علمائے کرام متاعِ ایمان کے محافظ

idara letterhead universal2c

علمائے کرام متاعِ ایمان کے محافظ

مولانا محمد اعجاز مصطفی

بسم الله الرحمن الرحیم
الحمدلله، وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ

الله تعالیٰ نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو آخری نبی بنا کرمبعوث فرمایا، جس کا اعلان قرآن کریم میں سو مرتبہ کیا گیا۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے احادیث نبویہ کی صورت میں دو سو سے زائد باریہ منادی کرائی گئی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں بھی خبر دار کیا گیا کہ ختم نبوت کا انکار کرنے والوں کا فتنہ اٹھے گا، قرآن کریم اسے فتنہٴ ارتداد سے تعبیر کرتا ہے او رجناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایسے فتنہ پروروں کو کذاب ودجال( سب سے بڑے جھوٹے اورسب سے بڑے دھوکے باز) بتلاتے ہیں۔

عقیدہ ختم نبوت کا انکا رکرنے والے یوں تو کئی دجال وکذاب گزرے، لیکن ان سب میں مسیلمہ کذاب کا فتنہ سب سے شدید تھا۔ اس کی ہول ناکی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اس فتنے سے نبرد آزما ہونے والے مجاہدین میں سے بارہ سو صحابہ کرام وتابعین نے جام ِ شہادت نوش کیا، جن میں سات سو حفاظ وقراء تھے۔ دور صحابہ کرام کے حفاظ وقراء کا مطلب علماء ہے، کیوں کہ اس وقت حفظ ِ قرآن وعلم قرأت کی مروّجہ صورت نہیں تھی، بلکہ صحابہ کرام  قرآن کریم حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے معانی وبیان اور مفہوم ومقصد تک دست رس رکھا کرتے تھے اور اس کے لیے اپنی پوری پوری زندگیاں تج دیا کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسیلمہ کذاب کے فتنے کی سرکوبی کے لیے جس طبقے نے سب سے زیادہ جانوں کے نذرانے پیش کیے، وہ ” علمائے کرام“ کا طبقہ ہے۔ حضرت عبدالله بن ابی بکر صدیق ، حضرت زید بن خطاب برادرِ فاروق اعظم، انصار کے سب سے بڑے خطیب حضرت ثابت بن قیس بن شماس، حضرت ابوحذیفہ اور حضرت سالم مولی ابی حذیفہ صف شہدا کے نمایاں رجال ہیں۔

علمائے کرام، انبیائے کرام علیہم السلام کے ورثا ہیں او رجماعت ِ انبیا کے آخری تاج دار آں حضرت صلی الله علیہ وسلم ہیں، چوں کہ آپ صلی الله علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی نہیں، چناں چہ علمائے کرام نے اس وراثت کا حق یوں ادا کیا ہے کہ منصب ِ نبوت کے قریب بھی کسی جھوٹے دجال کو پھٹکنے نہیں دیا اور اپنی جانوں کی باڑ لگا کر اس ایمانی خزینے کی حفاظت فرمائی ہے۔
          آنے پائے نہ کوئی تخت نبوت کے قریب
          دیکھیے! خواجہٴ کونین ﷺ کے دربان ہیں ہم

مسیلمہٴ کذاب کے خطرناک فتنے سے مسیلمہٴ پنجاب مرزاغلام احمد قادیانی کے ایمان کش فتنے تک کی تاریخ ایسے جانبازوں اور سرفروشوں سے بھری پڑی ہے۔ خصوصاً برصغیر پاک وہند میں جب قادیانیت نے سر اٹھایا تو اس کی سرکوبی کے لیے سب سے پہلے طبقہٴ علماء کے ہی سرکردہ افراد آگے بڑھے، جن میں علمائے لدھیانہ ، علمائے دیوبند اور بزرگان گولڑہ شریف پیش پیش تھے۔ انہی علمائے کرام نے اپنے تقریری مناظروں وتحریری مباحثوں سے اس زور آور فتنے کی ناک میں نکیل ڈال دی اور بہت سے مسلمانوں کی متاع ایمان بچالی۔

علمائے کرام کی ان خدمات کا جہاں ایک عالم کو اعتراف ہے، وہیں خود مرزا قادیانی بھی اپنی شکست وریخت کا سبب انہیں محسنین امت کو قرار دیتا ہے۔ چناں چہ اپنی کتاب تذکرةالشہادتین میں لکھتا ہے:

” اگر یہ علماء موجود نہ ہوتے تو اب تک تمام باشندے اس ملک کو جو مسلمان کہلاتے ہیں مجھے قبول کر لیتے۔ پس تمام منکروں کا گناہ ان لوگوں کی گردن پر ہے۔“ (روحانی خزائن:20/66)

مرزا جی، علمائے امت کو مسلمانوں کے قادیانیت قبول نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان کا گناہ ان کے سرلادرہے ہیں۔ جب کہ ہم فخریہ کہتے ہیں کہ الحمدلله! مسلمانوں کے قادیانیت سے بچ جانے کا سہرا علمائے کرام کے سر سجا ہے اور اگر یہ گناہ ہے توہم چاہتے ہیں کہ ہم سے یہ گناہ بار بار سرزد ہوتا رہے، بھلے اس کی سزا میں جان سے گزر جانا ہی کیوں نہ پڑے!
بڑھتا ہے اور ذوق گنہ یاں سزا کے بعد

سب سے پہلے شہید ختم نبوت سیدنا حضرت حبیب بن زید انصاری رضی الله تعالیٰ عنہ سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر مرکزیہ شہید اسلام حضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی اور ان کے رفقاء ذی قدر حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزی شہید، حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید، حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید، حضرت مولانا نذیر احمد تونسوی شہید، نیز 1974ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر حضرت مولانا سید شمس الدین شہید تک ایک بڑی تعداد شہدائے ختم نبوت علمائے کرام کی ہے، جن کی زندگیاں اس فتنے کی سرکوبی کرتے ہوئے کھپ گئیں اور بالآخر اس کی پاداش میں وہ اپنی جانوں سے بھی گزر گئے #
          جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
          رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا

قادیانیت کی یہ بھول ہے کہ ان علمائے کرام کے قتل عام سے وہ اپنے فتنے کے پھیلاؤ میں کام یاب ہو سکے گی، ان شاء الله تعالیٰ! ہر مسلمان اپنے خون کے آخری قطرے تک حضرت خبیب بن عدی رضی الله تعالیٰ عنہ کے عزم وحوصلے کا علم بردار ہے، جنہوں نے فرمایا تھا #
          ولست أبالی حین أقتل مسلماً
          علی ای شق کان لله مصرعی
          وذلک فی ذات الالہ وان یشاء
          یبارک علی أوصال شلو ممزع
(بخاری شریف، کتاب التوحید، رقم الحدیث:7402)

ترجمہ:” اور جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں، تو مجھے اس کی پروا نہیں کہ مجھے کس پہلو پر قتل کیا جائے گا اور میرا یہ مرنا الله کے لیے ہے او راگر وہ چاہے گا تو میرے ٹکڑے ٹکڑے کیے ہوئے اعضا پر برکت نازل کرے گا۔“

الله تعالیٰ ہمیں ان علمائے کرام کی قدردانی نصیب فرمائے اور ان کے نقش قدم پر چل کر قادیانیت کی سرکوبی کی توفیق عطا فرمائے او رہمارے اکابر شہدائے ختم نبوت کے درجات بلند فرمائے، آمین یا إلہ العالمین!
وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا ومولانا وعلی الہ وصحبہ اجمعین․

مقالات و مضامین سے متعلق