقوام میں جیسے ”عرف“ ہوتے ہیں، وہ ویسے تھے، ان کے پاس کوئی آئیں، کوئی تہذیب کوئی لٹریچر نہیں تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو مسلمان علما اور دانش وروں کی ضرورت پڑی، مسلمان علماء اور دانش ور جب ان کے دربار میں پہنچے تو ان کی علمیت کا، ان کی ذہانت کا سکہ ان کے دلوں پر بیٹھ گیا، اسلامی تہذیب سے ان کو اپنا گرویدہ بنا لیا، نتیجہ یہ ہوا کہ تاتاری من حیث القوم مسلمان ہو گئے، مسلمان چوں کہ صاحب دماغ تھے، ان کے پاس ذہانت کے سرچشمے تھے، ترقی یافتہ تہذیب تھی، ایک وسیع ثقافت اور علمی ذخیرہ تھا، وہ آئین سازی کا تجربہ رکھتے تھے، تمدنی مشکلات ومسائل کو حل کرسکتے تھے، تاتاریوں کو ان کی ضرورت پیش آئی، فلسفہ تاریخ کا یہ ایک اہم اصول ہے کہ جنگی طاقت اس وقت تک کام یاب نہیں ہو سکتی، جب تک اس کے پیچھے دماغ ہو، آئین سازی کی طاقت نہ ہو اور کوئی منظم ادارہ نہ ہو۔
یہ دین جہالت سے نہیں، بلکہ علم سے پیدا ہوا
عصر جدید میں عالم اسلام کے علماء، جامعات کے اساتذہ اور پروفیسر صاحبان اور ہمارے قانون داں اور ہمارے ادیب ودانش ور طبقے کی ایک ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ یہ دین جہالت کے بطن سے اور فوجی طاقت سے نہیں پیدا ہوا ہے، معرفت سے پیدا ہوا ہے، الله کی راہ نمائی سے پیدا ہوا ہے، وحی سے پیدا ہوا یہ، زمانے کا ساتھ دے سکتا ہے، یہ تمدن کی راہ نمائی کرسکتا ہے، اس کی نگرانی کرسکتا ہے کہ یہ تمدن بے راہ نہ ہونے پائے، فاسد نہ ہونے پائے، تخریبی راستہ اختیار نہ کرنے پائے، یہ تاثیر علمائے دین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ ہی دے سکتا ہے اور یہ بڑی ذمہ دار ی ہے، اگر کسی دین یا کسی قوم کے متعلق یہ خیال قائم ہو جائے کہ اس کا علم، خواہ تھوڑے عرصے کے لیے اپنے زور شمشیر، اپنے بازو سے وہ قوت یا جماعت یا قوم دنیا کے کسی حصہ پر قبضہ کر لے، لیکن دماغوں پر اس کا قبضہ نہیں ہوسکتا، سب یہی خیال کریں گے کہ اس کو زندہ رہنے کے لیے جہالت کی تاریکی چاہیے، جب تک وہ تاریکی رہے گی، وہ زندہ رہے گا اور جب علم آئے گا وہ غائب ہو جائے گا، اس کا پردہ چاک ہو جائے گا اور جس طرح بدلی آفتاب کی روشنی سے پھٹ جاتی ہے، اسی طرح ہٹ جائے گا، عیسائیت کا معاملہ یہی ہوا، عیسائیت نے علم کا ساتھ نہیں دیا، عیسائیت ایک خالص روحانی تحریک اورایک معاشرتی انقلاب کے طو رپر تو آئی، حضرت مسیح علیہ السلام کا جب تک زمانہ رہا، ان کی مقبولیت، ان کا تقدس ، ان کی روحانی طاقت راہ نمائی کرتی رہی، لیکن اس کے بعد پھر اس کو ایک زمانے تک ذہین اور صاحب نظر لوگوں کا تعاون حاصل نہ ہوا، پھر جب مسیحیت یورپ پہنچی تو سمجھا گیا کہ یہ زندگی کاساتھ نہیں دے سکتی، اس لیے زندگی سے اس کو علاوہ (علیحدہ)کر لینا چاہیے۔
عیسائیت مستقل شریعت نہیں رکھتی تھی
یورپ اس وقت ترقی کر رہا تھا، یورپ کے اندر ترقی کی طاقتیں اور ولولے جوش مار رہے تھے، یورپ میں تنازع للبقاء کے لیے سخت کشمکش تھی، ان کی پلک ذرا جھپک جاتی تو یہ قوم کی قوم بالکل مغلوب ہو جاتی، عیسائیت جوابھی بالکل اپنے دور طفولیت میں تھی، جس کی ابھی نہ تدوین تھی نہ تشریح، نہ اس کے پاس آئین تھا، آئین میں وہ سارا انحصار یہودیت پر کرتی تھی، مسیحیت اپنے ساتھ کوئی مستقل شریعت نہیں رکھتی تھی، شریعت موسوی تھی، جس میں جزوی تبدیلی کی گئی تھی ﴿وَلِأُحِلَّ لَکُم بَعْضَ الَّذِی حُرِّمَ عَلَیْکُمْ﴾․(سورة آل عمران:50) کہا گیا ہے، یہ نہیں کہا گیا ہے کہ میں تمہارے لیے مستقل شریعت لے کر آیا، تو جو چیزیں یہودیت میں غلط طور پر داخل ہو گئی تھیں، مسیحیت ان کی اصلاح کرتی تھی، اس کے پاس مستقل کوئی آئین نہیں تھا اور اس کا زیادہ تر زور رحم پر، محبت پر، انسان دوستی پر، مظلوموں کی شفقت پر، اجارہ داری اور اس کے غرور کو ختم کرنے پر تھا، جب یورپ جیسے بے چین ملک اور وہاں کی بے چین قوموں میں جو زندگی کے لیے دوڑ رہی تھیں، چل رہی تھیں، عیسائیت پہنچی، تو یہ حقیقت بہت جلد منکشف ہو گئی کہ عیسائیت بدلتے ہوئے زمانے، دوڑتے ہوئے معاشرے اور اُبلتے ہوئے علم کا ساتھ نہیں دے سکتی، اسی وقت مسیحی علماء کی بہت بڑی ذمہ داری تھی کہ وہ مسیحیت کی افادیت کو ثابت کرتے اور رہ نما اصول دیتے ، زمانے کے جائز تقاضوں اور فطرت انسانی کی جائز خواہشات کو قبول کرتے او رکہتے کہ یہ ٹھیک ہے، لیکن اس کے ساتھ مذہب کی ہدایت او رنگہبانی چاہیے، یہ انہوں نے نہیں کیا، وہ دو گروہوں میں بٹ گئے، حاکمانہ گروہ نے مسیحیت کو بس عقیدہ کے طور پر تسلیم کیا اور باقی زندگی کو، آئین کو، آئین سازی کو کھلی چھوٹ دے دی، دوسرا طبقہ علماء کا تھا، انہوں نے مخالفت شروع کر دی اور کہا ترقی ضروری نہیں ہے، بلکہ ترقی زندگی سے فرار میں ہے، کلیساؤں میں جانے میں، جنگلوں میں چھپ جانے میں، شادی نہ کرنے میں ، ازدواجی زندگی سے منھ موڑ لینے میں، عورت کے سایہ سے بھاگنے میں ہے او راسی میں روحانیت کا بچاؤ ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں طبقوں نے عیسائیت کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچایا، جو حاکم طبقہ تھا، اس نے آزادی کے ساتھ اپنے تمدن کا ڈھانچہ بنانا شروع کیا، لوگوں کو غلام بنانا شروع کیا، جو مسیحیت کی تعلیم کے خلاف تھا، اس نے مسیحیت کو بد نام کیا، سینٹ پال کے زمانے سے یہ سلسلہ شروع ہوا اور یہ تقریباً چوتھی صدی عیسوی سے آج تک جاری ہے، یورپ اسی راستے پر گام زن ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے کلیسا سے رشتہ توڑ لیا، کلیسا اور ریاست میں ہمیشہ کے لیے جدائی ہو گئی اور عیسائیت سمٹتے سمٹتے ایک نقطہ ہوگئی۔
اسلام اور علم کا چولی دامن کا ساتھ
یہ غلطی عالم اسلام میں الحمدلله نہیں ہونے پائی، اس لیے کہ شروع سے اسلام اور علم کا چولی دامن کا ساتھ تھا، میں نے ایک موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس کی پہلی وحی ”اقرا“ کے لفظ سے شروع ہوئی ہو اور جس کی پہلی وحی میں قلم کو فراموش نہ کیا گیا ہو، وہ علم اور قلم کا ساتھ کیسے چھوڑ سکتا ہے؟ اسلام میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دین وعلم میں کبھی بھی دوری ہو گی، اس لیے کہ اسلام اور علم کا شروع سے ساتھ رہا ہے، جب بدر کے قریشی قیدی مدینہ پہنچے تو ان میں کئی ایسے تھے کہ وہ فدیہ ادا کرکے رہائی نہیں حاصل کرسکتے تھے، ان کا فدیہ یہ مقرر کیا گیا کہ ہر شخص انصاریوں اور مہاجرین کے دس دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دے۔
اسلام زمانے کا رفیق ہی نہیں، بلکہ راہ نما ہے
اس وقت عالم اسلام میں اہل علم کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ تھی کہ یہ تاثر نوجوان طبقے میں نہ آنے پائے کہ اسلام محض طاقت اور حکومت کے بل پر قائم رہ سکتا ہے، وہ زمانے کی تبدیلیوں اور علم وفن کی ترقیوں کا ساتھ نہیں دے سکتا، وہ اس زمانہ میں چلنے والی چیز نہیں، وہ ابتدائی اور محدود زمانے کا ساتھ دے سکتا تھا، جب انسانیت عہد طفولیت میں تھی، لیکن اس پُر پیچ، ترقی یافتہ اور وسیع تمدن کے دور میں اسلام زندگی کا ساتھ نہیں دے سکتا، سب سے بڑی خدمت علماء کی یہ تھی کہ اسلامی ملکوں میں اس چیلنج کو قبول کرتے اور اپنی ذہانت سے، گہرے مطالعہ سے، اصول فقہ سے کام لینے کی صلاحیت سے، کتاب وسنت کے ان ازلی اور لافانی اصولوں کی مدد سے، جوہر زمانے میں نسل انسانی کی رہ نمائی کرسکتے ہیں، اس تمدن کو اسلام کے اصولوں کے مطابق رکھنے کی کوشش کرتے، اس میں اگر کسی ملک میں ذرا بھی کچھ کمی ہو گی، اس کا نتیجہ کم سے کم جو ہوسکتا ہے، وہ بے عملی اور شریعت کے خلاف زندگی ہے اور بڑے سے بڑا نقصان جو ہو سکتا ہے وہ الحاد اور دین سے بغاوت ہے، کسی اسلامی ملک میں آپ دیکھیں گے کہ دوسرا نتیجہ ظاہر ہوا اورکسی اسلامی ملک میں دیکھیں گے کہ پہلا نتیجہ ظاہر ہوا، حالاں کہ دونوں نتیجے اسلام کے حق میں سم قاتل ہیں، سب سے بڑا کام اس وقت یہ ہے کہ ہم یہ ثابت کریں کہ اسلام اپنی روح اور مقاصد کے ساتھ اور اپنے انہیں اصولوں کے ساتھ زندگی کا نہ صرف ساتھ دے سکتا ہے، نہیں، بلکہ وہ نئی زندگی کی راہ نمائی کرسکتا ہے، اس کو خطروں سے صرف وہی بچا سکتا ہے او ر وہ تمدن صحیح انسانی تمدن نہیں اور وہ ریاست معتدل اور محفوظ ریاست نہیں جو اسلام کے اصولوں سے ہٹ جائے، یہ ثابت کرنا ہمارا سب سے بڑا فریضہ ہے۔
اسلام کو ہر مفاد پر ترجیح دیجیے
علماء اور دانش وروں کا دوسرا فریضہ یہ ہے کہ اسلام کے مفاد کو ہر جماعت، ہر ادارے، ہر مکتب ِ فکر اور ہر گروہ کے مفاد پر ترجیح دیں، میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ اگر ہمیں معلوم ہو کہ سب جماعتوں کو مٹا دینا پڑے گا، سارے نشانوں کو نکال دینا پڑے گا سارے ناموں کو ختم کر دینا پڑے گا، سارے بورڈوں کومٹا دینا پڑے گا، اور اسلام اس ملک میں غالب رہے گا، تو ہمیں ایک منٹ بھی اس میں پس وپیش نہیں ہونا چاہیے، ہمیں دین وملت کا مفاد ہر جماعت سے عزیز ہونا چاہیے، سہرا کسی کے سربندھے سہرا ہونا چاہیے، حضور صلی الله علیہ و سلم کا معجزہ یہ تھا کہ صحابہ کرام کے دل سے یہ شوق نکل گیا تھا کہ ان کا کارنامہ سمجھا جائے۔
بخاری کی روایت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے ایک مجلس میں واقعے کے طور پر ذکر کیا کہ ہم لوگ ایک غزوہ میں گئے تھے، وہاں ہمارے پاؤں میں چھالے پڑ گئے تھے، ہم نے چھیتھڑے لپیٹ لیے، اسی وجہ سے وہ غزوہ ذات الرقاع کہلاتا ہے، یہ کہنے کے بعد ان کو ایک دم سے یہ احساس ہوا کہ میں نے یہ کیوں کہا، کہیں میرا یہ عمل باطل نہ ہو گیا ہو، کہیں الله تعالیٰ کی طرف سے یہ نہ کہہ دیا جائے کہ لوگوں نے سن لیا اور بڑا مجاہد سمجھا، یہ کافی ہے، اب ہم سے کیا لینے آئے ہو؟ تو بخاری شریف میں خاص طور سے ہے کہ انہوں نے کہا کہ کاش! میں یہنہ کہتا، ان کو اس کا افسوس رہا۔ (بخاری، حدیث:4128) آج اس پر زیادہ زو رہے کہ یہ کارنامہ کس کی طرف منسوب ہو گا، ایک صاحب تھے غازی محمود دھرم پال، مجھے ان کا ایک لطیفہ یاد آگیا ، ایک تقریر میں کہنے لگے: اخباروں میں چھپتا ہے کہ فلاں آدمی فلاں صاحب کے دست حق پرست پر اسلام لایا، تاکہ اس کے اسلام قبول کرنے کے ساتھ ان کے دست حق پرست کی بھی شہرت ہو جائے، بلکہ دست حق پرست کی شہرت زیادہ منظور ہے، قبول اسلام کی شہرت ہو یا نہ ہو، یہاں تک کہ بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ کسی بڑے آدمی کا جنازہ ہوتا ہے، لپک کر پہنچ جاتے ہیں جنازے کی نماز پڑھانے کے لیے، اس لیے کہ اخبار میں کل یہ خبر چھپ جائے گی، یہ جذبہ بڑا نقصان پہنچاتا ہے، دیکھیے! جب کسی کا عزیز جاں بلب ہوتا ہے، تو اس کے عزیزوں میں کسی کو یہ خیال نہیں ہوتا کہ تعریف کس کی ہو، سب کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ ہمارا مریض بچ جائے، حکیم کے سر سہرا بندھے یا ڈاکٹر کے، تو اس وقت عالم اسلام بیمار ہے، آپ کا ملک بیمار ہے، آپ اس وقت بھول جائیے کہ کس کے حساب میں لکھا جائے گا اور تاریخ میں لکھنے والے کیا لکھیں گے کہ اس ملک کو سب سے زیادہ نفع فلاں ادارہ، فلاں جماعت سے پہنچا اور اس میں سب سے بڑا حصہ ان کا تھا، تاتاریوں کے بارے میں آج تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ ان کو مسلمان کرنے میں سب سے بڑا حصہ کس کا تھا، اس لیے کہ ان مخلصین نے جنہوں نے یہ خدمت انجام دی تھی، اپنے کو اتناچھپایا کہ تاریخ کی باریک بیں نگاہ بھی ان کو نہیں دیکھ سکی۔
اس وقت جو لڑائی لڑی جارہی ہے، اس ملک کو اسلامی معاشرت وتمدن میں ڈھالنے کی اور یہاں سے ان خرابیوں کو دور کرنے کی جو مغربی تمدن نے اور ہمارے سیاست دانوں نے داخل کر دی ہیں، اس لڑائی میں فوج کے ادنیٰ سپاہی بن جائیں، خالص الله کی رضا کے لیے کام کیجیے، الله کے یہاں آپ کا نام اس کے نورانی دفتر میں لکھا جائے گا، یہاں ہوا تو کیا اور نہ ہوا تو کیا، اس وقت لڑائی کسی مکتب خیال کی نہیں ہے، اس وقت لڑائی اسلام اور غیر اسلام کی ہے، اس طرح سمجھیے کہ ایک مسجد تعمیر ہو رہی ہے، اس میں جو بھی شریک ہو جائے سب اجر میں شریک ہوں گے، اس میں یہ کس کا کتنا حصہ ہے او رکس کا نام پہلے ہے اور کس کا نام بعد میں ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے، اس جذبہ کو جہاں تک ہو سکے مغلوب کرنا چاہیے، اپنے اپنے مسلک پر پورے طور پر قائم رہنا چاہیے، جسے ہم حق سمجھتے ہوں اس کو حق سمجھنا چاہیے، اس سے ہٹنے کی ضرورت نہیں ہے، سودا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن سب اسلامی دعوت کا محاذ اور اسلامی زندگی پیدا کرنے کا محاذ بنائیں، اس ملک میں اسلامی زندگی پیدا ہو اور وہ آنکھوں سے دیکھی جاسکے اور یہ ملک دوسروں کے لیے نمونے بنے۔
ایثار وقربانی
تیسری بات یہ ہے کہ ہم جتنا بھی ہو سکے ایثار سے کام لیں اور باہمی نزاع سے پرہیز کریں، ہماری زندگی جتنی سادہ ہو گی، ہمار ی زندگی میں جتنی قربانی ہو گی، اتنا ہی اثر پڑے گا، اتنا ہی بہتر نتیجہ نکلے گا، سب سے خطرناک بات آپس کا نزاع ہے، ہماری آپس کے دینی مباحث کا میدان اور ہے، اس کے کہنے کا موقع اور ہے، حضرت مجدد الف ثانی نے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اکبر اس لیے دین سے متنفر ہوا کہ اس نے علماء کو مرغوں کی طرح ٹرتے دیکھا، اگر کوئی مسئلہ چھڑتا تو ان میں آپس میں اتنی تیز بحث ہوتی اور ہر ایک دوسرے پر اپنا تفوق اس طرح ظاہر کرنے کی کوشش کرتاجیسا کہ پکے دنیا والے اور جاہ طلب کرتے ہیں، اکبر نے سوچا کہ یہ کیسے لوگ ہیں، یہ ہمارے وزراء، ارکانِ سلطنت او رخالص دنیا دار لوگ بھی اس سطح پر نہیں آتے، جب حضرت مجدد صاحب کو یہ معلوم ہوا کہ جہانگیر کا ارادہ ہے کہ وہ چند علماء کو اپنے دربار میں مشورہ کرنے کے لیے رکھے، تو انہوں نے نواب سید فرید کو خط لکھا کہ خبردار! خبردار! بادشاہ کو رائے دو کہ مخلص اورحقانی عالم صرف ایک آدمی کو رکھے، یہ مجدد صاحب کی فراست ایمانی تھی، جو انہوں نے اس بات کو سمجھا، میں نہیں کہتاکہ ہر موقع اور مجلس میں صرف ایک ہی عالم رہے، لیکن میں کہتا ہوں کہ علماء کے آپس کے نزاعات اور بحث اور نفی کرنے سے او رایک دوسرے کی تذلیل کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے۔
خطرے کے اظہار کرنے کا بہرحال ہر شخص کو حق ہے، ایک بچہ بھی خطرے کا اظہار کرسکتا ہے کہ وہ دروازہ کھلا رہ گیا ہے، چور نہ آجائے، اس طرح میں یہ دو تین چیزیں آپ سے کہتا ہوں کہ ایک تو آپ جدید تعلیم یافتہ طبقے کو یہ تاثر نہ لینے دیں کہ کتاب وسنت اور اس کی تشریحات میں فقہ کا اور اصول فقہ کا جو ذخیرہ ہے، وہ موجود تمدن کا ساتھ نہیں دے سکتا، موجودہ مسائل حل نہیں کرسکتا، یہ خیال بڑا خطرناک ہے، یہ الحاد تک پہنچا سکتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ عمل سے عوام پر اور خواص پر جو حکومت میں ہیں ، یہ تاثر دیں کہ آپ کی سطح بلند ہے عوام کی سطح سے، آپ کی زندگی میں سادگی نظر آئے، وہ دیکھیں کہ آپ تھوڑی چیز پر قناعت کر رہے ہیں، یہ نہیں کہ آپ چاہیں کہ آپ کی بڑی بڑی تنخواہیں ہوں اور گریڈ ہوں اور جو تنخواہیں وزراء کو مل رہی ہیں، اور ان کو جو فوائد اور مواقع حاصل ہیں، وہ ہم کو بھی حاصل ہوں، ہماری کیڈلک کار ہو، ہمارے پاس بھی کوٹھی ہو اور وہ کسی وزیر کی کوٹھی سے کم نہ ہو، بلکہ صاف صاف میں یہ کہوں گا کہ کوئی بوریہ نشین ہو تو زیادہ کام کرسکتا ہے اس لیے کہ یہ طبقہ اسی کے سامنے جھکتا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی بہ تکلف بوریہ نشین بنے، میں اس کی تعلیم نہیں دیتا، لیکن یہ واقعہ ہے، یہ طبقہ اسی کے سامنے آکر جھکتا ہے او رمانتا ہے جس کو سب سے زیادہ بے نیاز دیکھتا ہے، حضرت مجدد (رحمة الله علیہ) کے سامنے وقت کے شہنشاہ کیوں جھکے؟ اس لیے کہ یہ الله کا بندہ نہ کبھی کسی کی سفارش کرتا ہے اورنہ کبھی دربار میں آتا ہے، بیٹھا الله الله کرتا ہے، بیٹھے بیٹھے مشورہ دیتا ہے، ہمارے تمام مشائخ نے یہی کیا، کبھی بادشاہوں کے قریب نہیں گئے، مگر دور سے نگرانی کرتے رہے، حکومت کو اچھے آدمی دیتے رہے، دعا کرتے، ان کے حق میں مشورہ دیتے رہے، لیکن و ہ کہتے تھے کہ آگ کو دور سے تاپو،تب تو ٹھیک ہے، اگر ہاتھڈال دو گے تو جل جاؤ گے۔
یہ چند باتیں ہیں جو میں نے مختلف موقعوں پر عرض کی ہیں، سب کا ماحصل یہی ہے کہ اس وقت بڑا امتحان ہے ہمارا، پھر عالم اسلام کا امتحان ہے، ہمیں اپنی صلاحیت کا ثبوت دینا چاہیے، کہیں ہماری صلاحیت کی کمی سے اسلام کو نقصان نہ پہنچ جائے، کوئی یہ نہ کہے اور لکھے کہ علماء کی عدم صلاحیت سے یہ ہوا، میں اتنی باتیں بہت معذرت کے ساتھ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں، الله تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔